ارم شمسی
وہ چار منزلہ مکان محلے کا سب سے خوبصورت اور عالیشان مکان تھا۔ حاجی صاحب نے اسے بہت محنت و مشقت سے بنوایا تھا۔ مکان کے سامنے ایک ندی تھی۔ شام کے وقت محلے کے لوگ اس ندی کے کنارے ٹہلنے کے لیے جایا کرتے تھے۔ حاجی صاحب اپنے گھر کے مالک و مختار تھے۔ لمبا قد، اونچی پیشانی، بھر کلّے داڑھی اورگورا رنگ ۔ لباس وہ کافی سادہ پہنتے تھے۔وہ جسمانی طور پر خوبصورت ہونے کے علاوہ روحانی طور پر بھی کافی خوبصورت تھے۔ ان کی خوش اخلاقی اور خوش اسلوبی کا چرچہ تقریباً پورے شہر میں تھا۔ حاجی صاحب کی اہلیہ کا نام حسن آرا تھا۔ وہ بھی اسم با مسمیٰ تھی اور اس عمر میں بھی بلا کی خوبصورت تھی۔ جب سے دونوں کی شادی ہوئی تھی زندگی بڑے عیش و آرام سے گزر رہی تھی۔ حاجی صاحب کے چار بیٹے تھے حمید،رشید،خورشید اور جمشید۔ بیٹی کوئی نہیں تھی۔ حاجی صاحب کو ہر وقت بیٹی کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ ایک بہن تھی رقیہ جسے وہ اپنی بیٹی کی طرح محب چاہتے تھے۔ رقیہ کی شادی ایک اچھے گھرانے میں ہو گئی تھی۔ حاجی صاحب نے اپنے بیٹوں کو گھر اور کاروبار میں برابر سے حصہ تقسیم کر دیے تھے۔ سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے تھے۔ ان کا کاروبار کافی بڑا تھا۔حاجی صاحب اور حسن آرا س سال بھی مکہ مکرمہ میں رمضان اور حج کر کے واپس آئے تھے۔یہ ان کا تیسرا حج تھا۔ حسن آرا کی بڑی خواہش تھی کہ وہ رمضان اور عید ایک بار مکہ میں کرے اور یہ خواہش بھی پوری ہو گئی تھی۔حاجی صاحب یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ وہ اب ہر ذمہ داری سے فارغ ہو گئے ہیں۔
آج تقریریباً پورے شہر کی بجلی نہیں تھی۔ حاجی صاحب اور حسن آرا چھت پر بیٹھے ٹھنڈی ہوا کا لطف لے رہے تھے۔ندی سے ٹکرا کر آتی ہوئی ٹھنڈی ہوا ان کے جسموں کو پیار سے سہلا رہی تھی۔ بجلی نہیں رہنے کی وجہ سے چار سو تاریکی چھای ہوئی تھی۔ لیکن چاند کی چاندنی نے پورے شہر کو روشن کر رکھا تھا۔چاند اپنے پورے شباب پر تھا۔ندی میں چاند کا عکس بہت خوبصورت معلوم ہو رہا تھا۔بجلی جانے کے بعد ہاتھ پنکھا بڑا کام آتا ہے۔ سبھی لوگ اپنی اپنی چھتوں پر ٹہل رہے تھے۔
حاجی صاحب کافی پر سکون سے بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے لگے۔
” اب کیا ہے؟اللہ چاہے گا تو بڑھاپا بھی اچھا گزرے گا۔ ہمارے بچے ہملوگوں سے بہت اُلفت رکھتے ہیں۔آخر میں نے جو بویا ہے اس کو پانے کی امید بھی کرتا ہوں۔“ حاجی صاحب بولے جا رہے تھے مگر حسن ارا کا دھیان تو پورے چاند پر تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کل سے چاند دھیرے دھیرے گھٹنے لگے گا۔اور آسمان میں تاریکی چھانے لگے گی۔اس کے چہرے پر مایوسی کی جھلک آنے لگی۔ اتنے میں حاجی صاحب حسن آرا کو ٹہوکا دیتے ہوے بولے۔
” ارے بیگم! کہاں کھو ئی ہوئی ہو؟“
”اچھا….آپ کچھ بول رہے تھے؟ٹھہرئے ، میں آپ کے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں ۔ویسے بھی یہ بجلی آج نہیںآئے گی۔ “
”ارے بھئی! میں تو کچھ اور کہہ رہا تھا۔ خیر چھوڑو ۔“
”نہیں نہیں،آپ بولیے۔“
”نہیں ،کوئی خاص بات نہیں تھی۔ تم کچھ کہو۔“
حسن آرا کہنے لگی۔
” اچھا سنیے۔ چھوٹی بہو کا رویہ آج کل کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے تو آگے کا سوچ کر بہت ڈر لگتا ہے۔اورآپ نے تو اپنا ہاتھ پاوئں خالی کر لیا ہے۔کم ازکم یہ مکان اپنے نام رہنے دیتے۔ مگر آپ میری سنتے ہی کہاں ہیں۔
حاجی صاحب مسکرا کر بولے۔
” ارے بیگم! تم کیوں پریشان ہوتی ہو؟ کر دی نہ بالکل ساس والی بات۔ تم عورتیں بھی ناں!ضرورت سے زیادہ سوچتی ہیں۔“اسی اثنا میں بجلی آ گئی۔
” لو، ا ٓگئی بجلی۔ چلو اب نیچے چلتے ہیں۔“
میز پر کھانا نکل چکا تھا۔ کافی رات ہونے کی وجہ سے بچے سو گئے تھے۔کھانا کھانے کے بعد سب اپنے کمرہ میں داخل ہو گئے۔
رات کافی ڈھل چکی تھی۔حسن آرا گہری نیند میں سوئی ہوئی تھی کہ اچانک ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھل گئی۔اس کی سانس تیز ہو گئی۔حاجی صاحب بھی اُٹھ گئے اور حسن آرا کی حالت دیکھ کر گھبرا گئے۔
”ارے تمہیں کیا ہو گیا ہے؟“ انہوں نے بیڈ سے قریب میز پر رکھے پانی کا گلاس اُٹھایا اورگلاس حسن آرا کی طرف بڑھایا۔حسن آرا نے ایک گھونٹ پانی پیا ۔اس کی سانسیں کچھ بحال ہوئیں تو کہنے لگی۔
”میں نے بہت برا خواب دیکھا ہے۔ “وہ حاجی صاحب کو اپنا خواب سنانا چاہا لیکن انہیں کافی نیند آ رہی تھی ۔بولے
”اچھا، ابھی سو جاؤ۔ کل بتا دینا۔“ حسن آرا کافی پریشان تھی ۔اس کے من کی اُلجھن بڑھنے لگی۔اس خواب نے اس کے جسم کے تار ہلا دیے تھے۔ پھر اس نے خود کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ یہ محض ایک خواب تھا۔اور وہ تکیے کو آغوش میں لے کر پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگی۔
گرمی کا موسم تھا۔صبح کا وقت تھا لیکن سورج ابھی سے سر پر سوار تھا۔سارے میں چلچلاتی دھوپ پھیلی تھی۔اجی صاحب اپنے دوست خالد صاحب کے ساتھ فجر کی نماز کے بعد روز ٹہلنے کے لے جایا کرتے تھے۔ان کی بیوی حسن آرا فجر کے بعد سے ہی کام میں لگ جایا کرتی تھی۔ عمر آنے کے باوجودوہ گھر کے تقریباً سارے کام کر لیا کرتی تھی۔ سارے لوگ بیدا رہو چکے تھے ۔حسب معمول گھر کا ماحول کاماحول کافی خوش گوار اور چہل پہل والا تھا۔ بچوں کو اسکول اور بڑوں کو دکان جانے کی جلدی ہوتی تھی۔چاروں بہوئیں باورچی خانہ میں ناشتا تیار کر رہی تھیں۔حاجی صاحب سیر سے واپس آتے ہوئے منڈی سے آم لے کر آ ئے تھے۔آ م کو بڑے برتن میں پانی میں ڈال دیا گیا تھا۔ان کا پوتاعلی دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا۔
” دادا جان!دادا جان!! ہملوگوں کی طرح آم بھی غسل کر رہا ہے کیا؟اسے بھی گرمی لگتی ہے؟ حاجی صاحب ہ ہنسنے لگے۔
” ارے شہزادے !یہ پال لگا ہوا آم ہے۔ اس میں گرمی بہت ہوتی ہے۔ اس لیے کھانے سے پہلے اسے ٹھنڈاکر لینا چاہے۔ “
”دادا جان! یہ پال کیا ہوتا ہے؟“
”اچھا، اب آپ غسل خانے جائیں گے یا بچوں کے ساتھ بچے بنے رہیں گے؟” حسن آرا کی بلند آوازسن کر حاجی صاحب کھڑے ہو گئے۔
”اب دکان جانے کی کیا ضرورت ہے ؟بچے ہیں نا ، دکان سنبھالنے کے لیے۔‘
”ہاں ہاں اب تو آپ بہت بوڑھے ہو گئے ہیں، کمر جھک گئی ہے ،چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رہی۔صبح سے پورے علاقے کا راستہ ناپ کر آئے ہیں۔اس کے لیے کہاں سے قوت آجاتی ہے؟“ حسن آرا کی کٹھی میٹھی باتوں نے حاجی صاحب کو ترو تازہ کر دیا۔سبھی لوگ ناشتا کر کے دکان چلے گئے۔ آخر میں حاجی صاحب کی سواری نکلی۔حاجی صاحب کے باہر نکلتے ہی حسن آکو اپنا خواب یاد آگیا۔
”اچھا ،سنیے میرا خواب تو سنتے جایئے۔“
”او ہو !میں تو بھول گیاتھا۔اچھا ابھی دیر ہو رہی ہے۔ واپس آتے ہی تمہارا خواب سن لوں گا۔ اللہ حافظ….
کچھ عرصہ بعد جب حاجی صاحب کافی بوڑھے ہو گئے تھے۔ کمر جھک گی تھی۔داڑھی میں ایک بھی کالا بال نظر نہیںآتا تھا۔پیشانی پر شکنیں پڑنے لگی تھیں۔اب ان کے اندر اتنی طاقت و قوت نہ تھی کہ دکان جا سکیں۔ حسن ارا کی طبعیت بھی اب ٹھیک نہیں رہتی تھی۔چاروں بیٹے اپنے اپنے کاروبار کو سنبھالنے میں مشغول تھے۔مشغولیت کی وجہ سے والدین پر کچھ خاص دھان نہ دیتے تھے۔ حاجی صاحب کے دوست خالدصاحب روز صبح شام حاجی صاحب کا حال چال پوچھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ حاجی صاحب کی طبعیت مزید خراب ہوتی جا رہی تھی۔ وہ اب بستر کے مریض ہوکر رہ گئے تھے۔ذیابیطس کی وجہ سے پیروں میں زخم ہو گیا تھاجس پر جا بجا مکھییاں لگتی رہتیں۔ ان کے ہاتھوں میںاب اتنی قوت نہ بچی تھی کہ ان مکھییوں کو ہٹا سکیں۔ حسن آراپورے گھر کو سنبھالتی تھی۔ اب وہ اپنا دھیان بھی نہ رکھ پاتی تھی۔۔ حاجی صاحب کا کمرہ گرد غبار سے بھرارہتا۔ تکیے پر بالوں کے تیل کی وجہ سے چکّٹ سی پڑ گی تھی۔ میز پر رکھا گلاس جانے کب سے دھلا نہ تھا۔حاجی صاحب کے بیٹے جب گھر آتے تو ان کے کمرے میں داخل ہونا بھی گوارہ نہ سمجھتے۔ ایک دن حاجی صاحب کی طبیت مزید خراب ہو گی تھی۔ان کی سانس اوپر نیچے ہو رہی تھی۔حسن آرا ان کے سرہانے بیٹھی ان کا سر سہلا رہی تھی۔ شام میں خالدصاحب آئے۔ حاجی صاحب کی حالت دیکھ کر انہوں زورسے آواز لگائی۔
” خورشید !جمشید!! کوئی ہے؟ جلدی آو ¿۔“ چاروں بیٹے اپنے کمروں میں آرام فرما رہے تھے۔خالد صاحب کی بلند آواز نے سبھوںکے کان کے پردے پھاڑ دیے۔
”یہ خالد انکل بھی نہ جانے کیوں حلق پھاڑ رہے ہیں؟اچھا اب چلو، دیکھیں ذرا۔آخر ہوا کیا ہے۔ “
باری باری سے چاروں کمرہ میں داخل ہوئے۔بہوئیں درواذے کی چوکھٹ پر ناک پر کپڑا رکھے کھڑی تھیں۔بچے اندر آنے کی کوشش کر رہے تھے۔مگر ان کی مائیں منع کر رہی تھیں۔
”بیٹا! ان کو ہسپتال لے جانا بہت ضروری ہے۔ا ن کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔“
خالد صاحب کی بات سن کر چاروں بیٹے بد بدانے لگے۔
”ان کا خرچ کون اٹھائے گا؟اچھا ایسا کیا جائے کہ جتنا بھی خرچ آئے گاآپس میں مل کر بانٹ لیں گے۔ ویسے بھی سرکاری ہسپتال میں کم خرچ آتا ہے۔“ان لوگوں کی باتیں سن سن کر خالد صاحب کو غصہ آنے لگا۔ کہنے لگے۔
”پہلے انہیں لے تو چلو۔ حساب کتاب بعد میں کر لینا۔“اتنے میں چھوٹا بیٹا گاڑی نکال لایا۔یہ دیکھ کر اس کی بیوی بھڑک گئی۔ کہنے لگی۔
” ابھی نئی گاڑی خریدی ہے ۔سیٹ گندی ہو جائے گی۔“
حسن آرا گم سم سارا ڈراما دیکھ رہی تھی۔ اس کے اختیار میں کچھ نہیں تھا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے جسم سے کوئی حصہ الگ ہو رہا ہے۔
سرکاری ہسپتال کے حال کا اندازہ تو بہتر طریقہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ایک ہی کمرہ میں ہر قسم کے مریض لیٹے ہوئے تھے۔ان لوگوں کو وہاں آئے ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی مگر اب تک کوی ڈاکٹر نہیںآیا تھا۔رقیہ کو حاجی صاحب کا پتہ چلا وہ گھر سے نکل چکی تھی۔ وہ فوراً ہسپتال آئی۔بھائی کو اس حال میں دیکھ کراس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔حاجی صاحب کے جسم میں کوئی حرکت نہیں ہو رہی تھی۔کچھ بولنے کی کوشش کرتے مگر گویائی ساتھ نہیں دیتی۔اتنے میںایک ڈاکٹرآیا اور حاجی صاحب کا چیک اپ کیا۔حاجی صاحب آخری سانسیں گن رہے تھے۔ اورزندگی اور موت کی کشمکش میں حسن آرا کے چہرے کی طرف ایک ٹک دیکھے جا رہے تھے۔پھر انہوں نے ایک ہچکی لی اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔ حسن آرا مٹی کی مورت بن گئی۔اس کی آنکھوں میں آنسو بھی نہ تھے۔آنکھوں کا دریا سوکھ چکا تھا۔خالد صاحب نے اپنے ہاتھوں سے حاجی صاحب کی آنکھیں بند کیںاور رونے لگے۔
حسن آرا پاس کی کرسی پر بیٹھی تھی۔ اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے تھے جیسے کسی نے ان پر برف کی سلی رکھ دی ہو۔
ایک دم سے حسن آرا کی زبان سے یہ ٓاواز نکلی۔
” ہائے! میرا خواب پورا ہو گیا۔“ اور پھر وہ زارو قطار رونے لگی۔
ضضضض
Also read