مرکزی بجٹ

0
156

موجودہ مرکزی حکومت پر ایک بڑا الزام روز اول ہی سے یہ لگتا رہا ہے کہ یہ ہندوستانی عوام کی سرکار نہیں بلکہ ملک کے چند سرمایہ داروں کی سرکار ہے۔جب حکومت کا قیام عمل میں آہا ہے تب سے آج تک کئی ایسے بڑے فیصلے بھی ہوئے جن کی بنا پر ان الزامات کی تصدیق بھی ہووتی نظر آئی اور ان الزامات کو پختگی اس لئے بھی ملی کہ حکومت نے کبھی کسی الزام کی سٖآئی دیینا ضروری نہیں سمجھا ۔بلکہ اس نے جو بھی فیصلے کئے ان میں سے جس بھی فیصلہ کی مخالفت ملک کے عوام کی ایک بڑی تعداد نے بھی کی اور لوگ اپنی عورتون اور بچوں کے ساتھ سڑکوں پر آگئے اور مہینوں سردی گرمی کی سختیان جھیلتے رہے لیکن مکرکزی حکومت نے انھیں مطمئن کرنے کے لئے کبھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے کہ پیغام جاتا کہ وہ عوام کی ہمدرد ہے اور اس کے پیش نظر عوام ہی سب کچھ ہیں۔جن کی بنا پر مخالف پارٹیوں کو بھی خوب موقع ملا کہ وہ احتجاج کرنے والے اور مخالفت کرنے والوں کی آڑ میں اپنی سیاسی روٹیان سیکنے کا کام کرتی رہیں۔تازہ معامل کسان تحریک سامنے ہے۔ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کسان مرد عورت بچے سب اتنے سخت موسم میں اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے زرعی اصالاحی قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے یہ پیغام جائے کہ اسے ہندوستانی عوام کی فکر ہے۔عدالتوں میں تو مقدمات کا انبار ہے اس لئے وہاں تاریخ پر تاریخ ملتی رہتی ہے۔لیکن حکومت کے سامنے ایسا کون سا احتجاج کا انبار ہے کہ وہ کسان تحریک کا کوئی حل نکلانے کے لئے سنجیدہ نظر نہیں آ رہی ۔
اسی تناظر میںمرکزی وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے آج لوک سبھا میں عام بجٹ 22-2021 پیش کر دیا، جس کے بارے مین کہا جا رہا ہے کہ اس بجٹ کے ساتھ ہی کسان، مزدور، غریب، متوسط طبقہ سبھی کی امیدیں ٹوٹ گئیں۔ اگر کسی کو اس بجٹ سے فائدہ ہوا ہے تو وہ سرمایہ دار طبقہ ہے، لیکن کئی ٹریڈ یونین نے بھی اس بجٹ کو انتہائی مایوس کن قرار دیا ہے۔ اس درمیان قابل غور بات یہ ہے کہ بجٹ 2021 سے اقلیتی طبقہ پوری طرح سے غائب ہو گیا ہے، یا پھر یوں کہیں کہ مرکز کی مودی حکومت نے مسلمانوں کو پوری طرح سے فراموش کر دیا۔
مرکزی بجٹ کے تعلق سے اپوزیشن پارٹی لیڈران اور معاشی ماہرین کے رد عمل لگاتار سامنے آ رہے ہیں، اور بیشتر نے بجٹ کو مایوس کن ہی قرار دیا ہے۔ خصوصی طور پر تعلیم اور ملازمت کے شعبہ میں کوئی خیر خواہ قدم نہ اٹھائے جانے سے لوگ حیرت میں ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ حیرانی کی بات جو اس بجٹ میں دیکھنے کو ملی، وہ یہی ہے کہ اقلیتی طبقہ کے تعلق سے نرملا سیتارمن نے ’دل بہلانے‘ کے لیے بھی کوئی بات نہیں کی۔ اس سے زیادہ حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ جو لوگ اس بجٹ کو غریب اور مزدور مخالف قرار دے رہے ہیں انھوں نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا کہ یہ بجٹ ’اقلیت مخالف‘ بھی ہے۔
دراصل مرکزی وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے آج جو بجٹ پیش کیا ہے اس میں نہ تو انکم ٹیکس سلیب میں کوئی چھوٹ دی ہے اور نہ ہی تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا ہے، نہ ہی جی ایس ٹی کے تعلق سے کوئی آسانی فراہم کی ہے اور نہ ہی کسانوں کے لیے کوئی آسانی میسر کی ہے، حتیٰ کہ غیر منظم سیکٹر کے لیے بھی کوئی اچھی خبر نہیں دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بجٹ 22-2021 کی چہار جانب سے تنقید ہو رہی ہے۔(یہ بھی سچ ہے کہ آج تک کوئی ایسا بجٹ نہیں آیا کہ جس کی چاروں طرف سے تعریف ہوئی ہو )۔۔جبکہ ابھی دو دن پہلے سرکاری طور پر یہ دعوی کیا گیا تھا کہ 2021 میں ترقی کی رفتا بہت تیز ہونے والی ہے کہ 2020 کا غم عوام بھول جائیں گے۔شاید آج کا بجٹ اس کی پہلی بانگی ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here