آزاد: غلام نبی یا غلام مودی ؟- Azad: Ghulam Nabi or Ghulam Modi?

0
147

Azad: Ghulam Nabi or Ghulam Modi?

عبدالعزیز
G-23 کے کانگریسی لیڈران کی اٹھان، بات چیت، خطوط اور بیانات سے ایسا معلوم ہورہا تھا کہ لیڈران کانگریس کی ترقی اور اصلاح کے خواہاں ہیں۔ لیکن جموں میں ان میں سے پانچ لیڈروں کی موجودگی میں سیاسی اجتماع اور اس کے بعد غلام نبی آزاد کی مودی نوازی نے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ غلام نبی آزاد کو نریندر مودی اچھے لگنے لگے ہیں اور کانگریس کی مودی مخالف پالیسی کو بدلنا چاہتے ہیں۔ اس وقت جبکہ سارا ہندستان اور خاص طور پر کشمیری مسلمان مودی حکومت کی مظلومیت کے شکار ہیں مودی کی جھوٹی اور غلط تعریف کرنا کس کردار کی نشاندہی کرتا ہے؟’’نریندر مودی نے اپنی یہ بات کسی سے چھپائی نہیں۔ ان کی یہ بات مجھے بہت اچھی لگی‘‘۔ غلام نبی آزاد کا یہ کہنا کہ ’’وہ بھی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور مودی جی بھی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور مودی جی چائے بھی فروخت کرتے تھے‘‘۔ دیکھا جائے تو یہ ساری باتیں جھوٹ پر مبنی ہیں بلکہ سفید جھوٹ ہیں۔ مودی جی یا آزاد دونوں شہروں میں رہتے ہیں۔ گاؤں کبھی کبھار سال دو سال میں دوچار دنوں کیلئے جاتے ہیں۔ مودی جی شاید گاؤں سے جب سے نکلے ہیں گاؤں کا منہ دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا یا ان کو اپنے گاؤں جانا گوارا نہیں۔ شادی ہوئی تو شادی کے ایک دوسال بعد بیوی کو اس کے گھر پہنچا دیا اور پھر پلٹ کر بیوی کا منہ بھی نہیں دیکھا۔ ان کی ماں بھی احمد آباد گجرات میں رہتی ہیں۔ ماں کے پاس بھی کبھی کبھار جاتے ہیں تو کیمرہ کے ساتھ جاتے ہیں تاکہ پبلسٹی ہو۔ دو چار سال بعد دس منٹ ماں کے پاس گزار کر بیٹے کا حق ادا کردیتے ہیں۔ وزیر اعظم کے 7، ریس روڈ والے محل تک نہ بیوی کی رسائی ہوسکی نہ ماں کی۔
خروشچیف جب سوویت یونین کے صدر ہوئے تو گاؤں سے اپنی ماں کو صدارتی محل دکھانے لائے۔ بیٹے نے ماں کو محل کی ایک ایک چیز دکھائی کہ یہ سونے کا کمرہ ، یہ ڈرائنگ روم، یہ باورچی خانہ، یہ دفتر، یہ میدان ، یہ پھلواری اور باغیچہ۔ خوبصورت محل اور حسین نظارے کو دیکھنے کے باوجود ماں کے چہرے پر نہ مسکراہٹ آئی اور نہ رونق۔ بیٹے کو حیرت ہوئی تو پوچھا کہ ’’ماں آپ نے خوشی کا اظہار نہیں کیا؟ آپ مغموم نظر آرہی ہیں‘‘۔ ’’ہاں بیٹا! مجھے یہ غم کھائے جارہا ہے کہ کہیں کمیونسٹ آکر تمہارے محل پر قبضہ نہ کرلیں‘‘۔ نریندر مودی کی ماں بھی محل آتیں تو شاید متعجب ہوتیں۔ان کا وہ بیٹا جو ’چائے والے‘ سے مشہور ہے آج اسے وہ سب چیزیں نصیب ہیں۔ کہیں یہ سب دولت، عزت اور محل چھین نہ لیا جائے۔ وہ بھی خروشچیف کی ماں طرح مغموم ہوئے بغیر نہیں رہتیں۔ مودی جی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نہ ان کی چائے کی دکان تھی اور نہ انھوں نے کبھی چائے کی دکان میں نوکری کی اور نہ چائے بیچنے کی ایکٹنگ یا ڈرامہ کیا۔ ہاں چاہئے بیچنے کی بات کہہ کر ضرور دوسروں سے ہمدردی بٹورنے کی کوشش کی۔ اسی چائے والے کی حکومت کو راہل گاندھی ’’سوٹ بوٹ کی سرکار‘‘ کہتے ہیں، شاید اس لئے کہ مودی نے پانچ لاکھ کا سوٹ پہنا تھا۔
غلام نبی آزاد کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ مودی جی اپنے آپ کو غریب پسماندہ طبقے کا فرد بتاتے ہیں مگر ان کی ساری وفاداری امیروں سے ہے خاص طور پر امبانی اور اڈانی سے۔ ہر سرکاری تجارتی ادارے کو ایک ایک کرکے امیروں کے ہاتھوں بیچ رہے ہیں۔ اسی لئے ان کے نام کے ساتھ Sell India (ہندستان بیچو) جڑگیا ہے۔ کوئی کشمیری مودی کی تعریف و تحسین کیسے اور کیونکر پسند کرسکتا ہے۔ جس نے کشمیر کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہو اور اس کی پارٹی کے لیڈران کشمیری لڑکی سے شادی کے متمنی ہوں اور کشمیر کی جگہ زمین خریدنے کی آرزو رکھتے ہوں۔ غلام نبی آزاد نریندر مودی سے اپنی قربت چھپا نہیں سکے۔ ہاں اگر وہ مودی کی راجیہ سبھا والی تقریر کا ذکر کرتے اور مصنوعی آنسو کیلئے دو بات کہتے تو ان کی آزادی خطرے میں نہیں پڑتی اور نہ لوگ انھیں ’’غلام مودی‘‘ کہہ کر پکارتے۔ مودی کا نام نہ صرف ہندستان میں بلکہ دنیا بھر میں ہٹلر اور مسولینی کے نام کے ساتھ لیا جانے لگا ہے کیونکہ ملک تیزی سے تباہی کی طرف جارہا ہے۔
آج ہی(4 مارچ) انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ کی پہلی خبر مودی کی تصویر کے ساتھ شائع ہوئی ہے: ’’ہاں! میں نے یہ کیا ہے—اب انڈیا آزاد نہیں ہے‘‘۔ “Yes, We Have Done This Too! India Is NoMore ‘FREE’
امریکہ کے ’فریڈم ہاؤس‘ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ہندستان کو آزاد ممالک کی فہرست سے ہٹا دیا گیا ہے۔ فریڈم ہاؤس نے انڈیا کو ’نیم آزاد‘ ملکوں کے زمرے میں شامل کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس ملک کو نگرانی میں رکھا جائے گا۔ فی الحال یہ ملک آمریت میں تبدیل ہوگیا ہے‘‘۔ فریڈم ہاؤس ایک غیر سرکاری اور غیر منافع بخش تنظیم ہے جو حکومت سے کبھی مدد نہیں لیتا۔ 1971ء میں قائم ہوئی یہ تنظیم جو جمہوریت کیلئے تحقیقی کام، حقوق انسانی، سیاسی آزادی اور جمہوریت کی بقا کی وکالت کرتی ہے۔ رپورٹ گزشتہ بدھ (3 مارچ 2021ء) کو شائع ہوئی ہے، جس میں لکھا ہوا ہے کہ ’’چین میں آمریت ہے اور نریندر مودی اور ان کی پارٹی المناک طریقے سے ہندستان کو آمریت کی طرف لے جارہی ہے۔ فریڈم ہاؤس نے یہ رپورٹ دی ہے کہ نریندر مودی کے زیر قیادت ہندستان جیسا ملک جو عالمی پیمانے پر جمہوری کردار کا رول ادا کرنے والا تھا وہ تنگ نظر ہندو قومیت میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے اور نہایت تیزی سے انسانی حقوق اور جمہوریت کا خاتمہ ہورہا ہے‘‘۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ’’ دنیا بھر میں آمریت اور خطرناک قومیت کا عروج ہے۔ حکومتیں غیر شفاف ہیں اور عوام کے بھروسے سے محروم ہیں‘‘۔
اسی رپورٹ کے نیچے ’ٹیلیگراف‘ نے یہ خبر بھی شائع کی ہے کہ “Here’s Proof: Raids On Critics” (یہ ہے ثبوت : حکومت کے خلاف تنقید کرنے والوں کے گھروں پر چھاپہ)۔ اداکارہ تاپشی پنو اور فلم ایکٹر انوراگ کشیپ مودی حکومت کے بڑے ناقد ہیں۔ ممبئی اور پونے کی 25جگہوں پر چھاپے پڑے ہیں ۔انکم ٹیکس کے اہلکاروں نے تاپشی اور کشیپ سے پوچھ تاچھ کی ہے۔ ٹیلیگراف نے ایسے تمام لوگوں کی مختصر فہرست شائع کی ہے جن کو مرکزی حکومت کے خلاف تنقید کرنے سے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کسانوںنے بھی کمر کس لی اور اب وہ اپنے ساتھ مزدوروں کو لے کر ہندستان گیر پیمانے پر یہ آواز بلند کررہے ہیں کہ ’’بی جے پی کے خلاف ووٹ دیں‘‘۔ اس ماحول میں غلام نبی آزاد کی مودی غلامی کیسے راس آئے گی؟کہنا مشکل ہے۔ کیا یہ کانگریس سے نکل جائیں گے یا کانگریس انھیں باہر کا راستہ دکھا دے گی؟ جب کشمیر کے تمام بڑے بڑے لیڈران گرفتار یا نظر بند کئے جارہے تھے۔ غلام نبی آزاد کو نہ نظر بند کیا گیا اور نہ گرفتار کیا گیا۔ اس وقت بھی غلام نبی کی مودی نوازی پر شک و شبہ ہوا تھا کہ ؎ ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘۔ غلام نبی کے حالیہ بیان سے پردہ اٹھ گیا ہے۔ پردہ داری باقی نہیں رہی۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here