بیو ی کے ذمہ شو ہر کے حقو ق

0
419

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: محمدمطیع الر حمٰن

اسلا م نے ہر انسا ن پر دو سر ے انسا ن کے حقو ق متعین فر ما ئے ہیں ، یعنی ذاتی ، معا شر تی ، معا شی اور قلبی حقو ق ۔ تو آج ہم ان شا ء اللہ شو ہر کے ان حقو ق کی تفصیل سے آگا ہ ہو نے کی کو شش کر یں گے۔ مستورات ان حقو ق کو اپنی ذمہ دا ری کے اعتبا ر سے سنیں ، جب کہ مر د حضر ات انہیں بیو یو ں پر مسلط ہو نے کے لیے نہیں ، بلکہ ان کی معا ونت اور اپنی بیٹیو ں کو ان کے شو ہر و ں کے حقو ق بتا نے کے لیے سنیں۔

بیو ی پر خا وند کے حقو ق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے ہیں ، بلکہ خا وند کے حقو ق تو بیو ی کے حقو ق سے بھی زیا دہ عظیم ہیں ، اس لیے کہ اللہ سبحا نہ تعا لیٰ نے فر ما یا ہے ان عو رتو ں کے بھی ویسے ہی حقو ق ہیں جیسے ان مر دو ں کے ہیں قا عد ہ (شر عی ) کے مو افق اور مر دو ں کو عورتو ں پر فضیلت ہے اور اللہ زبر دست ہے تد بیر والا ۔

اما م جصا ص رحمہ اللہ نے لکھا ہے: اللہ تعا لی نے اس آیت میں یہ بیا ن کیا ہے کہ خا وند اور بیو ی دو نو ں کے ایک دو سر ے پر حق ہیں اور خا وند کے بیو ی پر ایسے حق بھی جو بیو ی کے خا وند پر نہیں ۔

حضر ت عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، آپ فر ما ئی ہیں : میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے در یا فت کیا ، عو رت پر سب سے زیا دہ کس کا حق ہے؟ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے ارسا د فر ما یا اس کے شو ہر کا ، پھر میں نے عر ض کیا مر د پر سب سے زیا دہ کس کا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فر ما یا اس کی ما ں کا ‘‘۔

ایک صحا بیہ رضی اللہ عنہا نے جب خا وند کے حقوق کے با رے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : آدمی کا اس کی بیو ی پر حق یہ ہے کہ اگر اس کے بد ن پر کو ئی زخم ہو اور وہ اسے چا ٹ لے تو بھی اس نے اس کا حق ادا نہیں کیا ۔

یہ بھی پڑھیں

ہم نے خود شادی بیاہ کو مشکل بنادیا!

حضر ت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضو ر اقد س صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرما یا :کہ جس عو رت کا اس حا لت میں انتقا ل ہو جا ئے کہ اس کا شو ہر اس سے راضی ہو تو وہ عو رت جنت میں داخل ہو گی ۔

آہئے ! سب سے پہلے شو ہر کے ذاتی حقو ق کی با ت کر تے ہیں ۔

ذاتی حقو ق

حتی الو سع شو ہر کی جا ئز خو شی کے کا مو ں میں لگنا ۔

شو ہر کا احتر ام کر نا اور اس سے با ت چیت کر تے ہو ئے الفا ظ ، آواز اور لب و لہجے میں ادب کو ملحو ظ رکھنا اور اگر اسے بیو ی کی طر ف سے شو ہر کا نا م لے کر پکا رنا پسند نہ ہو تو اس کا لحا ظ رکھنا ۔

شا دی ہو جا نے کے بعد بیو ی کے لیے شو ہر کا نا م اپنے نا م کے سا تھ لکھنے یا استعما ل کر نے کے بارے میں کو ئی شر عی مما نعت نہیں ہے ۔

قبلی خو شی سے اس کی خد مت میں لگنا اور اس کے لبا س ، کھا نے وغیر ہ کی تیا ری میں اس کی مر ضی کا خیا ل رکھنا ۔ اور بر وقت اس کی ضر ورتو ں کو پو را کر نے کی کو شش کر نا ، مثلا : دفتر وغیر ہ جا نے کے وقت اس کے کپڑے تیا ر ہو ں ، جو تے تیا ر ہو ں اس کی ضر وری اشیا ء جو اس نے اپنے سا تھ لے جا نی ہیں وہ تیا ر ہو ں ، اور اب اشیا ء ایک معتین جگہ یا نظر و ں کے سا منے والی جگہ میں مو جو د ہو ں ، ایمر جنسی کے احوال میں کا م آنی ولی چیز یں با لخصو ص اضا فی سو ٹ وغیر ہ استر ی شد ہ تیا ر رکھنا ، اس کے واپس آ نے کے وقت ، گھر کی صفا ئی مکمل کیے ہو ئے رکھنا اور شو ہر کے کھا نا کھا نے کے وقت میں کھا نا تیار رکھنا ، وغیر ہ وغیر ہ امو ر شوہر کو خو ش کر دینے والے ہیں ۔

مر د گھر کے با ہر کی ذمہ د اری رکھتا ہے اور عو رت کی ذمہ داری گھر کے اند ر کی ہے، جیسےگھر کی نگر انی ، صفا ئی اور کھانے پینے کا انتظا م وغیر ہ ، یہی طر یقہ اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نے میں رائج رہا ہے ۔

حضر ت حصین بن محصن ؓ بیا ن کر تے ہیں کہ ان کی پھو پھی کسی حا جت کے لیے خد مت نبو ی میں حا ضر ہو ئیں ، جب اپنی حا جت سے فا رغ ہو گئیں تو آ پ نے در یا فت فر ما یا : کیا تو شا دی شدہ ہے؟ انہو ں نے جو اب دیا : جی ہا ں ، آپ نے فر ما یا : اپنے شو ہر کے سا تھ تیر امعا ملہ کیسا ہے؟ انہو ں نے کہا : اے اللہ کے رسو ل ! میں اس کے حق کی ادئیگی اور خد مت میں کو ئی کو تا ہی نہیں کر تی ، الا یہ کہ میر ے بس سے با ہر ہو ، آپ نے فر ما یا : دھیا ن رکھنا کہ اس کے سا تھ تمہا را معا ملہ کیسا رہتا ہے ، وہ تمہا رے لیے جنت یا جہنم کا سبب ہے ۔(مسند احمد )

حضر ت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضو ر اقد س صلیاللہ علیہ وسلم نے ارشا د فر ما یا :’’ جو عو رت پا نچ وقت کی نما ز پا بند ی سے پڑ ھتی رہے اور رمضا ن المبا رک کے روزے رکھے اور اپنی شر م گا ہ کی حفا ظت کر ے اور اپنے شو ہر کی اطا عت کر ے وہ جنت میں جس دروازے سے چا ہے داخل ہو جا ئے ‘‘۔

بیو ی کا انس و محبت میں شو ہر کو ہر وقت کے لیے خو د پر اختیا ر دینا ۔ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فر ما یا : جو شخص اپنی بیو ی کو اپنی حا جت کے لیے بلا ئے تو اسے چا ہیے کہ فو راََ آجا ئے ، چا ہے وہ چو لھے کے پا س مشغو ل ہو ۔

اور اسی طر ح حضر ت ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فر ما یا : کہ جب کو ئی شخص اپنی بیو ی کو اپنے پا س بلا ئے اور وہ انکا ر کرے ، پس شو ہر نا راض ہو کر رات گذارے تو اس عو رت پر صبح تک فر شتے لعنت کر تے رہتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص اپنی بیو ی کو اپنے پا س بلا ئے اور وہ انکا ر کر ے تو اللہ تعا لیٰ اس پر نا را ض ہو تا ہے، یہا ن تک کہ شوہر اس سے خو ش ہو جا ئے ۔

یہ کو شش کر نا کہ بلا وجہ شو ہر سے خد مت نہ لی جا ئے اور اگر کسی مو قع پر کو ئی کا م لینا ہی مقصود ہو تو کا م کا بتا تے ہو ئے درخواست کا لہجہ اختیا ر کر نا ، نہ کہ حکم کا ۔ ہا ں ، ایک دو ستا نہ بے تکلفی کی با ت اور ہے ۔

گھر میں کیے جا نے والے شو ہر کے کا مو ں میں حتی الو سع اس کا ہا تھ بٹا نا ۔

گھر یلو اور بچو ں کی تر بیت کے معا ملا ت میں شو ہر کے شر عا جا ئز فیصلو ں پر عمل کر نا اور اس کے مشو رہ طلب امو ر میں بھر پو ر اخلا ص سے اچھامشو رہ دینا اگر بیو ی کی لسی دینی خرابی کی وجہ سے شو ہر اس پر ہا تھ اٹھا ئے تو اس خر ابی کو دور کر نے کی فکر میں لگے اور شو ہر سے اپنا دل کھٹا نہ کر ے ۔ خاوند کو چا ہیے کہ وہ بیو ی کی نا فر ما نی کے وقت اسے اچھے اور احسن اند از میں ادب سکھا ئے ، نہ کہ کسی برائی کے سا تھ ، اس لیے کہ اللہ تعا لیٰ نے عو رتو ں کو اطا عت نہ کر نے کی صو رت میں علیحد گی اور ہلکی سی ما ر کی سزاد ے کر ادب سکھا نے کا حکم دیا ہے۔ معمو لی ما ر ما رنے کی اجا زت ہے، جس سے اس کے بد ن پر نشا نہ پڑ ے اور ہڈ ی ٹو ٹنے یا زخم لگنے تک نو بت نہ آئے اور چہر ہ پر ما رنے اور جسم کے نا زک اعضا ء پر ما رنا مطلقاََ منع قر ا ر دیا گیا ہے۔

خا وند کا بیو ی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اُسے داخل نہ ہو نے دے جسے اس کا خا وند نا پسند کر تا ہے ۔

اگر شو ہر ایک سے زا ئد نکا ح کر نا چا ہے تو اسے اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے خو شی سے اجا زت دینا ۔

معا شر تی حقو ق
تما م رشتو ں اورتعلقا ت کے ہر جا ئز معا ملے میں شو ہر کو تر جیح دینا ۔

اس کے ما ں با پ سے، خصو صا ما ں سے اپنے حقیقی ما ں با پ کی طر ح حسن سلو ک اختیا ر کر نا ، کیو ں کہ مر د پر سب سے زیا دہ حق اس کی ما ں کا ہے، جب کہ عو رت پر سب سے زیا دہ حق اس کے شو ہر کا ہے۔ شو ہر کے ما ں با پ یا د و سر ے اعز ہ کی طر ف سے اگر اسے کو ی تکلیف پہنچے تو اس کا شو ہر کو طعنہ نہ دینا کہ وہ تو ایسے ہیں ، ایسے ہیں اور ایسے ہیں ۔ اسی طر ح شو ہر کی طر ف سے پہنچنے والی نا گو اری کی وجہ سے اس کو کو ستے ہو ئے اس کے والد ین وغیر ہ کو درمیا ن میں داخل نہ کر نا ، مثلا: تم بھی ایسے ہو اور تمہا ر ا فلا ں اور فلا ں بھی ایسا ہی ہے۔

شو ہر کو بلا وجہ اس کے ما ں با پ اور گھر انے سے الگ ہو جا نے کے لیے اصرارنہ کر نا ۔

اس کے لیے ایسے کشمکش کے حا لا ت نہ پید ا کر نا جن میں اس کے لیے بیو ی اور اپنے دیگر متعلقہ رشتو ں کے درمیا ن فیصلہ کر نا مشکل ہو جا ئے ۔

شو ہر کو معا شر ے میں یعنی اپنے علا وہ لو گو ں میں عز ت دینا ۔ اس کے سا تھ کسی دوسرے، خصو صاََ اپنے ما ں با پ ، بہن بھا ئیو ں وغیر ہ کے سا منے اس سے بحث و تکر ارنہ کر نا ۔ بلا وجہ شکو ہ و شکا یت کا رویہ اختیا ر نہ کر نا ۔

اسی طر ح بچو ں کے سا منے ان کے با پ کا وقا ر بحا ل رکھنا ۔

اپنی سو کنو ں سے اچھے رویے سے پیش آنا اور کبھی کبھی انہیں اپنے حق پر تر جیح دینا ۔

بچو ں کے جو معا ملا ت ان کے با پ سے خصو صا متعلق ہیں یا جن معا ملا ت میں با پ انہیں کسی کا م کے کر نے کا حکم دے ، تو بچو ں کو یہ با ورکروانا کہ ان کا با پ ان کے اور ان کی ما ں کے معا ملے میں پو ری طر ح خو د مختار ہے۔

گھر مٰن بھی اور با ہر بھی ہر جا ئز کا م میں شو ہر کے ہر جا ئز فیصلے کی تصد یق کر نا ، ان فیصلو ں کی تا ئیدمیں اس کے سا تھ کھڑ ے ہو نا اور ان پر عمل در آمد میں حتی المقد و ر اس کی معا ونت کر نا ۔

اس کے دیگر رشتہ دارو ں کوبھی پر دے اور دیگر شر عی اصو لو ں کے اہتما م کے سا تھ عزت دینا اور شو ہر کے ان سے ملنے میں راضی رہنا ۔

شو ہر کی رازاور پر دے کی با تیں دوسر و ں سے محفو ظ رکھنا ۔

دو سر وں کے سا منے اند رو ن خا نہ مشکلا ت کو بطو ر شکو ہ و نا شکر ی ذکر نہ کر نا ۔

معا شی حقو ق
شر ہر کی آمد ن اور گھر با ر کے دیگر و سا ئل لسے زیا دہ اس سے مطا لنے نہ کر نا ۔
بے جا مطا لبا ت ، حد سے بڑ ھی ہو ئی اپنی ضر وریا ت اور فضو لیا ت پو ری کر وانے کے لیے شو ہر پر دبا و ٔ نہ ڈالنا ، قنا عت کی صفت والی عو رتیں اللہ تعا لیٰ کو بہت زیا دہ پسند ید ہ ہیں ۔ خا وند کی آمد ن کے اند ر ہی اپنی جا ئز ضر وریا ت پو ری کر وانا ۔
اس کے ما ل کی حفا ظت کر نا ، اسی طر ح ضر ورت کے کا مو ں میں بھی فضو ل خر چی نہ کر نا ، بلکہ کفا یت شعا ری کو اختیا ر کر نا ۔

شو ہر کی مر ضی اور اجا زت کے بغیر اس کے ما ل کو خو د یا کسی کو استعما ل کے لیے نہ دینا ۔ ہا ں ، چھو ٹی مو ٹی ایسی چیز یں جن کے بلا اجا زت استعما ل کر لینے کے بارے میں معر وف ہے کہ شو ہر نا راض نہیں ہو گا ان کے استعما ل میں حر ج نہیں ۔

شو ہر کی اجازت کے بغیر سلا ئی ، کڑ ھا ئی وغیر ہ معا شی مصر و فیا ت میں مشغو ل نہ ہو نا ، کیو ں کہ اس کا نا ن و نفقہ تو شو ہر پر ہی واجب ہے، اس لیے اس میں مشغو لیت کے سا تھ کہیں گھر یلو ذمہ داریو ں اور خا وند کی خد ما ت ضر و ریہ میں خلل نہ واقع ہو جا ئے اور اگر ایسا ہو ا تو یہ یقینا آپس کی رنجش اور اختلا ف کی طر ف لے جا نے والا ہے، لہٰذا ابلا اجا زت ایسے کا مو ں میںنہ پڑ ے ، ہا ں ! اگر شو ہر کی بھی تمنا ہو اور گھر یلو مصر و فیا ت سے بھی کچھ وقت مل جا ئے تو پھر ایسی مشغو لیا ت میں کو ئی حر ج کی با ت نہیں ہے ۔

قلبی حقو ق
قلبی حقو ق دوطر ح کے ہیں :1۔۔ر و حا نی پا کیز گی ۔2۔ذہنی سکو ن ۔
رو حا نی پا کیز گی
شو ہر دین کے معا ملے میں جتنا آگے بڑ ھنا چا ہے اس کا بھر پو ر تعا ون کر نا ۔اگر شوہر دعو ت و تبلیغ ، جہا د یاحصو ل علم کے لیے نکلنا چا ہے تو اس کا تعا ون کر نا ، بخو شی اسے اجا زت دینا ، بلا وجہ اس کے ان خیر کے ارادو ں میں رکا وٹ نہ بننا، واضح رہے کہ اپنے ایما ن و عما ل صا لحہ کی در ستگی اور بہتر ی کے لیے جد و جہد کر نا خا وند کی ایما نی ضر و ریا ت میں سے ہے ، ان کی تکمیل کے لیے و ہ قد م اٹھا تا ہے ، اُس مین اس کی معا ونت کی جا نی چا ہیے ۔ اور اگر رکا وٹ محض ہٹ دھر می کی وجہ سے ہو تو پھر ایسی صو رت میں خا وند کا اللہ کے راستے میں نکلنا بیو ی کی حق تلفی شما ر نہیں ہو گا ۔ اور اگر رکا وٹ کسی حقیقی عذر کی وجہ سے ہو تو اس صورت میں شو ہر کا نہ نکلنا بذات خو د ایک شر عی حکم ہے ۔
شو ہر کے لیے، اُس کے ما ں با پ اور دیگر معتلقین کے لیے دنیا و آخر ت کی خیر کی دعا ئیں کر نا ۔

حضر ت ابو ہر یر ہ ؓ سے روایت ہے حضو ر اقد س ﷺ سے دریا فت کیا گیا : کو ن سی عو رت اچھی ہے؟ آپ ﷺ نے ارشا د فرما یا : جب شو ہر اسے دیکھ لے تو خو ش کر دے اور جب اُسے حکم کر ے تو اطا عت کر ے اور اپنی ذات اور اپنے ما ل میں ایسا تصر ف نہ کر ے جسے شو ہر پسند نہ کر تا ہو ۔

ذہنی سکو ن
ذہنی سکو ن دینا ایک تو یہ ہے کہ مند ر جہ با لا تما م حقو ق اس کیپو رے کیے جا ئیں ، ان کے علا وہ یہ ہے کہ بیو ی کو چا ہیے کہ شو ہر کے قول و فعل پر اعتما د کرے ، بلا وجہ کسی شک و شبہ میں نہ پڑ ے ۔
اپنے آپ کو شو ہر کی نظر و ں میں حقیقتاََ قا بل اعتما د بنا نے کی کو شش کر تے رہنا ۔اس کی تکا لیف اور مشقتو ں میں اس کو تسلی دینا ، حتی الو سع اس کے سا تھ تعا ون کر نا اور اس کا مشکو ر رہنا ۔

اس کے سا منے بلا ضر و رت غیر مر دو ں یا غیر عو رتو ں کے حسن و جما ل کے تذ کر ے نہ کر نا ۔گھر میں ہو یا با ہر اپنی عز ت و عصمت کی حفاظت اور دیگر احکا م اسلا م پر خو د اہتما م سے عمل کر نے کے سا تھ سا تھ بچو ں پر اُن کی محنت کے ذریعے شو ہر کو مطمئن رکھنا ۔
اپنی زیب و زینت اور آرائش کو شو ہر کے لیے ہی خا ص کر نا اور خصو صااپنی ہر طر ح کی جسما نی نظا فت ، یعنی صفا ئی ستھرا ئی کا خیا ل رکھنا .اس کی کسی بھی پر یشا نی کے وقت میں اپنی بے پر وانی اور لا تعلقی ظاہر نہ کر نا او اس کے حل کے لیے اپنی کو شش کر نا اور عمد ہ رائے دینا ۔

منا سب حد تک اپنی تکا لیف اور مسا ئل کا اس سے تذ کر ہ کر نا ، تا کہ وہ اپنا تیت محسو س کر ے۔
منا سب حد تک اسے اپنی ضر و رتو ں اور خواہشا ت سے آگا ہ رکھنا ۔

شو ہر کی بے دینی کی وجہ سے اس کی طر ف سے پہنچنے والی تلخیو ں ، ایذار سا نیو ں اور نا دانیو ں پر آخر ی حد تک صبر کر نا ۔
اپنی بد زبا نی اور کسی بھی قسم کی ایذار سا نیو ں سے اُسے محفو ظ رکھنا ۔ حضر ت معا ذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشا د فر ما یا :جب کو ئی عو رت اپنے شو ہر کو ستا تی ہے تو (آخر ت میں ) جو حو را س کو ملنے والی ہے وہ یو ں کہتی ہے کہ خدا تیر انا س کر ے! تو اس کو مت ستا ، یہ تو تیر ے پاس مہما ن ہے ، تھو ڑے ہی دن میں وہ تجھ کو چو ڑ کر ہما رے پا س آجا ئے گا ‘‘۔

یہ کو شش کر نا کہ گھر یلو معا ملا ت شو ہر کے گھر آنے سے پہلے خو د ہی نمٹا لیے جا ئیں ۔
شو ہر کے گھر آتے ہی اسے مسکر ا کر سلا م کر کے ملنا ، مشقت نہ ہو تو کھڑ ے ہو کر اس کا استقبا ل کر نا ، پا نی کا پو چھنا یا پیش ہی کر دینا اور اگر کو ئی پر یشا نی کی با ت ہو تو فو راََ اس کا اظہا ر نہ کر نا اور حتی الا مکا ن اُسے مو ٔ خر کر نے کی کو شش کر نا ۔
و قتاََ فو قتاََ ، خصو صا شو ہر کے کسی سفر سے واپس پر اُس کے لیے کس منا سب ہد یے کا انتظا م کر نا اور ایسے مو قع پر کھا نے وغیر ہ کی تیا ری میں بقد ر ممکن اہتما م کر نا ۔
گھر میں مو قع بمو قع کسی جا ئز ہنسی مذاق یا کھیل کی شکل میں تفر یح کے مو اقع پید ا کر تے رہنا ۔
نا لا روڈ ، معا روف گنج ،گیا

8935902136

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here