محمد امین حسنی ندوی
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ اپنے کو تاریخ کا ایک طالبعلم کہتے تھے، تاریخ آپ کا خاص موضوع تھا، آپ نے ملکوں کی تاریخ بھی پڑھی قوموں کی تاریخ بھی پڑھی، اور ادیان ومذاہب کی تاریخ بھی پڑھی، قوموں کے عروج وزوال کے اسباب ،ملکوں کی ترقی وتنزلی کے محرکات، اور ادیان ومذاہب کے پھیلنے اور سمٹنے کی وجوہات سے آپ خوب واقف تھے ۔
تاریخ کا یہ مطالعہ تھا جس نے آپ کو سوچنے سمجھنے کا ایک الگ انداز دیا، خطرات کو جاننے کی غیر معمولی صلاحیت دی ،اور سماج میں پھیلتی بیماریوں اور ملک میں پھیلتے امراض کی نشاندھی کا غیر معمولی سلیقہ دیا، خطرات سے کیسے نمٹا جائے ،بیماریوں پر کیسے قابو پایا جائے، اور امراض کو بڑھنے سے کیسے روکا جائے، اس کی تدابیر آپ کی تحریروں اور تقریروں اور وزرائے اعظم کو لکھے گئے خطوط میں ملتی ہیں، ان کو دیکھ کر عقل حیرت میں پڑ جاتی ہے کہ اپنے دعوتی، اصلاحی، تدریسی وتصنیفی کاموں کے باوجود ملک کے حالات پر کتنی گہری نظر رکھتے تھے، اور ملک کی ترقی ،خوشحالی، یکجہتی، سالمیت، امن وامان کے لیے کتنے فکرمند رہتے تھے، اور
اس کے لیے جو کچھ کرسکتے تھے کرتے تھ۔
ملک کے لیے آپ کی فکرمندی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے آخری علالت کے دوران عیادت کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جب ندوہ آئے تو مولانا نے ان سے کہا !اٹل جی ! ’’خدا کے ہاں سیاست نہیں چلتی خلوص چلتا ہے ،خلوص کے ساتھ کام کیجیے کامیابی قدم چومے گی ،ترقی کی راہیں کھلیں گی اور فتح وکامرانی آپ کے قدم سے قدم ملا کر چلے گی ،اوپر والے نے آپ کو اتنا بڑا ملک دیا ہے وہ اس ملک کے بارے میں آپ سے پوچھے گا بھی،آپ کو یہ ایک موقع ملا ہے ،کہ آپ اس ملک کو اتنی ترقی دیجیے اور اس کو اتنا خوشحال بنائیے اور یہاں کے باشندوں کو وہ امن وامان دیجیے کہ لوگ دوسرے ملکوں میں جانے کے بارے میں سوچے بھی نہیں،اور اس ملک کو اتنا اوپر لے جائیے کہ یورپ وامریکہ بھی اس پر رشک کریں ‘‘۔
ایک مرتبہ ملک کے سابق وزیر اعظم وشوناتھ پرتاب سنگھ کوجو اس وقت یوپی کے وزیراعلی تھے، اور مرادآباد میں عید گاہ کا سانحہ ابھی گذرا ہی تھا، لکھنئو کے ایک جلسہ میں ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا !
’’میرا ہاتھ آپ کے گریبان تک تو نہیں پہنچ سکتا لیکن آپ کا دامن پکڑ کر یہ ضرور کہوں گا کہ خدا کے لیے مجھے اس لائق رکھیے کہ میں باہر کا سفر کرسکوں ،ملک کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور یہاں کی بدامنی کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے باہر کا سفر کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ،میں کیسے لوگوں کا سامنا کروں گا، میں کیسے ان کے سوالات کے جوابات دوں گا ،جب وہ یہاں کی بدامنی کے بارے میں پوچھیں گے ،جب وہ یہاں کے تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں سوال کریں گے ،جب وہ یہاں کی بڑھتی ہوئی فرقہ وارایت کی لہر کے بارے میں پوچھیں گے، تو میں کیا کہوں گا؟سچ کہہ نہیں سکتا کیوں کہ اس سے ملک کی بدنامی ہوگی ،جھوٹ بول نہیں سکتا کیوں کہ میرا مذہب مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا ‘‘۔
سابق وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی سے دہلی میںایک ملاقات کے دوران کہا! کہ ہم یہاں کسی فرقہ کی نمائندگی کرنے نہیں آئے ہیں، اور نہ ہی صرف مسلم قوم کی بات کہنے آئے ہیں، بلکہ ہم ملک کی بقاء چاہتے ہیں،حضرت مولانا نے نس بندی کے موقع پر وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ایک خط لکھا جس میں وہ لکھتے ہیں !
’’ اس بات کو اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ لوگوں کو اظہار خیال کی وہ آزادی ملے جس پر ہم نے ہمیشہ باہر کے ملکوں پر فخر کیا ہے، اور زندگی کی وہ گرمی اور نرمی محسوس ہوجو ایک زندہ جسم کی خصوصیت وعلامت اور جینے کا لطف وقیمت ہے، اس سلسلہ میں اتنا کہنے کی اور اجازت چاہتا ہوں کہ گرفتاریوں میں بڑی بے احتیاطی اور ایک حد تک زیادتی کی گئی ہے، جس میں بہت سے ناکردہ گناہ گرفتار ہوئے ،ملک جس اخلاقی پستی اور گراوٹ کی طرف جارہا ہے اور ضمیر جتنا بے حس ومردہ ہوچکا ہے اس وقت ملک کی جلد خبر لینے کی ضرورت ہے ‘‘۔
ایک دوسرے خط میں اندرا گاندھی کو لکھا !
’’ ملک کی حفاظت صرف تین باتوں سے ہوگی سچے سیکولرزم ،صحیح جمہوریت ،اور ھندومسلم اتحاد ،یہی تین راستے ہیں جس سے ملک بچ سکتا ہے ،مولانا نے ان کی توجہ اس بات کی طرف مرکوز کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک کو تین خطروں کا سامنا ہے!
’’پہلا خطرہ ظلم وتشدد کا رجحان ،انسانی جان ومال اور عزت وآبروکی بے قیمتی ،مولانا نے تاریخی حوالہ سے یہ بات بتائی کی کہ ظلم وسفاکی کے نتیجہ میں بڑی سے بڑی حکومتیں ختم ہوگئیں اور وہ داستان پارینہ بن گئیں اگر اس طرف توجہ نہ کی گئی تو نہ ملک بچے گا نہ قوم ،اس بات کے مہاتماگاندھی بھی سخت مخالف تھے اور اس سے شدید خطرہ محسوس کرتے تھے،اس لیے کہ آگ کو جب باہرکی کوئی چیز کھانے کو نہیں ملتی تو وہ اپنے کو کھانے لگتی ہے، فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد فرقوں سے آگے بڑھ کر ذاتوں طبقوں اور پھر خاندانوں اور افرادمیں منتقل ہوجائے گا ،اور پھر ملک کو تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا،ملک اس وقت ایک ایسے بحران اور ایسے خطرہ سے دوچار ہے جس کی مثال پچھلی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔
دوسرا خطرہ ھندواحیائیت کی تحریک ہے، اس سے ھندومسلم میں خطرناک صورتحال پیدا ہوگی، نئی کشمکش پیدا ہوگی، نئے مسائل سامنے آئیں گے جس کی نا ملک کو ضرورت ہے نہ قوم کو، اس لیے اس صورتحال سے بچنے کی ضرورت ہے۔
تیسرا خطرہ اخلاقی گراوٹ ہے ،اوریہ گراوٹ اپنی آخری انتہا کو پہنچ گئی ہے، قدم قدم پر رشوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، عدالتوں میں دفتروں میں ، پولیس تھانوں میں ،اور زندگی کے مختلف شعبوں میں بغیر رشوت کے کام نہیں ہوتا، پیسہ کے ذریعہ ہر مجرم کو بری کرایا جاسکتا ہے، اور ہر شریف انسان کو پھنسایا جاسکتا ہے، ہر طرح کا غلط فیصلہ کیا جاسکتا ہے ،ہر جگہ فساد کرایا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ ملک کے راز بھی بیچے جاسکتے ہیں، دوائوں اور غذائوں میں ملاوٹ ہورہی ہے، طبی امدا ملنا مشکل ہوگیا ہے، سنگدلی اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے، ایسی صورت میں ملک تنزلی کی طرف بڑھ رہا ہے، لوگ زندگی سے عاجز ہیں ،اور افسوس اور شرم کی بات ہے کہ لوگ انگریزوں کے دور غلامی کو یاد کررہے ہیں، یہ تینوں چیزیں فوری توجہ کی مستحق ہیں اور انہی کی بنیاد پر مستحکم اور دیرپا حکومت قائم ہوسکتی ہے ۔
حضرت مولانا نے اس وقت کے وزیر اعظم چندرشیکھر کو ایک خط لکھا اوران کی توجہ ایسی باتوں کی طرف دلائی اور کہا !
’’انسانی، اخلاقی اور سچی حب الوطنی کی بنیاد پر عوام سے تعلقات بڑھائے جائیں ،جس میں فرقہ وارانہ رواداری، احترام انسانیت اور بقائے باہم کی اپیل کی جائے ،اور نصابی کتابوں سے زہرناک مواد نکالا جائے تاکہ نوجوان نسل کا ذہن صاف ہوسکے ،ہندوستانی پریس (پرنٹ میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا)خبریں دینے اور تبصرہ کرنے میں اکثر غیر ذمہ دارانہ روش اختیار کرتے ہیں، اور ان کی وجہ سے پبلک کا ذہن متاثر بلکہ مشتعل ہوتا ہے ،اور بجائے قرب واعتماد حاصل ہونے کے نفرت وحقارت اور انتقامی جذبہ پیدا ہوتا ہے، وہ رائی کا پربت بناتے ہیں، اور واقعہ کی یکطرفہ تصویر دکھاتے ہیں ،جب تک پریس اور ذرائع ابلاغ پر قابو نہیں پایا جائے گا، اور ان کا صحیح استعمال نہیں ہوگا ملک کی آبادی کے مختلف عناصر کی یہ دوری اور ایک دوسرے کے خلاف بداندیشی اور بدگمانی دور نہیں ہوگی ،پولیس کی اخلاقی وانسانی تربیت ہونی چاہیے، ان میں خدمت واعانت وہمدردی کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے اور پولیس کو ایک ایسے شریفانہ ادارہ وہمدرد انسان اپنے ہم وطنوں کے خادم کی شکل میں تبدیل کردینے کی کوشش کرنا چاہیے ،تاکہ لوگوں کا ان کے بارے میں تصور بدلے، اور وہ ان کو اپنا محافظ ومعاون سمجھیں ان کے ہوتے ہوئے کوئی کسی پر ظلم وزیادتی نہ کرسکے ‘‘۔
حضرت مولانا نے اپنی ایک تقریر میںکہا !
’’ ملک کی تین چولیں اگر بیٹھ جائیں تو ملک باقی رہے گا اور وہ تین چولیں ہیں ایجوکیشن ،پولیس،اور پریس یہ تینوں چیزیں ایسی ہیں اگر یہ درست ہوجائیں تو پھر کوئی بڑا خطرہ نہیں، آدمی پڑھ کر نکلے تو روشنی کا سبق پڑھ کر نکلے، انسان کی عزت کا سبق پڑھ کر نکلے، اور اس کے بعد پولیس جس میں خدمت کا جذبہ ہو ،تعاون کا جذبہ ہو ،پریس جو حکومت کو عوام کے مسائل سے آگاہ کرے اور عوام تک صحیح خبریں پہنچائے‘‘۔
حضرت مولانا نے یہ بات بھی بڑی قوت سے کہی اور ہر جگہ کہی کہ یہ ملک صرف تین چیزوں پر باقی رہ سکتا ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ اس ملک کی بنیاد تین چیزوں پر ہے اور جب تک وہ تین چیزیں رہیں گی ہندوستان آزاد رہے گا ،پرامن رہے گا،خوشحال رہے گا،اور محبت کا گہوارہ رہے گا،ایک سیکولرزم،(SECULARSM ) ڈیموکریسی(DEMOCRACY) اور نان ویولینس ( NON.VIOLENCE) یہ تین چیزیں ملک کے بقاء کے لیے ہیں، یہ رہیں گی ملک رہے گا، سب سن لیں کہ اس ملک میں ھندو بھی رہیں گے مسلم بھی ،جینی بھی رہیں گے اور بدھسٹ بھی،سکھ بھی رہیں گے اورعیسائی بھی ،یہ ملک اسی طرح رہے گا ،یہ ملک سیکولر ہے ،تاریخ کو الٹا سفر نہ کرایئے ،تاریخ کو الٹا سفر کرانا بڑی غلطی ہے ، تاریخ کو آگے بڑھائیے‘‘ ۔ حضرت مولانا نے انتقال سے کچھ وقت پہلے پیام انسانیت کے ایک اہم اجلاس سے جس میں فوج کے اعلی افسران ،سابق وزراء ،اور ایم ایل اے اور غیر مسلم حضرات موجود تھے بڑے درد اور قوت سے یہ بات کہی !
’’ اس وقت ملک کے سامنے سب سے بڑا خطرہ نہ جنگ کا ہے نہ کسی بیرونی طاقت کے حملہ کا ،اگر کوئی بڑا خطرہ ہے تو و ہ انسان سے انسان کی نفرت کا ہے ،اس کے پھیلانے اور اس کو روکنے کے لیے محدود سے محدود کوشش بھی اثر انداز ہوسکتی ہے جیسے کسی صاف وشفاف پانی میں ایک چٹکی بھر نمک یا ایک چٹکی شکر ڈال دی جائے تو پورے پانی کا مزہ بدل جاتا ہے‘‘ ۔
حضرت مولانا نے یہ بات صراحت سے کہی!
ہم کسی پارٹی یا اقتدار کی حمایت یا مخالفت کے جذبہ سے یکسر آزاد ہوکر اور بغیر کسی جانبداری کے ان حقائق کی طرف روشنی ڈالتے ہیں کہ اہل ملک کی جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ ،سکون کااور فضا کے اعتدال کا ہر قیمت پر باقی وقائم رہنا ضروری ہے، اور اگر اس ملک میں مذہبی اقلیتیں پائی جاتی ہیں تو ان کے مذہب ،معابد،عائلی قانون،اور اگر کسی اقلیت کو اپنی زبان عزیز ہے اور اس میں اس کا مذہبی وثقافتی سرمایہ ہے تو اس کا اور اس کے رسم الخط کا تحفظ ضروری ہے، اس لیے کہ ایک بڑے سیاسی مبصر کے بقول : تحفظ ہی کافی نہیں تحفظ کا احساس اور اطمئنان بھی ضروری ہے‘‘ ۔
اسی کے ساتھ حضرت مولانا نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی!
نفرت پھیلانے والی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے، اور ان کو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا موقع نہ دیا جائے ، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا یہ عظیم اور قابل فخرملک سیاسی شعور اور بالغ نظری کے لحاظ سے ابھی طفولیت کے دور میں ہے، اس لیے ایک عرصہ تک مذہبی جلوسوں اور ان کے نعروں پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے، کہ وہی اکثر فرقہ وارانہ فسادات کا باعث ہوتے ہیں ،اور منافرت کی فضااور اکثر تصادم کے مواقع پیدا کرتے ہیں اس لیے ان پر کلیۃ پابندی عائد کرنے یا ان کی نقل وحرکت کو محدود وپابند کرنے کی ضرورت ہے ‘‘۔
موجودہ نظام تعلیم کی خرابیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں !
’’آج حال یہ ہے کہ جتنا پڑھا لکھا انسان ہے، اتنا ہی وہ دڑنے کے قابل ہے ،آج پوری دنیا میں پڑھے لکھے بھیڑیوں کا راج ہے، ایسے بھیڑیوں کا جو دوسرے کے جسموں سے کپڑے اتارلیتے ہیں، تاکہ اپنی دیوار کو پہنائیں، جو دوسروں کے بچوں کے آگے سے کھانا ا س لیے کھینچ لیتے ہیں کہ ان کے کتوں کا پیٹ بھرسکے ،بددیانتی،خودغرضی، مطلب پرستی،نفس پرستی،پر آج کے پورے نظام تعلیم کی بنیاد ہے ‘‘۔
۱۹۶۳ء میں رانچی ،جمشیدپور،راوڑکیلہ کے ہولناک فسادات کے بعد حضرت مولانا نے ملک کے اکثریتی فرقہ کے مذہبی پیشوائوں ،سیاسی رہنمائوں،اور ہندوستان کے ممتاز دانشوروں کے نام ایک مفصل خط لکھا جس میں یہ بات بھی صراحت سے لکھی !
’’بڑے درداور شرمندگی کے ساتھ لکھنا پڑرہاہے کہ ہمارا ملک بھی جو قدیم زمانہ سے عدم تشدد ،انسانیت دوستی ،اور شرافت کے لیے مشہور تھا ،اور جس کے محبت (پریم)کے گیت دوسرے ملکوں میں سنے اور پسند کیے جاتے تھے، اس وقت تشدد اور جارحیت نہیں ،حیوانیت ،درندگی،خوں آشامی،اور خوں خواری کی لپیٹ میں آگیا ہے، اور اس وقت اس کی ایک ایسی تیز لہر ملک کے متعدد حصوں اور علاقوں میں چل رہی ہے، جو کسی طوفان یا سائکلون سے کم نہیں کہی جاسکتی ،اس فرقہ واریت کے ننگے ناچ کا جو جنون دیکھنے میں آیا، اس کے تصور سے بھی کانپ اٹھتا ہوں، درندے بھی ایسی وحشیانہ حرکتیں نہ کرتے ہونگے، جو انسانوں نے انسانوں کے ساتھ کی ہیں، وحشیت وبربریت کے ایسے واقعات پیش آئے کہ ان کے سننے کے لیے بھی پتھر کا دل چاہیے ‘‘۔
دانشور اور مذہبی پیشوائوں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے لکھتے ہیں !
’’جب کسی دور میں اخلاقی گراوٹ کا ایسا دورہ پڑتا ہے تو اس وقت دو طبقے میدان میں آتے ہیں ،ایک مذہبی پیشوائوں کا طبقہ ،دوسرا دانشوروں کا طبقہ، اس وقت بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی پیشوا اور مذہبی انسان اور دانشور میدان میں آئیں ،وہی اس وقت معاشرہ کو بچاسکتے ہیں ،یہ ایک تاریخی حقیقت ہے ،اور تجربہ ہے کہ فساد کی یہ لہر اور قتل وبدامنی کا یہ طوفان پھر ان عبادت گاہوں اور مطالعہ وتصنیف اور سیاست وصحافت کے ان حصاروں اور قلعوں کو بھی نہیں چھوڑتا ‘‘۔