بنگال کا مقابلہ بنگال سے – Bengal vs. Bengal

0
167

Bengal vs. Bengal

کیابی جے پی بنگلہ کلچر کو خاک میںملا دے گی؟

عبدالعزیز
مغربی بنگال میں اس بار جو انتخاب ہورہا ہے وہ پہلے کے انتخابات سے بالکل مختلف ہے ۔ بہت سی چیزیں جو دبی ہوئی تھیں یا زیر زمیں تھیں وہ ایک ایک کرکے ابھر کر نمایاں ہورہی ہیں۔ اور جو سطح زمین پر تھیں ان میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔
تشدّد: مغربی بنگال میں انتخاب سے پہلے ، انتخاب کے وقت یا انتخاب کے بعد تشدد اور محاذ آرائی ہوتے تھے۔ انتقالِ اقتدار اس کے بغیر کسی کے دور میں ممکن نہیں ہوا خواہ کانگریس کا دور ہو یا سی پی ایم کا دور۔ لیکن اس وقت جو ترنمول کانگریس کے دور میں تشدد اور محاذ آرائی ہے وہ بہت بڑے پیمانے پر ہے اور حد سے زیادہ ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ ترنمول کانگریس کا جس پارٹی سے مقابلہ ہے وہ تشدد، محاذ آرائی اور بربریت پر کامل یقین رکھتی ہے اور اقتدار حاصل کرنے کیلئے جائز اور ناجائز تمام طریقوں کوبے دریغ استعمال کرتی ہے۔ اگر کسی ریاست میں کسی پارٹی کو کم مارجن سے جیت ہوئی ہے تو اسے بھی وہ اپنے حق میں کرنے میں منی پاور اور مسل پاور کے علاوہ سرکاری اداروں کا ڈر اور خوف دکھاکر اپنے حق میں کرلیتی ہے۔ گوا، ہماچل پردیش، منی پور، میگھالیہ، کرناٹک، مدھیہ پردیش وغیرہ میں بی جے پی ہارنے کے باوجود اقتدار کی کرسی پر فائز رہی۔ پانڈیچری میں بھی بی جے پی نے کانگریس کو اقتدار میں رہنے نہیں دیا۔ تشدد، زور زبردستی ، مار پیٹ مغربی بنگال میں اس وقت بڑے پیمانے پر ہے۔ انتخابات کے اعلان کے باوجود اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ دو روز پہلے ریاست کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی پر حملہ ہوا اور وہ زخمی ہوئیں۔ فی الحال اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ 13مارچ سے وھیل چیئر کی مدد سے انتخابی مہم میں حصہ لیں گی۔ سی پی ایم کے لیڈران اپنے دورِ حکومت میں غنڈہ گردی اور بدمعاشی کو جائز ٹھہراتے تھے۔ کہتے تھے کہ کانگریس کے غنڈوں کا مقابلہ غنڈے ہی کرسکتے ہیں۔ لیکن مزدور یونین کے ذریعے جو کارخانہ داروں پر ظلم و تشدد اور قتل و غارت گری کے واقعات رونما ہوتے تھے اسے بھی مارکسی پارٹی کے کرتا دھرتا جائز ٹھہرانے میں کسی تامل سے کام نہیں لیتے تھے۔ ’بھدرو اینٹی لیکچوئل‘ (شریف دانشور) کی اصطلاح اسی زمانے کی پیدوار ہے۔
سابق وزیر خزانہ، مشہور کالم نویس، صحافی اور ماہر معاشیات اشوک مترا نے ایک بار غصہ میں کہاکہ “I am not a gentleman, I am a Communist”(Buisness Standard) (میں کمیونسٹ ہوں، میں شریف آدمی نہیں ہوں) ۔34سالہ حکومت میں آہستہ آہستہ تشدد بڑھتا گیا۔ کیڈرس اور لوکل کمیٹیوں نے بہت حد تک پولس کی جگہ لے لی تھی۔ پولس کا اختیار برائے نام رہ گیا تھا۔ کورٹ کے فیصلے بھی مشکل سے نافذ العمل ہوتے تھے۔ گھوٹالے یا اسکیم جیسی چیزیں نہیں تھیں لیکن پارٹی کے نیچے کے لوگوں میں کرپشن بڑھ چکا تھا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ فرقہ پرستی اور ذات پات کی سیاست کو بایاں محاذ کی حکومت نے اپنے دور میں پنپنے نہیں دیا۔
فرقہ پرستی: فرقہ پرستی ممتا بنرجی کے دور میں پھلی پھولی۔ ممتا بنرجی نے 2011ء میں کرسیِ اقتدار سنبھالا لیکن اس سے پہلے وہ ’این ڈی اے‘ میں وزیر ریلوے تھیں اور ترنمول کانگریس نے ایک بار اسمبلی کا الیکشن بی جے پی کے ساتھ لڑا۔ اس سے فرقہ پرستی کو ریاست مغربی بنگال میں بڑھاوا ملا۔ ان کے دور اقتدار میں آر ایس ایس کی دس گنی طاقت بڑھی۔ بی جے پی کو بھی یہاں آہستہ آہستہ ابھرنے کا موقع ملا۔ 2019ء کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی نے مودی اور امیت شاہ کی مدد سے پورے الیکشن کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دیا اور زبردست پولرائزیشن ہوا۔ بی جے پی کو 2014ء میں لوک سبھا کے الیکشن میں جو 17%فیصد ووٹ ملے تھے اور 2016ء میں اسمبلی الیکشن میں10 فیصد ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا 2019ء میں 40% ووٹ مل گئے اور لوک سبھا کی 18 سیٹوں پر قابض ہوگئی۔ ممتا بنرجی نے مسلمانوں کیلئے اگرچہ کوئی ٹھوس کام انجام نہیں دیا لیکن مسلمانوں کا نام بلا وجہ بغیر کسی موقع و محل کے مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے استعمال کرتی تھیں۔ اس سے بھی بی جے پی کو فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے کا موقع ہاتھ آیا۔ اس وقت بی جے پی فرقہ پرستی کو بڑھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہی ہے۔
ذات پات: مغربی بنگال میں ذات پات کے نام پر کبھی الیکشن نہیں لڑا گیا اور نہ ہی ذات پات کو ابھارنے میں کسی پارٹی کو کامیابی ہوئی۔ مشہور جرنلسٹ شیکھر بندو پادھیائے نے اپنے ایک مضمون میںلکھا ہے کہ ’’تقسیم کی وجہ سے ذات پات کا ڈسکورس (بیانیہ، بات چیت) نقل مکانی (Migration) اور راحت کاری (Rehabilation) میں تبدیل ہوگیا۔ سماجی انصاف کے چرچا نے ذات پات کو ختم کئے بغیر اسے دبا دیا تھا، لیکن بی جے پی 2019ء سے متھوا سماج جو بنگال کی ایک پسماندہ ذات ہے جو دبی اور کچلی ہے اس کے نام پر ذات پات کی سیاست کر رہی ہے۔ اس میں اسے لوک سبھا کے الیکشن میں بڑی کامیابی ملی تھی۔ اس وقت بھی اسمبلی الیکشن میں ذات پات کی سیاست کو بڑھانے میں کامیابی مل رہی ہے۔
کرپشن: بی جے پی ترنمول کانگریس کے لیڈروں کے کرپشن کو بہت ہی بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے۔ لیکن اس معاملے میں بی جے پی کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ترنمول کانگریس کے ایسے بہت سے لیڈران جو بدعنوانی میں ملوث تھے وہ بی جے پی جوائن کرچکے ہیں۔ مُکل رائے ممتا بنرجی کے بعد ترنمول کانگریس میں دوسرے نمبرکے لیڈر تھے۔ شاردا اور ناردا کے گھوٹالے میں ملوث تھے۔ جب ترنمول کانگریس میں تھے تو سی بی آئی ان سے بہت پوچھ تاچھ کرتی تھی لیکن بی جے پی میں جانے کے بعد ان سے ایک دفعہ بھی پوچھ تاچھ نہیں کی ۔بی جے پی کی واشنگ مشین میں ان کو پاک صاف کردیا گیا۔ اسی طرح شوبھندو ادھیکاری جو اس وقت ملک بھر میں چرچا میں ہیں اور نندی گرام میں ممتا کے مقابل کھڑے ہیں وہ بھی ناردا گھوٹالے میں ملوث تھے۔ اس وقت وہ بی جے پی کے اسٹار کمپینر ہیں اور ممتا کو چیلنج پر چیلنج دے رہے ہیں۔ اس طرح کئی لیڈر جو ممتا بنرجی کی پارٹی میں تھے اور بدعنوانی میں ملوث تھے اس وقت بی جے پی میں ہیں۔ ترنمول کانگریس سے اتنے لوگ بی جے پی میں ایک ایک کر کے شامل ہوئے ہیں کہ بی جے پی کو ترنمول کانگریس کے بدعنوان لیڈروں کی ’بی ٹیم‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس لئے کرپشن کا مدعا الیکشن میں کوئی مدعا نہیں بن پائے گا۔ دیکھا جائے تو تشدد، فرقہ پرستی، ذات پات کی سیاست اور کرپشن مغربی بنگال کے انتخاب کا حصہ بن چکا ہے۔
بنگلہ کلچر: بنگلہ کلچر اور بنگلہ زبان کوRich Culture(مالا مال ثقافت) سے جانا جاتا تھا۔ یہاں جو لوگ بھی ادیب، شاعر، ڈرامہ نگار یا مذہبی اور غیر مذہبی لیڈر پیدا ہوئے، ان کی تخلیقات اور بیانات میں انسانیت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ خاص طور سے رابندر ناتھ ٹیگور، قاضی نذر الاسلام، ایشور ودیا ساگر، نیتا جی سبھاش چندر بوس اور سوامی ویویکا نند جیسی شخصیتیں اپنے قولی اور عملی کارنامے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ اس وقت بنگال کا کلچر بی جے پی کی وجہ سے داؤ پہ لگا ہوا ہے۔ ممتا بنرجی بنگال اور بنگلہ کلچر کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا مدعا باہری کا ہے اور وہ اپنے آپ کو بنگال کی بیٹی بتانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بی جے پی اپنی بدزبانی، بدکلامی کی وجہ سے جانی جاتی ہے لیکن جو لوگ ترنمول سے بی جے پی میں گئے ہیں ان کی بدزبانی، بدگوئی، بدتمیزی اور بدتہذیبی بی جے پی کے پرانے لیڈروں سے بھی بڑھ گئی ہے۔ بریگیڈ پریڈ گراؤنڈ کے بی جے پی کے جلسہ میں ایک ستر سالہ فلمی ایکٹر متھن چکرورتی نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی اور اسی روز تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ’’وہ پانی کا سانپ نہیں ہے بلکہ کوبرا ہے۔ اگر کسی کو ڈسے گا تو اس کی لاش شمشان گھاٹ میں ملے گی‘‘۔ شوبھندو ادھیکاری بہار کے گری راج سنگھ سے بھی بہت آگے نکل گئے ہیں۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’اگر ترنمول کانگریس کامیاب ہوتی ہے تو مغربی بنگال کشمیر بن جائے گا‘‘۔ دلیپ گھوش کی زہر افشانی پہلے ہی سے مشہور ہے۔ بی جے پی کے پرانے لیڈروں کا ممتا بنرجی پر حملہ بہت ہی اوچھے انداز سے ہوتا رہا ہے۔ ممتا بنرجی حادثے کا شکار ہوئی ہیں۔ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ حملے میں انھیں شدید چوٹیں لگی ہیں۔ ہاتھ پیر میں کافی درد ہورہا ہے۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کچھ دنوں بعد اسپتال سے باہر آئیں گی اور وھیل چیئر پر بیٹھ کر انتخابی تشہیر کریں گی۔ بی جے پی کے لوگ ممتا بنرجی سے ہمدردی کرنے کے بجائے ان کے حادثے کو ناٹک اور ڈرامے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ جو زہر فرقہ پرستی کا پھیلا ہے اور جو ذات پات کی سیاست اور تہذیب و شائستگی سے گری ہوئی حرکتیں سیاست میں ہورہی ہیں۔ اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بی جے پی ہارنے کے باوجود بنگال میں جیت جائے گی، کیونکہ وہ بنگال کلچر کو تباہ و برباد کرکے چھوڑے گی۔
کبھی کہا جاتا تھا کہ بنگال کی روشن خیالی اور تہذیب و شائستگی کو دیکھ کر کہ ’’بنگال جو آج سوچتا ہے کل پورا ہندستان سوچتا ہے‘‘۔ بنگال اپنی روشن خیالی اور تعلیم کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ بی جے پی نے بنگال میں جو سیاست کرنا شروع کی ہے اس سے بنگال گجرات اور اتر پردیش میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ بنگال کے اس کلچر کو تمام اپوزیشن پارٹیاں مل کر بچا سکتی تھیں لیکن کسی پارٹی میں اپنے جماعتی مفاد سے بڑھ کر کام کرنے کا جذبہ نہیں ہے۔ اگر اعلیٰ مفاد ہوتا اور بنگال کے کلچر کی حفاظت مقصود ہوتی تو تمام غیر بی جے پی پارٹیاں ایک ہوکر بنگال کے کلچر کو تباہ کرنے والی بی جے پی کو مقابلہ کرتیں، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب تک جو چار پانچ سروے آئے ہیں اس کے مطابق بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوتی نظر آرہی ہے۔
حالیہ سروے میں ترنمول کانگریس کو 150 سے 160 سیٹوں پر کامیابی ملنے کا امکان ہے جبکہ بی جے پی کو 102 سے 112 سیٹوں پر جیت ہوسکتی ہے۔ تیسرے محاذ (بایاں محاذ، کانگریس اور آئی ایس ایف) کو 22سے 30 سیٹوں پر اکتفا کرنا ہوگا۔ کسی سہ طرفی مقابلے کا امکان بالکل نہیں ہے۔ تیسرے محاذ میں مارکسی پارٹی کی کوششوں سے آئی ایس ایف (انڈین سیکولر فرنٹ) جو پیرزادہ عباس صدیقی کی نوزائیدہ پارٹی ہے وہ بھی شامل ہے۔ ممکن ہے کہ اسے دو تین سیٹیں مل جائیںلیکن وہ 10، 15حلقوں میں مسلم ووٹوں کو تقسیم کرسکتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پیرزادہ اور اسد الدین اویسی میں تال میل نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے ناراض ہیں۔ اس طرح اویسی صاحب بنگال کی سیاست سے ابھی تک دور نظر آرہے ہیں۔ یہ بنگال کیلئے اور مسلمانوں کیلئے اچھی بات ہے۔ مسلمان چاہتے ہیں کہ بی جے پی جو Do and Die اور فرقہ پرستی کی سیاست کر رہی ہے اس کی نیّا ہگلی ندی میں غرقاب ہوجائے۔ مسلم تنظیموں اور لیڈروں کی کوشش رہی تھی کہ تمام اپوزیشن پارٹیاں مل جل کر بی جے پی کا مقابلہ کریں، مگر مسلم تنظیموں اور لیڈروں کو کامیابی نہیں ملی۔ سی پی آئی ایم ایل کے لیڈران بھی یہی کوشش کر رہے تھے اور کر رہے ہیں کہ بی جے پی مخالف ووٹوں کی تقسیم نہ ہو مگر سی پی آئی ایم ایل کو بھی ابھی تک کوئی کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ ایک بات صاف ہے کہ بنگال میں کوئی متبادل روشن خیالی اور ترقی پسندی نظر نہیں آرہی ہے۔ جب تک کہ تمام پارٹیاں مل کر بی جے پی کا مقابلہ نہیں کرتیں۔ ممتا بنرجی کی پارٹی جیت بھی گئی جس کا امکان ہے جب بھی بی جے پی مرکزی اور مقامی سطح سے اسے پریشان کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھے گی۔ امید ہے کہ کانگریس پارٹی دیر یا سویر بنگال کی سیاست کو سمجھنے میں عقلمندی کا مظاہرہ کرے گی اور ترنمول کانگریس کا ساتھ دے گی۔ جہاں تک مارکسی پارٹی کا تعلق ہے غالباً وہ عقلمندی کی سیاست شاید نہ کریں۔ وہ بھی ممتا بنرجی کو پریشان کرنے کی کوشش کرتی رہے گی۔ کانگریس اور سی پی ایم کی پارٹیوں سے کہیں زیادہ کسان آندولن کے لیڈران عقلمند و دانش مند نظر آرہے ہیں۔ ان کی اپیل ہے کہ بی جے پی کے سوا ووٹر سب کی حمایت کریں اور بی جے پی کو ہرانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں۔ گزشتہ روز سے کسان آندولن کے لیڈران کی ایک ٹیم مغربی بنگال کے دورے پر ہے۔ کل (13مارچ) کسانوں کے سب سے بڑے لیڈر شری راکیش ٹکیت کلکتے میں ایک جلسہ عام کو خطاب کریں گے۔ خدا کرے کہ ان کی اپیل پر سب کو لبیک کہنے کی توفیق ہو۔
Mob:9831439068

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here