بنگلہ دیش کی عدالت نے رواں برس اپریل میں زندہ جلائی جانے والی 19 سالہ طالبہ نصرت جہاں کے 16 قاتلوں کو سزائے موت سنادی۔
فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق عدالتی فیصلے کے بعد پراسیکیوٹر حفیظ احمد نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش میں قتل کے بعد کوئی بچ نہیں سکے گا، ہمارے یہاں قانون کی حکمرانی ہے‘۔
تاہم سزا پانے والے مجرمان کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
خیال رہے کہ نصرت جہاں کے قتل کا کیس بہت جلد حل کیا گیا ہے اور صرف 62 روز میں سماعت مکمل کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ چٹاگانگ کے ضلع فینی میں سونگازئی کے ڈگری مدرسہ ’سونگازئی اسلامیہ فیضل‘ کی 19 سالہ طالبہ نصرت جہاں کو مبینہ طور پر 6 اپریل کو مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی تھی‘۔
نصرت جہاں نے مدرسے کے پرنسپل سراج الدولہ کے خلاف ریپ کی کوشش کا الزام لگایا تھا تاہم مقتولہ پر مقدمہ واپس لینے کا دباؤ تھا۔
جب مقتولہ نے مقدمہ واپس لینے سے انکار کیا تو انہیں باندھ کر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی گئی تھی۔
نصرت جہاں کا جسم 80 فیصد تک جھلس چکا تھا اور ہسپتال میں پانچ روز تک زیرِ علاج رہنے کے بعد 10 اپریل کو دم توڑ گئیں تھیں۔
طالبہ کے قتل کے مذکورہ واقعے کے بعد بنگلہ دیش میں ملک گیر مظاہرے کیے گئے اور جنسی ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف آواز اٹھائی گئی تھی۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں کئی روز تک مظاہرے کیے گئے تھے اور قاتلوں کو عبرت کا نشان بنائے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تاہم بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے نصرت جہاں کے قتل میں ملوث تمام ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا تھا۔
رواں برس مارچ کے اواخر میں نصرت جہاں نے جنسی ہراسانی کے خلاف رپورٹ درج کروانے پولیس اسٹیشن گئی تھیں اور ایک لیک ویڈیو میں مقامی پولیس کے سربراہ کو طالبہ کی شکایت درج کرتے ہوئے دکھایا گیا کہ انہوں نے اس شکایت کو ’ کوئی بڑی بات نہیں ہے ‘ کہہ کر مسترد کردیا تھا۔
نصرت جہاں کے قتل کے بعد پولیس نے بتایا تھا کہ 18 میں سے ایک ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے اور انہوں نے اسکول کے پرنسپل پر قتل کا حکم دینے کا دعویٰ کیا تھا۔
اس حوالے سے تحقیقات کی سربراہی کرنے والے سینئر پولیس سپرنٹنڈنٹ محمد اقبال نے بتایا تھا کہ ’ ٹیچر نے مقدمے سے دستبردار ہونے کے لیے نصرت جہاں پر دباؤ ڈالنے اور انکار کی صورت میں انہیں قتل کرنے کا کہا تھا‘۔
انہوں نے بتایا تھا کہ گرفتار کیے جانے والے نصرت جہاں کے ہم جماعت بھی شامل تھے جنہوں نے انہیں اسکارف سے باندھ کر آگ لگادی تھی۔
سینئر پولیس سپرنٹنڈنٹ نے بتایا تھا کہ ’ نصرت جہاں کے قتل کو خودکشی قرار دینے کا ارادہ تھا لیکن طالبہ سسیڑھیوں تک آنے میں کامیاب ہوگئیں تھیں کیونکہ اسکارف کو آگ لگنے سے ان کے ہاتھ اور پاؤں آزاد ہوگئے تھے‘۔
سماجی کارکنان کا کہنا تھا کہ نصرت جہاں کے قتل سے خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے واقعات میں مجرموں کو سزا سے چھٹکارے کی روایت بے نقاب ہوئی تھی اور یہ حقیقت بھی سامنے آئی تھی کہ ہراسمنٹ کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو اکثر نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
خیال رہے کہ نصرت جہاں کے قتل کے بعد بنگلہ دیشی حکام نے 27 ہزار اسکولوں کو جنسی تشدد سے بچاؤ کے لیے کمیٹیاں تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔
Also read