ہندوستانی ادبیات کی تخلیقی ثروت مندی، کائناتی تعینات میں مستور تضاد آگیں حقیقت کے عرفان، ثقافتی، لسانی اور فنی تنوع اور مرتعش حسیاتی شعور کی صورت گری میں غال کا نام سر فہرست ہے۔ کالی داس، تلسی داس، کبیر داس، امیر خسرو اور ٹیگور کی طرح غال ملک کی ذہنی زرخیزی اور دانشور انہ قوت (Soft Power) کو خاطرنشان کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ غال کا متن گزشتہ پونے دو سو سال سے مسلسل مطالعہ کا ہدف بنا ہوا ہے اور ان کی شاعری ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن گئی ہے۔ ان کی شاعری کے مرتکز آمیز تنقیدی مطالعات تواتر کے ساتھ اشاعت پذیر ہوتے رہتے ہیں اور غال کے احباب اور ان سے متعلق دیگر شخصیات کو بھی تحقیق کا مرکز بنایا جاتا ہے۔ غالب کی اردو اور فارسی شاعری اور نثری نگارشات، علی الخصوص خطوط سے متعلق کتابیں اور مضامین کثرت سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ چند استثنائی مثالوں سے قطع نظر بیشتر تحریریں کسی نئے خیال انگیز تجزیے یا نئے تحقیقی تناظر کی نشاندہی نہیں کرتیں۔ سطحی اور سرسری تشریح اور پامال اور فرسودہ خیالات سے آباد تحریروں کی کثرت نے غالب کو ایک صنعت (Industry) کی صورت میں منقلب کر دیا ہے۔ غالب پر لکھنے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافے نے غالب کے تنقیدی اور تحقیقی محاسبہ کی راہ کھوٹی کر دی ہے۔ کتابوں کی بہتات کثرت تعبیر کا کسی بھی سطح پر اثبات نہیں کرتی۔
غالب کے خطوط ان کی غیر معمولی اختراعی قوت رسمی طرز اظہار سے شعوری انحراف اور شخصی روابط کو ایک خیال انگیز مکالمے کی صورت میں اجاگر کرنے کی روش کو خاطر نشان کرتے ہیں۔ غالب کے خطوط کو بارہا موضوع تحقیق بنایا گیا ہے اوران تمام اشخاص کے سوانحی کوائف اور ادبی اکتسابات کو مرکز مطالعہ بنایا گیا گیا ہے جو غالب کے مکتوب الیہ ہیں یا ان کا ذکر خطوط میں کیا گیا ہے۔ اہم محققینِ غالب میں امتیاز علی خاں عرشی، قاضی عبدالودود، مالک رام، حنیف نقوی، کالی داس گپتا رضا، مشفق خواجہ، مختار الدین احمد آرزو، خلیق انجم، کاظم علی خاں اور شمس بدایونی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ تحقیق کے واجبات بہت شدید ہوتے ہیں لہٰذا پی ایچ۔ ڈی۔ کے تحقیقی مقالے (جن میں تحقیق کو ضمنی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور مختلف کتابوں کے اقتباسات کی Paraphrasing کر کے داد تحقیق دی جاتی ہے) کے علاوہ کسی شاعر یا ادیب کو گہری اور عالمانہ تحقیق کا موضوع کم ہی بنایا جاتا ہے۔ اگر ماضی کے کسی اہم شاعر کی سوانح یا ان کے احباب سے متعلق معلومات تشنہ ہیں اور معروف محققوں نے اس باب میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے تو ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی معروف ناقد اپنے مطالعے کا آغاز فراموش کردہ حقیقت کی نقاب کشائی کو اپنا محور و مرکز بنائے اور تحقیق کی دشوار گزار راہوں پر گامزن ہو اور بطور محقق اپنا انفرادی تشخص قائم کرنے کی سعی کرے۔
مقام مسرت ہے کہ فکشن کے معروف ناقد اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے سابق سربراہ پروفیسر صغیر افراہیم نے اپنی اولین تحقیقی کاوش غالب کے فارسی خطوط پر مرکوز کی ہے اور غالب کے ایک ایسے مکتوب الیہ کا تفصیلی ذکر مستند تحقیقی شواہدکے ساتھ کیا ہے جن سے متعلق اطلاعات کا افسوسناک حد تک فقدان ہے۔ غالب نے سفر کلکتہ کے دوران باندہ میں چھ ماہ قیام کیا اور ان کے میزبان دیوان محمد علی تھے جن کے نام ان کے 37 فارسی خطوط ہیں۔ ان خطوط سے منکشف ہوتا ہے کہ غالب دیوان محمد علی کو کس درجہ عزیز رکھتے تھے اور دیوان محمد علی نے غالب کی اعانت کی اور کلکتہ میں پینشن کی حصولی میں ان کی مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ دیوان محمد علی نے کلکتے میں اقامت پذیر اپنے قریبی بارسوخ اعزا کو خطوط لکھے اور ان کے قیام وغیرہ کا بندوبست بھی کرایا۔ دیوان محمد علی کے سوانحی کمالات ادبی اکتسابات اور غالب سے ان کے غایت تعلق کو اب تک تحقیقی ارتکاز کے ساتھ پیش نہیں کیا گیا ہے۔ پروفیسر صغیر افراہیم نے دیوان محمد علی کے حالات زندگی، ملازمت، شعری کمالات اور ان سے متعلق دیگر معلومات کو معروضی طور پر جرح و تعدیل کے عمل سے گذار کر تحقیقی دقتِ نظری کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے اولاً دیوان محمد علی کا صحیح نام لکھا کہ زیادہ تر محققوں نے دیوان محمد علی کو دیوان محمد علی خاں لکھا ہے۔ دیوان کی اصطلاح دراصل وزیر کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔ صغیر افراہیم نے دیوان محمد علی کے سندیلہ اور انائو سے سے نسبی تعلق کے مستند شواہد پیش کئے اور یہ انکشاف بھی کیا کہ اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور انشاء پرداز مولانا عبد الماجد دریابادی (۱۸۹۲ء-۱۹۷۷ء)کا سسرالی تعلق دیوان محمد علی سے تھا۔
بارہ مختصر ابواب میں منقسم اور ۱۴۰ صفحات پر مشتمل کتاب ’’غالب، باندہ اور دیوان محمد علی‘‘ واقعتاً غالب کے ایک غیر معروف ممدوح دیوان محمد علی کی شخصیت کو پوری شرح و بسط کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ صغیر افراہیم نے غالب سے متعلق تحقیقی کتابوں میں مندرج نکات کی تلخیص اور پیرائیہ اسلوب میں معمولی سی تبدیلی کے ساتھ نئے پہلوؤں پر مبنی تحقیق پیش کرنے کا پر شور دعویٰ نہیں کیا بلکہ پوری سنجیدگی اور علمی متانت کے ساتھ تحقیقِ غالب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔
دیوان محمد علی سے محققین غالب کی بے اعتنائی یقینا حیرت خیز اور تاسف انگیز ہے کہ غالب نے جن افراد کے ساتھ مراسلت کی تھی ان تمام افراد کی پوری تفصیل غالب سے متعلق کتابوں میں درج ہے مگر دیوان محمد علی سے متعلق اطلاعات کا یکسر فقدان ہے اور زیادہ تر لوگ دیوان محمد علی کو نواب باندہ سے Confuseکرتے ہیں۔ مصنف نے اس غلط فہمی اور تحقیقی تساہلی کا ازالہ کرنے کے لیے غالب کے سفر باندہ اور یہاں ان کے قیام کی جزئیات پر توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے کتاب کی ابتدا ایک اہم سوال سے کی ہے:
ــ’’غالب کی وفات کے سو سال بعد تک یہی ذکر ہوتا رہا کہ وہ عین جوانی میں ’جوں توں‘، ’گرتے پڑتے‘ باندہ پہنچ گئے مگر اس پر توجہ نہیں دی گئی کہ موصوف لکھنؤ سے باندہ کیسے، کس طرح پہنچے؟ میرے نزدیک اس خطہ (لکھنؤ سے باندہ) کی بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس یادگار سفر کلکتہ کی وجہ سے غالب کے دو نئے دوست بنے، ان میں دیوان محمد علی اور مولوی سراج الدین کا تعلق اسی خطے سے تھا۔ غالب نے دونوں حضرات کو فارسی میں سب سے زیادہ خطوط لکھے ہیں (محمد علی کو ۳۷ اور سراج الدین احمد کو لکھے گئے ۵۲ ؍خط دستیاب ہیں)۔ یہ خطوط رسمی نہیں، محبت اور یگانگت کے سر چشمے ہیں۔ تو پھر اس اہم نکتے پر مدلل گفتگو کیوں نہیں ہوئی؟ اس پہلو کے ساتھ ساتھ میں نے زمینی حقائق کی روشنی میںوہ تاریخی اور جغرافیائی شواہد بھی تلاش کئے ہیں جو مکمل سفر کو سمجھنے میں مزید معاون ہوں گے۔‘‘
دیوان محمد علی کے تئیں چشم پوشی کیوں روا رکھی گئی؟ اس ضمن میں مصنف کی یہ دلیل بڑی حد تک مسکت ہے کہ غالب کی حیات میں ان کے فارسی خطوط کا جو مجموعہ شائع ہوا اُس میں محمد علی کے نام صرف آٹھ خطوط کو شامل کیا گیا تھا۔ یہ خطوط مکتوب الیہ یا قیام باندہ سے متعلق اہم نکات کے بیان سے بڑی حد تک عاری تھے۔ دیوان محمد علی کا انتقال بھی ۱۸۳۱ء میں ہو گیا اور ان سے متعلق تفصیلات محققین غالب کے پیش نظر نہیں تھیں اور نہ یہ کوشش کی گئی کہ مکتوب الیہ کی شخصیت اور ان کے ادبی کارناموں، تبحر علمی اور شعری اظہار پر قدرت کو تفصیلی مطالعہ کا موضوع بنایا جائے۔ پروفیسر صغیر افراہیم نے غالب کے ان فارسی خطوط کو موضوع بحث بنایا ہے جن پر گفتگو کم کی گئی۔
غالب کے خطوط محض مراسلے کو مکالمہ بنانے کی روش کے غماز نہیں ہیں بلکہ غالب کی آرزو مندیوں اور ان کی شخصیت کی پیچیدگیوں اور تحفظات اور تعصبات کے بھی آئینہ دار ہیں۔ غالب نے تیس بتیس برس کی عمر میں فارسی میں خطوط لکھے تھے اور ان میںبھی ایک جہانِ معنی آباد ہے اور مکتوب الیہ بھی مختلف شعبہ ہائے حیات سے متعلق ہیں۔ موضوعاتی تنوع اور پیرائیہ اظہار کی ندرت انہیں اردو خطوط (جن کی مقبولیت میں کلام نہیں) سے الگ شناخت عطا کرتی ہے۔
پروفیسر صغیر افراہیم کی کتاب نہ صرف دیوان محمد علی سے متعلق معلومات کے فقدان کو تحقیقی دقتِ نظری کے ساتھ پورا کرتی ہے بلکہ غالب کے قیام لکھنؤ، کانپور اور باندہ سے متعلق دستیاب تفصیلات کو Cross Checkبھی کرتی ہے اور بعض غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کرتی ہے۔ دیوان محمد علی کمپنی کے ملازم تھے، نواب باندہ سے ان کے مراسم تھے، غالب سے ان کی ملاقات کی تفصیل نہ تو مالک رام نے درج کی ہے اور نہ خلیق انجم نے۔ دونوں نے عمومی باتیں لکھیں۔ اس سلسلے میں صغیر افراہیم نے اہم تاریخی ماخذوں کو کھنگالا اور حتمی طور پر لکھا:
”غالب ۲۷؍ جون ۱۸۲۷ء (۲۶ ذی قعدہ ۱۲۴۲ھ) بروز جمعہ علی الصباح لکھنؤ کو الوداع کہتے ہیں اور ۲۹جون بروز اتوار کانپور پہنچتے ہیں۔ ایک دن کانپور اور ایک دن فتح پور میں قیام کرتے ہوئے ۲ ؍جولائی کی رات کے آخری پہر باندہ پہنچتے ہیں۔ تعمیر ہو رہی عمارت کے پاس کچھ وقت گزارتے ہیں اور صبح دیوان محمد علی، صدر امین، باندہ اپنی کوٹھی میں ان کا استقبال کرتے ہیں۔”
دیوان محمد علی سے متعلق تفصیلات جمع کرنا آسان نہیں تھا مگر صغیر افراہیم نے تحقیقی جاںفشانی کا ثبوت دیتے ہوئے غالب کے ایک اہم مگر گمنام مکتوب الیہ کے بارے میں خاصی معلومات جمع کردی ہیں۔ دیوان محمد علی خود بھی شاعر تھے مگر ان کا کلام ہنوز دریافت نہیں ہوا ہے۔ مصنف اس ضمن میں بھی کوشاں ہیں۔
یہ کتاب مصنف کی تحقیقی دیانتداری اور دوسروں کے اعتراف کمال کی کمیاب صفت کو بھی آشکار کرتی ہے کہ غالب کے فارسی خطوط کو انگریزی اور اردو میں منتقل کرنے والے ادیبوں سید اکبر علی ترمذی، پرتو روہیلہ اور لطیف الزماں خاں پر الگ الگ ابواب قائم کیے گئے ہیں۔ سید اکبر علی ترمذی نے غالب کے ان فارسی خطوط کو بھی دریافت کیا جو پنچ آہنگ میں شامل نہیں تھے اور ان سے غالب کی بعض شخصی کمزوریوں، جن کا عام طور پر ذکر کیا جاتا ہے، سے متعلق غلط فہمیوں کا تدارک ہوتا ہے۔ صغیر افراہیم نے بجا طور پر لکھا ہے:
”جب تک سید علی ترمذی کے توسط سے غالب کے مزید خطوط قارئین کے سامنے نہیں آئے تھے تو ناقدین باندہ کی امداد و ضیافت کے تعلق سے بالواسطہ طور پر یہاں تک کہہ جاتے تھے کہ غالب موقع پرست، مطلبی اور احسان فراموش تھے، لیکن تلاش جدید نے یہ ثابت کر دیا کہ غالب مطلب براری کے لئے ضمیر کے خلاف کوئی سمجھوتا نہیں کرتے تھے بلکہ خود کو احسان کے بوجھ تلے محسوس کرتے اور محسن کو ہمیشہ یاد رکھتے۔ اس کا بین ثبوت کلکتہ سے واپسی کے سفر میں، راستے سے دور، سمت مخالف میں، صرف اور صرف دیوان محمد علی کا شکریہ ادا کرنے کی غرض سے باندہ پہنچنا ہے۔ ان کا یہ منکسرانہ، مخلصانہ اور بے لوث عمل بھی ان کے قول و فعل اور عادات و اطوار کو عیاں کرتا ہے۔ اس طرح خطوط غالب بنام محمد علی، مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے جذبات کے پاس و لحاظ کے ساتھ ساتھ شہر باندہ اور وہاں کی ادبی ہلچل کے بھی ضامن بنتے ہیں۔”
صغیر افراہیم نے غالب کے قیام باندہ کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے۔ اولاً ان فارسی خطوط کا ذکر کیا ہے جو غالب نے یہاں رہ کر سپرد قلم کیے اور ان کی بعض غزلوں کا بھی ذکر کیا جو سکونتِ باندہ کی رہین منت ہیں۔ ایک علیحدہ باب ‘باندہ کے تعلق سے غالب کا شعری سرمایہ’ میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے۔ تاہم یہ غزلیں قیام باندہ کے دوران ہی لکھی گئی ہیں، اس کا کوئی متعین حوالہ نہیں ہے۔ مصنف نے صرف یہ لکھا ہے:
”میں یہاں صرف اردو غزلوں کا ذکر کروں گا جن پر بیشتر محققین متفق ہیں کہ یہ غزلیں قیام باندہ یا پھر سفر باندہ کی دین ہیں۔‘‘ مصنف کے نزدیک ”آبرو کیا ہے خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں+ہے گریباں ننگ پیراہن، جو دامن میں نہیں” غالب کی ایک مشہور غزل ”ستائش گر ہے زاہد جس قدر باغ رضواں کا” الخ ،مصنف کے نزدیک غالب نے باندہ پہنچتے ہی لکھی۔ علاوہ بریں ایک معروف غزل ”ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے” الخ کو بھی قیام باندہ کی رہین منت ٹھہرایا گیا ہے۔ پروفیسر صغیر افراہیم نے اس ضمن میں مزید لکھا ہے:
”اس غزل کے تعلق سے جس کا مطلع ہے نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لیے، رہی نہ طرز ستم کوئی آسماں کے لئے، روایت مشہور ہے کہ یہ غزل قیام باندہ کے دوران لکھنی شروع ہوئی تھی لیکن غالب نے اس طویل غزل کو بعد میں مکمل کیا۔ یہ استدلال کمزور اور غیر متعین ہے۔ سال اور ماہ کی نشاندہی کے ساتھ ان محققوں کی عبارت درج کی جانی چاہیے تھی جنہوں نے مذکورہ بالا غزلوں کو سکونت باندہ کی رہین منت قرار دیا تھا۔ غالب کی ایک مشہور غزل ”حیران ہوں دل کو روئوںکہ پیٹوں جگر کو میں” کو بعض محققین نے دیوان محمد علی اور نواب باندہ سے منسوب کیا ہے۔ اس سلسلے میں صغیر افراہیم نے اس دعوے کی تردید کی اور تحقیقی شواہد کے ساتھ لکھاـ:
”یہ غزل نہ تو دیوان محمد علی کی حیات میں لکھی گئی اور نہ ہی نواب باندہ کی زندگی میں، بلکہ ذوالفقار علی کی وفات کے بعد ۱۸۴۹ء میں نواب علی بہادرعلی کے مسند نشین ہونے کے بعد قلم بند کی گئی۔”
پروفیسر صغیر افراہیم فکشن مطالعات، علی الخصوص پریم چند سے متعلق تنقیدی تجزیے کے باعث ملک میں معروف ہیں اور اب وہ اس کتاب کی وساطت سے میدان تحقیق میں داخل ہوئے ہیں۔ مندرجات کی معروضیت، تحقیقی استدلال، مقدمات کی تدوین اور نتائج کے استخراج میں تحقیقی دقتِ نظری کے باعث یہ کتاب (غالب ،باندہ اور دیوان محمد علی)ممتاز ادیب اور معروف نقاد صغیر افراہیم کو ذمہ دار محققوں کی صف میں شامل کر دیتی ہے جس کی پذیرائی لازمی ہے۔
پروفیسر وصدر شعبۂ ترسیل عامہ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
[email protected]