بنگلہ دیش کی اردو شاعری میں نوشاد نوری کا مقام

0
784

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: محمد حسن

بنگلہ دیش میں اردو شاعرنوشاد نوری تمام حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھیں جاتے ہیں۔ وہ تمام لوگوں کو یکساں ترجیح دیتےاور ہر خاص و عام سے خندہ پیشانی سے ملا کرتے تھے۔ اردو کے حوالے سے کسی بھی اقدام کی حتی المقدور سرپرستی کی کوششیں کرتے رہے۔ بنگلہ دیش میں جس سمت میں بھی پروگرام ہوتےنوشاد نوری کی شرکت لازمی ہوتی۔ اسی طرح جنگِ آزاد کےبعد بنگلہ دیش میں جب اردو معتوب ہو کر رہ گئی توبنگلہ دیش کے غیر فرقہ وارانہ نظرئیے کے حامل شخصیت بنگلہ شاعر اسد چودھری کی مدد سےنوشاد نوری اپنے چند دوستوں کو ساتھ لے کر گیسوئے اردو سنوارنے کی جہد میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے ملک میں اردو اور بنگلہ زبان کے درمیان حائل خلیج کو پُر کرنے کی از حد کوششیں کی۔

یہ بھی پڑھیں

غزل

نوشاد نوری نظم گو شاعر تھے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے غزلیں کہیں ہیں لیکن شاعری میں نوشاد نوری جن صلاحیت کے مالک تھے اس کے مقابلے میں کئی چند ہی غزلیں پڑھنے کو ملیں۔ وہ اپنی غزلوں کو ڈائیری میں چھپا رکھتے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادہ ہیکل ہاشمی جنہیں اپنے والد کی طرح ادب سے والہانہ محبت ہے نے ڈائیری سے ان چند غزلوں کو نکال کر قارئین کے سپرد کیا تاکہ اردو کے قاری نوشاد نوری کی شاعری کی صلاحیت کو پرکھ سکیں۔ نوشاد نوری صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ایک غیر معمولی صحافتی تجربہ کی حامل شخصیت تھے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کے 1971 میں جنگِ آزادی اور مشرقی پاکستان بکھر کربنگالی نیشنلزم کی بنیاد پر بنگلہ دیش کے معرض وجودمیں آنے کی وجہ سے ان کی صحافتی زندگی زمیں بوس ہو کر رہ گئی۔ پھر بھی نوشاد نوری کو بنگلہ دیش کی مٹی سےاتنی انسیت تھی کہ انہوں نے اس مٹی کو اپنی سجدہ گاہ بنائی اور اسی زمین میں ہی سپردِ خاک ہیں۔ نوشاد نوری کو ہندوستانی بر صغیر کے ادبی حلقوں میں جانا جاتا تھا لیکن دنیائے اردو ادب میں وہ اس طور پر مقبول نہیں ہوپائے جیسا کہ ان کی شاعری کی قدو قامت ہے۔ یہ ایک شاعر کی حیثیت سے نوشاد نوری کے ساتھ زیادتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی یہ سب ایک تاریخی المیہ ہے کہ بے بہا صلاحیتوں اور واقفیت کی حامل شخصیتوں کو ایسی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان میں نوشاد نوری کا نام سرِ فہرست ہے۔

نوشاد نوری کا اصل نام محمد مصطفیٰ معصوم ہاشمی ہے ۔وہ صوبہ بہار کے ضلع در بھنگہ میں21 اکتوبر1926 میں پیدا ہوئے۔وہ محمد عبد الکافی ہاشمی اور اویسہ خاتون کے بڑے صاحبزادے تھے۔ ان کے والد پیشہ سے وکیل تھے۔ نوشاد نوری نے گورنمنٹ ہائی اسکول سیتا مڑھی، بہارسے 1945میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں 1950 میں بی این کالج پٹنہ سے بی۔ اے کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ۔طالب علمی کے زمانے سے ہی نوشاد نوری ایسی محفلوں میں شریک ہوا کرتے تھے جہاں شعر و شاعری اور فن شاعری پر بحث و مباحثے ہوتے۔ اسی طرح انہیں بھی شعر گوئی کا شوق پیدا ہوا اور 1945 سےباقاعدگی کے ساتھ انہوں نے شاعری کا آغاز کیا۔ ان کی شاعری کی ابتدائی مرحلہ میں ان کی رہنمائی ہندی زبان کے معروف انقلابی شاعر رام دھاری سنگھ دینکر ؔ جی نے کی ۔

سجاد ظہیر نے1936 جب ترقی پسند نظرئیے کی عام لوگوں تک رسائی کے لئے لکھنئو میں ترقی پسند مصنفین کے نام سےایک تنظیم قائم کی تو اس نظرئیے سے متاثر ہونے والے ادیب ، صحافی و شاعرسمیت دوسرے دیگر یشہ وارانہ شخصیتیں اس تنظیم کی ملک کے طول و ارض میں شاخ قائم کیں۔ اس ضمن میں بہار میں بھی ترقی پسند مصنفین کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ نوشاد نوری بھی اس نظرئیے سے متاثر تھے۔جس کی وجہ سے وہ ترقی پسند مصنفین کی تحریک میں نہ صرف شامل تھے بلکہ اس کے ایک سر گرم کا رکن تھے۔ اس وقت کے صف اول کے تمام ترقی پسند مصنفین سے ان کے مراسم تھے، ان میں معروف افسانہ نگارسہیل عظیم آبادی، شاعر ، افسانہ نگار اور ناقد اختر اور ینوی، غالب ؔ کے عظیم ناقد مختار الدین آرزو، نامور محقق قاضی عبد الودود ، مزاحیہ نگار انجم مانپوری، شاعر و ادیب اختر پیامی اورافسانہ نگار انور عظیم قابلِ ذکر ہیں۔ نوشاد نوری اپنی ذہانت ، متانت اور خوش مزاجی کی وجہ سے بہار کے استاد شاعروں میں بے حد مقبول تھے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سہیل عظیم آبادی نے نوشاد نوری کی ملاقات کرشن چندر، امرت رائے، بلونت سنگھ، دیوندر ستیارتھی، صدیقہ بیگم سیوہاردی، رامانند ساگر وغیرہم سے کروائی تھی۔ نوشاد نوری سے ان لوگوں کےساتھ بھی گہرے مراسم رہے۔ واضح رہے کہ نوشاد نوری کی ملاقات بھارت کے معروف ہندی شاعر ہری ونس رائے بچن (مشہور بالی ووڈ اداکار امیتابھ بچن کے والد) سے بھی تھی۔ 1946 سے 1950 تک نوشاد نوری انجمنِ ترقی پسند مصنفین بہار شاخ کے سکریٹری جنرل کی حیثیت سے ذمہ داری نبھائی۔ 1947 میں برِ صغیر کو انگریز نو آبادیاتی سے چٹھاکاراتو ملا لیکن جب 1949 میں بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرونے امریکی امداد کے حصولی کے لئے امریکہ کا دورہ کیاتوترقی پسند مصنفین کو یہ بات گراں گذری ۔ وزیرِ اعظم کے اس دورےکے احتجاج میں انہوں نے پٹنہ میں ایک احتجاجی جلسہ کا اہتمام کیا۔ اس جلسہ میں نوشاد نوری نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے’’ بھکاری‘‘ جیسی شہرہ آفاق نظم پڑھیں۔یہ نظم اتنی مقبول ہوئی کہ نظم لکھنے کے جرم میں بھارتی حکومت کو نوشاد نوری کے خلاف گرفتاری کا پروانہ جاری کرنا پڑا۔نوشاد نوری کے پاس دوسرا کوئی چارہ نہیں تھا اور وہ اپنے تمام خاندان کو چھوڑ کر ترکِ وطن کر کے ڈھاکہ چلے آئے۔

سابق مشرقی پاکستان میں 1952 میں لسانی تحریک نے انہیں بیحد متاثر کیا۔ اس تحریک کی حمایت میں انہوں نے نظم’’ موہنجوداڑو‘‘کہیں۔اسی دوران حکومتِ پاکستان کے محکمہ آڈیٹ اور اکائونٹس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ 1952 تا 1961 کی مدت میں اس شعبہ کے زیرِ تعینات انہوں نے ڈھاکہ، کراچی اور کوئٹہ میں قیام کیا۔ اس دوران پاکستان کے معروف ادبی شخصیتوں سے ان کی شناسائی رہی۔ ان میں حمایت علی شاعرؔ ، حبیب جالبؔ ، ساقی ؔ فاروقی ، ابراہیمؔ جلیس ، صہبا ؔلکھنوی،شاعر لکھنوی، محشرؔ بدایونی، رساؔ چغتائی، جمیل الدین عالیؔ، غلام عباسؔ، اداؔجعفری، ابن انشاؔ اوررئیس امروہوی کا نام قابلِ ذکر ہیں۔ جوش ملیح آبادی کے پاس وہ باقاعدہ حاضری دیتے تھے اور جب فیض احمد فیض کراچی میں ہوں تو نوشاد نوری ان سے ضرور ملتے تھے ۔جب ان کاتبادلہ کوئٹہ ہوا تو معروف شاعر عبد الحمید عدم ؔان کے افسر تھے۔ایک ترقی پسند نظرئیے کےحامی شخصیت نوشاد نوری نےعوام الناس کی حقوق کی بالادستی کو ترجیح دی۔اپنی زندگی میں آمریت کی انہوں نے کھل کر مذمت کی ہے۔ پاکستان حکومت کی عوام دشمن پالیسی نے انہیں بیحد مایوس کیا ۔احتجاج کے طور پر وہ سرکاری نوکری سےمستفی ہوگئےاور ڈھاکہ چلے آئے۔انہیں پتہ تھا کہ اس فیصلہ سے گھر والوں کو سماجی ومعاشی پریشانیوں کا سامنا ہوگا پھر بھی انہوں نے اپنے نظرئیے کی پاسداری کے لئے ایسا قدم اٹھایا۔ ڈھاکہ میں گھریلوں اخراجات کو پورا کرنے کے لئے نیو مارکٹ میں ادبی کتب خانہ قائم کئے ۔ ان دنوں ڈھاکہ میں ایک سرکاری ادبی تقریب ہو رہی تھی تو نوشاد نوری نے اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے س کی افتتاحی تقریب میں مغربی پاکستان سے تشریف لائے ہوئے مہمانوں میں قدرت اللہ شہابؔ ، ابراہیم جلیسؔ، ابن انشاء، جمیل الدین عالی ؔسمیت دوسرے دیگر ادباء و شعراء کو مدعو کیا۔ اس وقت احمد ندیم قاسمی بھی ڈھاکہ میں موجود تھے جنہوں نے بعد میں نوشاد نوری کی دعوت پر ان کے ادبی اڈہ کا دورہ کیاتھا۔

نوشاد نوری 1961 میں صحافت کے ساتھ منسلک ہوگئے ۔اس دوران انہوں نے پاکستان فیچر سنڈیکیٹ میں کام کیا ۔ ان دنوں ان کے رفیق کاروں میں اردو صحافت کے سرپرست صلاح الدین محمد اور بنگلہ صحافت میں ایک نمایاں نام کمال لوہانی بھی وہیں زیر ملازمت تھے۔ 1968 میں مسیح الرحمن (جادو میاں)کے سیاسی اردورسالہ ہفتہ وار’’روداد‘‘کے مدیرکی ذمہ دار ی سنبھالی۔انہوں نے اس رسالے کی ہر اشاعت میں اپنے اردو قارئین کے لئےملک کے بنگالی قلم کاروں کو دنیائے اردو ادب سے روسناش کرایا۔1969 تا 1971 اردوہفت روزہ’’جریدہ‘‘ کےمدیر کی حیثیت سےکام کیا۔ 1969 میں جب عوامی لیگ نے چھ نقات کا اعلان کیا تو نوشاد نوری نے اس کی حمایت میں ہفت روزہ’’جریدہ‘‘ میں سرخی لگائی ’’تمہاری نجات، ہماری نجات-چھ نقات، چھ نقات‘‘۔ اردو داں کمیونٹی کی فلاح و بقاء کے لئے ان کے دلوں میں نرم گوشہ پنہا تھا۔ اس لئے جب 1969 میں اردو بولنے والی کمیونٹی کی طرف سے رنگپور میں مہاجر کنونشن کے عنوان سے دو روزہ کنونشن کا انعقاد کیا گیا تو نوشاد نوری جو ان دنوں جریدہ کے مدیر تھے،اپنے دیرینہ دوست احمد الیاس کو مشورہ دیا کہ وہ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنمامولانا بھاشانی سے ملاقات کریں اور مہاجر کنونشن کے حوالے سےان کا بیان حاصل کریں جسے ہفت روزہ ’’روداد‘‘ میں شائع کیا جائے۔ احمد الیاس جو ان دنوں اس ہفت روزہ میں معاون مدیر تھے، مولانا بھاشانی سے ملنےان کے گاؤں سنتوش، پبنا پہنچیں۔انہوں نے مولانا کو کنونشن کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور ان سےاردو بولنے والی کمیونٹی کی حمایت میں ایک بیان دینے کی درخواست کی۔ مولانا کو یہ تجویز از حد پسند آئی ۔ مسودہ احمد الیاس نے اردو میں تیارکیا۔مولانا نے اردو متن کو پورا سنا اور اس پر اردو زبان میں ہی دستخط کردی۔ بیان میں مولانا بھاشانی نے اردو داں کمیونٹی کوملک کے محنت کش طبقے کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس بیان کوہفت روزہ ’’روداد‘‘میں مہاجر کنونشن کے موقع پر شائع کیا گیا۔ بعد ازاں یہ بیان مشرق و مغربی پاکستان کے کئی اخبارات و رسائل میں بھی شائع کئے گئے۔

بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی کے بعد نوشاد نوری کومالی اور سماجی مشکلات سے دو چار ہونا پڑا۔چند بہی خواہوں کا مشورہ تھا کہ وہ پاکستان چلے آئیں لیکن انہوں نے ان لوگوں کے مشورہ کو مسترد کرتے ہوئے خودکو بنگلہ دیش کی مٹی کے ساتھ جوڑے رکھا۔ اس دوران انہوں نے کئی تجارتی اداروں میں کام بھی کئے۔ ڈھاکہ میں نوشاد نوری کی دوستی احسن احمد اشک، افسر ماہ پوری، یونس احمرؔ، عندلیب شادانی، کامل کلکتویؔ، آصف بنارسی، حنیف فوق، نظیرؔ صدیقی، ا رشد کاکوی، سرور بارہ بنکوی، عطاء الرحمن جمیل، ڈاکٹر سید یوسف حسن، زین العابدین، احمد الیاس، س۔م۔ساجداور شمیم زمانوی جیسے قدآور ادباء و شعراءسے تھیں۔ یہ تمام ادباء اور شعراء نوشاد نوری کو عزیز رکھتے تھے۔انہیں اردو بولنے والی کمیونٹی بالخصوص بنگلہ دیش کے مختلف کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گذارنے والوں سے بیحد ہمدردی تھی۔انہوں نے اپنی صلاحیت کی بنیاد پر دامِ، درمِِ،قدمِ، سخنِ دست تعاون درازکرتے رہے۔ اردو بولنے والوں کے مسائل کا ایک پائیدار حل کے لئے80 کی دھائی میں ایک غیر سرکاری تنظیم الفلاح بنگلہ دیش کے قیام میں فعال کردارادا کیا۔وہ پاکستانی حکومت کی مکر و فریب سے باخبر تھے اس لئے انہوں نے کمیونٹی کے نئی نسل کواسی ملک یعنی بنگلہ دیش میں آبادکاری کےپیغام کو عام کرتے ہوئے معرکتہ الآرا نظم’ ’ قبلہ اوّل‘‘ کہیں۔ یہ نظم ہر دورمیں نئی نسل کی رہنمائی کررہی ہے۔نوشاد نوری نے اردو بولنے والی کمیونٹی کے نئی نسل کو واضح پیغام دیا تھاجو تقریباً 50 سال بعد اب سچ ثابت ہورہی ہے کیونکہ جو لوگ اس کمیونٹی کے بنگلہ دیش کی شہریت یا آبادکاری کے سخت مخالف تھے ،وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ اب وہ بھی اس کمیونٹی کی بنگلہ دیش میں آبادکاری کی مہم میں شامل ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ نوشاد نوری بین الاقوامی معاملات پردور رس نگاہ رکھتے تھے۔ جغرافیائی اورتاریخی امور پر گہرے مطالعہ کے حامل جہاں کہیں بھی انسانیت مجروح ہوتی دیکھائی دیتی ان کا قلم لرز اٹھتا اور وہ نظم کہتے ۔ ان تمام نظموں کی ایک تاریخی حیثیت ہے۔ نوشاد نوری کی شاعری کے حوالے سے بنگلہ دیش کے معروف افسانہ نگار زین العابدین کا کہنا ہے کہ ’’شاعری تخلیقی عوامل سے گزرتی ہوئی انسان کے دلوں کو چھوتی ہے اور ذہنوں کو جھنجھوڑتی ہے۔ اسی لئے وہ اپنے عہد کا نہ صرف ترجمان ہوتی ہے بلکہ اس عہد کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ یہی نوشاد نوری کی تخلیقی رہ گزر ہے۔‘‘

نوشاد نوری کے دو شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ’’رہ و رسمِ آشنائی‘‘کی پہلی اشاعت جنوری 2000 میں کولکاتاسے ہوئی۔ اس مجموعہ کی ترتیب وتزئین کولکاتا کی ادب نواز شخصیت علیم اللہ صدیقی نےکی۔جو بذاتِ خود ایک عمدہ خطاط بھی تھے۔ اس مجموعہ کی دوسری اشاعت ڈھاکہ سےجنوری 2015 میں بنگلہ-اردو ساہتیہ فائونڈیشن کے ماتحت ہوئی۔ ’’روزنِ دیوار‘‘ ان کے دوسرے شعری مجموعہ کوبنگلہ دیش کے معروف شاعر شمیم زمانوی نے مرتب کیا جسے ڈھاکہ سے جولائی 2002 میں شائع کیا گیا۔ بعدا زاں اس کی دوسری اشاعت بنگلہ-اردو ساہتیہ فائونڈیشن نے 2017 میں شائع کی۔ تیسرہ شعری مجموعہ ’’تکمیل کا تسلسل‘‘ زیورِ طباعت سے آراستہ ہورہاہے۔ اس مجموعہ کوایم ایم ہیکل ہاشمی اور راقم الحروف مشترکہ طور پر مرتب کررہے ہیں۔ امیدواثق ہے کہ یہ مجموعہ بہت جلد منظرِ عام پر آجائیگا۔

ایک اردوداں ہونے کے باوجود غیر فرقہ وارانہ نظریئے کا مظاہرہ کرتے ہوئے 1952کی لسانی تحریک میں نوشاد نوری کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں 2008 میں شمس الحق فائونڈیشن اور اردو داں نئی نسل ایسوسیشن مشترکہ طور پر اور 2009 میں بنگلہ-اردو ساہتیہ فائونڈیشن نے نوشاد نوری کو بعد از مرگ ایوارڈ سے نوازا۔

نوشادنوری کے تین بھائی اور چھ بہنیں ہیں۔وہ سبھی ہندوستان میں ہیں ۔نوشاد نوری کی اہلیہ شمسہ بیگم (مرحومہ) ساری زندگی نوشاد نوری کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر ان کی ہر طرح تعاون کرتیں رہیں نیز انہوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ اورمعیاری تعلیم سے آراستہ کیا تاکہ وہ بنگلہ دیش کے اصل دھارے میں خود کو ضم کرسکیں۔ ان کے بڑے صاحبزادہ ایم ایم ہیکل ہاشمی ملک میں پرائیوٹ بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائض ہیں۔ وہ بیک وقت اردو، بنگلہ اور انگریزی زبان پر عبور رکھتے ہیں اور ان تین زبانوں میں شاعری اور ترجمہ کاکام کررہے ہیں۔ صاحبزادیوں میں شبانہ نویداردو کالم نگار کی حیثیت سے تاریخ کو سمیٹنے کا کام کررہی ہیں۔ رضوانہ ہاشمی اردو شاعری میں طبع آزمائی کررہی ہیں۔ صدف نوری چوھری اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انگریزی صحافت کے ساتھ جڑی رہیں بعد ازاں انہوں نے ترقیاتی کارکن کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے لئے ایک تنظیم قائم کی۔ صدف نوری ان دنوں کینیڈا میں مستقل رہائش پزیر ہیں۔

نوشاد نوری سرطان کے مرض میں مبتلا کافی دنوں تک بسترِ علالت پر رہنے کے بعد 18 جولائی 2000 کو اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔ نوشاد نوری کے انتقال کے بعد ملک کے معروف شاعر احمد الیاس (مرحوم) نے اپنے دیرینہ دوست کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے طویل نظم کہیں۔ میں احمد الیاس کی اس نظم کے آخری شعر سے اس مضمون کا اختتام کرنا چاہتا ہوں:

ہماری بزم میں موضوعِ گفتگو تھا وہی
جو وہ نہیں ہے تو اب، کوئی گفتگو بھی نہیں

اردو زبان و ادب نیز اردو بولنے والی کمیونٹی کے لئے نوشاد نوری کی بے لوث خدمات اور بے بہا ہمدردی ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ یاد کی جائینگی ۔

ایمسٹرڈیم، دی نیدرلینڈز

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here