کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے نتیجے ایوی ایشن کا شعبہ بہت بڑی طرح متاثر ہوا ہے کیونکہ دنیا بھر میں سفری پابندیوں کے نتیجے میں لاتعداد پروازیں منسوخ ہوئی ہیں۔مگر فضائی سفر پر اس وائرس کے اس اثر کے نتیجے میں ایک نیا عالمی ریکارڈ بھی قائم ہوگیا ہے جس کا تصور پہلے کسی نے کیا بھی نہیں تھا۔
یہ ریکارڈ ہے دنیا کی فاصلے کے لحاظ سے طویل ترین مسافر بردار طیارے کی پرواز، جس کا کمپنی کا کوئی ارادہ بھی نہیں تھا۔14 مارچ کو یہ طیارہ فرنچ پولینیشیا کے جزیرے تاہیٹی سے روزانہ ہوا اور بلارکے 9 ہزار 765 میل کا فاصلہ طے کرکے پیرس کے چارلس ڈیگال ائیرپورٹ پر اترا۔
اور اس طویل ترین پرواز کے ریکارڈ کی اصل وجہ کورونا وائرس کے نتیجے میں امریکا کی جانب سے عائد کی گئی سفری پابندیاں تھی۔عام طور پر اس روٹ پر پرواز کرنے والے طیارے لاس اینجلس ائیرپورٹ پر کچھ دیر کے لیے رکتے ہیں، مگر ایسا کرنے پر تمام مسافروں کو طیارے سے اتر کر امریکی کسٹم کے پاس جانا ہوتا ہے جس کے بعد ہی طیارے کو آگے جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
مگر حالیہ سفری پابندیوں کے نتیجے میں طیارے کی پرواز نان اسٹاپ ہوگئی جو تاہیٹی سے مقامی وقت کے مطابق صبح 3 بجے روانہ ہوا اور 15 مارچ کو پیرس کے مقامی وقت کے مطابق ساڑھے 6 بجے لینڈ کیا۔
ائیر تاہیٹی کے ترجمان نے سی این این کو بتایا کہ پرواز کو امریکی پابندیوں کے نتیجے میں غیرمعمولی طور پر آپریٹ کرنا پڑا۔
یہ پرواز فضا میں 16 گھنٹے رہی اور اس طرح طویل ترین فاصلے کی کمرشل پرواز کا ریکارڈ اپنے نام کرلیا۔
اس سے قبل یہ ریکارڈ سنگاپور ائیرلائنز کے پاس تھا جس کی سنگپاور اور امریکا کے درمیان پرواز 9 ہزار 534 میل کا سفر طے کرتی ہے۔
آسٹریلیا کی کمپنی قنطاس کی ایک تجرباتی پرواز نے گزشتہ سال 11 ہزار میل کا سفر طے کیا تھا مگر اس میں کوئی بھی مسافر موجود نہیں تھا تو اس کمرشل پرواز کا درجہ نہیں مل سکا تھا۔،
ائیر تاہیٹی کے مطابق اس طیارے میں 4 پائلٹ موجود تھے جبکہ یہ اگلی نسل کا بوئنگ 787-9 ٹوئن انجن ڈریم لائنر طیارہ تھا۔
اس طیارے میں گنجائش سے کم مسافر موجود تھے جس کی وجہ سے بھی اسے ری فیول کے بغیر سفر کو طے کرنے میں مدد ملی۔