ڈاکٹر سلیم خان
مرکزی حکومت کو مغربی بنگال کے اندر اپنے آپ کو ذلیل کروانے میں مزہ آتا ہے۔ اس لیے اس نے صوبائی حکومت کے دو وزرا سبرتو مکھرجی اور فرہاد حکیم کو سی بی آئی کے ذریعہ ناردا اسٹنگ معاملے میں گرفتارکروایا۔ اس سے برہم وزیرا علیٰ ممتا بنرجی اپنے کارکنان کے ساتھ سی بی آئی کے دفتر پہنچ گئیں اور سوال کیا کہ اسی معاملے میں ملوث بی جے پی کے رہنما مکل رائے اور شوبھندو ادھیکاری کوکومں گرفتار نہیں کیا گیا ؟ ان دونوں وزرا کے علاوہ ترنمول کانگریس کے ممبر اسمبلی مدن مترا اور سابق میئر شوبھن چٹرجی کی بھی گرفتار ی ہوئی ۔ ان کا قصور یہ ہے کہ وہ بھی رائے اور ادھیکاری کی مانند ترنمول کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں چلے گئے تھے لیکن ٹکٹ سے محرومی کے سبب ’صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آیا‘ اور کامیاب بھی ہوگیا ۔ اب بی جے پی نے انہیں سزا دینے کا فیصلہ کیا تو ٹی ایم سی کے کارکنان سی بی آئی کے دفترپر توڑ پھوڑ مچادی ۔ شام ہوتے ہوتے چاروں کو پیشگی ضمانت مل گئی اور پتوں کی کامیابی پر کمل ہاتھ ملتا رہ گیا ۔ بنگال میں بی جے پی کے ہاتھ بار بار رسوائی ہاتھ آرہی ہے لیکن وہ سبق سیکھنے کے بجائے ضدی بچے کی مانند مچل جاتی ہے ۔ سی بی آئی شاہ جی کے اشارے پر اپنی ہی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا اور اس نے ضمانت پر روک لگا دی ۔
شاہ جی گزشتہ ۶ ماہ سے کورونا کی جان لیوا وبا کو بھول بھال کر ممتا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ انہیں کی مہربانی سے مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات کے نتائج امن کے بجائے تشدد کا پیغام لے کر وارد ہوئے ۔ انتخابی نتائج کے بعد شروع ہونے والے تشدد میں مہلوکین کی تعداد20 تک پہنچ گئی ۔ ذرائع کے مطابق ان میں ۹ کا تعلق بی جے پی اور ۸ کا ٹی ایم سی سے ہے۔ ایک سی پی ایم اور ایک آئی ایس ایف سے متعلق ہے ۔ ایک ایسا بدنصیب بھی ہے کہ جس کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا ۔ اس تشدد پر ایک طرف بی جے پی اور ترنمول کے مابین لفظی مہابھارت برپا لیکن اسی کے ساتھ وزارت داخلہ نے تشدد سے متعلق رپورٹ طلب کرکے جائزہ لینے کی خاطر ایک وفد بھی روانہ کردیا ہے۔ بی جے پی بڑی شدو مد کے ساتھ اپنے حامیوں کے نشانہ بنا ئے جانے کا شور مچا رہی ہے۔ وزیر اعظم کو 2002 کے فسادات کی یاد دلانے والی کنگنا رناوت نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ مودی جی کے ہوتے سنگھی بہادروں کو مغربی بنگال سے بھاگ کر آسام جانے کی نوبت آئے گی۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آسامی نہ بنگلادیش سے آنے والے بنگالیوں کے بھی اتنے دشمن ہیں جتنے مغربی بنگال باشندوں کے ہیں۔ وہ کسی صورت ان کا نام این آر سی میں شامل نہیں ہوں گے اور نہ سی اے اےکا چور دروازہ کھولیں گے ۔
دوسروں کے گھروں اور دوکانوں کو آگ لگانے والی بھارتیہ جنتاپارٹی کے ریاستی صدر دلیپ گھوش ا پیم پارٹی کے دفاتر میں آتشزدگی کی مبینہ ویڈیو بھی شیئر کرکے آنسو بہا رہے ہیں ۔گھوش نے کہا کہ بدقسمتی سے جب کووڈ 19 کا بحران عروج پر ہے تو ریاست میں انتخابات کے بعد کے تشدد برپا ہے۔ وہ بھول گئے کہ مغربی بنگال میں انتخاب کے وقت بھی کورونا کا زور وں پر تھا لیکن اقتدار کی ہوس نے ان لوگوں کو اندھا کردیا تھا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کی توجہ جب اس جانب مبذول کرائی جاتی تھی تو عجیب و غریب دلائل دیتے تھے ۔ کبھی کہتے کہ مہاراشٹر اور دہلی میں کون سا انتخاب ہورہا ہے اور کبھی کہتے چونکہ بی جے پی کے مخالفین کو ان کی شکست کا خوف ستا رہا ہے اس لیے وہ انتخابی مہم کو مختصر کرکے آخری چار مراحل کا انتخاب ایک ساتھ کروانا چاہتے ہیں ۔ اب جبکہ بی جے پی کو پتہ چل گیا ہے کس کی ہار ہوئی اور کون جیت گیا تو اسے کورونا کا رونا آرہا ہے ۔
ریاستی صدر دلیپ گھوش نے الیکشن کمیشن سے گہار لگانے کی بات توکی مگر بھول گئے کہ جس وقت یہ تشدد ہورہا تھا ریاست کا نظم و نسق ممتا کے نہیں کمیشن کے ہاتھوں میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گورنر جگدیپ دھنکڑ نے جب حلف برداری کے بعد ممتا بنرجی سے موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تو وہ بولیں ابھی تک کمیشن کے ہاتھوں میں کاگن ہے اب میں سنبھالوں گی تو قابو میں کروں گی۔ وزیر اعظم کے کہنے پر گورنر نے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اورکولکاتہ پولیس کمشنر کو بھی طلب کیا مگر ممتا بنرجی نے نہلے پر دہلہ مارتے ہوئے ان کا تبادلہ کردیا ۔ سنگھ کی طلبا تنظیم اے بی وی پی نے الزام لگایا کہ ٹی ایم سی پارٹی کے کارکنان نے جان بوجھ کر ہندو دیوتاؤں اور مجاہد آزادی کے مجسموں کی بے حرمتی کی۔آئی ٹی سیل نے اس موقع پر ہوا سازی کے لیے جعلی ویڈیوز کا طوفان برپا کردیا حالانکہ ان میں سے بیشتر کی تردید ان میں نظر آنے والے افراداور انتظامیہ کر چکاہے ۔ ٹی ایم سی بھی بی جے پی والوں پر اپنے کارکنان کے قتل کا الزام لگا رہی ہے اور سنگھی پروپگنڈے کو پرانی تصاویر کا پلندہ بتا رہی ہے۔
یہ عجب تماشا ہے کہ بی جے پی کے مطابق نندی گرام میں ممتا بنرجی پر حملہ ہو تو وہ ٹی ایم سی والے حملہ کرتے ہیں اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور پارلیمانی امور وی مرلی دھرن کے قافلے پر حملہ کرنے والے بھی وہی لوگ ہوتے ہیں۔ ممتا بنرجی اگر اپنے اوپر حملے کا ناٹک کر سکتی ہیں تو بی جے پی کیوں نہیں کرسکتی جبکہ سب سے ناٹک باز تو وہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو سمراٹ اشوک کی اولاد سمجھنے والے بی جے پی کے کاغذی شیر وں نے کیا ممتا بنرجی کی چوڑیاں پہن کر اپنے ہاتھوں میں مہندی لگا رکھی ہے؟ بی جے پی کی قدیم حلیف شیوسینا نے جو اس کی ریشہ دوانیوں سے خوب واقف ہے اپنے ترجمان ’سامنا‘ کے اداریہ میں لکھا ہے کہ ، ‘‘مغربی بنگال میں حقیقت میں کیا ہو رہا ہے اور اس کے پیچھے غیبی طور پر کس کا ہاتھ ہے؟ یہ چیزیں واضح ہونی چاہیئں۔ جب سے ریاست میں بی جے پی کو شکست فاش ہوئی ہے تبھی سے تشدد کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ترنمول کانگریس کے کارکنان نے بی جے پی کے کارکنان کے ساتھ مار پیٹ کی لیکن یہ سب غلط تشہیر ہے۔‘‘
شیوسینا نے توگویا شک کی سوئی بی جے پی کی جانب گھما دی ہے۔ سامنا مزید لکھتا ہے کہ ’’وزیر اعظم نریندر مودی نے مغربی بنگال کے گورنر سے بات کر کے حالات سے آگاہی حاصل کی۔ بی جے پی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بھی ہائی کورٹ کا رخ کر کے ممتا بنرجی کو تشدد کا ذمہ دار قرار دیا اور ریاست میں گونر راج تک نافذ کرنے کا مطالبہ کر ڈالا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی سازش کر رہی ہے۔‘‘اداریہ میں کورونا وائرس کی تباہی کے دوران فسادات پر سیاست اور دلیپ گھوش و آدتیہ ناتھ کی انتخابی تشہیر پر تنقید کی گئی۔ بی جے پی فسادات کی سیاست میں کس قدر نیچے گر گئی ہے اس کا اندازہ کمال چالاکی سے کیے جانے والے ایک ٹویٹ سے کیا جاسکتا ہے جس میں لکھا گیا تھا کہ ’’ معذرت امیت شاہ ، میں نے تم پر بھروسہ کیا اور تمہیں ووٹ دیا لیکن اب میری عصمت دری کی جارہی کیونکہ تم الیکشن ہار گئے۔ برائے کرم مجھے آبرو ریزی سے بچائیں۔ آپ کے پاس مرکز میں ۳۰۳ نشستیں ہیں۔ اس طرح بغیر ریڈھ کی ہڈی والا نہ بنیں‘‘۔
اس ٹویٹ کے بعد ٹوئیٹر پر ہیش ٹیگ # ممتا کو گرفتار کریں#بنگال تشدد # بے ریڈھ کی ہڈی والی بی جے پی، چل پڑا۔ اس ٹویٹ کے ساتھ الگ سے یہ بھی لکھ کو تشہیر کی گئی کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا اقتدار قائم کرنے والوں کو بنگال میں قتل کیا جارہا ہے۔ اگر آپ ان کی حفاظت نہیں کرسکے تو بزدل کہلاوگے ۔ آپ بزدل نہیں ہیں اس لیے صرف گفتگوکرنے کے بجائے سخت اقدام کریں ۔ اسی کے بھیشما پتامہا کہلانے کی عار دلاکر بہت ساری بکواس کی گئی ۔ ٹویٹ میں دکھائی جانے والی تصویر کی تفتیش سے پتہ چلا کہ یہ 6 نومبر 2020 کو بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ کے ذریعہ سب سے پہلے مشتہر کی گئی تھی۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے جب بانکورہ کے اندر ایک قبائلی بی بھیشان ہانڈا کے گھر کھانا کھایا تو ان کی بیٹی کے ساتھ یہ تصویر کھنچوائی گئی تھی ۔ یہ سراغ مل جانے کے بعد بوم نامی ادارے نے تفتیش کے لیے لڑکی کے والد سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا وہ اور ان کی بیٹی محفوظ و مامون ہیں۔ ان کے علاقہ میں کوئی تشدد نہیں ہوا۔ ان کی بیٹی کے حوالے سے پھیلائی جانے والی رپورٹ جھوٹی ہے۔
مذکورہ لڑکی بارہویں جماعت کی طالبہ ہے۔ بانکورہ پولس سے لوجکل انڈیا نے رابطہ کیا تو اس نے بھی لاعلمی کا اظہار کردیا ۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ سماجی رابطے کے ذرائع میں پھیلائی جانے والی یہ خبر سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ اس قبیل کی دیگر خبروں پر بھی اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر اس ڈرامہ بازی کی وجہ کیا ہے؟ ہندوستان کے اکثریتی فرقہ کے لیے اس کے جواب کی رسائی مشکل ہے مگر اقلیتوں کے لیے سہل ہے کیونکہ وہ اس صورتحال سے گزرتے رہے ہیں ۔ فی الحال بی جے پی جس طرح ہندووں کی ہمدرد بن کر ان کا سیاسی استحصال کررہی ہے اسی طرح کا معاملہ برسوں تک مسلمانوں کے ساتھ سیکولر جماعتوں کی جانب سے روا رکھا جا چکا ہے۔ وہ لوگ مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کے احساس کو خوب بڑھاتے تھے اور خود کو نجات دہندہ بنا کر پیش کرتے تھے تاکہ مسلمان ان کی پناہ میں اپنے لیے عافیت سمجھیں ۔
یہ کھیل ایسے وقت میں زیادہ شدو مد سے کھیلا جاتا تھا کہ جب کسی اور پارٹی خاص طور پر بی جے پی کی کامیابی ملتی ۔ فرقہ وارانہ فساد کے بعدمسلمانوں کو اپنی غلطی کا احساس دلایا جاتا کہ اگر وہ انہیں ووٹ دیتے تو ایسا نہ ہوتا ۔ اس سے یہ پیغام بھی جاتا کہ آئندہ اس طرح کی غلطی کو دوہرایا نہ جائے۔ بی جے پی اپنے اوچھے پروپگنڈے کے ذریعہ فی الحال بنگال کے ہندووں کو ان کی غلطی کا احساس دلا رہی ہے نیز اس تشدد کے بہانے بنگال میں صدر راج نافذ کرکے اقتدار پر غیر قانونی قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ ایسا کرنے کے نتیجے میں ممتا بنرجی کے تئیں عوام کی ہمدردی میں مزید اضافہ ہوگا اور انتخاب میں وہ پھر سے کامیاب ہوجائیں گی؟ بی جے پی یہ غلطی پچھلی مرتبہ کرچکی ہے اس لیے اسے اپنی گزشتہ ناکامی سے عبرت پکڑ کر ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیے مگر ظالم ایسا کم ہی کرتے ہیں؟ ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: ’’اس طرح فرعون کے لیے اس کی بد عملی خوشنما بنا دی گئی اور وہ راہ راست سے روک دیا گیا فرعون کی ساری چال بازی (اُس کی اپنی) تباہی کے راستہ ہی میں صرف ہوئی‘‘۔٭
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)