’’دَل بدلُو!، لیڈروں کا کوئی مذہب اور زبان نہیں ہو تا ‘‘- “Change your heart! Leaders have no religion or language.”

0
224

قیصر محمود عراقی
مکرمی: یہ سیاسی احباب ہم کو آئے روز نئے خواب دکھاتے ہیں ، اور ہم ہیں کہ ان کی چاپلوسیوں کے شکار ہو جا تے ہیں ، ہر بار ہمیں آنے والے دور کے لئے وعدوں کا انبار لگا کر ووٹ ہتھیاکر اپنے مطلب کو پورا کر کے چلتے بنتے ہیں ۔ گزشتہ سیاست کا جائزہ لیا جا ئے تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان سیاست کی بھینٹ چڑھتا نظرآرہا ہے ۔ ہر سیاسی بجائے ملکی ترقی اور افادیت کے ذاتی مفادات کے لئے محنت کر تا نظر آتا ہے ، ان سیاست دانوں کی ہٹ دھر میوں اور غلط منصوبوں کی وجہہ سے عوام قرض تلے دھنستے جا رہے ہیں ۔ کھانے کو خوراک نہیں ، رہنے کو گھر میسر نہیں اور بد ن ڈھانپنے کے لئے کپڑوں کا فقد ان ہے اور نعرہ بلند و بالا لگائے جا تے ہیں ۔ کسان انتھک محنت کے باوجود غربت کی چکی میںپستا جا رہا ہے ، مزدور بیماری کے باوجود کام کر کے خون کے آنسو رو رہا ہے اور اس کے بر عکس یہ ہمارے لیڈران امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں ، اربوں روپوں میں ملکی قرضوں کا بوجھ صرف اور صرف غریب اور بے کس لوگوں کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے ، جس مقصد کے لئے یہ ملک آزاد کرایا گیا تھا ، اُس کو تو دفنا ہی دیا گیا ہے ، سیاست کو چکمانے میں دن رات صرف کیئے جا رہے ہیں ۔ جو جتنا چال باز، جھوٹ بولنے والا ، لعنت ملامت کر نے والا، بے ایمان ، دھوکے باز اور وعدوں کوتوڑنے والا ہو گااتنا ہی بڑا سیاسی ہو گا۔ اپنی سیاست کی گٹھری کو مداریوں کی طرح گلی کوچوں میں اُٹھاتے پھر تے نظر آتے ہیں ۔ ہمارے سیاست دانوں کی زبان درازی اس قدر حد پار کر چکی ہے کہ جیت کے بعد اپنے ووٹرس کونیچا دکھانے کے لئے ہمیشہ غلط ہتھکنڈ ے اختیار کیئے جا تے ہیں اور ہر اُس کا م کی طرف توجہ دی جا تی ہے جس میں کمیشن زیادہ نظر آتا ہے ۔ حالانہ گھر کی ضروریات میں سے ہمیشہ سب سے پہلے اُس ضرورت کو پورا کیا جا تا ہے ، جس کے پورا نہ ہو نے کی وجہہ سے نقصان ہو تا ہے ، اگر خوردونوش اشیاء کی ضرورت ہے تو ہم فرنیچر خرید کر اپنے گھر کو سجانے میں لگ جا ئیں اور بیماری کی حالت میں بجائے علاج معالجہ کہ بہترین قسم کے لباس زیب و تن اپنا لیں تو اس صورت کو کوئی بھی ہمیں عقل مند اور دانا نہیں کہے گا ۔بالکل یہی حالات ہمارے دولت کے پجاری سیاست دانوں کی ہے ۔ لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں گھرے ہو ئے ہیں ، بھوک نامی سب سے بڑی بیماری ہمیں دبوچے ہو ئے ہے اور یہ ہمیں میٹرو جیسے منصوبے اور مہینوں تک دھرنوں میں الجھانے کی روش اختیار کئیے ہوئے ہیں ۔ ہسپتالوں کا رخ کرلیں توایک بستر پر دو دو مریض ، ادویات کا فقدان، چیک اپ کی سہولت نہ ہو نے کے برابر ہے، اب خود ہی بتائیں کہ ان نام نہاد سیاست دانوں سے کیا امید لگائی جا سکتی ہے ۔ بہر حال ! عام انتخابات کے لئے تاریخ کا اعلان تو مغربی بنگال میں کر دیا گیا ہے ، جیسے جیسے الیکشن کے دن نزدیک آرہے ہیں سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے ۔ بڑے بڑے حرام خور محض اقتدار کی لالچ میں فرقہ پرست پارٹی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں ، ویسے بھی یہ تو ہر الیکشن میں ہو تا ہے کیونکہ دَل بدلُو !لیڈران کا کوئی مذہب اور زبان نہیں ہو تا ۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ پانچ سال تک جن کے نام پر نام کمایا ان کو ہی چھوڑ کر آگے جا رہے ہیں ، ایسے لوگ بہت کم تعداد میں کامیاب ہو تے ہیں اور اگر قسمت ان کاسا تھ دے ہی دے تو وہ اسمبلی ہال کی سیڑھیوں تک ہی سفر کر تے ہیں ان کی کوئی سنوائی نہیں ہو تی اور نہ ان کے مطالبات کو مانا جا تا ہے ، بس وہ اسمبلی ہال میں جا تے ضرور ہیں صرف سونے کے لئے اور حاضری لگوانے کے لئے ، وہ اسمبلی ہال میں کبھی اپنی عوام کی نمائندگی اچھے طریقے سے نہیں کر پا تے نتیجہ اس کے حلقے کی عوام ہمیشہ اس کی کارگردگی سے مایوس رہتی ہے ، اس وقت بی جے پی کی کوشش ہے کہ وہ بنگال میں اپنا سکہ جمانے کے لئے جس طرح کے بھی نمائندے ان کو ملیں ان کو ساتھ ملالیں ۔کوئی پرواہ نہیں کہ وہ ملک کے غدار ہیں ، کرپشن میں لت پت ہیں ، ان کو تو ہر وہ بندہ چاہئے جو سیٹ نکالنے والا ہو، وہ جس طرح کا بھی ہو ان کو اس سے کوئی مطلبنہیں ۔ بی جے پی نے کل تک جس جس سیاست دانوں پر انگلیاں اُٹھا ئیں آج وہی ان کو اچھے لگ رہے ہیں اور ان کو ساتھ ملانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں ۔ معزر قارئین ! ووٹ قومی امانت ہے اور اس کے درست استعمال سے جمہوری نظام کو فروغ ملتا ہے ۔ ترقی یافتہ معاشروں میں عوام کو بخوبی احساس ہو تا ہے کہ ان کا ووٹ ملک کے لئے کتنا اہم ہے ، مگر بد قسمتی سے ہمارے ہندوستان میں لوگ نادانی ،لاعلمی او ر تعلیم نہ ہو نے کی وجہہ سے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کر تے اور نہ ہی آج تک انھیں اپنے ووٹ کی قدرو قیمت کا اندازہ ہو اہے ۔ اس لئے آج بھی یہاں کے لوگ اکثر اپنا ووٹ دوسروں کے کہنے پر ایسے لوگوں کو دیتے ہیں ،جنھوں نے عوام کو سوائے غربت، جہالت اور غلامی کے کچھ نہیں دیا ، ماضی میں انتخابات سے قبل کبھی ایسی دھاندلی نہیں کی گئی جس کا مظاہرہ آج کیا جا رہا ہے ، کچھ مذہبی انتہاپسند اور فرقہ پرست لوگ دھاندلی پر اُتر آئے ہیں ۔ لہذا وقت آگیا ہے ، جو ملک کی دولت لوٹ کر ملک سے باہر لے جا تے ہیں ؟ جو فرقہ واریت ، علاقائیت ، برادری ازم اور لسانیت کی لعنت کو ہوا دیکر اور ملک میں بد امنی مپھیلا کر اپنے مذموم عزائم پورے کر تے ہوں ، جوعدلیہ کا مزاق پورے شد و مدسے اُڑاتے ہیں اور اسے تابع مہمل بنا رکھتے ہو ں ، جن کے نزدیک عدالتیں بنئے کی دکان سے کم نہ ہوں ، جو سادہ لوگوں کے ساتھ جھوٹے دعوے اور وعدے کر تے ہو ں اور انھیں سبز باغ دکھا کر ملک کے اثاثے اغیار کے حوالے کر تے ہوں ؟ ووٹ کے ذریعے ہم نے انھیں منتخب نہیں کر نا ہے ، بلکہ بنگال میں ایک ایسی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کر نا ہے جو آج دس سالوں سے اب تک ہمارے لئے کر تی آئی ہے اور آج بھی کر رہی ہے ۔ میری قوم کے جوانو! آئو یہ عہد کریں کہ ہمیں دوبارہ اسی سیکولر حکومت کو اپنے بنگال میں بر سر اقتدار لا نا ہے جو آئیندہ دس سالوں سے ہماری خدمت کر رہی ہے اور ہماری حفاظت کر رہی ہے ۔اگر ہم نے لاشعوری طور پر فرقہ پرست پارٹی کو آنے کا موقع دیا تو پھر بنگال کا سارا نظام ہی در ہم بر ہم نہیں ہو گا بلکہ ہم مسلمانوں کے ساتھ بہتبُرا سلوک کیا جا ئے گا ۔ اس لئے ممتابنرجی کی حکومت کو مضبوط کریں اور ظالم حکومت سے اس بنگال کو بچائیں ۔
Mob : 8820551001

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here