کیا مودی مسلمانوں سے ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں؟

0
180

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


سہیل انجم
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی شرکت سے قبل اور اس کے بعد اٹھے طوفان کی گرد اب رفتہ رفتہ بیٹھ رہی ہے۔ مودی کے ہاتھوں تقریبات کے افتتاح کی خبر آنے کے بعد سے ہی علیگ برادری نے ردعمل کا اظہار شروع کر دیا تھا۔ غیر علیگ مسلم دانشوروں کی جانب سے بھی اظہار رائے کیا جانے لگا۔ اس معاملے پر مسلمان دو خیموں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک نے اسے اے ایم یو کے وقار، اس کے درخشاں کردار، اس کی روایات اور اس کی انفرادی شناخت پر شدید حملہ قرار دیا اور کہا کہ گجرات فسادات اور آر ایس ایس و بی جے پی کے مسلم دشمن نظریات کے پیش نظر مودی کے ہاتھوں صدی تقریبات کا افتتاح نہ صرف علیگ برادری بلکہ تمام مسلمانوں پر بھی ظلم ہے۔ جبکہ دوسرے خیمے کی دلیل یہ تھی کہ چونکہ مودی ملک کے وزیر اعظم ہیں اس لیے ان کو مدعو کرنا کوئی معیوب بات نہیں۔ ہمیں حکومت وقت کے ساتھ ٹکراو ¿ مول لینے کے بجائے اس سے مصلحت آمیز دوستی کرنی چاہیے تاکہ اپنی اس شاندار دانش گاہ کی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ہمیں اپنے اداروں کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے اور انھیں حکومت کا حریف نہیں بنانا چاہیے۔ مودی کو مدعو کرنے کی مخالفت کرنے والوں نے وائس چانسلر طارق منصور کو حکومت کا پٹھو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ وی سی کے سیاسی روابط کے پیش نظر انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے۔ ان کے مطابق وی سی نے اے ایم یو کے وقار سے سمجھوتہ کر لیا اور ایک ایسی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے جو مسلمانوں کو ان کے آئینی، بنیادی اور شہری حقوق دینے کے خلاف ہے۔ اس فیصلے کے حامیوں کے مطابق اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خاں بھی حکومت وقت سے دوستانہ مراسم کے حق میں تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ مسلم نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ترقی کی بلندیوں پر فائز ہوں اور ایک مہذب قوم کہلانے کے حقدار بنیں۔ گویا مودی کو صد سالہ تقریبات کے افتتاح کے لیے مدعو کیا جانا چاہیے تھا یا نہیں اس پر کافی تند و تیز بحثیں ہوئیں اور سوشل، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں یہ معاملہ چھایا رہا۔ حامیوں اور مخالفوں نے خوب دلائل دیے اور وہ ماضی کے واقعات کی مثالیں پیش کر کرکے اپنی بات کو باوزن بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن انھی حامیوں اور مخالفوں کے درمیان ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جس کا کہنا ہے کہ مودی کو مدعو تو نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن اب جبکہ مدعو کر لیا گیا تو مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ مودی کی مخالفت دراصل وزیر اعظم کی مخالفت ہے۔
یہ سلسلہ وزیر اعظم مودی کی تقریر کے بعد بھی جاری رہا بلکہ کسی حد تک اب بھی جاری ہے۔ بہر حال اس پر سب کی نگاہیں لگی رہیں کہ مودی کیا بولتے ہیں۔ وہ یونیورسٹی کے لیے کسی گرانٹ کا بھی اعلان کرتے ہیں یا صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیتے ہیں۔ راقم الحروف نے اس بارے میں ان کی تقریر سے قبل اور بعد میں بھی علیگ برادری کی متعدد بڑی شخصیات سے تبادلہ خیال کیا اور ان کی رائے جاننے کی کوشش کی اور ہونے والی بحث کا گہرائی سے جائزہ بھی لیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ فیصلے کی حمایت کرنے والے مخالفین سے کہیں زیادہ ہیں۔ ان کی گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ مودی نے کسی گرانٹ کا اعلان تو نہیں کیا لیکن انھوں نے اے ایم یو اور علیگ برادری کی شان میں قصیدہ گوئی ضرور کی۔ مودی کا یہ کہنا کہ اے ایم یو اپنے آپ میں ’مِنی انڈیا‘ ہے اس کی تکثیریت، اس کی گنگا جمنی تہذیب، اس کے تہذیبی تنوع اور اس کی رنگا رنگی کا اعتراف ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ وہ دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں وہاں بہت سے علیگ ملتے ہیں اور فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ انھوں نے اے ایم یو میں تعلیم حاصل کی ہے، اے ایم یو کی شاندار تعلیمی روایت اور اس روایت پر فخر کو ایک خراج تحسین ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ یہاں اردو، عربی، فارسی اور اسلامی ادب میں جو تحقیق ہوتی ہے وہ عالم اسلام سے ہندوستان کے رشتوں کو مزید مضبوط کرتی ہے، عالم اسلام اور ہندوستان کے درمیان دوستانہ رشتوں کے قیام میں اے ایم یو کی خدمات کی ستائش ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ یہاں سے بڑے بڑے مجاہدین آزادی پیدا ہوئے ہیں، جنگ آزادی میں مسلمانوں کے کردار کا اعتراف ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ یہاں کی تعلیمی تاریخ ہندوستان کا قیمتی ورثہ ہے، اس کی تعلیمی کامیابیوں کو خراج عقیدت ہے۔ بہرحال انھوں نے اپنی تقریر میں اے ایم یو کے بارے میں جو کچھ کہا اس کا تجزیہ ہوتا رہے گا لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ ان کی یہ تقریر اے ایم یو کے خلاف کیے جانے والے منفی پروپیگنڈے کی نفی کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ادارہ ملک کے ایک طبقے کی آنکھوں میں شہتیر کی مانند چبھتا ہے اور وہ اسے بدنام کرنے کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے بہت سے لوگ اسے دہشت گردی کا اڈہ قرار دیتے اور طلبائے اے ایم یو کو دہشت گرد بتاتے ہیں۔ لیکن مودی کی اس تقریر کے بعد کیا وہ لوگ ایسا الزام عاید کر سکیں گے۔ ایسا کرنے سے قبل انھیں بار بار سوچنا پڑے گا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ابھی ایک سال قبل ہی سی اے اے مخالف احتجاج کے دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ساتھ ساتھ اے ایم یو میں بھی پولیس ایکشن ہوا تھا اور پولیس نے طلبا پر ظلم و جبر کی انتہا کر دی تھی۔ وہ زخم اب بھی ہرا ہے اور اسے مسلمان کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ کچھ لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ مودی نے اس واقعہ کا ذکر اپنی تقریر میں کیوں نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس کا ذکر کر سکتے تھے۔ اگر وہ اے ایم یو میں پولیس ایکشن کی مذمت کرتے تو سی اے اے کے نام پر کی جانے والی سیاست کی بنیاد ہی ہل جاتی۔ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ کوئی بھی وزیر اعظم ایسے کسی واقعے کا ذکر یا اس کی مذمت کر ہی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ کرے گا تو گویا اپنی ہی حکومت کی ناکامیاں گنائے گا۔ نریندر مودی جیسے وزیر اعظم سے جو کہ انتہائی چالاک، کائیاں اور اپنی پارٹی کے نظریات پر سختی کے ساتھ جمے رہنے والے سیاست داں ہیں، ایسی توقع کرنا احمقانہ بات ہوگی۔ یہ بھی سچائی ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں ان کے جو خیالات ہیں ان کے پیش نظر ان سے کسی خیر کی توقع کرنا ایسے ہی ہے جیسے کہ آگ سے پانی نکلنے کی توقع کرنا۔ لیکن ایک ایسا سیاست داں جو ٹوپی پہننے کا بھی روادار نہ ہو، اے ایم یو جیسے ادارے کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کرتا ہے تو اس کا بہر حال خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ اس معاملے پر مودی یا حکومت کی مخالفت کرنا ویسی ہی نادانی ہوگی جیسی کہ مسلم قیادت نے بابری مسجد کے بارے میں کی تھی۔ ہمیشہ جوش و جذبات کام نہیں آتے کبھی مصلحت آمیز پالیسی بھی اختیار کرنی پڑتی ہے۔ لیکن مسلمانوں کی نفسیات میں احتجاج، مزاحمت، حکومت وقت کی مخالفت اور دوسرے ادیان کے پیرو کاروں سے دشمنی لازمی عناصر کی حیثیت سے شامل ہیں۔ جبکہ دوسری اقوام حکومت وقت سے دوستانہ مراسم قائم کرکے اپنے مسائل حل کرتی ہیں، اپنے مفادات حاصل کرتی ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ کرتی ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اے ایم یو کی سو سالہ تاریخ ہے اور اے ایم یو پوری دنیا کے تعلیمی اداروں میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔ محض ایک ایسے وزیر اعظم کی تقریر سے جو کہ مسلم دشمن نظریات رکھتا ہو، اس کی روشن اور درخشاں تاریخ کے سورج کو گہن نہیں لگ سکتا۔ ہاں اس تقریر کے بعد مسلم دانشوروں کے حلقے میں یہ بات اٹھ رہی ہے کہ شاید وزیر اعظم مسلمانوں سے ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خیال اس لیے پیدا ہو رہا ہے کہ باخبر لوگوں کے مطابق حکومت خود چاہتی تھی کہ صد سالہ تقریبات کا افتتاح وزیر اعظم کے ہاتھوں ہو۔ اگر ایسا ہے تو اس بارے میں وی سی کو متہم کرنا ٹھیک نہیں۔ کیا وہ حکومت کی خواہش کے برخلاف جا سکتے تھے۔ بہرحال مودی کے اب تک کے رویے کے پیش نظر اس کی امید کم ہے کہ وہ مسلمانوں سے ڈائیلاگ کرنا چاہیں گے۔ لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here