جنگ بندی اور فتح-Ceasefire and victory

0
166
Palestinians hold flags as they stand at the compound that houses Al-Aqsa Mosque, known to Muslims as Noble Sanctuary and to Jews as Temple Mount, in Jerusalem's Old City May 21, 2021. REUTERS/Ammar Awad

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ عالمی برادری، مسلم ممالک اور امریکی دباؤ کے بعد اسرائیل اور فلسطینی تنظیموں کے درمیان جنگ بندی کے اعلان دونوں طر ف سے کر دیا گیا۔حالانکہ دونوں ہی طرف ککے لوگ جنگ نہ بند کرنے کا اعلان کر رہے تھے۔اور ہم لکھ رہے تھے کہ جنگ کسی مسئہ کا حل نہیں ہے ۔اور یہ جنگ فیصلہ کن موڑ تک بھی نہیں پہونچنے والی ہے کیونکہ مسئلہ نہایت سنگین ااور پیچیدہ ہے۔اسرائیل دنیا کی بہترین فوجی طاقت کی مالک ہے اور حماس اور اسلامی جہان کے پاس اس کے مقابلہ کوئی جنگی سامان نہیں ہے لیکن ان کے حوصلے بہت بلند ہیں کیونکہ ا ن کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے۔جنگ بندی کے اعلان کے بعد غزہ کی سڑکوں پر جشن کی آوازیں سنائی دینے لگیں جس میں کاروں کے ہارن بجائے , چند ہوائی فائر بھی کیے گئے اور پٹاخے بھی چھوڑے گئے جبکہ مقبوضہ مغربی کنارے پر ہجوم سڑکوں پر نکل آیا۔
اس جنگ بندی کے سمجھوتے میں سب اہم کردار مصر نے ادا کیا ہے جس کا اعتراف امریکی صدر جو بائڈن نے بھی کیا ہے اور اسرائیل وزیر اعظم نتین یاہو نے بھی۔امریکی صدر جو بائیڈن نے سمجھوتے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ‘مجھے یقین ہے کہ ہمارے پاس ترقی کرنے کا حقیقی موقع ہے اور میں اس کے لیے کام کرنے کے لئے پرعزم ہوں ‘ ساتھ ہی انہوں نے سمجھوتے کے لیے مصر کی کوششوں کو بھی سراہا۔اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتین یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ سیکیورٹی کابینہ نے تمام سیکیورٹی حکام کی جانب سے مصر کے غیر مشروط باہمی جنگ بندی کے منصوبے کو قبول کرنے کی سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔
دوسری جانب حماس اور اسلامی جہاد نے بھی اپنے بیانات میں بھی فوری طور سےجنگ بندی کی تصدیق کردی ۔حماس کے سینیئر رہنما خلیل الحیا نے خوشی منانے کے لیے سڑکوں پر جمع ہزاروں فلسطینیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ فتح کی خوشی ہے‘۔بین الاقوامی سطح پر 10 مئی سے جاری خون خرابے کو روکنے کے دباؤ کے بعد اس جنگ بندی کے لیے مصر نے مذاکرات کیے تھے جس میں غزہ کا دوسرا طاقتور عسکری گروہ اسلامی جہاد بھی شامل تھا۔
یہ جشن اس لئے بھی منایا جا رہا تاتھا کیونکہ لڑائی کی وجہ سے غزہ میں فلسطینی عید الفطر کا تہوار نہیں مناسکے تھے چنانچہ جمعے کے روز غزہ میں عید کے ملتوی کھانے کھائے گئے۔ ادھر اسرائیلی ریڈیو اسٹیشن جو مسلسل خبریں اور تبصرے نشر کررہے تھے وہاںدوبارہ موسیقی اور گانے بجانے شروع ہوگئے۔تاہم دونوں فریقین کا کہنا تھا کہ وہ دوسرے فریق کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی پر ردِ عمل کے لیے تیار ہیں۔ یعنی آگ پوری طرح سے ٹھنڈی نہیں ہوئی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف خدشات اور شبہات دونوں جانب موجود ہیں۔(واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر بیت المقدس میں پابندیاں عائد کرنے اور ماہِ رمضان کے دوران اسرائیلی پولیس کی جانب سے مسجد الاقصیٰ میں دھاوا بولنے کے بعد 10 مئی کو اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئی تھیں)ان شبہات کے درمیان اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تنازع کا بنیادی محرک حل کرنے کے لیے مذاکرات کریں۔ ساتھ ہی انہوں نے بین الاقوامی برادری سے تعمیر نو اور بحالی کے لے تیز، پائیدار معاونت کے مضبوط پیکج کے لیے اقوامِ متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس جنگ بندی کو فلسطین کی فتح قرار دیتے ہو ئے ایک بڑے طبقے میں فتح کا جشن بھی منایا جا رہا ہے۔کیا واقعی یہ حماس اور اسلامی جہاد کی فتح ہے۔اگار ہاں تو حماس اور اسلامی جہاد کو کیا حاصل ہوا ہے۔کیا مسجد اقصی کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔کیا فلسطینیوں کو ان کی مقبوضہ زمین واپس مل گئی ہے۔یا کوئی ایسا معاہدہ ہو گیا ہے کہ جس میں یہ کہا گیا ہو کہ اب اسرائیل کوئی شرارت نہیں کرے گا۔اور فلسطینی اب سکون و چین سے رہ سکیں گے۔سچ تو یہ ہے کہ اسرئیلی حملوں کے نتیجے میں فلسطین میںعمارتوں کے ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہونے کی وجہ سے ایک لاکھ 20 ہزار افراد ر بدر ہوگئے ہیں۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان 11 روز کے دوران اسرائیل کی جانب سے غزہ میں کی گئی بمباری کے نتیجے میں 65 بچوں سمیت 232 فلسطینی جاں بحق ہوئے جن میں جنگجو بھی شامل تھے جبکہ 1900 کے قریب زخمی ہوئے۔دوسری جانب حماس کے راکٹس کے نتیجے میں اسرائیل میں ایک فوجی اور 2 بچوں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک ہندوستانی اور 2 تھائی لینڈ کے شہری شامل تھے۔اس صورت حال کا پور غور کرنے کے بعد کہاں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ جنگ بندی حماس اور اسلامی جہاد کی فتح ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ مزید نقصان سے فی الحال دونوں فریق محفوظ ہو گئے ہیں۔اب ایسے میں عالمی برادری کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین تنازع کا دائمی حل تلاش کرنے کی سنجیدہ کوششیں شروع کی جائیں تاکہ آئندہ ایسے حالات نہ پیدا ہونے پائیں۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here