عبدالعزیز
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیش تریویدی ایک تعلیم یافتہ شخص ہیں لیکن آج کے ہی سیاست داں ہیں۔کانگریس پارٹی سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا، پھر جنتا دل میں شامل ہوئے۔ گجرات سے جنتادل کے ذریعے ہی 1990ء سے 1996ء تک راجیہ سبھا کے ممبر رہے۔ کانگریس سے نکل کر ممتا بنرجی نے 1998ء میں جب ترنمول کانگریس کی تشکیل کی تو دنیش تریوی بھی ترنمول میںشامل ہوگئے۔ کانگریس سے جنتادل، جنتادل سے ترنمول کانگریس اور اب ایک روز پہلے بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ اس سے دوباتوں کا صاف پتہ چلتا ہے۔ ایک تو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے ہیں اور دوسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ اس پارٹی میں جانا مفید سمجھتے ہیں جس میں ان کو عہدہ ملنے کی امید ہو یا کم سے کم راجیہ سبھا کی رکنیت مل سکے۔ نریندر مودی اور امیت شاہ نے انھیں امید دلائی ہوگی کہ وہ راجیہ سبھا سے بڑی چیز انھیں دیں گے۔ مرکزی وزارت میں شامل کریں گے یا کسی ریاست کی گورنری دے دیں گے۔ ظاہر ہے کہ وزارت اور گورنری راجیہ سبھا کی رکنیت سے بڑی چیز ہے۔ اس قماش کا آدمی کس کردار کا ہوسکتا ہے؟ ہر آدمی آسانی سے جان سکتا ہے کہ جس کی سیاست یا جس کی سیاسی سرگرمیاں ذاتی مفاد پرستی پر محمول ہوں وہ سیاست میں ملک و قوم کیلئے کوئی بڑا کردار یا چھوٹا کردار نہیں نبھا سکتا۔ اس کی سیاست خود غرضی، لالچ پر ہی منحصر ہوگی۔ کردار کے لحاظ سے ایسے آدمی کو گھٹیا ہی کہا جاسکتا ہے۔
ممتا بنرجی نے حقیقت میں جو کچھ ان کیلئے کیا ان کی حیثیت سے بہت زیادہ ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ممتا بنرجی نے ان کو پارٹی میں محض اس لئے لیا تھا کہ ان کا گجراتیوں اور مارواڑیوں سے تعلق تھا۔یہ گجرات کے رہنے والے تھے۔ دہلی اور ہماچل پردیش ابتدائی تعلیم حاصل کی اور کلکتہ کے سینٹ زیویئرس کالج سے کامرس میں گریجویشن کیا۔ ممتا بنرجی کو شروع میں ممکن ہے کہ مارواڑیوں اور گجراتیوں سے پارٹی کیلئے مالی امداد دلوانے کا کام انجام دیتے رہے ہوں۔ اور دوسرا کام بی جے پی سے سیاسی تعلق (Hobnobbing) کا واسطہ بنتے رہے ہوں۔ ممتا بنرجی غالباً انہی کی وجہ سے ترنمول کانگریس کے ابتدائی زمانے میں کانگریس کے مقابلے میں بی جے پی سے زیادہ قریب تھیں۔ ممتا بنرجی بی جے پی کے سیاسی اتحاد NDA میں بھی شامل ہوگئی تھیں اور اٹل بہاری واجپئی کی کابینہ میں وزیر ریلوے بھی تھیں۔ مغربی بنگال میں کانگریس کے ساتھ اسمبلی الیکشن لڑنے سے پہلے بی جے پی کے ساتھ ممتا بنرجی نے اسمبلی الیکشن بھی لڑا۔ میرے خیال سے دنیش تریویدی یہ سارا کام بی جے پی کی صحبت کا انجام دیتے رہے ہیں۔ ان کے بارے میں عام طور پر مشہور تھا کہ یہ بی جے پی مائنڈیڈ(بھاجپائی ذہنیت) ہیں۔ بی جے پی میں شمولیت سے ان کی ذہنیت کا پورے طور پر پردہ فاش ہوگیا۔
بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد ترنمول کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا اس سے ان کی ذہنیت اور بھی واضح ہوگئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ترنمول کانگریس میں بدعنوانی اور کرپشن آگیا ہے اور غنڈہ راج کے ذریعے ممتا بنرجی مغربی بنگال میں حکومت کر رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دنیش تریویدی کو یہ بدعنوانی اور غنڈہ راج اسمبلی الیکشن کے موقع پر ہی معلوم ہوا؟ ممتا بنرجی نے جب انھیں لوک سبھا کا ٹکٹ دیا تھا اور وہ بارک پور سے کامیاب ہوئے تھے تو اس وقت ترنمول کانگریس کی بدعنوانی سے وہ ناواقف تھے؟ جب انھیں ریلوے کی وزارت سونپی گئی تھی تو ترنمول کانگریس اس وقت بہت پاک صاف پارٹی تھی؟ دوبارہ ارجن سنگھ کی مخالفت و مزاحمت کے باوجود بارک پور لوک سبھا حلقہ سے الیکشن میں کھڑا کرتے وقت ترنمول کانگریس کا کرپشن یا غنڈہ گردی دنیش تریویدی کو کیوں نظر نہیں آئی؟ اس کا صاف مطلب ہے کہ ترنمول کانگریس سے بی جے پی میں ان کے جانے کی وجہ صرف ان کا ذاتی مفاد ہے اور بی جے پی سے ان کا دیرینہ تعلق ہے۔ انھوں نے خود ہی کہا ہے کہ 1990ء سے نریندر مودی بھائی اور امیت شاہ بھائی سے میرا تعلق ہے۔ ظاہر ہے کہ یہی دونوں بی جے پی اور ملک دونوں کو چلا رہے ہیں۔ دونوںکے تعلق سے فائدہ اٹھانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ممتا بنرجی نے گزشتہ لوک سبھا کے الیکشن میں اگر ان کو ٹکٹ نہیں دیا ہوتا تو ارجن سنگھ ترنمول کانگریس سے جدا نہیں ہوتے۔ دنیش ترویدی خود تو گئے مگر ترنمول کانگریس کو بھاری نقصان پہنچا کر گئے۔ اور حقیقت میں ان کی گھر واپسی ہوئی ہے۔ ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘۔
ایک اہم بات: دنیش تریویدی نے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد کہا ہے کہ ترنمول کانگریس کے ذریعے بایاں محاذ کی حکومت کا ہٹایا جانا یقینا پریورتن (تبدیلی) ہے لیکن عوام میں یا بنگال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ دنیش تریویدی پڑھے لکھے آدمی ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ کوئی بہتر سے بہتر نظام کمزور کیریکٹر اور ناقابل اعتماد سیرت کے لوگوں کو لے کر سماج میں تبدیلی کی توقع اور امید نادان لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ کانگریس کلچر سے دنیش تریویدی واقف تھے۔ ممتا بنرجی اور وہ دونوں اسی کلچر کی پیداوار ہیں۔ کانگریسی، بی جے پی اور دیگر پارٹیوں کے لوگوں سے مل کر ترنمول کانگریس عالم وجود میں آئی تھی۔ سیاسی افراد جو ترنمول میں تھے یا ہیں بشمول تریویدی کتنے کرپٹ اور کتنے بدعنوان ہوتے ہیں ان کو اچھی طرح معلوم ہے۔ کیا بدعنوان اور کرپٹ لوگوں کے ذریعے سماج میں تبدیلی ممکن ہے۔ آزادی کے بعد کانگریس کی حکومت تھی۔ اس کے ذریعے بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن کانگریس کے ابتدائی زمانے میں ڈاکٹر بی سی رائے جیسے لوگ جو خدمت خلق کی نیت سے سیاست میں آئے تھے اور ان کے ساتھ دوسرے بھی گاندھیائی سوچ کے لیڈر تھے لیکن غیر گاندھیائی ذہنیت کے لوگ بھی تھے۔ بی سی رائے کے بعد ایک اچھے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے سدھارت شنکر رائے جانے جاتے ہیں۔ سدھارت شنکر رائے کا خاندانی پس منظر اور کردار اعلیٰ قسم کا تھا۔ وہ عظیم مجاہد آزادی چترنجن داس کے نواسے تھے۔ بہت پڑھے لکھے، اچھے وکیل اور اچھے انسان تھے۔ ایسے لوگوں کی موجودگی میں بھی مغربی بنگال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ ایک حد تک فرقہ وارانہ ہم آہنگی ضرور قائم تھی۔
بایاں محاذ کا دور آیاتو 34سال تک اس کی حکومت رہی۔ کمیونسٹ عام طور پر اپنی پارٹی اور اپنی آئیڈولوجی کیلئے پر عزم، مخلص (Committed) ہوتے ہیں۔ ان کی حکومت کے آخری زمانے میں غنڈہ گردی ان کے کیڈرس کے ذریعے بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ شروع میں بھی تشدد کے ذریعے ہی کانگریس کے راج کو ختم کرنے میں مارکسی پارٹی یا ان کی حامی پارٹیاں کامیاب ہوئیں۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی ان کے زمانے میں بھی تھی اور بی جے پی اور آر ایس ایس کو بڑھنے کا کوئی موقع نہیں ملا، لیکن اس چونتیس سالہ دور میں جیوتی باسو جیسے قابل اور غیر متوازن لیڈر کی قیادت میں جب کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ہے تو کیا دنیش تریویدی یہ امید رکھتے تھے کہ ممتا بنرجی جن کو اچھی تعلیم بھی میسر نہیں تھی اور جن کی پارٹی میں ہر قماش کے لوگ شامل تھے اور جس کا بی جے پی جیسی پارٹی سے بھی تھوڑا بہت تعلق ہو کیا ایسی پارٹی سے سماجی اور معاشی طور پر کسی ریاست میں تبدیلی آجائے گی ، کیا یہ ممکن ہے؟ ’شاردا، ناردا یا دوسرے گھٹالے ، اسکیم جیسی بدعنوانیوں کو غیر متوقع کہنا غلط ہوگا؛ کیونکہ سیاست میں جو لوگ شامل ہیں ان میں 90، 95 فیصد ذاتی خود غرضی، لالچ کی بنا پر خدمت خلق کرنے کی نہ ان کی نیت ہوتی ہے اور نہ عزم ہوتا ہے۔ جب تک فرد میں اور اجتماعی زندگی میں تغیر واقع نہ ہو کسی مصنوعی تدبیر سے نظام حکومت میں یا سماج میں کوئی مستقل تغیر پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ اچھے اچھے حکمرانوں کا دور دیکھا گیا ہے کہ وہ سوسائٹی میں پائے جانے والے افراد اور اپنے خوشامدی دوستوں اور رشتہ داروں کی وجہ سے سماج میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکے۔ تو ممتا بنرجی جیسی سیاستداں سے کیسے اور کیونکر امید تھی کہ سماج میں ’ماں، ماٹی، مانس‘ جیسے بے معنی نعروں سے پریورتن آجائے گا۔ کچے کیریکٹر اور ضعیف ارادہ رکھنے والے کسی اچھی حکومت یا اچھے سماج کے علمبردار نہیں ہوسکتے۔
ممتا بنرجی بمقابلہ امیت شاہ / ترنمول کانگریس بمقابلہ بی جے پی: ممتا بنرجی اپنی تمام خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود کسی بھی بدعنوانی یا کرپشن میں بحیثیت ایک فرد کے ملوث نہیں ہیں۔ ہاں ان کی پارٹی کے لوگ شامل تھے اور ہوں گے بھی۔ ایک دوسری بات ہے کہ ان کو یہ ذمہ داری قبول بھی کرنی چاہئے کہ غلط لوگوں کو وہ اپنے پارٹی سے نکال نہیں سکیں۔ جہاں تک نریندر مودی اور امیت شاہ کا معاملہ ہے تو ان کے ظلم و جبر کے علاوہ بہت سی غلط چیزیں ان سے وابستہ ہیں۔ امیت شاہ جیل کی ہوا بھی کھاچکے ہیں۔ نریندر مودی کو کلین چٹ ضرور دیا گیا ہے لیکن ان پر کئی مقدمات اب بھی ہیں۔ 2002ء میں گجرات میں جو کچھ ہوا اس سے پوری دنیا واقف ہے۔ پورے ہندستان میں چھ سات سال میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے بھی پوری دنیا واقف ہے۔ ان کے آنے سے حقوق انسانی، آزادی میں زبردست گراوٹ واقع ہوئی ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جائے گا۔ کسانوں کے تعلق سے جو کچھ ہورہا ہے غریب، مزدور اور مہاجر مزدوروں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس سے بھی دنیا واقف ہے۔ اقلیتوں اور دلتوں کے ساتھ جو چھ سات سال میں ہوا ہے اس سے بھی لوگ واقف ہیں۔ ممتا بنرجی اس طرح ظلم و جبر سے مبرا ہیں۔ ان پر کوئی مقدمہ دائر نہیں ہے۔ ترنمول کانگریس تمام خرابیوں کے باوجود بی جے پی کی طرح فرقہ پرست پارٹی نہیں ہے۔ موکل رائے، شوبھندو ادھیکاری جیسے لوگ جو ترنمول سے بی جے پی میں شامل ہوئے یہ سب ’ناردا، شاردا‘ میں ملوث ہیں۔ان کے بارے میں تریویدی صاحب کا کیا خیال ہے؟ اس سے کیا بی جے پی پوتر یا پاک صاف ہوگئی یا ان کیلئے بی جے پی واشنگ مشین ہوگئی؟
’بی جے پی‘ (بھارتیہ جنتا پارٹی) آر ایس ایس کی سیاسی ونگ ہے۔ مہاراشٹر پولس کے آئی جی ایس ایم مشرف نے آر ایس ایس کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’آر ایس ایس ہندستان کی سب سے خطرناک اور بڑی دہشت گرد تنظیم ہے‘‘۔ یہ کتاب بازار میں دستیاب ہے اور ہندستان کی اکثر زبانوں میں دستیاب ہے لیکن آج تک آر ایس ایس نے کسی نے اس کتاب کے خلاف کوئی چیلنج نہیں کیا ہے۔ ترنمول کانگریس کا آر ایس ایس جیسی فرقہ پرست تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دنیش تریویدی کو اپنے پرانے بیانات پر ایک نظر ڈالنا چاہئے۔ وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کو فرقہ پرست پارٹی کہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ بی جے پی صرف دھرم کے بارے میں بات کرتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس ہٹلر اور مسولینی کے نظریے کی حامی ہیں۔ ایک جارحانہ قوم پرستی کی علمبردار ہے۔ اس کے سارے پروگرام قوم پرستانہ پروگرام پر مبنی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں کوئی بھی قوم پرستی میں ڈوبا ہوا فرد اپنے ملک اور قوم کیلئے مفید ثابت نہیں ہوا، خواہ وہ مونجے یا ساورکر ہو یا ہٹلر یا مسولینی ہو۔ دنیش تریویدی کو تعلیم یافتہ ہونے کی بنا پر اچھی طرح معلوم ہے کہ بی جے پی ایک فرقہ پرست اور فسطائی جماعت ہے۔ ترنمول کانگریس کو نہ فسطائی جماعت کہا جاسکتا ہے نہ فرقہ پرست۔ بنگال کلچر میں بھی رابندر ناتھ ٹیگور، سوامی ویویکا نند، ایشور ودیا ساگر، نیتا جی سبھاش چندر بوس اور دیگر بڑے ادیبوں، مصنفوں اور لیڈروں کی وجہ سے فرقہ واریت نہیں ہے۔ اس لئے امید ہے کہ دنیش تریویدی کی جماعت کو اسمبلی الیکشن میںمنہ کی کھانی پڑے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ شاہ و شہنشاہ نے جو کچھ ان سے وعدہ کیا ہے یا خواب دکھایا ہے وہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ پھر یہ جلد ہی کسی دوسری پارٹی میں شامل ہونے کی کوشش کریں گے جیسے کہ اپنی سابقہ زندگی میں پارٹی بدلتے رہے ہیں اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتے رہیں گے۔
E-mail:[email protected]
ضضض
دنیش تریویدی کی ہٹ دھرمی اور بے حیائی – Dinesh Trivedi’s stubbornness and obscenity
Also read