شارب ردولوی کی آپ بیتی اور ڈاکٹر مجاہدالاسلام کی تحریر

0
324

سہ ماہی رسالہ ادبی نشین میں شائع ڈاکٹرمجاہدالاسلام کےمضمون ”ژاک دریداکا فلسفہ ‘ردّ تشکیل اور شارب ردولوی کی آپ بیتی “ پرڈاکٹر احمد امتیاز کا اظہار خیال

 

ڈاکٹراحمد امتیاز

ڈاکٹر مجاہد الاسلام صاحب کا یہ مضمون (کےمضمون ”ژاک دریداکا فلسفہ ‘ردّ تشکیل اور شارب ردولوی کی آپ بیتی “ )پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ انہوں نے دیانت داری سے کام نہیں لیا اور نہ ہی دیانت دارانہ تنقید لکھنے کی کوشش کی بلکہ یہاں وہاں سے اقتباسات اٹھائے اور رد تعمیر کے نام پر شارب صاحب کی خود نوشت کو پرکھنے کی ناکام کوشش کی. ڈاکٹر صاحب کو شاید یہ نہیں معلوم کہ شارب صاحب ما بعدِ جدید تصور پر قلم اٹھانے والے ابتدائی ناقدین میں شامل ہیں. گوپی چند نارنگ کے بعد یا ان کے ساتھ جن لوگوں نے اس تصور کو اردو میں متعارف کرایا تھا، ان میں شارب ردولوی، حامدی کاشمیری، مغنی تبسم، ضمیر علی بدایونی، وزیر آغا، نظام صدیقی، تھے. ان کے بعد ہی اس تصور میں ہمارے دیگر ناقدین کی دلچسپی بڑھی اور کئی لکھنے والے مثلاً وہاب اشرفی، ظہور الدین، محمد صلاح الدین پرویز، عتیق اللہ، دیوندر اسّر، ابو الکلام قاسمی، قاضی افضال، فہیم اعظمی، ناصر عباس نیر، وغیرہ سامنے آئے. یہ الگ بحث ہے کہ ان میں سے کس کی تفہیم کا معیار کیا ہے.

ڈاکٹر مجاہد الاسلام صاحب نے شارب صاحب کی خود نوشت کی پرکھ کا اگر کوئی اصول متعین کیا ہوتا تو بات الگ تھی. یہاں تو حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے سرے سے ما بعد جدید فکر اور رد تعمیر کو سمجھا ہی نہیں اور نہ ہی کسی تجزیاتی عمل سے گزرے. انہوں نے اقتباسات نقل کرکے یہ بتانے کی کوشش کی کہ دیکھیے شارب صاحب نے کس طرح اپنے معاصرین کی شخصی خامیاں اجاگر کر کے ان کی بنی بنائی شخصیت کو رد کیا ہے. ڈاکٹر صاحب کی نظر میں اگر یہ ردِ تعمیر کا فلسفہ ہے تو معاف کریں مجھے ان کی سمجھ پر ہنسی آتی ہے.

گوپی چند نارنگ اور ان کے ہم خیال ناقدین کا بھی یہی خیال ہے کہ ما بعدِ جدیدیت کا تصور بہت واضح نہیں ہے. اس کا رشتہ پسِ ساختیات کے ساتھ کیسا ہے اس سلسلے میں بھی کوئی واضح معلومات نہیں ملتی تاہم اکثر ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دونوں اصطلاحات ایک دوسرے کے بدل کے طور پر ہمارے یہاں رائج ہیں. دونوں کے مابین یہی کہا جا سکتا ہے کہ پسِ ساختیات تھیوری ہے جو فلسفیانہ قضایا سے بحث کرتی ہے جبکہ ما بعدِ جدیدیت تھیوری سے زیادہ صورتِ حال ہے. ما بعدِ جدید فکر کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے. اس میں ادب، آرٹ،. فنِ تعمیر، موسیقی، عمرانیات، سیاست، مذہب، فیشن جیسے متنع شعبے شامل ہیں. اس میں کوئی ایک پوائنٹ آف ریفرینس نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایک مرکز ہے اور نہ ہی یہ تصور کسی ایک نکتے کی وضاحت کرتا ہے. اسی لیے تو اسے Anti Foundationalist کہا جاتا ہے. پسِ ساختیاتی رجحان کی سب سے اہم بحث ردِّ تعمیر کی بحث ہے اور اس کا اصل اصول یہ ہے کہ ہر ادبی متن کے اپنے متعیّنہ معنی کو ردّ کرنے کا مادہ خود اس کے اندر ہوتا ہے. اسی اعتبار سے اس رجحان میں متن کے معنی کے تعیّن میں قاری کی اہمیت زیادہ ہے. جس کا ایک سرا قاری اساس تنقید سے جا کر مل جاتا ہے. ردِّ تعمیر یا ردِّ تشکیل در اصل تجزیے کا ایک طریقہء کارہے. اس میں معنی کو تہہ و بالا نہیں کیا جاتا (جیسا کہ ڈاکٹر موصوف نے کرنے کی کوشش کی ہے.) اور نہ ہی لفظ Construction یعنی تعمیر ،لفظ ساخت یعنی Structure کا مترادف ہے بلکہ یہ معنی کی کثیر المعنویت اور اس کی گڑھیں کھولنے یعنی معنی کشائی اور معنی کاری کے مسلسل عمل کا نام ہے. چوں کہ معنی کی کوئی حد نہیں ہوتی اس لیے اس کی غیر معیّن صورت مستقل نئے معنی برآمد کرنے پر اکساتی ہے.

قصّہ ء مختصر یہ کہ ردِّ تعمیر متن کی تفہیم، تجزیے ،تعبیر کے طریقوں اور حکمتِ عملیوں پر مبنی ہے. یہ کوئی تحریک نہیں ہے. اس فکر کے تحت کلاسیکی اور جدید ادبی متون کو نئے سرے سے سمجھا اور جانچا جا سکتا ہے مگر ان متون کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا.

اب رہی بات ڈاکٹر مجاہد الاسلام صاحب کے طریقہء تنقید کی تو انہوں نے شارب صاحب کی خود نوشت کے اقتباسات ضرور لیے ہیں مگر ان اقتباسات کے متون کی نہ ہی کوئی تفہیم پیش کی، نہ ہی اس کا تجزیہ کیا اور نہ ہی متن کی کوئی نئی تعبیر بتائی. کوئی بھی فن کار جب اپنے تجربے اور مشاہدے اپنی ادبی تخلیق میں پیش کرتا ہے تو اس کی صداقت کی جانچ کسی نہ کسی اصول کے تحت ہی کی جا سکتی ہے. محمد حسن یا قمر رئیس یا گوپی چند نارنگ یا عبد الحق صاحبان کے بارے میں جو خیالات شارب صاحب نے پیش کیے ہیں وہ ان کے ذاتی تجربے ہیں. ان خیالات کی تصدیق تو مجھ جیسے طالبِ علم بھی کر سکتے ہیں کیوں کہ شعبہء اردو، دہلی یونیورسٹی سے میری وابستگی گزشتہ ٣٢ برس سے ہے. شارب صاحب نے جو بھی مذکورہ صاحبان کے تعلق سے بیان کیا ہے وہ صداقت پر مبنی ہے اور میرے سینئر ساتھی بھی اس حقیقت سے واقف ہیں. اگر ما بعدِ جدید فکر کی روشنی میں شارب صاحب کی تحریر کی جانچ پرکھ کر نی ہے تو ما بعد ِ جدیدیت یا ردِّ تعمیر کے وضع کردہ اصول و پیمانے سے بھر پور واقفیت ضروری ہے.

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here