Contemporary Urdu Fiction of Kashmir- کشمیر کا معاصر اردو افسانہ

0
682

Contemporary Urdu Fiction of Kashmir

عرفان رشید
(ریسرچ اسکالر۔ یونی ورسٹی آف کشمیر)
کشمیر میں اردو فکشن کی ایک مستحکم اور شاندار تاریخ رہی ہے بلخصوص فنِ افسانہ نگاری کی ۔ادبی تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتا تاہے کہ جموں و کشمیر میں ایسے افسانہ نگار بھی سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس صنف میں قومی سطح کے ادبی منظر نامے پر ایک گہری چھاپ قائم کی ہے ۔جن میں محمد دین فوق ،پریم ناتھ پردیسی، پریم ناتھ در،تیرتھ کاشمیری،سوم ناتھ ذتشی ،علی محمد لون ،قدرت اللہ شہاب،ٹھاکر پونچھی،پشکر ناتھ ،نور شاہ حامدی کاشمیری،وریندر پٹھواری،آنند لہر،دیپک بد کی، وحشی سعید،غلام نبی شاہد، ترنم ریاض وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔
ریاست میں اردو افسانے کی بنیاد کے تعلق سے نورشاہ لکھتے ہیں :
’’آج جب ہم ریاست جموں و کشمیر میں اردو افسانے کی بات کرتے ہیں تو پریم ناتھ پردیسی کا نام سامنے آتا ہے شاید اس لیے کہ ریاست میں اردو افسانے کی باقاعدہ ابتدا ء پردیسی سے ہوئی اگر چہ ان سے پہلے بھی کئی افسانہ نگاروں نے افسانے لکھے لیکن پردیسی کے افسانوں کی اہمیت اور انفرادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تقسیم ملک سے پہلے اور تقسیم ملک کے بعد بھی ان کے افسانے معیاری جرائد میں شائع ہوتے رہے ۔۔۔پردیسی کے تین افسانوی مجموعے ’’شام و سحر‘‘ ’’دنیا ہماری ‘‘ ’’بہتے چراغ‘‘ شائع ہو چکے ہیں ۔‘‘۱؎
معاصر فکشن کی صورت حال کے تناظر میںاس مقالے میں نمائندہ افسانہ نگاروں کی تخلیقات کے آیئنے میں بات کر کے اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ کس حد تک کشمیر میں اردو افسانے کی موجودہ صورت حال تشفی بخش ہے ۔
نور شاہ اردو افسانے کا ایک اہم باب ہے جنہوں نے ۱۹۶۰ ء کے آس پاس اپنے ادبی سفر کی شروعات کی۔تاحال ان کے نو افسانوی مجموعے بے گھاٹ کی ناو،ویرانے کے پھول،من کا آنگن اداس اداس ،ایک رات کی ملکہ،گیلے پھتروں کی مہک،بے ثمر سچ ،آسمان پھول اور لہو،کشمیر کہانی اور ایک معمولی آدمی منظرِ عام پر آچکے ہیں ۔نورشاہ وادی کے ایسے تخلیق کار ہے جو تخلیقی سطح پر کسی بھی صورت میں قید وبند رہنے کے قائل نہیں ہے۔ ان کے افسانوں میں ہر طرح کے موضو عات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ان کے مجموعے ’’آسمان پھول اور لہو‘‘ میں پہلی کہانی ’’کہانی اور چار کڑیاں ‘‘ایک خوب صورت کہانی ہے جس سے پڑھنے کے بعد قاری ایک گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے کیوں کہ یہ ایک علامتی کہانی ہے جس میں افسانہ نگار نے ایک نیم عریاں بکھاری ،ٹین کے شیڈ اور روشن کو علامتی جامہ پہناکر کشمیر کے حالات وواقعات کی بھر پور عکاسی کی ہے ۔کہانی کے موضوع سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ چار کڑیاں کشمیر کے چار ادوار کی علامت ہے اور نیم عریاں بکھاری کشمیر کے ظلم وجبر کی علامت اور روشن راوی کا دوست جو ایک حساس ذہن کا مالک ہے سب چیزیں خاموشی سے قلم بند کرتے ہوئے نظر آتاہے ۔
نورشاہ کے افسانوں میں اگر چہ ابتدائی دور میں فن کی سطح پر کچھ کمزوریاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن پختگی کے دور تک آتے آتے انہیں فن پر عبور حاصل ہوتا گیا ۔ان کے اسلوب کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے افسانوں میں مقامی رنگ اور فضا نظر آتی ہے اور بعض اوقات فنکارانہ انداز میں یہاں کے صحت افضا مقامات کی عکاسی بھی کرتے ہیں ۔ان کے فن کے تعلق سے افسانے کا اہم نقادمجید مضمر لکھتے ہیں :
’’رومان سے حقیقت تک کے سفر میں نورشاہ کا تخلیقی برتائو ریاست میں اردو افسانے کو ہئیتی اور موضوعاتی سطح پر کئی نوح کے تجربات سے آشنا کرتا ہے اور افسانے کے مجموعی ،عالمی سرمائے میں یہاں کے خارجی اور داخلی منظر کے حوالے سے ایک انفراد عطاکرتا ہے ۔‘‘۲؎
کشمیر میں اردو افسانے کی تاریخ کا ایک اہم نام وحشی سعید ساحل ہے جن کا افسانوی سفر کم وبیش چالیس سال پر پھیلا ہوا ہے اس دوران ان کے متعدد افسانوی مجموعے شائع ہوئے ۔پہلا افسانوی مجموعہ ’’سڑک واپس جارہی ہے ‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا۔دوسرا افسانوی مجموعہ ’’کنوارے الفاظ کا جزیرہ‘‘ اور ’’سڑک جارہی ہے‘‘جیسے افسانوی مجموعے شائع ہوئے ہیں ۔
ان کی ایک مشہور کہانی ’’بھنگی ‘‘کرشن چندر کے شہکار افسانے ’’کالوبھنگی ‘‘کی یاد کو تازہ کرتی ہے لیکن کرشن چندر کے ’’کالو بھنگی ‘‘اور وحشی سعید کے ’’صمد بھنگی ‘‘ میں زمین آسمان کا فرق دیکھنے کو ملتا ہے ۔’’کالو بھنگی ‘‘ کی آخری خواہش تھی کہ ان کے اوپر کوئی کہانی لکھ ڈالے اورگائے تک ان کی دنیا محدود تھی ۔ازدواجی زندگی کا تو سوال ہی نہیں ۔لیکن’’صمد بھنگی ‘‘کی دنیا آباد تھی اور ان کی ایک ہی خواہش تھی کہ ان کے ہا ں ایک خو ب صورت بیٹا پیدا ہو۔ جو بڑا ہو کر ایک کامیاب بزنس مین بنے۔
’’نہیں بابو !وہ بھنگی نہیں بنے گا ۔ وہ آپ کی طرح بہت بڑا آدمی بنے گا ۔ میں اس کو خوب پڑھائوں گا ــ‘‘
وحشی سعید کا ’’بھنگی ‘‘کرشن چندر کے ’’کالو بھنگی ‘‘سے کئی معنوں میں ایک اچھا افسانہ ہے ۔پہلے ہی اقتباس سے قاری سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ شاید وہ ’’کالوبھنگی کا دوسرا پاٹ ــــ‘‘پڑھنے جا رہا ہوں ۔ملاحظہ کیجئے پہلا اقتباس :
’’بھنگی کا لفظ جب زبان پر آتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہونٹوں تک ایک گالی چلی آئی ہیں ۔اگر میں نے ا ردو زبان کی لغات کو مرتب کیا ہوتا تو اس لفظ کو کبھی شامل نہ کرتا ۔۔۔جب بھی میں لال چوک کی سڑک سے ٹانگے پر سوار گھر کی طرف جاتا تو کسی نہ کسی بنگھی کو سڑک صاف کرتے ہوئے دیکھتا ۔ایسے لمحات پر اکثر آدمیوں کے منہ لٹک جاتے ہیں ۔تب میرا دل چیخنے لگتا اور میں خود سے کہتا ’’اٹھو لفظوں کاگندہ لحاف اتار پھینک دو‘‘۔۔
( افسانہ :بھنگی ،ص ۴۸)
وحشی سعید کے اس افسانے کو پڑ ھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے یہ انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کے علاوہ ایک سماجی اصلاح کار بننا چاہتے ہیں ۔لیکن سماجی جبر کا آہنی پنجہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔
وحشی سعید کو فن پر اچھی خاصی دسترس حاصل ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ضخامت کے اعتبار سے مختصر سے مختصرافسانہ لکھ سکتے ہیںجس میں پلاٹ کی سطح پر کوئی کمی نظر نہیں آتی ہے بلکہ بعض اوقات پلاٹ کی ایسی ترتیب عمل میں لاتے ہیں کہ قاری حیرت میں پڑجاتا ہے ۔نیز واقعات کی ترتیب کے عمل میں وحشی سعید قاری کو ساتھ ساتھ آگے بڑھاتے ہیں اور کہیں سطحوں پر قاری کے دل کی بات کہ لیتے ہیں ۔ وحشی سعید زندگی کے معمولی سے معمولی مسئلے کو بھی بہترین طریقے سے کہانی بنانے کا ہنر رکھتے ہیں اور غیر معمولی واقعات کو بھی فنکارانہ انداز میں بیان کرنا جانتے ہیں ۔’’ارسطو کی واپسی ‘‘ اسی نوعیت کی ایک بہترین کہانی ہے جس میں انسانی اقدار کی پامالی کا رونا رویا گیا ہے ۔ایسے واقعات نہ جانے روزانہ بنیادوں پر فلسطین اور کشمیر میں کتنے ہوتے رہتے ہیں ۔کہانی کا یہ خوب صورت اقتباس دیکھئے جس سے موجودہ صورت حال کی عکاسی ہوتی ہے :
’’وہ عام شہری جس کو فوجیوں نے بکتر بند گاڈی کے سامنے والے حصے پر باندھ لیا تھا ،اس سے سنسان شہر کی سنسان گلیوں اور سڑکوں پر گما رہے تھے ۔وہ فوجی اپنی اس فتح پر ناچ رہے تھے ۔بگل بجا بجا کر جیت کا اعلان کر رہے تھے ۔۔۔وہ صبح بھی کالی تھی وہ شام بھی سیاہ تھی جس نے ایک عام شہری کو انسانی سپر بنتے ہوئے دیکھا ۔جس فوجی نے انسانیت کو پامال کیا اس فوجی کو اس کے کمانڈر نے بہادری کے تمغے سے نوازا ۔‘‘
(افسانہ :ارسطو کی واپسی ،ص ۲۶۔۲۷)
دیپک بدکی کشمیر میں افسانوی دنیا کا ایک درخشندہ ستارہ ہے جنہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۷۰ء میں شروع کیا ۔افسانہ لکھنا ان کا معمول ہے اور تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھنا ان کا شوق ہے ۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں ’’ادھورے چہرے ‘‘ ، ’’ چنار کے پنجے‘‘ ،’’زیبرا کراسنگ پر کھڑا آدمی ‘‘، ’’ریزہ ریزہ حیات ‘‘، ’’ روح کا کرب ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔موصوف کی ادبی خدمات پر مختلف ناقدین اور محققین نے اپنے مقالات رقم کیے ہیں ۔ڈاکٹر انور ظہیر انصاری ،شہاب عنایت ملک اور فریدپربتی نے ’’ورق ورق آئینہ ۔۔۔دیپک بدکی ۔‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی ہے ۔دیپک بدکی نئے لکھنے والوں کے لیے ایک مشعل راہ ثابت ہوئے ہیں ۔افسانہ ’’زیبرا کراسنگ پر کھڑا آدمی ‘‘ان کا ایک عمدہ افسانہ ہے جس میںکشمیری پنڈتوں کی روداد کو بیان کیا گیا ہے ۔
کشمیر میں مز احمتی ادب کی تاریخ میں کچھ اہم افسانہ نگار اہمیت کے حامل ہیں جن میں غلام نبی شاہد ،منصور احمد منصور ، شبنم قیوم ،ریاض توحیدی ، ایثارکاشمیری وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔غلام نبی شاہد کا افسانوی مجموعہ ’’اعلان جاری ہے ‘‘جو۲۳ کہانیوں پر مشتمل ہیں بیشتر کہانیاں کشمیر کے سیاسی منظرنامے کی روداد بیان کرتی ہیں ۔خاص طور سے افسانہ ’’آجادی ‘‘ جس میںایک معصوم بچے کا جواب سن کر ڈیوٹی پر تعینات فوجی سریندر دیکھتا ہی رہ جاتا ہے :
’’سریندر یہ سب دیکھ رہا تھا ۔وہ آگے بڑھا اور جیب سے دس روپیہ کا نوٹ نکال کر محی الدین کے ہاتھ میں تھما دیا اور سامنے سے ایک چپس کا پیکٹ اٹھاکر بچے کے قریب آگیا اور چپس کا پیکٹ بچے کے ہاتھوں میں تھمتے ہوئے بولا ۔یہ لو اب تو چپ ہو جاو ۔۔۔چپس کا پیکٹ لے کر بچہ فوراً چپ ہو گیا ۔سریندر بچے کو خاموشی سے دیکھتا رہا پھر قدرے اطمنان سے پوچھا ۔’’شاباش ۔۔۔اب بو لو اور کیا چاہیے ‘‘بچے نے چپس کے پیکٹ سے کھیلتے ہوئے اسی اطمنان سے جواب دیا ۔۔۔’’آجادی‘‘۔‘‘(حوالہ ،آجادی ،اعلان جاری ہے ،ص ۵۵۔۵۴)
اسی طرح کی مختلف کہانیاں ان کے افسانوی مجموعے میں شامل ہیں ۔یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ غلام نبی شاہد کے سبھی افسانے کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں گولیوں ،بم دھماکوں ،چھاپہ ماریوں ،تلاشیوں ،شناختی پریڈوں ،پولیس حراستوں ، ہلاکتوں اور غائب نوجوانوں کی روداد قلم بند کی گئی ہے ۔کہیں کہیں استعاروں اور علامتوں جیسے کتوں ،ابابیلوں وغیرہ کے ذریعے بھی اپنا مدعا پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
منصور احمد منصور کشمیر میں اردو افسانے کا اہم نام ہے ’’یہ بستی عذابوں کی ‘‘ ان کا افسانوی مجموعہ ہے جس میں ۱۴ افسانے شامل ہیں ۔بیشتر افسانوں کا محو ر ومرکز کشمیر ہے ۔ان کے یہاں بعض اوقات داستانوی فضا اور دیو مالائی اساطیر کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے ۔منصور احمد منصور کا تخلیقی کینواس نہایت وسیع اور گنجلک ہے۔ ایک عام قاری ان کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی موضوع کے بنیادی کریکس تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ۔ان کے افسانوں میں بعض اوقات ایسے مقامات سامنے آتے ہیں جہاں سے قاری بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ایک باذوق قاری ان کے افسانوں میں تخلیقی سطح پر خیالات کے دریا میں بہتا چلا جاتا ہے کیوں کہ اس سے یہ علم بخوبی ہوتا ہے کہ مصنف ناخدا بن کر مجھے بھنورسے بہ حفاظت منزل تک پہنچائے گا۔ مصنف کی افسانوی بوطیقا انتظار حسین کی طرح مختلف النوا ع حیثیت رکھتی ہے جہاں مختلف علامتیں استعمال میں لائی جاتی ہیں اس تعلق سے اقتباس پیشِ خدمت ہے :
’’اس شہر کے بیچوں وبیچ ایک بڑی شاہراہ ہے جو شاہراہ ستم کہلاتی ۔یہ شہر کی قابلِ دید شاہراہ ہے ۔اس شاہراہ پر خواجہ سگ پرست کی حکمرانی ہے اس لیے آدمی قید میں ہیں اور کتے آزاد ۔شاہراہ ستم کے ایک طرف آہنی پنجرہ ہے جس میں پیروجوان قید ہیں ۔ــ‘‘
(حوالہ :یہ بستی عذابوں کی ،ص ۱۰۷۔۱۰۸)
ریاض توحیدی بھی کشمیر میں ایک اہم افسانہ نگار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیںجن کے دو افسانوی مجموعے’’ کالے پیڑوں کا جنگل‘‘اور ’’کالے دیوئوں کا سایہ ‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں ۔ریاض توحیدی سماجی رابطہ گاہوں پر اپنی تخلیقات کو منظرِ عام پر لانے میں اکثر فعال رہتے ہیں۔ ان کے بیشتر افسانے آن لائن جرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ’’کالے دیوئوں کا سایہ ‘‘گمشد ہ قبرستاں ،زہریلے ناخدا ،جنازے ،گل ِقصائی ، چھوڑ دو میں کشمیر کے موجودہ حالات وواقعات کو علامتوں اور استعاروں کے ذریعے پیش کیاگیاہے ۔ افسانہ’’چھوڑدو ‘‘ میں کشمیر کے ان ہزاروں معصوم لوگوں کی بد نصیبی کی کہانی ہے جسے موصوف نے سترسالہ ضعیف جبار چاچا کے حوالے سے بیان کیا ہے اورجس کا اکلوتا جوان بیٹا اور بیٹی ظلم کے شکار ہو کر موت کا پیالا پی جاتے ہیں ۔جبار بھی ان کئی لوگوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے جو اپنے لختے جگروں سے محروم ہوئے ہوں ۔اسی نوعیت کی ایک کہانی ’’کالے دیوئوں کا سایہ ‘‘ایک درد ناک کہانی ہے جس میں افسانہ نگار نے بڑے ہی فنکارانہ انداز میں علامتوں کا سہارا لے کر فوج کے ظلم وتشدد کوعریاں کرنے کی کوشش کی ہے :
’’ سالے ۔۔۔!پیچھے کیوں ہٹے ۔۔۔؟ ان کتوں کو جلدی جلدی یہاں سے ہٹائو ،ہوا میں بدبو پھیل رہی ہے
۔۔۔ان۔۔۔ان میں ایک انسانی لاش بھی ہے ۔۔۔۔اس کو بھی یہاں سے دفع کرو اور ان کتوں کے ساتھ کسی نالے میں ڈال ــــ‘‘
(حوالہ : کالے دیوئوں کا سایہ ،ص ۴۲)
اس اقتباس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کالے دیوئوںکی نظر میں وادی کے انسانوں کی قد رو قیمت ایک مردے کتے سے بھی بد تر ہے ۔
(جاری)

برِ صغیر کے ادبی افق پر جو خواتین افسانہ نگار سامنے آئیں ہیں ان میں وادی سے تعلق رکھنے والی مشہور افسانہ نگار ترنم ریاض اہم ہے ۔ ترنم ریاض اردو افسانے کی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کر چکی ہے ۔ دلی ،ممبی اور کشمیر کے امتزاجی کلچر کی نمائندہ تصویریں بھی ان کے یہاں نظر آتی ہے کہ سکتے ہیں کہ موصوفہ جموں و کشمیر کی سب سے اہم خواتین افسانہ نگا ر ہے جنہیں اپنی افسانوی کائنات کی بنا پر جو شہرت اردو دنیا میں ملی وہ بعض اعتبار سے قابلِ غور ہے ۔بقولِ نارنگ :
’’ترنم ریاض وادی کشمیر کا گلِ نورس ہے جس نے افسانے کی دنیا میں قدم رکھا ہے جہاں زمین سخت اور آسمان دور ہے ‘‘؎۳
ان کی افسانوی کائنات قدرے مختلف ہے ان کے یہاں ہر قسم کے احساسات ،جذبات ،مشاہدات اور تجربات کی عکاسی نہایت ہی نازک انداز سے ملتی ہے ۔ان کا افسانوی ڈکشن امتزاجی مزاج رکھتا ہے جس میں رومانی فضا بھی نظر آتی ہے دکھ اور غم کی داستان بھی ملتی ہے ۔موضوعاتی تنوع ان کی تخلیقات کا خاصہ ہے عورتوں کے مسائل کی عکاسی ان کا پسندیدہ موضوع ہے ۔عورتوں پر ہو رہے ظلم ،ازدواجی زندگی میں عورتوں کی حد سے زیادہ قربانیاں اس نوعیت کے نازک مسائل ہیں جن کی طرف موصوف نے توجہ دی ہے ۔’’بلبل ‘‘ اسی نوعیت کی ایک کہانی ہے ۔افسانہ’’ رنگ‘‘ میں اقدار کی پامالی کا ذکر ملتا ہے ۔
’’شہر ‘‘ ان کا مشہور افسانہ ہے جس کے متعلق مصنفہ کی راے ہے کہ’’لکھنے کے بعد میں اس افسانے کو پڑھنے کی جرات نہ کر سکی ‘‘۔یہ افسانہ ایک عجیب فضا پیش کرتا ہے ۔ایک دلدوز کہانی ہے جس میں ایک نوجوان اپنے دو بچوں کے ساتھ شہر کی رونق اور بچوں کے مستقبل کے پیشِ نظر قصبے سے اپنا تبادلہ شہر میں کراتا ہے اور وہاں باقی لوگوں کی طرح شہر کی گہما گہمی میں کھو جاتے ہیں اور اس طرح باقی لو گوں کی طرح نوجوان کی بیوی کی موت کی خبر چودہ منزلہ عمارت میں دفن ہوجاتی ہے ۔
کشمیر میں معاصر افسانہ نگاروں کی فہرست کافی طویل ہے جن میں ناصر ضمیر ،پرویز مانوس ،مشتاق احمد کینی ،شیخ خالد کرار ،میر ایوب ،مقبول ساحل ،ریاض توحیدی ،طارق شبنم ، راجہ یوسف ، نعیمہ مہجور ،سیدہ نسرین نقاش ،واجدہ تبسم ،نیلوفر ناز نحوی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔(فہرست سازی مقصود نہیں ہے )
ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی کشمیر کی ایک اہم خواتین افسانہ نگار ہیں جنہوں نے سیاسی موضوعات سے ہٹ کر یہاں کی گھریلو عورت کے جذبات و احسات اور جنسی مسائل کو خوبصورتی سے بھرتنے کی کوشش کی ہے ۔ان کے متعدد افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں جن میں ’’چنار کے برفیلے سائے ۲۰۱۳ء ، خاموش آسمان ۲۰۱۵ء ،اور روزن پہ میرے چاند ۲۰۱۸ء قابل ذکر ہیں ۔
(جاری)
طارق شبنم کشمیر میں معاصر اردو افسانہ نگاری کے حوالے سے ایک بہترین نام ہے جو تقریباً ہر ہفتے کشمیر عظمیٰ کے ادب نامہ میں ایک نئی تخلیق کے ساتھ چھپتے ہیں۔اصل نام طارق احمد شیخ ہے لیکن ادبی حلقوں میں طارق شبنم کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔انہوں نے اپنے افسانوی سفر کا آغاز ۲۰۱۰ء میں افسانہ ’’مجبوری‘‘ سے کیا ہے یہ افسانہ ’’ہند سماچار ‘‘ جموں نے شائع کیا ۔اب تک ان کے متعدد افسانے رسائل و جرائد میں چھپ چکے ہیں ۔
افسانوی مجموعہ ’’گمشدہ دولت ‘‘ حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے ۔ اس مجمو عہ کوجی ۔این ۔کے پبلی کیشز(بڈگام ،کشمیر) نے ۲۰۲۰ء میں شائع کیا ہے ۔یہ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جس میں ۲۷ افسانے شامل ہیں جن میں بے درد زمانہ ، اندھیرے اجالے ، صدمہ ، کہانی کا المیہ ، دہشت کے سائے ، اعتبار ، گمشدہ دولت ، مسیحا کی تلاش ، نسخہ کیمیا ، سنہرا پھنداوغیرہ اہمیت کے حامل ہیں ۔
افسانہ ’’بے درد زمانہ ‘‘ اس مجموعے کی پہلی کہانی ہے ۔ یہ کہانی ایک مچھیرن ’’سندری ‘‘ کی زندگی پر مبنی ہے ۔ افسانہ نگار نے اس کہانی کے ذریعے ایک طرف سماج پر طنز کیا ہے کہ کس طر ح سے ایک بے رحم سماج میںایک مجبور، لاچار اور بے بس عورت کا مزاق اُڑیا جارہا ہے ۔ دوسری طرف اس افسانے میں یہاں کے گورنمنٹ اسپتالوں کا حقیقی نقشہ بھی کھینچا گیا ہے جس میں ’’سندری ‘‘ جیسی سینکڑوں عورتیں استحصال کا شکار ہوجاتی ہیں ۔کہانی کی آخری دو سطور اس کہانی کا کلایمکس بیان کرتاہیں :
’’ اس بے درد زمانے میں ،میں اکیلی عورت بے سہارا عورت کیا کروں ۔ کس سے مدد مانگوں ، کہاں انصاف ڈھونڈوں ،یہاں صرف پتھردل انسان ہیں ، پتھر کے ضمیر ہیں ، چاپلوسی ، فریب ،حرص اور خودغرضی ہے ‘‘ (افسانہ : بے درد زمانہ )
اس اقتبا س سے کہانی کا روح مترشح ہوجاتا ہے کہ کس طرح سے موجودہ سماج میں انسان ہی انسانیت کا جنازہ نکالتاہے اور دنیا کے عقلمند اور دانش یافتہ لوگ اس چیز کالطف اُٹھا تے ہیں ۔
مذکورہ کہانی کا پلاٹ منظم اور سادہ ہے ۔ بیانیہ اسلوب کا خوبصورت امتزاج ، خودکلامی اور فلش بیک تکنیک کا استعمال ہوا ہے ۔ البتہ کہیں کہیں جملوں کی ساخت کمزور پڑ جاتی ہے لیکن اس سے کہانی کی معنوعت اور وحدت تاثر میں کو ئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوجاتی ہے ۔
راجہ یوسف بھی طارق شبنم کے معاصر ین میںسے ہے جنہوں نے اردو افسانہ کو اپنے سادہ ڈکشن اور منفرد اسلوب کی وجہ سے نئے موضوعات سے ہمکنار کیا ہے ۔ان کا بھی باضابطہ طور پر کوئی مجموعہ سامنے نہیں آیا ہے حالانکہ ان کا پہلا افسانہ ۱۹۸۳ء میں ’’ دیوار کے اس پار ‘‘ کے نام سے رسالہ ’’کاشیں ‘‘ جو اننت ناگ سے نکلتا تھا میں شائع ہوا تھا اور جس کا سلسلہ ۱۹۸۹ء تک جاری رہا ، لیکن ذریعہ معاش کے لیے انہوں نے دوردرشن سرینگر کا رخ کیا جہاں سے انہوں نے اردو اور کشمیری ڈرامے لکھنے شروع کیے ۔ان کا افسانوی جمود تب ٹوٹا جب ان کے دوست نے کشمیر سے ایک روزنامچہ ’’کشمیر عظمیٰ ‘‘ کے نام سے نکالا ،جو آج یہاں کے اردو اخباروں میںایک نمایاں نام ہے۔ان کے ہی کہنے پر انہوں نے ۲۰۱۲ء ۔۲۰۱۳ء سے اپنے افسانوی سفر کو پھر سے بحال کر دیا ہے جو الحمداللہ آج تک زوروں سے جاری و ساری ہے ۔ان کی بہترین کہانیوں میں ناقابل ِتنسیخ ، تاجوقصائی ،دستِ تنہائی، بذدل ،بلبل اور باز ،جنگل راج وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔راجہ یوسف اپنے معاصرین سے اس لیے منفردہے کہ ان کے یہاں مقامی موضوعات کے علاوہ برصغیر کے موجودہ حالات و اقعات کی عکاسی دیکھنے ملتی ہے ۔
کلام حاصل یوں رقم کیا جاسکتا ہے کہ کشمیر میں معا صر اردو افسانے کی صورت حال کا جائزہ لے کر کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر میں اردو افسانے کا مستقبل روشن اور تابناک ہے جس کو مندر جہ بالاتخلیق کا رفروغ بخشنے میں پیش پیش ہے ۔

Irfan Rasheed Dar
email:[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here