کم عمر شادی کا عذاب جھیلتی سرحد کی بیٹیاں – Border daughters suffering from early marriage

0
193

Border daughters suffering from early marriage

رخسار کو ثر ،مہنڈر، پونچھ
جذبات کا قتل ہوتے اورخوا بوں کو ٹوٹتے دیکھا جب 16 سال کی عمر میں ماں بابا نے کہا ـ’’بیٹی کل سے تم پرآئی ہو جاؤگی ‘‘یہ لفظ نیا تو تھا،مگر آہستہ آہستہ سمجھ میں آنے لگا تھا۔سہمی ہوئی میں ایک ہی لفظ بول پائی ’’دسو یں کے امتحان چل رہے ہیں، میں آگے بھی پڑھنا چاہتی ہوں‘‘ ان کا کہنا تھا کہ بیٹی سسرال والوں نے کہا ہے کہ آگے پڑھائیں گے، تم وہاں جاکر اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتی ہو۔ 2013 میں میری رخصتی ہوگئی ۔آج جب لڑکیوں کو اسکول جاتے دیکھتی ہوں تو مجھے بہت اذیت ہوئی کیونکہ میری زندگی سے اسکول کا نام توسات سال پہلے ہی مٹ چکا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں جس شادی کے لیے میرا اسکول چھڑایا گیا تھا، میرے خواب مجھ سے چھین لے گئے تھے، آج وہ رشتہ بھی پیچیدہ ہے ۔
شادی کے بعد اذیت شروع ہوگئی تھی۔ بات بات پر شدید تکلیف پہنچانا روز کا حصہ بن گیا ۔یہاں تک کہ میرے شوہر نے دوسری شادی کر لی ۔ آج چھ سال ہوگے، ہمارا کیس کورٹ میں پینڈنگ ہے اور میں اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھی ہوں ۔میرے ماں باپ بہت غریب ہیں اور زیادہ تر میں بیمار رہتی ہو ں۔ سارا خرچہ ان کو اٹھانا پڑتا ہے۔نہ کنواری اور نہ شادی شدہ لڑکیوں میں میرا کوئی شمار ہے۔ حالانکہ مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ شادی کے بعد بھی اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتی ہوں ۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ داخلہ لینے سے منع کر دیا گیا۔اس طرح میری پڑھائی اور خواب سب ادھورے رہ گئے۔ یہ ٹوٹے ہوئے خواب کسی افسانہ سے درج نہیںہیں بلکہ جموں کے سرحدی علاقہ پونچھ کے مہنڈر تحصیل میں واقع گاؤں مانجیاڑی کی افسانہ (نام بدلہ ہوا) کی ہے۔کم عمر میں شادی اور پھر جسمانی اور زہنی استحصال کایہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔اس طرح نہ جانے کتنی بچیو ں کے خواب دفنا ئے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شق نہیں ہے کہ ہندوستان سمیت متعدد ترقی پذیر ممالک میں کم عمری کی شادی ایک سب سے بڑا چیلنج ہے۔یہ برائی سماجی اور ثقافتی اصولوں کے نتیجے میں طویل عرصے سے ہندوستان میں رائج ہے۔ حالانکہ ہندوستانی قانون کے مطابق 18 سال سے کم عمر لڑکی اور اکیس سال سے کم عمر لڑکے کی شادی کو قانونی جرم مانا جاتا۔لیکن اس کے باوجود زیادہ تربچیوں کی شادی کم عمر میں کر دی جاتی ہے۔
2011کی مردم شماری کے مطابق تقریبا 102 ملین لڑکیوں کی شادی 18 سال سے کم عمرمیں کر دی گئی ہے، جن میں 46 فیصد کی شادی اس وقت ہوئی جب وہ 15 سال یا اس سے بھی کم عمر کی تھی۔جموں و کشمیر رضاکارانہ صحت اور ترقیاتی انجمن کے رضاکارذبیر علی کے مطابق جموںکشمیر کے کئی علاقوں میںآج سے کچھ سال پہلے تک ایسے بہت سارے کیسز آتے تھے ، جہاں پندرہ اور سولہ سال کے بیچ کی عمر کی بچیوں کی شادی کرائی جاتی تھی۔لیکن اب بہت کم کیسز ہیں۔ کہیں نہ کہیں اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بچیاں خود اپنے لیے اسٹینڈ لینے لگی ہیں اورشادی سے پہلے پڑھائی کو ترجیح دے رہی ہیں۔دوسری جانب ماں باپ کی سونچ میں بھی بدلائو آئے ہیں۔پہلے ماں باپ کو بچیوں کی غیر محفوظ ماحول میں رہنے کاڈر رہتا تھا۔لیکن اب انکے بھی خیالات بدل رہے ہیں۔اب وہ بھی شادی سے زیادہ تعلیم کو اہمیت دینے لگے ہیں اوراس کی حمایت بھی کرتے ہیں۔
لیکن صوبہ جموں کے سرحدی ضلع پونچھ کی جب بات کی جائے توآج بھی یہاں بہت کچھ نہیں بدلاہے۔ نہ جانے کتنی بچیوں کا بچپن چھینا گیا ہے۔کتابیں پکڑنے والے ہاتھوں پر مہندی رچا ئی گئی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ جہاں جہالت ہے وہیں کچھ جغرافیائی اور سیاسی حالات بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ کیوں کہ آج بھی جب دو ممالک اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں تو اس کے نتائج کا خوف ماں باپ کی دل میں بنا رہتا ہے کہ نہ جانے کب سرحد پار سے آئے کسی گو لاکی وجہ سے ان کی بیٹی عمر بھر کے لئے اپاہج ہو جائے اور مصیبت کا باعث بن جائے۔ اس لئے وہ جلد سے جلد شادی کرانے کی سوچتے ہیں۔اس سلسلہ میںچائلڈ ویلفیر کمیٹی، پونچھ کے ممبر کرپال سنگھ بتاتے ہیں کہ”جہاں جموں کشمیر کے باقی علاقوں میں کم عمر لڑکیوں کی شادی بہت کم دیکھنے کو ملی ،وہی پونچھ میں پچھلے ایک سال میںاس معاملہ میں اضافہ پایا گیا ہے۔2020 میں ہمارے پاس 35 کیسز آئے تھے۔جن میں ہم نے 30 کی شادی رکوائی چونکہ پانچ کی پہلے ہی شادی ہو چکی تھی ۔ان کو ہم نے مائیکے والوں کو دے دیا کہ جب تک ان کی 18 سال کی عمر نہیں ہو جاتی تب تک وہ سسرال نہیں جائیں گی۔ اسی طرح سے پچھلے دو مہینے میں ہمارے پاس دس کیسز آئے ہیں۔ہمارے ریسرچ کے مطابق ایسے معاملات سرحدی علاقجات میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اس کی خاص وجوہات یہ رہتی ہے کہ ماں باپ کو گولا باری کا خوف رہتا ہے۔اس کے علاوہ ان کو بچیوں کی غیر محفوظی کا ڈر بھی ستاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بہت جلدی شادی کرا دیتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ایک کیس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ڈیڑھ سال پہلے تحصیل من کوٹ کے گاؤں کس بلا ڑی کا واقعہ ہے ۔جہاںسولہ سال کی بچی کو اس کے ماں باپ نے آٹھویں سے اسکول بند کروا کراس کارشتہ کرادیا۔ جب ہمارے پاس اس کی جانکاری آئی تو ہم نے گاؤں کے سرپنچ سے بات کی اور ان سے پتہ لگایا ۔جس کے باد اس کے ماں باپ کو سمجھایا۔ کچھ وقت تک سب ٹھیک رہا۔ پھر اچانک سے انہوں نے لڑکی کا نکاح کرا دیا۔ جب ہمارے پاس یہ دوبارہ سے کیس آیا،تو ہم نے لڑکی کے ماں باپ ،لڑکی اور اس کے باقی رشتہ داروں کو آفس میں بلایا۔جس کے بعد اس لڑکی کی ذمہ داری اس کے ماموں کو دے دی کہ جب تک اس کی عمر آٹھرہ سال نہیں ہوجاتی ،اس سے پہلے اس کی رخصتی نہیں کرائی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ اب ہم اس سلسلہ میںایک اویرنس کیمپ لگانے کی تیاری کر رہے ہیں۔کیوں کہ ماں باپ کو جانکاری نہیں ہوتی کہ کم عمر میں بیٹی کی شادی کرا دینے سے اس کی صحت پر کتناخراب اثر پڑتا ہے۔ بہت ساری لڑکیاں نفسیات کی شکار ہو جاتی ہیں۔ وہ ذمہ داریوں کو بخوبی طریقے سے نبھا نہیں سکتی ۔رشتے کو سمجھنے میں بہت وقت لگتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج طلاق کے کیسز زیادہ ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں کے رشتے میں طلاق کی نوبت آتی ہے۔
سی ڈبلو سی کی ممبر نمر تا لودھرا کے مطابق ’’دیگر علاقوں کے مقابلہ پونچھ کے اندرکم عمر میں شادی کے بہت زیادہ کیسز آ تے ہیں ۔ان میں زیادہ تر کیسز تحصیل مہنڈر اور حویلی کے ہوتے ہیں۔ جس میں کئی بچیوںکی عمر محض 15 سال ہوتی ہے۔ انہیں اتنا ڈرایا اور دھمکایا گیا ہوتا ہے کہ وہ کچھ بول نہیں پاتیں ہیں۔ جب کم عمرمیں بچی کی شادی ہو جاتی ہے، اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس کی پوری زندگی بدل رہی ہے۔ اس کے سر پر پورے گھر کی ذمہ داریاں آ جاتی ہیں۔ سسرال والوں کو اس سے بہت زیادہ امیدیں ہوتی ہیں۔ اور وہ بچی جس نے گھر پرکبھی خود کھانا نہیں بنایا ہوتا ہے ،سسرال میں سب کو الگ الگ کھانا بنا کے دینا پڑتا ہے۔ جس کا منفی اثراس کی صحت پر بھی پڑتا ہے۔اس کے علاوہ اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سسرال والوںکے تانوں سے وہ آہستہ آہستہ نفسیات کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ہماری یہ کوشش رہتی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ ماں باپ کو کم عمر میں شادی سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کریں‘‘۔
تحصیل مہنڈ ر گاؤں آڑی کی نفیسہ کوثر(نام بدلہ گیا) نم آنکھوں سے بتاتی ہیں”سن 2017 میں میرے لئے ایک رشتہ آیا اس وقت میں بی اے کر رہی تھی۔ امی ابو نے جب مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا ڈگری کے بعد شادی کروں گی۔ آہستہ آہستہ گھر والوں کا مجھ پر شادی کے لئے دباب بڑھنے لگا۔ ذہنی تشدد کے ساتھ ساتھ جسمانی بھی ہونے لگا۔ ایک دن امی نے پکڑا اور ابو نے بہت مارا۔ دوسرے دن میرا ایگزام تھا۔ میری کتابیں چھپا دی گئی۔ پھر میں اپنی ایک سہیلی سے کرایہ لیا اور کالج جا کر ایگز ام دیا۔اس دن مجھے یقین ہو گیا کہ امی ابو کو سمجھانا بے کار ہے اور شادی کے لئے ہامی بھر دی۔ میری مہندی والے دن اور رخصتی کے دوسرے دن بھی میرا اگزام تھا ۔ان سب کامیری صحت پر بہت اثر پڑا۔ خود کو بہت اکیلا سمجھنے لگی۔ جب ایک لڑکی کی زور زبردستی سے یا کم عمر میں شادی ہوتی ہے تو اس کے جذبات دفنائے جاتے ہیں۔ وہ زندگی جیتی نہیں کاٹتی ہیں ”۔دوسری جانب کم عمر شادی والی بچیوں کے ماں باپ کے مطابق ا سکول ہمارے گھر سے بہت دور ہے۔ ہم بچیوں کو اتنے دور اکیلے اسکول نہیں بھیج سکتے۔ ہمارے پاس اتنا سرمایا بھی نہیں ہوتا کہ دور دراز کہ اسکول بھیج سکیں۔دوسری مجبوری سرحد کی گولا باری اور بچیو ں کی عزت کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ معاشرے میں درندوں کی نظریں بچیوں کو نوچتیں ہیں ۔ہر روز ٹی وی پر خبر چل رہی ہوتی ہے جہاں بچیوں کی آبرو لوٹی جاتی ہے۔ ہمیں یہ خطرہ رات کو چین کی نیند سونے نہیں دیتا۔ اس لئے ان کی زندگی اور عزت کی خاطر ایک ہی ذریعہ بچتا ہے کہ شادی کرا دی جائے ”۔
واقعی یہ سچ ہے کہ شہر کے مقابلے دیہاتوں اور سرحدی علاقوں میں کم عمر بچیوں کی شادی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ماں باپ کو بچیوں کی جان کا اور غیر محفوظی کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ لیکن اس میں سب سے بڑا نقصان ان بچیوں کی صحت کا ہوتا ہے۔اس سلسلہ میں پونچھ کی گائناکالوجسٹ (ماہرامراض نسواں) ڈاکٹر روبینہ شفیق کہتی ہیں کہ کم عمر بچیوں کی شادی سے ان کی صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے ۔بہت ساری بچیاں ڈپریشن میں چلی جاتی ہیں ۔بہت پہلے کی بات کی جائے تو اس وقت لڑکیاں صحت مند ہوتی تھیں۔ اندر سے مضبوط ہوتی تھیں اور ان کا مینار کی پیریڈ سسرال میں شروع ہوتا تھا ۔لیکن اب چھوٹی عمر میں ملا کی پیریڈ شروع ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے لڑکیاں بہت کمزور رہتی ہیں۔ یہی وجہ رہتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو قیام نہیں رکھ سکتی ہیں۔ کم عمر میں حاملہ ہو نے کی وجہ سے بہت ساری بچیوں کی ڈلیوری کے وقت موت تک ہو جاتی ہے۔کئی بچیاں پوسٹپاٹم سا ئیکو سیس کی شکار ہو جاتی ہیں ۔یہ ایک سنگین بیماری ہے جو کم عمر میںماں بننے کی وجہ سے بچیوں کے دماغ پر اثر کرتی ہے۔ایسی صورتحال میں وہ اپنے بچے کی پرورش بھی نہیں کرسکتی اور ساتھ ہی اپنی صحت کا بھی خیال نہیں رکھ پاتی ہیں ”(یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا اوارڈ 2020کے تحت لکھا گیا ہے)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here