محمد ارشد صدیقی کے افسانچوں کا اولین مجموعہ باموسوم ’’گردشِ دوراں‘‘ کی پہلی قرات کے بعدجو ذہن پر تاثر قائم ہوتاہے وہ یہ ہے کہ محمد ارشد صدیقی فن افسانچہ سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ فکر وخیال کے بکھرے موتیوں کو چن کراسے کہانی کے قالب میں ڈھالنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔افسانچہ نگاری کا فن اختصار، ایجاز اور فکری ارتکاز کا متقاضی ہے۔یہ خیال کے لیے بہ سمت دھاروں اور بہاؤ کو چند سطروں کے وسیلے سے مقید کرنے اوراسے فکری محور و مرکز عطاکرنے کا عمل ہے۔
یہ فن اصلاً محنت شاقہ ، زبان وبیان پرقدرت ، فنی چابکدستی اور فکر وخیال کی یکجائی سے نموپذیر ہوتاہے۔
’’گردشِ دوراں‘‘ کے بیشتر افسانچے حیات انسانی کی بے بسی، انفرادی اور اجتماعی مسائل، لہولہان معاشرے اور شکست و ریخت سے دو چار اقدار کا تخلیقی اظہار ہے۔جس میں تخلیق کار کا شدت احساس اور حرمت فن کی عظمت کا خیال پوری طرح مترشح ہوا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فن کار جس قدر حساس، روشن خیال اور باخبر ہوگا اس کی فرک اور ہرموضوعات میں تنوع اور فن پارے میں اتنی ہی تہہ داری ہوگی اورقاری اس کی نگارشات سے اتنی ہی لطف اندوز اورمتاثر ہوگا۔مجھے یہ اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ ارشد صدیقی کے یہاں شدتِ احساس کے ساتھ زندگی کی بوقلمنیوں کا عرفان بدرجہ اتم موجود ہے۔فساد، آزادی، ریشا، بڑا آدمی، روشنی، دوگز زمیں،جہیز، ڈگریاں ، اتیاچار، بانج عورت اور گھوٹالے وغیرہ جیسے افسانچے اس بات کے بین ثبوت ہیں کہ تخلیق زندگی اورمعاشرے کے عطاکردہ غم اور دکھ کا محض مشاہدہ نہیں کیا ہے بلکہ جھیلا اور بھوگا ہے،یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیاں کسی ایک علاقے یا فرد کاالمیہ نہیں بلکہ ہمارے عہد کا مقدر ہے، جہاں زندگی اور معاشرہ کی سیٹیاں کہیں مدہم اور کہیں تیز سنائی دیتی ہیں اور یہی ان کے افسانوں کا خاصہ ہے۔
صدر شعبہ اردو، بنارس ہندو یونیورسٹی، وارانسی
عہدحاضر کی حقیقتوں کا تخلیق اظہار- Creative expression of contemporary realities
Also read