فاروق ارگلی
یہ سچ ہے کہ مسلمان یہاں وسط ایشیائی ملکوں سے حملہ آور اور فاتح بن کر آئے لیکن اس دھرتی کی آغوش میں اس طرح بندھے کہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان کی ہی ان کا وطن بن گیا۔ عربی، ترکی، ایرانی، تورانی مسلمانوں نے صدیوں پرانی بھارتیہ تہذیب، معاشرت، دھرم کرم، دیوی دیوتا، ریتی رواج ہرچیز سے محبت کی، ان کا مذہب توحید تھا لیکن وہ ہزاروں دیوی دیوتاؤں کی پرستش کرنے والوں کے قریب گئے، اتنے قریب کہ اس قربت نے نئی زبان، نئی تہذیب اور نئے طرزِ حیات کو جنم دیا۔ وہی طرزِ حیات جو آج کے ترقی یافتہ ہندوستان کا طرۂ امتیاز ہے،عالمی شناخت ہے اور اس شناخت کی آواز کا نام اُردو زبان ہے۔
گزشتہ ایک ہزار سالہ ہندوستانی تاریخ میں لاتعداد صوفیائے کرام، سادھو سنتوں اور اہل علم و دانش کے کارنامے ہندو مسلم تہذیبوں کے اختلاط کی گواہی دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں ہندوستان اور ہندو قوم سے والہانہ محبت کرنے والے حضرت امیرخسرو سب سے زیادہ نمایاں ہیں جنھوں نے بھارت کے ہندوؤں سے اس طرح محبت کی کہ: ’’بخالِ ہندواں بخشم سمرقند و بخارا را‘‘ کی عملی تفسیر بن گئے۔ انھوں نے ہندوؤں کی خوبیوں کو پسند کیا تو خامیوں میں بھی خوبیاں تلاش کیں۔ ان کی عالمگیر فارسی اور ہندوی شاعری میں ڈھل کر ہندوستان اور ہندو قوم کی عظمت جگ ظاہر ہوئی۔ خسرو کا ہندوستان سے یہ لگاؤ مشترکہ تمدن کے فروغ کا اہم وسیلہ بنا جس پر یہ سرزمین بجا طور پر ناز کرتی ہے۔
اُردو اور ہندی کی لسانی تاریخ میں بھکتی تحریک کے سادھو سنتوں اور صوفیوں کی تخلیقی خدمات بیحد اہمیت کی حامل ہے۔ اسی بھکتی تحریک کی شاخ پریم مارگ ہے جس میں رام اور کرشن بھکتوں کی جلوہ کاریاں ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کو پروان چڑھانے میں بہت نمایاں ہوئیں۔ اجودھیا کے راجہ مریادا پروشوتم رام اور گوکل کے کنہیا، دوارکا کے مہاراج اور مہابھارت کے سرخیل کرشن جی آریہ ورت کی تقریباً چار ہزار سالہ تاریخ کے ہر دور میں ہندوؤں کی عقیدت و پرستش کا مرکز رہے ہیں۔ بھکتی تحریک کے عظیم سنتوں نے ادویت واد یا وحدۃ الوجود کے فلسفے کو فروغ دیا تو ویشنومت کے احیاء کے لیے رام اور کرشن بھکتی کا آغاز ہوا۔ یہی پریم مارگ تھا، اس راہ میں کرشن جی کی ہمہ صفات ماورائی شخصیت عشق و محبت کی علامت بن گئی، وہ عشقِ حقیقی جو فانی انسان کو روحانی منزل تک پہنچاتا ہے۔ کرشن جی کی داستان اس قدر رنگین اور دلپذیر ہے کہ انھیں پریم اور عشق کا مظہر مانا گیا۔ کرشن بھکت شاعروں نے کرشن جی کی پریم لیلاؤں کو اپنے کلام میں روشن کردیا۔ یہ تحریک یا رواج ایسے دور میں عروج پذیر ہوتا ہے جب ملک میں مغلیہ سلطنت کا آزاد ماحول ہے، ہندوؤں اور مسلمانوں کے تہذیبی رشتے اتنے نزدیکی ہیں کہ کرشن جی کی سحرکار شخصیت اہلِ دل مسلمان صوفیوں اور شاعروں کے لیے بھی اتنی ہی پرکشش ہوجاتی ہے جتنی ہندو بھکتوں کے لیے، انھیں روحانیت کے جلوے دِکھائی دینے لگتے ہیں۔ کرشن جی سے عشق کرنے والوں میں اس عہد کے صوفی شاعر شاہ برہان الدین جانم اور گجرات کے برگزیدہ بزرگ قاضی محمود دریائی اور ان کے بعد اٹھارہویں صدی کے حضرت تراب شاہ چشتی اور ولی دکنی اور نظیراکبرآبادی سے لے کر عہد حاضر تک اُردو شاعری میں بھی کرشن جی عشق و محبت کا خوبصورت استعارہ ہیں۔
شاہ برہان الدین جانم نے 16ویں صدی عیسوی میں اپنی تخلیقات ’ارشادنامہ‘ جس کا موضوع صوفیانہ تھا اور ’سُکھ سہیلا‘ جو ان کے دوہوں پر مشتمل ہے، میں سری کرشن کے بارے میں ان تصورات کو بیان کیا ہے جو وہ اپنے ہم وطنوں سے سنتے رہے ہوں گے۔ ان کی عظمت اور مقبولیت واضح کرنے کے لیے انھوں نے فخر کے ساتھ بیان کیا کہ کرشن تو وہ ہیں جن کی سولہ ہزار گوپیاں ہیں:
عبال برم تو اچاری ہے، سولہ سہس ناری ہے
ع سولہ سہے گوپیاں کا کانہا بال برم چاری
حضرت محمود دریائی کرشن بھکت شاعر تھے،انھوں نے ہندی شاعری کے اسلوب کے مطابق خود کو دولہن اور خدا کو د•ولہا قرار دیا۔ اس پر لوگوں نے اعتراض کیا تو فرمایا:
آؤجی میرے لاڈ کھیلے ہو کنٹھ لاگو وبھاؤ
باندھا جوڑا سر سے جھوٹا تب ہُورنگ نہ پاؤ
(وہ میرے ساتھ پیار کا کھیل کھیلتے ہیں، گلے لگتے ہیں، ان کے سر پر بندھا جوڑا کھل جاتا ہے تب بھی ان کا رنگ (راز) نہیں کھلتا)
مسلم بزرگوں میں کرشن جی کی جاذبیت کے حوالے سے یہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ کرشن جی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔مصر پر فرعون کی حکومت تھی جو خدا ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور رعایا سے اپنی پرستش کراتا تھا، فرعون کو کاہنوں اور منجموں نے بتایا کہ فلاں ساعت میں بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو اس کی خدائی کا خاتمہ کردے گا۔ فرعون نے ہر اس بچے کو قتل کرادیا جو اس روز پیدا ہوا، حضرت موسیٰ کی ماں نے اپنے نوزائیدہ بچے کو کسی طرح چھپا کر پالنے میں رکھا اور دریائے نیل میں بہادیا۔ پالنا فرعون کی اہلیہ نیک بخت آسیہ کے ہاتھ لگا جنھوں نے حضرت موسیٰ کی پرورش کی۔ بڑے ہوکر انہی کے ہاتھوں فرعون کی خدائی کو اللہ تعالیٰ نے نیل میں غرق کردیا۔ اسی طرح کرشن جی کی داستان یہ ہے کہ متھرا کا راجہ کنس خود کو خدا کہتا تھا۔ جیوتشیوں نے اسے بتایا کہ اس کی ہمشیرہ دیوکی کا آٹھواں پتر اس کی موت کا سبب بنے گا تو اس نے اپنی بہن دیوکی اور بہنوئی بسودیو کو قیدخانے میں نظربند کردیا۔ جب بھی ان کے یہاں ولادت ہوتی کنس بچے کو مارڈالتا، لیکن اس رات کو جب آٹھویں اولاد کرشن جی پیدا ہوئے تو زنجیریں کھل گئیں، قید خانے کے دروازے وا ہوگئے، کرشن جی کے والد بچے کو لے کر راتوں رات اپنے دوست نند کے پاس جمناپار گوکل جاکر بچہ ان کے سپرد کرنے کے ارادے سے نکلے۔جمنا میں طغیانی آئی ہوئی تھی لیکن کرشن جی کی برکت سے جمنا پایاب ہوگئی۔ نند اور ان کی بیوی یشودا نے بچے کو پیار سے گلے لگایا اور اپنی نوزائیدہ بچی بسودیو کے حوالہ کردی۔ خیال یہ تھا کہ لڑکی ہونے کی وجہ سے کنس خاموش ہوجائے گا۔ بسودیو بچی کو لے کر راتوں رات قیدخانے میں لوٹ آئے۔ پہرے داروں تک کو کچھ خبر نہ ہوئی۔ صبح کو جب کنس کو ولادت کی خبر ہوئی تو اس نے اس بچی کو مارکر بہت خوشی منائی کہ بالآخر اس کی موت ٹل گئی۔ لیکن کرشن جی گوکل میں نند کے لال کی صورت میں پل کر بڑے ہوئے اور ایک دن انھوں نے کنس کی خدائی کو ختم کردیا۔
کرشن جی کے عشق و عقیدت میں سرشار مسلم شعراء میں متعدد تاریخ ساز نام شامل ہیں لیکن 16ویں صدی عیسوی کی نامور شخصیت رس خان (رسکھان) کو اس لیے خاص اہمیت حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے محبوب و ممدوح سری کرشن کے حوالے سے برج بھاشا میں ایسی شعری تخلیقات پیش کیں جو ہندی زبان و ادب کا گرانقدر سرمایہ ہونے کے ساتھ ساتھ مشترکہ تہذیب اور اُردو زبان کے ارتقائی عمل کو آگے بڑھانے میں بہت مددگار ثابت ہوئیں۔ اس عہد میں مسلمان شعراء نے ہندو دھرم، ثقافت اور ہندی شاعری کو ایسے لازوال تحفے دیئے جن کی قدروقیمت کا اعتراف ہندی کے عظیم شاعر بھارتیندو ہریش چندر (1907-1941) نے اس طرح کیا ہے:
علی کھان پٹھان سُتاسہ برج سنوارے
سیکھ نبی رسکھان، میرا حمد پیارے
نرمل داس کبیر، تاج کھاں بیگم باری
تان سین، کرشن داس بیجا پور نرپتی دلاری
پیر جادی بی بی راستو پدرج نت سِردھاریے
ان مسلمان ہریجن پر کوٹن ہندو واریے
(علی خاں، شیخ نبی (صاحب گیان دلیپ چند سنگرہ)، رسکھان، پیارے میراحمد نے برج کی شان بڑھائی۔ کبیرداس (شیخ کبیرالدین) بیگم تاج خاں، تان سین، بیجاپور کا مسلم سلطان جو خود کو کرشن داس کہتا تھا، پیرزادی بی بی کے راستے میں قدموں کی دھول کو سرپر رکھیے، ان مسلمان خدا کے بندوں پر کروڑوں ہندو نثار کیے جاسکتے ہیں)
مہاکوی بھارتیندو ہریش چندر کے ان الفاظ کا مفہوم شاید ہمارے عہد کے ان دماغوں کی سمجھ میں نہ آئے جو انگریزوں کی غلامی کی علامت خاکی نیکر پہنے ہندو سنسکرتی کے علمبردار بنے پھرتے ہیں اور سیاسی بالادستی کی مجنونانہ خواہش میں اس کبھی نہ مٹنے والی سچائی کو بھول چکے ہیں یا بھلا دینا چاہتے ہیں کہ یہ سرزمین ہندوؤں اور مسلمانوں کی وہ سانجھی وراثت ہے جسے کوئی ان سے چھین نہیں سکتا۔
کرشن بھکتی کے سب سے بڑے مسلم شاعر رسکھان کا اصل نام یا عرف رس خان تھا لیکن ہندی تلفظ میں وہ رسکھان کے نام سے لافانی شہرت کے مالک بنے۔ رس خان کے سوانحی حالات اس عہد کے تذکروں میں باقاعدگی سے قلمبند نہیں کیے گئے، ان کے بارے میں چند مروّج روایات سے ہی پتہ چلتا ہے یا پھر ہندی ادبیات کے محققین نے ان کے کلام میں موجود اشاروں سے کچھ باتیں اخذ کی ہیں جن کے مطابق رس خان کا تعلق دہلی کے ایک معزز پٹھان خاندان سے تھا جس کا شمار طبقۂ اُمرا میں تھا۔ اس وقت تک شاہجہاں آباد (آج کی پرانی دلّی) آباد نہیں ہوئی تھی اس لیے وہ یقینا مہرولی یا تغلق آباد یا مبارک پور کے رہنے والے ہوں گے۔ رس خان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا نام سید ابراہیم تھا اور رسکھان ان کا تخلص تھا اور وہ پہانی ضلع ہردوئی کے باشندے تھے، لیکن ہندی محققین اس سے انکار کرتے ہیں اور انھیں دہلی کے ہی ایک پٹھان خاندان کا فرد تسلیم کرتے ہیں۔رس خان کے کرشن پریم کے بارے میں مختلف روایات ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ انھیں ایک ساہوکار کے بیٹے سے محبت ہوگئی تھی۔ رس خان اس طفل پری زاد پر اس درجہ فریفتہ ہوئے کہ اسے دیکھے بغیر قرار نہ آتا۔ وہ اپنے محبوب کا جھوٹا کھاتے پیتے، دُنیا کی بدنامی و رسوائی کی انھیں کوئی پرواہ نہیں تھی۔ ایک دن کسی ویشنو سادھو نے ان سے کہا ’’تم اس چھوکرے پر جس طرح عاشق ہو، اگر اتنی محبت پربھو میں لگاتے تو تمھارا کلیان ہوجاتا۔‘‘ یہ کہہ کر سادھو نے کرشن جی کی تصویر انھیں دِکھائی جسے دیکھتے ہی ان کا دل ساہوکار کے لڑکے سے متنفر ہوگیا اور وہ کرشن کی من موہنی شبیہ پر عاشق ہوکر برندابن روانہ ہوگئے۔ ہندی کے معروف دانشور ڈاکٹر شیام سندر داس کے مطابق اس روایت کی بنیاد ’چوراسی شیو اور دو سو باون ویشنو کے مکالمات‘ کا مجموعہ ہے۔
دوسری روایت کے مطابق رس خان ایک خوبصورت عورت موہنی پر عاشق تھے جو بہت مغرور تھی اور ان کی محبت کے جواب میں ان کی توہین کیا کرتی تھی۔ ایک دن جب رس خان شریمد بھاگوت کا مطالعہ کررہے تھے، کرشن جی پر گوپیوں کی دیوانہ وار محبت کی برسات دیکھکر ان کا دل اس مغرور محبوبہ سے پھر گیا اور کرشن لیلا کی سرزمین برج کے علاقے میں چلے گئے اور کرشن کی مدح کے گیت گانے لگے۔ اس ضمن میں ایک اور کہانی بھی ہے جس کے مطابق ان کی اس مغرور محبوبہ نے ان کی اپنے تئیں دیوانگی دیکھ کر طعنہ دیا تھا کہ جتنی محبت تم مجھ سے کرتے ہو ویسی ہی محبت پریم دیوتا کرشن سے کرتے تو تمھاری زندگی سنور جاتی۔ بات دل کو لگ گئی اور وہ موہنی کے موہ جال کو توڑ کر منموہن (کرشن جی) کے عشق میں ڈوب گئے۔
رس خان کے بارے میں روایات کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ حج بیت اللہ کے ارادے سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ وطن سے نکلے تھے، راستے میں برنداون آتے ہی ان کا دل وہاں لگ گیا۔ حج کا ارادہ چھوڑ کر وہیں رہنے لگے، ممکن ہے کچھ چغلی کرنے والوں نے اس کی شکایت بادشاہ یا ان کے بڑوں سے کی ہو، جس کا اشارہ ان کے ایک دوہے میں ملتا ہے کہ ’’جب ماکھن چاکھن ہار راکھن ہار ہوں تو کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘‘ ہندی محققین کے مطابق ان کی آخری تخلیق ’پریم واٹیکا‘ 1614ء کی ہے۔ اس کے دو سال بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس طرح ان کی وفات 1618ء میں ہوئی۔ بہرحال رس خان کی شاعری ہندی زبان کا انمول رتن بن گئی۔ دہلی سے ساری دُنیا داری چھوڑ کر برانداون آنے کے بعد اپنے محبوب کرشن سے والہانہ محبت کا آبشار ان کے کلام کی صورت میں بہنے لگا۔ وہ اپنے مطلوب کی ’’لکٹی کمریا‘‘ (لاٹھی اور کمبلی) پر ساری دُنیا کی حکومت کو ٹھوکر مارنے کو تیار ہیں۔ نند کی گائیں چَرانے کا موقع ملے تو ساری کائنات کا سکھ ان کے آگے کچھ نہیں، اگر آنکھوں کو برندابن کے جنگل اور باغوں کو دیکھنے کا موقع مل جائے تو کیکر کی ان جھاڑیوں پر سونے کے کروڑوں محل صدقے کیے جاسکتے ہیں۔ ان کے تصورات میں کرشن جی کی محبوبہ رادھا کا حسن و جمال، گوپیوں کی نندلال کرشن کنہیا کے لیے دیوانگی، کانہا کی بانسری کی روح پرورتانیں اس طرح گھر کرلیتی ہیں کہ ان کے لیے کرشن کے سوا دُنیا میں کچھ باقی نہیں رہتا، اس کیفیت کا اظہار ان کی خوبصورت چھندوں، سویّوں، گیتوں اور دوہوں میں ہوتا ہے تو اہل دل اور اہل علم حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ رس خان کی دو کتابیں ’رسکھان سجان‘ اور ’پریم واٹیکا‘ میں کرشن جی کی راس لیلائیں، رادھا کا حسن و جمال، شوخیاں، معشوقانہ نازوادا، روٹھنا منانا، ہم آغوشی، گوپیوں کے حسن و شباب کی رنگینیاں اور اس خوابناک دنیا کی ساری سرمستیاں نغمات کے پیکر میں حسن و عشق کی لافانی تصویر میں بدل جاتی ہیں۔ یہی رس خان کا شعری کمال ہے۔ نامور ہندی دانشور ڈاکٹر شیام سندر داس رس خان کی تخلیق ’سجان رسکھان‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’سجان رسکھان‘ میں کرشن جی کے بچپن کی معصوم شرارتیں، گائے چَرانے، گوپیوں کے کپڑے چُرانے، راس لیلا، پنگھٹ لیلا وغیرہ کے سویّوں میں کرشن لیلا کا روایتی حسن ہی نہیں بلکہ شاعر کے کرشن پریم کا امرت جھلکتا ہے۔‘‘ (رسکھان، مطبوعہ ساہتیہ اکادمی)
رسکھان اس کوّے کی تقدیر سے رشک کرتے ہیں جو دھول بھرے بچے کرشن کے ہاتھ سے مکھن لگی روٹی کا ٹکڑا اُچک لے جاتا ہے۔ گائیں چَراتے ہوئے برج کا گوالا بنسی کی جو تان چھیڑتا ہے اس میں جادو کا سا اثر ہے جس کو سننے والے سدھ بدھ کھو دیتے ہیں۔ شاعر نے رادھا کے حسن و شباب اور نسوانی خوبیوں کا جو بیان اپنے سویّوں میں کیا ہے وہ خود رس خان کا ہی حصہ ہے۔ بسنت کے بے خود کردینے والے موسم میں جب رسکھان نے رادھا کے زرد لباس اور اس کے قیامت خیز حسن کی جو منظرکشی کی ہے وہ ہندوستانی جمالیات کا ایک اہم مرقع ہے۔
(جاری)
کرشن جی کی کہانی میں بانسری یا بنسی کی بہت اہمیت ہے۔ ’سجان رسکھان‘ میں رس خان نے کرشن کنہیا کی مرلی کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ایسا جادوئی اثر رکھتی ہے جس کے کانوں پر پڑتے ہی لوگ سدھ بدھ کھو بیٹھتے ہیں، کرشن جی کی مرلی کی تان سن کر گوکل کی پنہاریاں پانی بھرنا بھول جاتی ہیں، کوئی ٹھنڈی سانسیں بھرنے لگتی ہے، کوئی لوٹ پوٹ ہوجاتی ہے۔ بنسی کی تان سن کر وہ کسی کام کی نہیں رہتیں تو انھیں بانسری سے چڑھ ہوجاتی ہے اور کہنے لگتی ہیں:
’’کریے اُپائے، بانس ڈاریے کٹائے
نہیں بچے گا بانس، نہ بجے کی بانسری‘‘
گوکل کی ناریوں کو کرشن جی کی بانسری سوتن کی طرح لگتی ہے جو ان کا سارا وچین آرام لوٹ لیتی ہے، لیکن یہ اس منموہنی بنسی کا جادو ہے کہ لوک لاج اور شرم و حیا کا کوئی خیال باقی نہیں رہتا اور تمام حسینائیں یشودا کے چھورے کے عشق میں باؤلی ہوجاتی ہیں۔ رس خان کے شاعرانہ کمال کی یہ انتہا ہے کہ انھوں نے اپنے کلام میں کرشن لیلا کے تمام رنگ سمودیئے ہیں۔ ہندی ادب اور ہندوستانی روحانیات میں کرشن بھگتی کی شاعری کا تعلق عشق مجازی کے پردے میں عشق حقیقی سے ہے۔ بقول پروفیسر محمد حسن: ’’کرشن بھکتی کی شاعری نے ہندی ادب اور فکر میں نئے چشمے جاری کیے ہیں۔ انھوں نے کرشن اور رادھا کی کہانی کو صرف ایک رومان نہیں بتایا، اسے فلسفیانہ اور متصوفانہ معنی دے کر کرشن جی گویا ساری سماوی اور ماورائی طاقت کا مظہر قرار دیئے گئے ہیں۔ وہ روحِ اعلیٰ جو مادّیت سے جدا ہے، رادھا اور ساری گوپیاں اسی روح کے اجسام قرار پائیں گے۔‘‘ (ہندی ادب کی تاریخ)
رس خان ، رسکھان یا شاعری کے رس کی کھان کرشن جی سے عشق ایک فلسفیانہ، متصوفانہ اور روحانی شغل قرار دیا جاسکتا ہے۔ کرشن ان کے مرکز عقیدت ہیں:
مانس ہوں تو وہی رسکھان بسوں سنگ گوکل کے گوارن
جوپسو ہوں تو کہا بسو میرونت نند کی دھینو منجھارن
پاہن ہوں تو گری کو جو دھریو کو چھتر پرندر دھارن
جو کھگ ہوں تو بسرو کروں ملی کالندی کل کندمب کی ڈارن
(اگر انسان ہوں تو اے رسکھان گوکل کے گوالوں کے ساتھ رہوں، جو جانور بنوں تو نند کی گائیوں کے ساتھ چرتا پھروں، پتھر ہوں تو اس پہاڑ کی چٹان بنوں جس کے سائے میں کرشن جی بیٹھے تھے، اگر پرندہ بنوں تو میرا آشیانہ جمنا کے کنارے پانی پر جھکی کدم کی شاخ پر ہو)
رس خان بنیادی طور پر عشق کے شاعر ہیں۔ بقول پروفیسر محمد حسن ’’رسکھان کا مزاج عاشقانہ ہے اور ان کے کلام میں ہر جگہ مستی اور رنگینی ملتی ہے۔ رادھا اور کشن کی داستانِ محبت عشق کا وسیع المعنی استعارہ ہے، اپنی کتاب ’پریم واٹیکا‘ (گلشنِ عشق) کی صورت میں عشق کی تفسیر کے رنگارنگ پھول کھلائے ہیں۔ رس خان کہتے ہیں:
پریم اَینی شری رادھیکا پریم برن نند نند
پریم واٹیکا کے دوؤ مالی مالن دؤند
(کرشن جی کے عشق کے نشے میں سرتاپا سرشار رادھا اور محبوب کرشن گلشنِ عشق کے دو مالی ہیں)
پریم اگم انوپم امت ساگر سرس بکھان
جو آوت یہی ڈھگ بہوری جات ناہیں رسکھا
(عشق وہ دریائے ناپیداکنار ہے، جو اس کے نزدیک جاتا ہے، اسی میں ڈوب جاتا ہے اور کبھی باہر نہیں آتا)
پریم برونی چھان کے برون بھئے جل دھیس
پرہمہی سے وِش پان کرے پجے جات گریس
(عشق کی شراب پی کر ورُن (بارش کے دیوتا)دیوتا بن گئے، عشق کے بل پر زہر پینے والے شیو کی اسی لیے پوجا کی جاتی ہے)
کمل تنتو سے ہین ارو کٹھن کھڑگ کی دھار
اتی سدھو ، ٹیرھو بہُر پریم پنتھ انی وار
(عشق کمل کی پنکھڑی کی طرح نرم مگر تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے۔ مسلکِ عشق سیدھا بھی ہے اور ٹیڑھا بھی لیکن سالک کے لیے یہ راستہ ناگزیرہے)
آنند انوبھوہوت ناہیں بنا پریم جگ جان
کے وہ وشیانند ہو یا برہمانند بکھان
(بغیر عشق کے کیف و انبساط کا احساس ناممکن ہے، خواہ وہ عشقِ مجازی ہو یا عشقِ حقیقی، یعنی لذاتِ دُنیوی ہوں یا روحانی دونوں کی اساس عشق ہے)
بِن گن جوبن، روپ، دھن سواستھ ہت جان
سُدّھ کامنا تے رہِت پریم سکل رسکھا
(حسن، علم و ہنر، شباب، دھن دولت اور خواہشات سے عشق بالاتر ہے، دنیوی اور مادّی خیالات اس پر اثرانداز نہیں ہوسکتے)
دمپتی سکھ ارووشے رس، پوجا نشٹھا دھیان
ان سے پرے بکھانیے سُدّھ پریم رسکھا
(شادی شدہ زندگی میں جنسی تلذذ عبادت اور ریاضت ان سب سے عشقِ حقیقی یکسر جداگانہ ہے یعنی بیوی، احباب، اقارب، اولاد وغیرہ سے محبت فطری ہے، لیکن عشقِ حقیقی کا معاملہ کچھ اور ہے۔ عشق حقیقی اسے کہتے ہیں کہ عاشق معشوق کو جزو میں نہیں بلکہ کل میں دیکھے)
پریم پریم سب کوؤ کہیں، کٹھن پریم کی پھانس
پران ترپھ ِنکرے نہیں کیول چلت اُسانس
(یہاں رس خان کہتے ہیں کہ عاشق ہمیشہ اپنے محبوب سے خوفزدہ رہتا ہے، عشق کی یہ پھانس بڑی تکلیف دہ ہے۔ سانس گھٹتی رہتی ہے، روح چھٹپٹاتی ہے لیکن تن سے نہیں نکلتی)
پریم ہری کا روپ ہے، تیوں ہری پریم سروپ
ایک ہوئی دُوَئے یوں جیوں سوراج اور دھوپ
(عشق ہی خدا کی صورت ہے، خدا ہی عشق ہے، یہ دونوں سورج اور دھوپ کی طرح ایک ہیں)
کوؤ یاہی پھانسی کہت، کوؤ کہت تروار
نیجا ، بھالا، تیر کوؤ کہت انوکھی ڈھار
(عشق کو کوئی پھانسی کا نام دیتا ہے، کوئی اسے تلوار کہتا ہے تو کوئی اسے نیزہ، بھالا، تیر اور ڈھال قرار دیتا ہے، لیکن اس کے زخم کی مٹھاس روئیں روئیں میں سماجاتی ہے اور مرتے ہوئے کو زندگی اور لڑکھڑانے والوں کو سنبھالا دیتی ہے)
عشق کی مختلف کیفیات کی یہ تصویر کشی خالص ہندو پس منظر میں کی گئی ہے لیکن رس خان کی یہ توضیحات اسلامی تصوف کے دائروں سے باہر نہیں کہی جاسکتیں۔
رسکھان کے بارے میں ہندی مورخوں اور محققوں کا خیال ہے کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کرکے ہندو ہوگئے تھے۔ اس ضمن میں یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ جب وہ دہلی سے کرشن جی کی محبت میں سرشار ہوکر برندابن پہنچے اور شری جی کے مندر میں درشن کرنے کے لیے مندر میں داخل ہونے لگے تو انھیں غیرہندو سمجھتے ہوئے اندر جانے سے روک دیا گیا۔ رس خان اس پر بہت رنجیدہ ہوئے اور مندر کے دروازے پر تین دن تک بھوکے پیاسے پڑے رہے۔ بالآخر گوسائیں وٹھل ناتھ جی کو خواب میں حکم ملا کہ اعلیٰ ذات کا مسلمان ہونے کے باوجود انھیں اپنا چیلا بنالیں۔ چنانچہ انھیں ولبھ سمپردائے میں دیکشا دی گئی۔ اس واقعے کو 1555ء میں ہواقرار دیا جاتا ہے اور اس وقت ان کی عمر بیس بائیں سال کی تھی، یعنی رس خان عالم شباب میں کرشن جی کی عقیدت میں سرشار ہوئے۔ یہ واقعہ سچ ہے یا محض مفروضہ یہ اکبر کے عہد میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ اس زمانے میں بہت سی دیواریں ٹوٹ چکی تھیں۔ بہت سے مسلمان دانشور اور صوفیاء اس طرح کی شاعری اور بیانات سے اتحاد، یکجہتی اور ہندو مسلم عوام میں ہم آہنگی کا پیغام دے رہے تھے۔ تاریخ میں کسی کرشن بھکت مسلم شاعر کی تبدیلی مذہب کا پتہ نہیں ملتا۔ رس خان کے بارے میں بھی اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کا کلام اس قدر مؤثر اور مقبول ہوا کہ ہندوؤں کی پوجا ارچنا کا حصہ بن گیا اس لیے انھیں ہندو دھرم میں شامل مان لیا گیا۔ ویسے یہ ہندوستان کا مزاج بھی ہے، ملک بھر میں بہت سے فقیروں اور اللہ والے مسلمان بزرگوں کے مزارات ہیں جو ہندوؤں کی عقیدت کا مرکز ہیں،اس کی موجودہ مثال مہاراشٹر کے مسلمان فنا فی اللہ فقیر سائیں بابا ہیں جو اپنی برکت و کرامت کی وجہ سے ایشور کا اوتار سمجھ کر پوجے جارہے ہیں۔
ہندی زبان کے دانشور اور بھکتی ساہتیہ کے مبصروں اور مفسروں کی رائے سے قطع نظر رس خان کے کلام سے یہ اندازہ لگانا اتنا مشکل نہیں کہ وہ صوفیائے کرام کی اس تحریک کے موئید تھے جس میں من و تو کا افتراق باقی نہیں رہتا اور کائنات کے تمام مظاہر میں اسی ذاتِ حق کی جلوہ فرمائی نظر آنے لگتی ہے۔ کرشن جی کو مجسم عشق کی علامت ماننے والوں میں مسلمان صوفیائے کرام کے کئی اہم اسماء ہمیں تاریخ کے اوراق میں ملتے ہیں جن کی دینی، علمی اور روحانی عظمتیں مسلمہ ہیں، رس خان نے کرشن جی کی ماورائی شخصیت میں عشق حقیقی کے جلوے دیکھے، اسی طرح اُن کے بعد لاتعداد اہلِ دل و نگاہ بزرگوں نے ان کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے برگزیدہ بزرگ عارف باللہ حضرت شاہ محمد کاظم قلندر کاکوروی کا شمار اولیائے کبار میں ہوتا ہے۔ آپ اُردو اور ہندی دونوں زبانوں میں اپنے متصوفانہ کلام سے رموزِ سلوک و معرفت بیان فرماتے تھے۔ حضرت قلندرکے عقیدت مندوں میں ہر قوم و ملت کے لوگ شامل تھے اور ہیں۔ آپ کی کتاب ’سانت رس‘ (نغمات الاسرار) رس خان کے دو سو سال بعد ان کی کرشنائی روایت کی واضح توسیع ہے۔حضرت قلند ر نے بھی رس خان کی طرح سری کرشن کی عظمت کے گیت گائے بلکہ ان کی تخلیقات موسیقی کے اصولوں پر مبنی ہیں جنھیں آپ خود بھی بڑے شوق سے گایا کرتے تھے۔ حضرت قلندر کرشن جی کے دوارکا چلے جانے کے بعد گوپیوں کے اپنے کانہا کے ہجر میں بیقرار ہونے کی کیفیت کو اپنی ایک ٹھمری میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:
کہاں گئے برج لال بسیّا
من موہن بنسی کے بجیّا
کہاں چھپی جائے موہنی مورت
سگرے نگر کے من کی چھلیّا
جون کرت رہو کھیل کنجن ما
کونے کنج چھیواے دیّا
چھین چھین مٹکی پھوڑ پھوڑ
برج اجاڑگا برج بسیّا
گوپیاں من موہن کو دیکھ کر سدھ بدھ کھو دیتی ہیں۔ گوپیوں کے احساسات اور محسوسات کو حضرت قلندرؒ اس طرح ظاہر کرتے ہیں:
جائی کے ہم جمنا پچھتانی
آگ لگی ہیّے بھرتے پانی
گھاٹ پہ ٹھار رہو من موہن
چتوت ہی سدھ مور بھلانی
اب تو گیو من ہاتھ سے مورے
موری چتون مورئے مونڈ بسانی
لوگ کہت سب موکو باوری
موہن لکھ کوؤ رہت سیانی
جاکے لاگے سوئی جانے کاظ
کاہو کی پیر کوؤ کب جانی
(بحوالہ صوفیہ کی شعری بصیرت میں سری کرشن، از شمیم طارق)
شاہ محمد کاظم قلندر علیہ الرحمہ کے کلام معجز نظام کا یہ چھوٹا سا نمونہ ہے وگر نہ اس موضوع پر ان کی کثیر تخلیقات مشہور و مقبول ہیں۔ اس جگہ یہ تذکرہ اس تناظر میں کیا گیا ہے کہ رس خان کا تعلق صوفیائے کرام کے فکری سلسلے سے ہی تھا جنھوں نے ہندوستان کی سرزمین پر روحانی بصیرتوں کے چراغ روشن کیے۔ رس خان نے کسی ہندو سمپردائے میں دیکشا لے کر اپنا مشرب نہیں بدلا، البتہ بقول ڈاکٹر شیام سندر داس ’’میاں رسکھان پریم دیو کی چھبی دیکھ کر رس کی کھان بن گئے۔‘‘
بحیثیت مجموعی رس خان کی شاعری اور شخصیت ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کی تعمیر میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان کے کلام میں جابجا مسلم تہذیب اور اُردو زبان کے ابتدائی نقوش برج بھاشا کے پس منظر میں اُبھرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کا یہ بیانیہ دیکھئے جب برنداون کے باغ میں کرشن جی اور رادھا جی شطرنج سے دل بہلا رہے ہیں:
برندابن کنج میں براجیں دوؤ سیاما سیام
سترنج بچھائے باجی رچی ہے بنائے کے
باجی لائی بے سر او بانسری رسال پیاری
ٹھیر ٹھیر چال چلیں پھر جیں بچائے کے
پیل دوؤ اور پیلی کے پیادن سوں گھیر لیو
پھانسی گیاساہ جب پونچیں رُکھ دھائے کے
کہے رسکھان گھوڑا پیا دہ سنگ مت کینو
ہانسی تب پیاری لئی بانسری چھنائے کے
(برندابن کے کنج میں شیاما (رادھا) اور شیام (کرشن جی) دونوں تشریف رکھتے ہیں۔ انھوں نے شطرنج کی بساط بچھا رکھی ہے۔ کرشن جی بازی میں محو ہیں، بانسری پاس رکھ دی ہے۔ وہ سوچ سوچ کر رُک رُک کر فرزیں کو بچاتے ہوئے چالیں چل رہے ہیں۔ فیل دونوں طرف سے پیادوں میں گھر گیا اور بادشاہ نرغے میں آگیا۔ تب انھوں نے رُخ آگے بڑھاکر بازی سدھار لی۔ رسکھان کہتا ہے کہ گھوڑے اور پیادے کو ایک ساتھ نہیں چلنا چاہیے۔ رادھا نے شوخی سے بانسری چھین لی اور ہنسنے لگیں۔)
سنسکرت کے قدیم گرنتھوں میں چوپڑ اور پانسے کے کھیل کا ذکر ضرور ملتا ہے۔ مہابھارت میں کوروؤں اور پانڈوؤں نے جو جوا کھیلا تھا اس میں بھی چوپڑ اور پانسوں کا ہی کھیل تھا لیکن کرشن جی اور رادھا جی کا شطرنج کھیلنا اس لیے عجیب ہے کہ شطرنج اس دور کے مسلمانوں کا کھیل تھا جو فارس سے ہندوستان آیا تھا۔ پیل، فرزیں، رُخ اور پیادہ خالص فارسی الفاظ ہیں، اس کھیل کی جزئیات کو ’کرشن کاویہ‘ (کرشنائی شاعری) میں شامل کرنا دو تہذیبوں کے امتزاج کا عمل ہے جو برج بھاشا کے اس عظیم پٹھان شاعر کے یہاں واضح ہو کر نظر آتا ہے۔
سنہ 1533ء کو رسکھان کا سال پیدائش مانا جاتا ہے اور وہ بیس بائیس برس کی عمر میں برج بھومی پہنچے یعنی 1555ء اور 1560ء کے درمیان تو یہ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کا زمانۂ اقتدار تھا۔ اکبر کے دربار میں ہندو شاعروں اور وِدوانوں کی بھرپور قدر افزائی کی جارہی تھی۔ رامائن، مہابھارت اور ہندو دھرم کی دوسری مقدس کتابوں کو فارسی میں منتقل کیا جارہا تھا۔ اس عہد کی تاریخ میں رسکھان نظر نہیں آتے جن کے کلام نے ان کی زندگی میں ہی غیرمعمولی مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ اکبر کی وفات 1605ء میں ہوئی۔ رسکھان اس وقت زندہ تھے۔ ان کا انتقال ہندی ادب کے محققین کے مطابق 1618ء میں ہوا۔ اس وقت جہانگیر کی حکومت تھی۔ جہانگیر 38برس کی عمر میں سنہ 1605ء میں تخت نشین ہوا۔ جہانگیر کی متھرا کے ایک سنیاسی سے بے انتہا عقیدت اور اس سے ملاقات کے لیے کئی بار متھرا جانے کا تذکرہ ’مآثر اُمراء‘ اور ’جہانگیر نامہ‘ میں موجود ہے، لیکن اپنے عہد کے اتنے بڑے شاعر کا ذکر کہیں نہیں ملتا جبکہ اکبر اور جہانگیر کے دور میں متعدد باکمال ہندو شخصیتوں کی قدردانی کے بہت سے تذکرے موجود ہیں۔ اس سے یہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رسکھان نے ایک تارک الدنیا صوفی اور سنت کی طرح اپنی پوری زندگی دیارِ محبوب (برج بھومی) میں فقیرانہ اور قلندرانہ شانِ بے نیازی سے گزاری، سرکار، دربار اور دنیوی کاروبار سے کوئی واسطہ نہیں رکھا اور نہ ہی کسی بادشاہ یا امیر کا قصیدہ لکھا۔qq