ٹوٹی سڑکوں سے نہیں گزرتی ترقی کی گاڑی- Development vehicle does not pass through broken roads

0
85

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Development vehicle does not pass through broken roads

ریحانہ کو ثر ریشی،فتح پور،منڈی
وزارت ِدیہی ترقی اور و زرات ِ زراعت کے وزیر نے اسکولوں،ہسپتالوں اور زرعی منڈیوں کے ساتھ دیہاتوں کے رابطے مزید بڑھانے کے لیے سڑک یوجنا کے تیسرے مرحلے کا آغاز کیاہے۔ جبکہ پی ایم جی ایس وائی کے تیسرے مرحلے کا مقصد ایک لاکھ 25 ہزار کلومیٹر کے راستوں کو مستحکم کر نا ہے۔ یہ راستے دیہاتوں،زرعی منڈیوں ہائیر اسکنڈری اسکولوں، دفتروں، کالجوں اور جو لوگ دور دراز جا کر اپنا روزگار چلاتے ہیں ان کیلئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس میں کو ئی شک کی بات نہیں کہ اس طرف سر کار کی نیت اور پالیسی بہتر ہوسکتی ہیں لیکن افسوس تب ہونے لگتا ہے جب یہ سرکاری اعلان محض کاغذوں تک یا اخباروں کی سرخیوں تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ وہیں اگر بات کی جائے جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کے تحت تحصیل منڈی کی، تو منڈی بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہے۔ نجی ٹھیکداروں نے تو حد ہی کر دی ہے جیسے انہوں نے ہر محلہ اور ہر گاؤں کو شہروں سے جوڑنے کی قسم کھارکھی ہو۔ اپنی مشینوں کے ذریعے لوگوں کی ز مینو ں کے سینوں کو چیر کر سڑکوں کا جھال تو پچھا دیا ہے۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر سڑکوں پر صرف کٹائی کا کا م ہی کیا گیا۔ باقی کام جوں کے توں پڑے ہیں، تاہم اس کی بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جبکہ عوام کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ سڑکوں کے نام پر جن زمینوں کو تبا ہ کیا گیا ہے ان کا ذمہ دار کون ہے؟ قارئین کی جانکاری کیلئے بتادوں کہ منڈی تحصیل کے گاؤں فتحپور، بائیلہ، تریچھل، دھڑا، ڈنہ،ہاڑی بڈھا، موربن، کہنوں اور سیڑھی خواجہ وغیرہ سے ہو کر جانے والی سڑک جو منڈی سے ہوتے ہوئے تحصیل سرنکوٹ کے راستے تاریخی مغل شاہراہ سے جا ملتی ہے کے پیش نظرسرکار کے اس قدم کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اور ہونی بھی چاہئے کیونکہ مستقبل قریب میں یہ راستہ تحصیل منڈی سے ہو کر جانے والاواحد ایک ایسا متبادل راستہ ہو گا، جو منڈی کو سرنکوٹ سے برائے راست جو ڑ دے گا۔ اسلئے کہ جموں پونچھ شاہرہ 144Aپر بڑھتی ٹریفک کی وجہ سے یہاں کوئی متبادل راستہ ہونا چاہئے۔ وہیں اس سڑک کی وجہ سے منڈی کے لوگوں کے وادی ِکشمیر کے ساتھ بھی مزید روابط قائم ہو نگے اور تجارت کو فروغ ملے گا۔ واقعہ ہی یہ ایک بہترین پہل ہے۔مگر در حقیقت اگر اس سڑک کی حالت ِزار کو دیکھا جائے تو یقیناً اس کے بننے کی دور دور تک کوئی کرن نظر نہیں آتی جبکہ یہ سڑک گزشتہ کئی سالوں سے یہاں کے لوگوں کیلئے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ سیاسی اتھل پتھل کے باعث حکومتیں تو بدل گئی لیکن تا ہنوز اس سڑک کی قسمت نہیں بدل سکی، اور عوام کی ترقیوں کا یہ راستہ نہیں بدلہ! زمینی شواہد یہ کہتے ہیں کہ 18 کلومیٹر سڑک جو منڈی سے ہوتے ہوئے سرنکوٹ پھاگلہ کی طرف جاتی ہے، دکھنے میں تو سڑک لگتی ہے لیکن حقیقت میں جانوروں کا راستہ ہے۔ جبکہ اس سڑک کی خستہ حالی کو دیکھ کر رونا آتا ہے۔ سڑک پر اس قدر کھڈے پڑے ہوئے ہیں کہ گاڑیوں کا چلنا تو دور یہاں انسانوں کا چلنا ممکن ہی نہیں۔ سڑک کی تعمیر پر استعمال کئے جانے والا مواد اتنا ناقص ہے کہ سالوں نہیں بلکہ مہینوں میں ان کا ستیا ناس ہو جاتا ہے۔وہیں اس سڑک پر آج سے غالباً چار مہینے قبل منڈی سے بائیلہ 3 کلو میٹر تک تارکول پچھائی تو گئی تھی، لیکن حالیہ بارشوں اور برف باری کی وجہ سے وہ ناکارہ ہو رہی ہے۔کوئی بھی محکمہ اس طرف توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس رابطہ سڑ ک پر سے کئی نالے اور کسیاں ہو کر گزرتی ہیں جبکہ وہیں تین بڑے نالے اس سڑک سے ہو کر گزرتے ہیں جن پر پلیاں بھی نہیں لگائی گئی ہیں، جب کبھی زور دار بارشیں ہوتی ہے تو ان نالوں سے گاڑیوں کا آر پار ہونا دشوار ہو جاتا ہے۔ کئی بار نالے میں جب تیز بہاؤ کا پانی ہوتا ہے تو اسکولی طلباء کے لیے بہت بڑا خطربن جاتا ہے۔جبکہ اس سے قبل بھی اسطرح کے حادثے پیش ہوئے ہیں جن سے جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑاہے۔ جو سڑک قابل آمد ورفت ہے اس کے کناروں پر نالیوں کی عد م د ستیابی کے باعث سارا پانی لوگوں کے کھیتوں میں جا کر ا کٹھا ہو جاتا ہے۔ سڑک کے نزدیک گھروں سے جاکر سارا پانی نکلتا ہے۔سب سے بڑی مشکل یہاں کی عوام کے لیے یہ ہے کہ جب کوئی رات کو بیمار ہوجائے تو کافی کچھ جھیلنا پڑتا ہے کیونکہ گاڑیاں تو ہوتی ہیں لیکن بہت ہی کم ڈرائیور رات کے اندھیرے میں اس راسطے پر گاڑی چلانا پسند کرتے ہیں۔ سڑک کے اطراف پر تعمیر کردہ کچے ڈنگے بھی اس سڑک پر بڑھتے حادثات کے ذمہ دار ہیں۔ وہیں اس سلسلہ میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کئی بار نیوز چینل کے ذریعہ بھی اس سڑک کو بہتر بنانے کے لئے انتظامیہ سے گوہار لگائی لیکن انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ واضح رہے اس علاقے میں ”قلندر ِزمانہ، ولیِ کامل پیر سیّد عطہر حسین شاہ،ؒ” کا مزارِ پاک بھی پڑتا ہے۔ حال ہی میں رضائے الٰہی سے یہ اس دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں، مگر آئے روز یہاں ان کے مزار ِپاک پر ہزاروں عقیدت مندوں کی حاضری ہوتی ہے۔لیکن تنگ اور خستہ حال سڑک یہاں پہنچنے والے عقیدت مندوں کیلئے مصیبت کا باعث بنی ہوئی ہے۔ وہیں درگاہ کے متولی پیر سیّد مظفر حسین شاہ سے جب بات کی گئی تو انہوں نے بھی اس سڑک کی بہتری کے لیے اپیل کی کہ جلد از جلد اس سڑک کا تعمیری کام لگایا جائے تا کہ کسی بھی قسم کا جانی و ومالی نقصان نہ ہواورلوگوں کو چلنے پھرنے میں راحت محسوس ہو۔ اسی سلسلہ میں کالج طالبہ روبینہ کوثر کہتی ہے کہ’’سالوں سے اس سڑک کی یہی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس دوران کئی حادثے بھی ہوئے ہیں،بہت ساری اموات بھی ہوئی ہیں۔ لیکن سرکاری عہدوں پر براجمان بڑے بڑے آفیسران یا سیاسی لیڈران کو کسی کی موت کی کیا فکر ہے؟ انہیں تو صرف اپنی تنخواؤں یا سیاسی لیڈران کو ووٹوں کی فکر ہے۔ وہیں ان دنوں یو ٹی میں ضلع ترقیاتی کو نسل کے نو منتخب ممبران و چیئر مین بھی اپنے مشاہروں اور پروٹوکول کی فکر سے افسردہ ہیں۔انہیں عوام نے بڑی ہی امیدوں سے جتا کر کونسل میں تو بھیجا تھا، لیکن اپنی فکر میں مصروف یہ لیڈر عوام کی فکر آخر کب کریں گئے؟٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here