تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
مضمون نگار: سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی
اظہرؔ زیدی کا تعلق میمن سادات ضلع بجنور سے ہے لیکن عرصۂ دراز سے ان کا قیام علی گڑھ میں ہے۔وہ منقبت نگاری کی دنیا میں محتاجِ تعارف نہیں ہیں۔علی گڑھ اور بیرونِ علی گڑھ ان کا کلام نہ صرف سنااور پڑھا جاتا ہے بلکہ بعض خصوصیات کی بنا پر انتہائی پسند بھی کیا جاتا ہے۔علی گڑھ کی کوئی ایسی محفل نہیں جن میں ان کی موجودگی ناگزیر نہ سمجھی جاتی ہو۔وہ ذاتی زندگی میں جہاں ایک مخلص شخصیت ہیں وہیں ان کے کلام سے بھی اخلاص،محبت،اطاعتِ خدا،عشقِ رسولؐ اور مودتِ اہلِ بیت کی خوشبو آتی ہے۔ان کی دو کتابیں منظرِعام پر آچکی ہیں جس میں پہلی کتاب’’نقوشِ مودت ‘‘اور دوسری کتاب’’ کہکشانِ مودت‘‘ ہے۔جس میں ان کا تقدیسی کلام نظر آتا ہے جو اہلِ ادب اور ناقدینِ فن کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتا۔موصوف کا شرف یہ بھی ہے کہ ان کی کتاب ’’کہکشانِ مودت‘‘کا اجراء سردابِ امام موسیٰ کاظمؑ روضۂ حضرت عباسؑ،کربلاعراق میں ۴ شعبان المعظم ۱۴۳۸ھ کو حجتہ الاسلام و المسلمین آقائی غلام رسول نوری حفظہ اﷲکے دستِ مبارک سے ہوا۔جو نہ صرف ان کے لئے بلکہ تمام اہلِ ہند کے ادباء و شعراء کے لئے باعثِ افتخار ہے۔اس مضمون میں موصوف کی سلام گوئی کا تجزیاتی مطالعہ کرنا مقصود ہے تاکہ عرصۂ حاضر کی سلام گوئی کے مزاج سے مزید واقفیت ہوسکے۔
موصوف کے یہاں جو سلام کا انداز پایا جاتا ہے اس میںجدت کی روشنی اور روایت کی آتش بخوبی نظر آتی ہے۔انھوں نے اپنی شاعری کا تانا پانا روایت کے استفادے اور جدت طرازی کے اسالیب سے بنا ہے۔سرسری طور سے دیکھنے پر ہی ان کی فکر اور پروازِ تخیل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ان کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے سلاموں میں جگہ جگہ عقیدت کے ایسے چراغ روشن ہیںجن کی روشنی کبھی مدھم نہیں پڑ سکتی کیوں کہ یہ ہر اس شخص کی دل کی بات ہے جو رسول اﷲاور ان کے اہلِ بیت سے عقیدت رکھتا ہے اور ان کی مودت کو اپنے لئے دونوں جہان میں باعثِ تسکینِ جانتا ہے۔اس سلسلے سے دو اشعار ملاحظہ کریں:
مجھے جو عشقِ شہِ تشنہ کام بخشا ہے
خدا نے چشمۂ کوثر کا جام بخشا ہے
****
اتنا کافی ہے مداحِ شبیرؑ ہوں
آخرت کے لئے اور کیا چاہئے
یعنی وہ آخرت کی فکر سے بے خوف ہیں کیوں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ مداحیٔ شبیرؑ ان کی نجات کی ضامن ہے۔وہ یہ بھی مانتے ہیں جن لوگوں کے دل میں عشقِ امام حسینؑ ہوتا ہے ان کا بگڑا ہوا نصیب بھی بن جاتا ہے۔شعر ہے:
جو بھی سمٹ کے دامنِ سرور میں آگئے
اپنا نصیب اپنا مقدر بنا گئے
ان کا عقیدہ ہے کہ جو محبانِ امام حسینؑ ہیں ان سے خاتونِ جنت حضرت بی بی فاطمہؐ بھی راضی رہتی ہیںاور ان کی شفاعت لازمی ہے۔شعر ہے:
خود جنابِ فاطمہؑ ہوں گی شفاعت کے لئے
روزِ محشر بخشے جائیں گے محبانِ حسینؑ
وہ خود بھی عشقِ امام ِحسینؑ میں ڈوبے ہوئے ہیں اور دیگر مسلمانوںکو بھی امام حسینؑ کے غم کی طرف آمادہ کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ وہ غمِ حسینؑ کو ہی اسلام کی اصل تنویر جانتے ہیں۔کہتے ہیں:
جو دل کے امینِ غمِ شبیرؑ نہیں ہے
اسلام کی حاصل اسے تنویر نہیں ہے
اسی مضمون کو ذرا مختلف انداز میں ایک جگہ اس طرح شعر میں ضم کرتے ہیں:
دل وہ کب پر نور ہے اسلام کی تنویر سے
جس کو کچھ نسبت نہیں ہے دامنِ شبیرؑ سے
وہ کربلاکو جنت میں جانے کا سیدھا راستہ جانتے ہیں۔شعر ہے:
ادھر ادھر نہ مسلمانو خلد کو ڈھونڈو
جو ہو کے کربلا جائے وہ سیدھا رستہ ہے
وہ کربلا کے واقعے کو زندگی کا سلیقہ جانتے ہیں۔کہتے ہیں:
باطل کے آگے سر نہ جھکا کر شہِ انام
دنیا کو زندگی کا سلیقہ سکھا گئے
وہ امام حسینؑ کو کسی خاص قوم کی جاگیر نہیں مانتے بلکہ ان کی شخصیت کو سارے عالم کے لئے رہنما جانتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ امام حسینؑ نے کربلا کے میدان میں جو قربانی دی اس نے ساری انسانیت کی لاج کو رکھ لیا۔یہی وجہ ہے کہ بعدِکربلا امام حسینؑ ہر مذہب اور ہر مسلک میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور ان کی شخصیت حق کی علامت سمجھی جاتی ہے۔شعر ہے:
ہر قوم کو درکار ہے کردارِ حسینیؑ
شبیرؑ کسی قوم کی جاگیر نہیں ہے
ان کا خیال ہے کہ جو لوگ غموں کے سائے میں بھی حق سے روگردانی نہیں کرتے اور ہمیشہ ثابت قدم رہتے ہیں تو ان کا کسی نہ کسی طرح رابطہ امامِ حسینؑ سے ضرور ہے چاہے وہ کسی قوم یا قبیلے کے ہی کیوں نہ ہوں۔شعر ہے:
غموں کے سائے میں ثابت قدم جو رہتے ہیں
ضرور ان کا کوئی رابطہ حسینؑ سے ہے
وہ خود کو بھی غموں کے زیرِ اثر دیکھتے ہیں تو غمِ امام حسینؑ سے حوصلہ حاصل کرتے ہیں۔شعر ہے:
جب جب بھی کبھی سایۂ غم دل پہ پڑا ہے
بازو غمِ سرور نے مرا تھام لیا ہے
تاریخِ کربلا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عاشور کی شب میںکربلامیںخیامِ حسینیؑ صبر و شکر کے چراغ اس قدر روشن تھے کہ کربلا تکبیر کے نور میں غلطاں نظر آرہی تھی:
آیتیں لیتی رہیں ان کے لبوں کے بوسے
صبحِ عاشور تلک وارثِ قرآں جاگے
رفقائے امام حسینؑ میں جاں نثاری کا جذبہ بدرجۂ اتم موجود تھا۔جس کی وجہ سے انھیں نیند نہ آتی تھی ہر شخص سوچتا تھا کہ کل عاشور میں اپنے آقا امام حسینؑ پر جان قربان کرنے کی سعادت حاصل کرے گا۔شعر ہے:
دو گھڑی جذبۂ ایثار نے سونے نہ دیا
رات بھر شوقِ شہادت میں رفیقاں جاگے
امام حسینؑ کے جاں نثاروں اور فدائیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کربلا میںحضرت عباسؑ ابنِ علیؑ بھی موجود تھے جو امام حسینؑ کے بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ فوجِ حسینیؑ کے سپہ سالار اور ایک ایسے شجاع بھی تھے جن پر شجاعتوں کو ناز تھا۔وہ شیرِ خدا کی ہوبہو تصویر تھے۔شعر ہے:
جس بھی رخ سے دیکھنا ہو دیکھ لیں اہلِ نظر
ہو بہو عباسؑ اپنے باپ کی تصویر ہے
حضرت عباسؑ کا خاصہ یہ بھی ہے کہ وہ شجاع ہونے کے ساتھ ساتھ امام حسینؑ کے اطاعت گزار اور ایک ایسے باوفا شخص تھے جنھوں نے کربلا میں وفا کی عظمت کو اور دو بالا کردیا ۔انھوں نے دریا پر قبضہ کرنے کے باوجود پانی کو منہ نہ لگایا اور خیامِ حسینیؑ کے لئے پانی کی سبیل کرتے کرتے شانوں کے انقطاع کے بعد جامِ شہاد ت نوش کیا۔تاریخ میں ان کا یہ عمل آج بھی ناقابلِ فراموش ہے۔اشعار دیکھیں:
صرف اک نیزے کے بل پر چھین لی نہرِ فرات
یہ حسینیؑ فوج کے اک باوفا کی بات ہے
****
یہ اور بات کہ شانے قلم ہوئے عباسؑ
جہاں میں تیرا علم آج سب سے اونچا ہے
پانی پہ جو تاریخِ وفا لکھ گئے عباسؑ
دریائوں کے سینے پہ وہ اک نقشِ وفا ہے
کربلا میں امام حسینؑ کی فوج میں چھے مہینے کے حضرت علی اصغرؑ بھی کسی طرح شجاعت میں کم نہیں ۔انھوں نے بھی اپنے منفرد انداز میں راہِ اسلام میں اپنی قربانی پیش کی یعنی مسکراکر گلے پر حرملہ کا تیر کھایا۔اظہرؔ زیدی کہتے ہیں:
اے حرملہ اٹھے گا نہ دنیا میں تیرا سر
اصغرؑ نے تبسم سے عجب کام لیا ہے
تاریخِ کربلا میں امام حسینؑ کی بہن جنابِ زینبؑ بنت علیؑ کی شجاعت بھی کم نظر نہیں آتی انھوں نے امام حسینؑ کے بعد جس دلیری اور شجاعت کا اظہار کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔اگر جنابِ زینبؑ کربلا میں نہ ہوتیں تو امام حسینؑ کا پیغام کبھی اس طرح عام نہ ہوتا جس طرح آج ہے۔انھوں نے کربلا کے بعد کوفہ و شام کے سفر میں نہ جانے کتنی اذیتیں برداشت کیں لیکن مقصدِ امام حسینؑ کو مرنے نہ دیا۔بے شک ستمگروں نے ان کی ردا چھین لی لیکن اس کے باوجود ان کا پردہ نہ چھین سکے اور ان کی عظمت پر کوئی حرف نہ آسکا۔شعر ہے:
غلافِ کعبہ کی توقیر میں ہوں
رخِ زینبؑ کا پردہ بولتا ہے
کربلا میں امام حسینؑ کے بیٹے امام زین العابدین ؑکا کردار بھی ممتاز و منفرد ہے۔انھوں نے بھی اسلام کی خاطر اور مقصدِ امام حسینؑ کے فروغ کی خاطر جو عمل انجام دیا وہ بھی تاریخ میں سنہرے الفاظ سے رقم ہے جس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ ان سے بیعت کا مطالبہ نہیں کیا گیا کیوں کہ ظالم کو اپنی شکست کا بخوبی احساس ہو چکا تھا:
کرب کے عالم میں بھی دیتی رہی عزمِ حیات
عابدِ بیمارؑ کے پائوں میں جو زنجیر تھی
****
خطبوں سے کاٹنا ہے انھیں سر یزید کا
عابدؑ کو کوئی تیغ نہ شمشیر چاہئے
اچھی شاعری کا حسن یہ بھی ہے کہ اس میں سادگی و سلاست سے گہری بات کہی جاتی ہے جس کی وجہ سے شاعر کی انفرادیت قائم ہوتی ہے اس میں قدم قدم پر تشبیات ،استعارات ،حسن تعلیل اور تلمیحات کا سہارا لیا جاتا ہے تاکہ شاعری کا اسلوب برقرار رہے ۔یہ عمل مختلف اصناف کے ساتھ ساتھ سلام نگاری میں بھی پایا جاتا ہے۔اظہرؔ زیدی صاحب بھی اس سے تہی دامن نہیں ان کے سلاموں کا مطالعہ کیجیے تو اس میں سادگی کا عروج اور صنعتوں کاخوبصورت امتزاج بھی نظر آتا ہے۔مثلاً:
زیارت کر رہا ہوں کربلا کی
مری آنکھوں کے آگے تعزیہ ہے
شعر میں کس سادگی کے ساتھ تعزیے کی عظمت کا بیان ہے اس کا اندازہ ہراس صاحبِ نظر کوآسانی سے ہوسکتا ہے جو اس شعر کی تہہ میں اتر سکتا ہے اور تعزیہ داری کی تاریخ سے واقف ہے۔
ان کے یہاں تشبیہات بھی ہیں ایک شعر دیکھیں جس میں سورج کو حضرت حرؓ سے تشبیہ دی گئی ہے۔کہتے ہیں:
پلٹ کے ابھرا ہو جیسے کہ ڈوبتا سورج
دہم کی صبح میں حرؓ یوں ملا حسینؑ سے ہے
وہ بہترین استعاروں سے بھی اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔شعر ہے:
ظلمات کے سائے میں سورج کی کرن بن کر
سوئے ہوئے ذہنوں کو مولا نے جگایا ہے
استعارے کے ساتھ ساتھ ان کے اشعار میں حسنِ تعلیل بھی نظر آتی ہے۔شعر ہے:
دیکھی جو سوکھی مشک تو دریا بھی رو دیا
دھارے تڑپ کے رہ گئے نہرِ فرات کے
پانی کے دھاروں کا تڑپنا ایک عام بات ہے لیکن یہاں شعر میں ان کے تڑپنے کا سبب سوکھی ہوئی مشکِ سکینہؑ کے زیرِ احساس بتایا گیا ہے۔گویا کہ شعر میں حسنِ تعلیل کی بہترین مثال دیکھنے کو ملتی ہے۔
وہ تلمیح سے بھی بخوبی کام لینے کا فن جانتے ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ طوفانِ نوحؑ کس طرح رونما ہوا اور اس کا انجام کیا ہوا۔لیکن اس واقعے کو کربلا کے آئینے میں دیکھنا کمال کی بات ہے۔شعر دیکھیں:
رن میں بے شیرؑ کی گردن سے ابلتا ہے لہو
خوف ہے پھر نہ کہیں نوحؑ کا طوفاں جاگے
شاعری میں خوبصورت الفاظ کا استعمال خوبصورت طریقے سے کیا جاتا ہے کبھی الفاظ کے مختلف ٹکڑوں کبھی الفاظ کی تکرار تو کبھی مترادف الفاظ کے استعمال سے شعر گوئی کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے۔اظہرؔ زیدی اپنے سلاموں میں بہترین طریقے سے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔مثلاً:
جو بھی آیا سر چڑھا سر ہوگیا اس کا قلم
کربلا میں حیدری بچوں کی ہمت دیکھئے
****
پھنسا ہوا تھا بھنور میں سفینۂ اسلام
بچا لیا یہ سفینہ بچا لیا تم نے
پہلے شعر میں ’’سر چڑھا‘‘کے ساتھ ساتھ ’’سر ہوگیا اس کا قلم‘‘ اور دوسرے شعر کے دوسرے مصرعے میں ’’بچا لیا‘‘ کی تکرار شعر کے حسن کو مزید دوبالاکر رہی ہے۔اسی طرح ایک شعر میںحضرت علیؑ اصغرسے متعلق شعر میں ’’ زبانِ بے زباں ‘‘ کی ترکیب بھی نہایت جاذبیت اور حسن کی متحمل ہے۔شعر ہے:
تیر کھا کر مسکرانے میں بھی اک تدبیر تھی
اک زبانِ بے زباں سے ظلم کی تشہیر تھی
ان کے یہاں الفاظ کا در و بست نہایت متاثر کن اور دلکش ہے ۔مثال کے لئے اشعار دیکھیں جن میں ایسے الفاظ کا اجتماع نظر آتا ہے جن سے مرصع سازی کا عکس نمایاں ہوتا ہے:
رسالت ہے امامت ہے شجاعت ہے شہادت ہے
سبھی اوصاف ملتے ہیں شہِ ابرار کے گھر میں
****
اطاعت کا سعادت کا سخاوت کا قناعت کا
خزینہ دیکھنا گر ہے تو دیکھوآلِ اطہر میں
****
دیںملا عالم ملا جنت ملی دنیا ملی
جس کو اے سبطِ نبی دامن تمہارا مل گیا
عصرِ حاضر کے سلام کا دائرہ کافی وسیع ہے اس میں جہاں منقبتی انداز ہوتا ہے وہیں صنائع بدائع اور مختلف جمالیات کے رخ پائے جاتے ہیں لیکن سلام کا اصلی جزو گریہ و زاری سے لبریز اشعار ہی ہوا کرتے ہیں جن کا حق ادا کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں۔لیکن اظہرؔ زیدی یہاں بھی کامیاب نظر آتے ہیں۔ان کے یہاں مصائب سے پُر اشعار میں وہ طاقت ہے جو پتھر دل انسان کو بھی رونے پر آمادہ کر سکتی ہے۔چند اشعار دیکھیں:
لاشہ اکبرؑ پہ روکر کہتے جاتے تھے حسینؑ
خاک میں میری ضعیفی کا سہارا مل گیا
****
جانے کس دل سے سہا شبیرؑ نے اکبرؑ کا داغ
صرف بیٹا ہی نہ تھانانا کی بھی تصویر تھی
****
رک نہ پاتا تھا یونہی عباسؑ کا نیزے پہ سر
سر کھلے بازار میں پیشِ نظر ہمشیر تھی
اس طرح کی مثالیں ان کے سلاموں میں جا بجا ملتی ہیں جن میں شدتِ غم کی فراوانی صاف طور پر نظر آتی ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اظہرؔ زیدی سلام گوئی کی دنیا میں کسی سے کم نظر نہیں آتے۔مختصر یہ کہ اظہرؔ زیدی کے سلاموں کا رنگ ہمیں آج کے ادبی تقاضوں پر پورا کھرا اترتا ہوا نظر آتا ہے ساتھ ہی ہمیں ان کے سلاموں کا مطالعہ اس فکر کی بھی دعوت دیتا ہے کہ سلیقے اور طریقے کی شاعری کسے کہتے ہیں ۔میں ان کے ایک شعر پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں:
مدحتِ آلِ پیمبر سے ہے اظہرؔ سرفراز
یہ کرم آقا کا ہے،ان کی عطا کی بات ہے
علی گڑھ یوپی، 9219782014
٭٭٭