تم کیا جانو کہ لیلۃ القدر کیا ہے- Do you know what Laylat al-Qadr is?

0
280

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Do you know what Laylat al-Qadr is?
خورشید ؔرضا دفتح پوری
شہر اللہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ایک رات کو ’’شب قدر‘‘ کے نام سے جاناجاتاہے۔ جسکی عظمت و بزرگی کاادراک کرنا ذہن انسانی کے بس کی بات نہیں ہے۔ جیسا کہ خود قرآن کریم کے’’ سورۂ قدر‘‘میں اللہ اکا ارشاد گرامی قدر ہے کیہ ہم نے ’’قرآن‘‘ کو ’’شب قدر‘‘ میں نازل کیا اور تم کیا سمجھوگے کہ شب قدر کیا ہے؟ یقینا اللہ جو خلاق کائنات ہے جس نے ذہن انسانی کو عقل و شعور اور قوتِ ادراک عطافرمائی وہ خود یہ بتارہاہے کہ لیلۃ القدر (شب قدر) کیا ہے؟ اس کا سمجھ پانا انسان کے بس کی بات نہیں ۔پھر خود ہی اتنا ضرور بتادیتاہے کہ’’ لیلتہ القدر خیر من الف شہر‘‘ یعنی لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔تنزل الملائکتہ وروح ،فیہا باذن ربہم ،یعنی اس شب میں ملائک اور روحی الٰہی (امر الٰہی) کانزول اللہ کی مرضی سے ہوتاہے۔
غرضکہ قرآن کریم سے اور اس کی صداقت سے کسی مسلمان کو مجال انکار نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ شب قدر کب اور کس مہینے میں ہوتی ہے؟ علمائے کرام کے مطابق شب قدر ماہ رمضان کی ۱۹؍ ویں،۲۱؍ویں اور ۲۳؍ویں شب میں سے کوئی ایک شب ہے۔ ۲۷؍ویں شب میں بھی شب قدر کا احتمال ہے۔لیکن زیادہ تر علماء کااتفاق تیئیسویں شب پرہے۔ اگرچہ ماہ شعبان المعظم کی ۱۵؍ویں شب پربھی شب قدر ہونے کا احتمال ہے۔
غرضکہ مسلمانوں کے سبھی فرقوں کااس پرایمان ہے کہ ماہ رمضان المبارک کے آخری دنوں کی طاق راتوں میں سے ایک رات ’’شب قدر‘‘ ہے اور اس شب میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کے سبھی نہ صرف قائل ہیں بلکہ عمل پیرا بھی ہیں۔کچھ کایہ بھی خیال ہے کہ شب قدر گردش کرتی رہتی ہے۔ اور رمضان المبارک کے علاوہ بھی ممکن ہے۔جسکا علم صرف اللہ کو ہے۔مگر عقل اسے ما ننے کو تیار نہیں ہے کہ ’’شب قدر‘‘ سورج چاند یا زمین کی طرح کوئی شے نہیں بلکہ چند گھنٹوں کی ایک مدت ہے۔ اور ایک معینہ مدّت کا گردش کرنا سمجھ سے باہرہے۔ بہرحال ان تمام باتوں کے باوجود شب قدر کی عظمت و بزرگی سے کسی کو انکار نہیں ہے۔
قرآن کریم میں ایک ’’دن ‘‘ کا ذکرکیاگیاہے اور ایک رات کا جس دن کاذکر کیاگیاہے وہ ’’یوم عید غدیر ہے جسکے لئے قرآن کی آیت ہے ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دین‘‘یعنی آج کے دن دین اسلام مکمل ہوگیا اور میں نے اپنی نعمتوں کو تمام کردیا اور میں دین اسلام سے راضی ہوگیا۔یہ آیت اسی وقت نازل ہوئی جب رسول اسلام اپنی زندگی کے آخری حج کوبجالائے اور واپس آرہے تھے کہ میدان خم میں پہونچنے پریہ آیت نازل ہوئی کہ ’’یارسول بلغ ما انزل علیک من ربک‘‘ یعنی اے رسول اسکا اعلان کردیجئے جوآپ پر نازل کیاجاچکاہے۔ اسکے بعد رسول اسلام نے اہتمام کے ساتھ مولاعلی ؑ کی ولادیت کااعلان ان لفظوںمیں کیا تھا۔’’من کنت مولاہ فہٰذا علی مولا‘‘ جسکا جسکا میں مولاہوں اسکے اسکے علی ؑ مولا ہیں‘‘ اس کے بعدوہ آیت نازل ہوئی جسکا ذکر اوپر کیاجاچکاہے۔
یعنی دین کے کامل ہونے والے اس واقعہ سے کسی کو انکار نہیں۔اس سے ثابت ہے قرآن یوم غدیر مکمل ہوا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب قرآن یوم غدیر مکمل ہوا تو خداکا سورۂ قدر میں یہ ارشاد کہ میں نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا تو اس سے کیا سمجھا جائے؟ چنانچہ علمائے کرام کااتفاق ہے کہ قرآن کو لوح محفوظ سے قلب رسول اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پرشب قدر میں نازل کیا گیا۔ بالکل اس طرح جیسے نورِ محمد ﷺولادت سے ہزاروں سال قبل موجود تھا مگر ظاہر بعد میں ہوا۔اسی طرح قرآن کوقلب محمد ﷺ پرپہلے شب قدر میں نازل فرمایاگیا اسکے بعد ظاہری طور پر آیتیں نازل ہوتی رہیں ۔کچھ آتیں مکہ میں نازل ہوئی تو کچھ مدینے میں ۔اسی لئے کچھ سورے مکی ہیں اور کچھ مدنی۔ یہ بھی ہمارے نبیؐ ،اشرف الانبیاء خاتم بالنبین کاشرف ہے کہ قرآن سے قبل جو تین اور آسمانی کتابیں یعنی ’’توریت،زبور‘‘ انجیل‘‘ نازل ہوئیں انکے حاصل کرنے کے لئے جناب دائود ؑ،موسیٰ ؑ،اور عیسیٰ ؑ کو بلایاگیا اور بلاکر یہ آسمانی کتابیں انکے حوالے کی گئیں ۔مگر ہمارے نبی ﷺ کوقرآن لینے کیلئے کہیں جانے کی زحمت نہیں اُٹھانا پڑی یعنی وہ جہاں تھے وہیں قرآن کی آیت انہیں ڈھونڈ کر پہنچ گئی۔ وہ گھر میں رہے تو گھر میں آیت نازل ہوئی ۔میدان میں ہوئے تو میدان میں آیت آئی سفر میں ہوئے تو سفر میں آیت نازل ہوئی۔اگراکلوتی بیٹی کے گھر میں زیر چادر ِ یمانی آگئے اور اہل بیت ؑ جمع ہوگئے تو جبریل امین آیۃ تطہیر لیکرنازل ہوگئے۔
غرضکہ ظاہری طور پر قرآن نازل ہونے میں رسول اسلام ﷺ کی زندگی کے ۲۳؍سال لگ گئے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ باطنی طور پر ’’قرآن مجید‘‘ رسول اکرم ﷺ کے قلب مطہر پر ’’شب قدر‘‘ میں نازل ہوچکاتھا۔ جس کاذکر ’’سورۂ قدر‘‘ میںکیاگیاہے۔
عظمت ِ ’’شب قدر‘‘
شب قدر (تینوں شبوں ۱۹،۲۱ ،۲۳؍ویں شب) میں عمل کرنا سنت موکدرہ ہے۔تینوںشبوں میں اعمال شب قدر بجالانا ہیں جو کتابوں میں موجود ہیں ۔اور ماشاء اللہ سبھی لوگ اعمال کرتے بھی ہیں۔ شب قدر میں ۱۰۰؍رکعت نماز دو ۔دو رکعت کرکے پڑھی جاتی ہے اور اگر کسی کی نمازیں قضا ہوں تو وہ چھ دن کی قضائے عمری نماز پڑھے۔جوتمام عمر کی نمازوں کو اداکرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ شب قدر ہزار مہینوں سے بہترہے اور ایک انسان کی زندگی ، ہزاروں مہینوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔سورکعت نماز تینوں شبوں میں سنت موکدہ ہے۔خصوصاً ۲۳؍ویں شب کی بڑی فضیلت اور تادکید ہے۔ اگرطاقت نہ ہو تو بیٹھ کربھی پڑھی جاسکتی ہے ۔ترتیب یہ ہے کہ نمازظہر سے شروع کرے اور نماز فجر پرتمام کرے ۔جتنا ممکن ہو ذکر الٰہی و صلوٰۃ اوردعائوں اور تلاوت قرآن میں شب بسر کرے دو رکعت نماز زیارت امام حسین ؑ بھی پڑھی جاتی ہے۔اور زیارت امام حسین ؑ تیونوں شبوں میں پڑھنا سنت موکدہ ہے۔مطالب دنیا و آخرت کے لئے جو دعائیںکی جائیں گی وہ بارگاہ الٰہی میں مستجاب ہونگی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص اس شب کو سورۂ روم اورسورۂ عنکبوت پڑھے وہ اہل بہشت سے ہوگا۔ سورۂ حم دخان اور ہزار بابر سورۂ انا انزلنا بھی پڑھنے کا بڑاثواب ہے۔جو شخص سورکعت نماز پڑھے گااللہ اسکی روزی کشادہ کردے گا۔ دشمنوں کے شر سے بچائے گا۔ڈوب کر مرنے، گھرکے نیچے دب کرمرنے، لقمہ گلے میں پھنسنے اور جانوروں کے پھاڑ کھانے سے محفوظ رہے گا۔ اوراس سے ہول منکر نکیر کو دور کرے گا۔اس طرح کہ جب وہ قبر سے باہر آئے گا تو اسکے ساتھ ایک نور ہوگا جسکی روشنی اہل محشر میں ہوگی ۔ اسکے داہنے ہاتھ میں نامۂ اعمال ہوگا۔آتش جہنم سے بیزاری ،پل صراط سے گزر نے،عذاب سے نجات ہوگی۔بے حساب وہ شخص داخل بہشت ہوگا وہاں پیغمبروں اور صدیقوں کے ساتھ ہوگا۔
شب قدر دلیل حیاتِ امام مہدی آخرالزماں بھی ہے۔وہ اسلئے کہ سورۂ قدر میں جب یہ ہے کہ ’’تنزل الملائکۃ وروح‘‘ یعنی میں ملائکہ اور روح کو نازل کرتاہوں توظاہر ہے کہ یہ ملائکہ عام تو عام انتہائی متقی و پرہیزگار شخص کے پاس بھی نہیں آتے۔ تو اب عقل کہتی ہے کہ کوئی معصوم شخصیت ایسی موجود ہوناچاہئے جسکے پاس فرشتے آئیں اور اللہ اپنی روح (امرالٰہی) کو بھیجے ۔فرشتے اورامرالٰہی اواللامر کے پاس ہی آتے ہیں۔وہ اوللامروارث محمد مصطفیٰ ؐابن فاطمہ زہراؐ حضرت امام مہدی آخرالزمان کی شخصیت ہے۔ جنکی حیات پر ہمارعقیدہ ہے۔
غرضکہ جس طرح سال بھر میں ایک دن یوم غدیر ہمارے لئے انتہائی مبارک و عظیم ترین دن ہے جس میں اعمال عبادت و زیارت کا بھی بے حد ثواب ہے اسی طرح سال بھر میں ایک رات ’’شب قدر‘‘ ہے جسکے بارے میں اورپر ذکر کیاگیاہے۔ خدا واند عالم مسلمانوں کو دونوں موقعوں پر خلوص دل کے ساتھ عبادت کی توفیق عطافرمائے۔موجودہ وباکو دور فرمائے۔الٰہی آمین
ضضض
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here