9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
عبید اللہ ناصر
سیاسی مبصرین ماہرین اورصحافی برادری اس بات پر حیرت زدہ ہے کہ ترنمول کانگریس کی صدر اور بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے عین پولنگ کے درمیان ملک میں آئینی جمہوریت بچانے کے نام پر بی جے پی کے خلاف سبھی پارٹیوں کے درمیان اتحاد کی بات کیوں کہی -بی جے پی اور بی جے پی نواز میڈیا خاص کر چینلوں نہ اسے ممتا کی جانب سے بنگال اسمبلی الیکشن میں اعتراف شکست کے طور پر پیش کیا مباحثہ کرواے کہ دیدی نے دوسرے مرحلہ میں ہی شکست تسلیم کر لی ہے اور بقیہ مرحلوں کے لئے وہ اپنی ڈوبتی ناؤ بچانے کے لئے غیر بی جے پی پارٹیوں کے ما بین اتحاد کی بات کر رہی ہیں -غیر جانب دار سیاسی مبصرین اور صحافی بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ممتا کی یہ اپیل بہت نا مناسب وقت پر آئ ہے جسکا نہ صرف بی جے پی نواز میڈیا نا جائز فایدہ اٹھا کر انکے خلاف پروپگنڈہ کریگا بلکہ خود انکے ووٹروں میں بھو غلط پیغام گیا ہے اور تذبذب کا شکار ووٹر بی جے پی کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔
یوں تو پانچ ریاستوں میں اسمبلی کے الیکشن ہو رہے ہیں لیکن پوری ملک کی توجہ بنگال اسمبلی کے الیکشن پر مرکوز ہے کیونکہ بی جے پی اپنی پورو طاقت سے یہ الیکشن لڑ رہی ہے اور ہر حال میں بنگال کا قلعہ فتح کرنا چاہتی ہے اسکے لئے وہ گزشتہ تین برسوں سے پوری طاقت بنگال ممن جھونکے ہوے تھی مرکزی وزرا پارٹی کے اعلی ترین قیادت ریاستی گورنر اور خود وزیر اعظم ممتا بنرجی کو گھیرنے میں لگے ہوئے تھے پارٹی کے ہزاروں نوجوان کارکنوں کو بنگال بھیجا گیا جنہوں نے وہاں پر ہندوتوا کی جوت جگای الیکشن کا اعلان ہوا تو الیکشن کمیشن نے بھی کھلی ہوئی جانب داری دکھائی ٢٣٣ رکنی تمل ناڈو اسمبلی کا الیکشن تین مرھلوپں میں اور ٢٩٤ رکنی بنال اسمبلی کا الیکشن آٹھ مرحلوں میاں کرانے کا کمیشن چاہے جو جواز پیش کرے تلخ حقیقت یہی ہے کہ وزیر اعظم نریندرا مودی سمیت بی جے پی کے لیڈروں کو چناوی مہم کا زیادہ سے زیادہ وقت دینے کے لئے یہ شیڈول تیار کیا گیا تھا – ادھر کانگریس اور بائیں محاز نے انتخابی کر کے ممتا بنرجی کی مشکلات بڑھا دی تھی سونے پر سہاگہ انتخابی میدان میں فرفرا شریف درگاہ کے سجادہ نشیں پیرزادہ عباس صدیقی نے انڈین سیکولر فرنٹ بنا کے اور بائیں محاز کانگریس والے اتحاد میں شامل ہو کر ممتا کی مشکلات میں اور اضافہ کر دیا -اس وقت بنگال کی یہ شرنی سہ رکھی مقابلہ میں اپنی کرسی بچانے کی اپنی سیاسی زندگی کی سخت ترین سیاسی لڑائی لڑ رہی ہیں – بی جے پی نے اقتدار دولت میڈیا نفری قوت کے ساتھ ہی ساتھ ہر طرح کے غیر اخلاقی غیر مہذب غیر آئینی ہتھکنڈے پوری بےشرمی کے ساتھ استعمال کر ر ہی ہے اور الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا ہوا ہے -جس الیکشن کمیشن نے مذھب کے نام پر ووٹ مانگنے کے جرم میں بال ٹھاکرے جیسے لیڈر سے الیکشن لڑنے کا حق چھین لیا تھا اور جس عدالت نے ایک معمولی تکنیکی خامی کی بنا پر آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا الیکشن کالعدم قرار دے دیا تھا وہ سب بنگال میں انتخابی ضابطہ اخلاق کی بےشرمی دھجنیاں اڑتا ہوا دیکھ رہے ہیں –
بنگال سے موصول اطلاعات کے مطابق سہ رکھی مقابلہ میں ممتا کی پوزیشن خاصی مستحکم ہے مگر سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے جس طرح بہار میں آخری وقت میں بی جے پی نے کھیل کر دیا اور تجسوی یادو جیتی ہوئی بازی ہر گئے ویسا ہی کچھ بنگال میں بھی ممکن ہے کیونکہ بی جن پی بنگال کسی بھی قیمت پر نہیں ہارنا چا ہیگی چاہے اسکے لئے اسے ای وی ایم میں ڈاکہ ہی کیوں نہ ڈالنا پڑے – بی جے پی جانتی ہے کہ تمل ناڈو میں اورن کیرالہ میں اسکی دال نہیں گلنی – آسام میں بھی اسے کوئی امکان نہیں دکھائی دے رہا ہے کیونکہ وہاں کانگریس اجمل صاحب کی پارٹی اور بودو پارٹی کے اتحاد نے شروع سے ہی بڑھت بنا رکھی ہے پدوچیری میں ضرور اسے امکان دکھائی دے رہا ہے لدے کے اسکی سری امیدیں بنگال سے ہی وابستہ ہیں اورن اس نے وہاں محنت بھی بہت کی ہے اور سماج میں مذہب کے نام پر زبردست تفریق بھی پیدا کر دی ہے -بی جینپی جیتے یا ہارے لیکن اس نے بنگالی سماج میں وہ زہر بھر دیا ہے جس سے وہ سماج اب تک پاک تھا –۔
میڈیا میں بھلے ہی ایک حکمت عملی کے تحت بنگال میں مقابلہ ممتا بنرجی اور بی جن پی کے درمیان دکھایا جا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہا کانگریس بیان محاذ اور انڈین سیکولر فرنٹ کا اتحاد بھی پوری طاقت سے میدان میں ہے بریگیڈ میدان میں اسکی تاریخی ریلی کا ریکارڈ نہ ممتا توڑ پائی ہیں اور نہ ہی بی جے پی -اس محاذ نے اس بار نوجوانوں کی تکت دینے میں ترجیح دی ہے جس کا خاصہ اثر نوجوان طبقہ پر پڑ بی جے پی کا پورا فوکس چناؤ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے پر ہے یوگی جی کو اسٹار پرچارک بنانے کا مقصد کٹر ہںدتو وادی ماحول بنانا ہے جبکہ اور فلاحی اسکیموں پر ووٹ مانگ رہی ہیں اور کنگریس کا محاز روزگار گرانی کارپوریٹ لوٹ وغیرہ کو انتخابی موضوع بنائے ہوے ہے
اب سوال اٹھتا ہے کہ ممتا نے انتخابی مہم کے دوران اپوزیشن کے اتحاد کی بات کیوں کہی -اس بے وقت کی راگنی کا کوئی ٹھوس جواب ممتا کے علاوہ اور کسی کے پاس نہیں ہے -مگر اس سوال کا جواب ممتا کے سیاسی سفر کو سمجھنا ضروری ہے -ممتا بنرجی کانگریس کی تیز طرار لیڈر تھیں -جب بنگال کمیونسٹ پارٹی کی طوطی بولتی تھی اور کمیونسٹ پارٹی کے کارکن کانگریس کے کارکنوں پر زیادتیاں کرتے تھے انھیں تشدّد کا نشانہ بناتے تھے تب ممتا بنرجی ان سے کھل کر ٹکر لیتی تھیں -انھیں کانگریس کی ریاستی قیادت سے یہ شکایت رہی کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کا کھل کر مقابلہ کر نے میں آنا کانی کرتی ہے -ریاستی صدر روبن مترا سے انھیں خاص شکایت رہی اور آخر کر انہوں نے کانگریس سے علاحدگی اختیار کرکے ترنمول کانگریس کی تشکیل کی اور اپنی ججھارو شخصیت اور سادگی بھری زندگی سے عوام کے ایک بڑے طبقہ کو متاثر کیا کانگریس کے بھی دگج ریاستی لیڈران کو ترنمول کانگریس میں مستقبل بھٹرف دکھائی دیا اور وہ سب ممتا کے ساتھ چلے گئے -ترنمول کانگریس بننانے کے بعد ممٹ اکی سیاسی حکمت عملی کانگریس اور لیفٹ کو درکنار کنرے کے لرہی اور اسکے لئے انہوں نے بی جینپی سے کھلی اور خفیہ دونو طرح کی دوستی کی وہ اٹل جی کابینہ میں ریلوے کی وزیر بھی رہ چکی ہیں -سچائی یہ ہے کہ آر اس اس کو بنگال میں قدم جمانے میں ممتا نے خاصی مدد کی اور آج وہ فرینکستٹائین انہیں کو نگلنا کے لئے بیتاب ہے۔
ممتا کے ماضی کی سیاسی ہتھکنڈوں سے قطع نظر انکی اپیل پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے یہ درست ہے کہ اس وقت ہندستان کی آئینی جمہوریت ہی نہیں ہندستان کی اقتصادی آزادی ہماری سرحدیں اور سماجی تانا بانا شدید خطرے سے دو چار ہے -نہ صرف اندروں ملک اس خطرہ کو محسوس کیا جا رہا ہے بلکہ اب تو عالمی ادارہ بھی کھل کر ہندستان میں جمھوریت شخصی آزادی وغیرہ کو لاحق خطروں سے کھل کر دو چار کر رہے ہیں -عالمی پیمانہ پر ہندستان کو کبھی اتنے برے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا جتنا ان دنوں کرنا پڑ رہا ہے اور اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ سنگھ پرور اپنے خوابوں کا ہندستان بنانے کے لئے ہر اس حد کو پر کر رہا ہے جو ہندستان کو ہندستان بنائے ہوۓ تھیں اور جسکی وجہ سے ہم نہ صرف عالمی برادری میں عزت کی نگاہ سے دیکھ جاتے تھے بلکہ قائدانہ کردار بھی ادا کرتے تھے -جس طرح سے سبھی آئینی اداروں کو ازکاررفتہ کر کے جمہوریت کو محض سروں کی گنتی میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور جس طرح عدلیہ کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی گئی میڈیا کو خرید لیا گیا ااپوزیشن کو ملک اور مذہب کا دشمن بنا کے پیش کیا گیا -جس طرح فرقہ پرستی کو سرکاری سرپرستی فراہم کی جا رہی ہے وہ سب ایک خطرناک مستقبل کی طرف اشارہ کر رھے ہیں ہندستان کو شری لنکا میانمار کے راہ پر لے جایا جا رہا ہے ان سب کے خلاف متحدہ کوشش وقت کا تقاضہ اور ممتا نے اسی طرف حزب اختلاف کی توجہ مبذول کرائی ہے الیکشن بعد سبھی پارٹیوں کو اس مسلہ پر سنجیدگی سے غور کر کے کوئی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے یہی وقت کا تقاضہ اور عوام کی مانگ ہے ۔