بی جے پی کی کھسکتی زمین- BJP’s slippery ground

0
370

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

BJP's slippery ground

کانگریس کے آخری دور حکومت میں ایسی فضا بنی تھی یا بنائی گئی تھی کہ عوام کو لگنے لگا کہ ملک واقعی بہت ہی برے دنوں سے گزر رہا ہے اور ملک کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ملک میں اچھےلوگوں کے خوابوں کے دن لے آئے اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئےمیڈیا نے نریندر مودی(جو اسوقت گٓگجرات کے وزری اعلی تھے ان کی ایسی تصویر پیش کی کہ سبھی کو لگنے لگا کہ ملک کے اچھے دن اسی شخص کی قیادت میں آ سکتے ہیں اور لوگوں نے مودی جی کی صورت میں ایسے وزیر اعظمکو منتخب کر لیا کہ مودی جی بس جادو کی چھڑی گھمائیںگے اور اچھے دن آ جائیں گے۔
آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے عوام کو ایسے اچھے دنوں کا خواب دکھایا جس میں ان کو نظر آیا کہ ملک سے کالا دھن ختم ہو گیا ہے اور نتیجہ میں ان کے نجی کھاتوں میں پندرہ پندرہ لاکھ جمع ہو گئے ہیں، پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے انہوں نے اپنی گاڑی استعمال کرنی بند کر دی تھیں، وہ اب ان گاڑیوں کو محض 34 روپے فی لیٹر پٹرول ڈلوا کر سڑکوں پر دوڑاتے پھر رہے ہیں، ڈالر کے مقابلہ روپے کی قیمت جو سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی عمر کی طرح بڑھ رہی تھی وہ بھی نوجوانوں کی عمر سے مقابلہ کرنے لگی ہے، مہنگائی کا تو پوچھو ہی نہیں، ایسا لگ رہا ہے جیسے ہر چیز مفت مل رہی ہو۔ کافی دنوں تک تو عوام اس خواب میں اتنے مست رہے کہ انہوں نے آنکھ کھولی ہی نہیں، لیکن بیچارے کب تک آنکھیں بند کیے سوتے رہتے، جینے کے لئے آنکھ تو کھولنی ہی تھی، لیکن آنکھ کھلتے ہی خواب چکنا چور ہو گیا کچھ لوگوں نے ابھی بھی ان اچھے دنوں کے لالچ میں آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور اس خواب کے حقیقت ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
اور اب جب مہنگائی میں 30 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے، ڈالر کے مقابلہ روپے کی قیمت بڑھتی ہی جا رہی ہے، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں عالمی منڈی میں وزیر اعظم کے ’نصیب‘ سے کم ہو گئی ہیں، لیکن عوام کے لئے یہ مستقل آسمان چھو رہی ہیں، یہ ضرور ہے کہ کالے دھن کے نام پر کی گئی نوٹ بندی نے عوام کے کاروبار تو ختم کر دیئے ہیں، لیکن کالا دھن ختم نہیں ہوا بلکہ ’سوئس‘ بینک میں ہندوستانیوں نے رقم خوب جمع کی ہے، جو ایک ریکارڈ بن گیا ہے، جب کالا دھن ختم نہیں ہوا تو پندرہ لاکھ بینک کھاتوں میں کیسے آتے۔ اوپر سے کورونا کی وبا نے حکومت کی کارکردگی پر اور سوال کھڑے کر دیئےہیں۔ اسپتالوں میں بستر نہ ہونے کی وجہ سے مریض دھکے کھاتے رہے، آکسیجن کی قلت کی وجہ سے مریض تڑپ تڑپ کر دم توڑتا ہوا نظر آیا، شمشان گھاٹ پر جب جگہ نہیں ملی تو کیسے کیسے آخری رسومات ادا کیں، اس کا حال اس کو ہی معلوم ہے۔
عوام میں اپنے قائد کے لئے ایسا اندھ بھکتی والا رجذبہ پیدا ہواتھا کہ وہ کسی بھی صورت اپنےقائد کی تنقید سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اس پارٹی اور اس کے قائد کے بھی اچھے دن غائب ہوتے نظر آ رہے ہیں، کیونکہ عوام نے آنکھیں کھولنی شروع کر دی ہیں اور وہ زمینی حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں ان کو احساس ہوگیا ہے کہ وہ اچھے دنوں کے نعرے میں چھلے گئے ہیں۔
بی جے پی کو آج ہر ریاست میں پریشانی کا سامنا ہے چاہے وہ اتر پردیش ہو، چاہے وہ کرناٹک ہو، چاہے وہ مدھیہ پردیش ہو، اترا کھنڈ میں چار مہینے میں ہی وزیر اعلی بدلنے کی مجبوری ہے کیونکہ چار ماہ پہلے جس کو وزیر اعلی بنایا گیا تھا اس نے استعفی دے دیا ہے۔ اس کے سب سے پرانے سیاسی ساتھی اکالی دل اور شیو سینا اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور کورونا وبا نے جس طرح گورننس کی پول کھولی ہے اس نے عوام کو خواب سے باہر بھی نکالا ہے اور اس کی وجہ سے ان کے غصہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب حکمراں جماعت کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ عوام خواب غفلت سے باہر آ گئے ہیں اور حقیقت کو دن کی روشنی میں جاگتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔بی جے پی میں ابھی تک وہی ہوتا تھا جو مودی شاہ کی جوڑی چاہتی تھی۔ ان دونوں کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں کھڑکتا تھا۔لیکن اب حالات رفتہ رفتہ بدل رہے ہیں۔ پارٹی پر مودی شاہ کی گرفت کمزور سے کمزور ہوتی جا رہی ہے اور بی جے پی میں بھی حالات ایسے بنتے جا رہے ہیں جن کے آگے پارٹی اعلیٰ کمان اور بالخصوص مودی اور شاہ بے بس نظر آنے لگے ہیں۔ اس وقت کئی ریاستوں میں پارٹی کے اندر جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ گروہ بندی عروج پر ہے ۔راجستھان ،اترپردیش،تری پورہ، کیرالہ اور مہاراشٹر میں بھی ریاستی بی جے پی میں دھڑے بندی ہے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کی ریاستی شاخوں میں بغاوت جیسے آثار ہیں اور بھاجپا کی زمین کھسک رہی ہے۔ اس کا اثر آئندہ سال پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر بھی ضرور پڑے گا۔

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here