امام علی نقی علیہ السلام کے زمانہ میں چند افراد’’ غلات ‘‘کے نام سے مشہور تھے جو ائمہ معصومین علیہم السلام کے متعلق افراط سے کام لیتے تھے ۔ یہاں تک کہ ان کو حد الوہیت سے ملاتے تھے۔اور لوگوں کو اس باطل عقیدہ سے گمراہ کرتے تھے۔
امامت کے دسویں تاجدار امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے حکیمانہ کلام اور مدبرانہ رفتار سےائمہ معصومین علیہم السلام کے متعلق افراط اور تفریط کی حد کو مشخص فرمایا۔ انہوں نے ائمہ معصومین علیہم السلام کے حقیقی دوستوں کو ان باطل اور جھوٹے عقیدوں سے جہاں تک ممکن تھا دور رکھا۔ اور کج فکر افراد،باطل عقیدہ کے حامی، جیسے على بن حسکه قمى، قاسم يقطينى، حسن بن محمد باباى قمى، محمد بن نصير و فارس بن حاتم قزوينى او ر… سے امام مختلف انداز سے نمٹتے تھے:
الف)کلام اور خطوں کے ذریعہ:
باطل اور انحرافی عقیدوں کے متعلق ،امام کے ماننے والوں میں سے ایک نے امام کو خط لکھا اور علی ابن حسکہ کے عقیدہ کا حال بیان کرتے ہوئے اس طرح لکھا: مولا میں آپ پر قربان! علی ابن حسکہ کا عقیدہ ہے کہ آپ اس کے ولی اور قدیم خدا ہو! وہ خود کو آپ کی طرف سے لوگوں میں معین نبی سمجھتا ہے اور آپ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔ امام نے اس خط کے جواب میں ارشاد فرمایا:علی ابن حسکہ نے جھوٹ بولا ہے۔ میں اسے اپنے دوستوں میں شمار نہیں کرتا۔۔۔!
اللہ تعالی کی قسم! اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان سے پہلے بھیجے ہوئے تمام پیغمبروں کو، توحید،نماز، زکات، حج اور ولایت کے علاوہ کوئی فرمان نہیں دیا۔ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین بھی خدا کے بندے ہیں اور اس سے شرک نہیں کرتے۔ ہم اللہ تعالی کی اطاعت کی صورت میں اس کی رحمت کے حقدار قرار پاتے ہیں اور اس کی نافرمانی کی صورت میں عتاب اور عذاب کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہم پر اور تمام مخلوقات پر اتمام حجت کی ہے۔ جو افراد ایسی بری باتیں زبان پر جاری کرتے ہیں میں ان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔ ان پر اللہ تعالی کی لعنت ہو۔ تم لوگ بھی ان سے بیزاری کا اظہار کرو!ان کی تکذیب کرو! اگر ایسے افراد میں سے کوئی تمہارے ہاتھ لگ جائے تو اس کا سر پتھر سے پھوڑو!
ب) عملی اقدام:
فارس ابن حاتم قزوینی پہلے تو امام علی نقی علیہ السلام کے دوستوں میں سے تھا۔ اور امام کا نمائندہ تھا۔لیکن بعد میں اس نے دین سے اور عقیدہ امامت سے منہ موڑ لیا۔ اور کفر آمیز عقیدوں کا موجد بن گیا اور لوگوں کو ان باطل افکار کی طرف گمراہ کرنا شروع کیا۔اس نےامام کے مرضی کے بغیر لوگوں سے وجوہات شرعیہ وصول کرکےاپنی مرضی پر دین کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔ کیونکہ وہ لوگوں میں امام کا نمائندہ مشہور تھا۔ اس کے انحراف اور گمراہ ہونے کا ایک سبب دنیا اور مال پرستی تھا جس نے اسے صراط مستقیم اور حق کے راستے سے ہٹا دیا اوراسے امامت سے دور کردیا اور باطل کی طرف کھینچ لیا اورگمراہ کردیا۔
فارس ابن حاتم، باطل کے راستہ پر اتنا آگے چلا گیا، اور اس نے لوگوں کو اتنا منحرف کیا اور ان میں اتنا فتنہ اور فساد برپا کیا ، اتنا افراط کیا کہ امام علی نقی علیہ السلام کی طرف سے اس کے کفر اور ارتداد کا حکم ان الفاظ میں آیا: هذا فارس – لعنه الله – يعمل من قبلى فتانا داعيا الى البدعة، و دمه هدر لکل من قتله، فمن هذا الذى يريحنى منه يقتله و انا ضامن له على الله الجنة;
یہ فارس۔ اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہو۔خود کو میرا نمائندہ سمجھتا ہےحالانکہ وہ مسلمانوں میں بدعت ، تفرقہ،فتنہ اور فساد برپا کرنے والا ہے۔ اور لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے ۔ وہ واجب القتل ہے۔جو بھی اسے قتل کرے گا اور لوگوں کو اس کے شر سے نجات دے گا اس کی جنت کا میں ضامن ہوں۔
کچھ مدت گذرنے کے بعد بھی جب کسی نے اس نیک کام کو انجام نہ دیاتو امام نے اپنے شیعہ، چاہنے والوں میں سے اعتماد اور یقین والے،شجاع ترین انسان کو، جس کا نام جنید تھا، اس کام کا حکم دیتے ہوئے کہا: مناسب موقع دیکھ کر اس ذمیداری کو انجام دو!
صوفیت سے مقابلہ
محمد ابن ابی خطاب نقل کرتا ہے:میں امام علی نقی علیہ السلام کے چند دوستوں کے ساتھ مسجد النبی میں امام کے پاس بیٹھا تھا۔ اتنے میں صوفیوں کی جماعت مسجد النبی میں وارد ہوئی۔ وہ ایک دوسرے کے گردحلقہ بناکر ’’لااله الا الله‘‘کے ذکر میں مشغول ہو گئے۔ امام نے ہماری طرف رخ کر کے ارشاد فرمایا: لاتلتفتوا الى هؤلاء الخداعين، فانهم خلفاء الشياطين و مخربوا قواعد الدين يتزهدون لراحة الاجسام و يتهجدون لتعبيد الانعام
ان ریاکار، دھوکہ بازوں پر توجہ نہ دو! یہ شیطان کے چیلے ہیں۔یہ دین کے قوانین کو خراب کرنے والے ہیں۔ یہ دنیا کی آسائش حاصل کرنے کیلئے زہد کا ڈھونگ رچانے والے ہیں۔ اچھی اور مزیدار غذائیں کھانے کی لالچ میں راتوں کو جاگنے والے ہیں۔
اس کے بعد امام نے فرمایا: فمن ذهب الى زيارة احد منهم حيا و ميتا فکانما ذهب الى زيارة الشيطان و عبدة الاوثان ..
جو بھی ان میں سے کسی کی ملاقات یا زیارت کو ان کی زندگی میں یا مرنے کے بعد گیا وہ اس طرح ہے جیسے وہ شیطان کی ملاقات کو گیا اور بت پرستوں سے ملاقات کرنے گیا۔
جب امام کا کلام یہاں تک پہنچا۔ تو امام سے ایک شیعہ نے عرض کی:مولا اگر چہ وہ امامت کو مانے اور آپ کے حق کا اعتراف کریں؟
امام نے جلالت سے اسے دیکھا اور فرمایا: اس باطل تصور کو چھوڑ دو! جو ہماری امامت کو مانے گا وہ ہماری مرضی کے بغیر ایک قدم بھی نہ اٹھائے گا! کیاتمہیں پتا نہیں کہ پست ترین گروہ صوفی ہیں۔ امام نے اس کے بعد فرمایا: والصوفية کلهم من مخالفينا، و طريقتهم مغايرة لطريقتنا، و ان هم الا نصارى و مجوس هذه الامة اولئک الذين يجهدون فى اطفاء نور الله والله يتم نوره و لو کره الکافرون
سارے کے سارے صوفی ہمارے مخالف ہیں۔ ان کا راستہ ہم سے جدا ہے۔ وہ اس امت کے نصاری اور مجوسی ہیں۔ یہ وہی ہیں جو اللہ کے نور کو خاموش کرنا چاہتے ہیں جبکہ اللہ اپنے نور کو پورا کر کے ہی رہے گا اگرچہ کافروں کو کتنا ہی گراں کہوں نہ لگے
واقفیہ سے مقابلہ
ان منحرف گروہوں میں سے ایک گروہ جس نے ائمہ معصومین علیہم السلام کے راستہ کو روکا اور مزاحمت کی ’’واقفیہ‘‘ ہے۔
واقفیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام زندہ ہیں اور آخری امام مہدی ، موعود ہیں۔
امام علی نقی علیہ السلام نے ان کے مقابلہ میں قطعی موقف اختیار فرمایا اور ان سے مقابلہ کیا۔ایک دن امام کے شیعوں میں سے کسی نے امام کو خط لکھ کر پوچھا:مولا میں آپ پر قربان! آپ ان لوگوں کو جانتے ہیں کیا نماز کے قنوت میں ان پر لعنت کرنی چاہئے؟ امام نے جواب میں لکھا: نعم، اقنت عليهم فى صلاتک; جی ہاں! نماز کے قنوت میں ان پر لعنت کرنی چاہئے۔
ضضض
امام ؑ اور انحرافی افکارو عقیدوں سے مقابلہ- Controversy over the Imam and deviant ideas and beliefs
Also read