عصرِ حاضر میں جاں نثار اخترؔ کی شاعری کی معنویت

0
1668

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی

اردو ادب میں ابتداء سے ہی مختلف رجحانات اور تحریکوں نے اپنا لوہا منوایا ہے۔مثلاًتحریکوں کی بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایہام گوئی کی تحریک،اصلاح زبان کی تحریک،فورٹ ولیم کالج تحریک،علی گڑھ تحریک،رومانی تحریک،حلقۂ ارباب ذوق کی تحریک وغیرہ وغیرہ لیکن ان تمام تحریکوں میں ترقی پسند تحریک ایک ایسی تحریک تھی جس نے بہت کم عرصہ میں اپنی شناخت قائم کرتے ہوئے کمال حاصل کیا اور آزادیٔ ہندوستان کے بعد زوال تک پہنچی۔لیکن اس نے اردو ادب میں جو نقوش چھوڑے ہیں وہ پتھر پر لکھی تحریر کی طرح ہیں یایوں کہا جائے کہ اجنتا اور ایلورا کی گپھاوں کے نقش و نگار کی طرح جاذبیت کے متحمل ہیں۔
ہمیں اردو ادب میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ بہترین فکشن نگار اور منفرد شعراء ملتے ہیں جن کا مقصد روایتی ادب کے کنوئیں سے باہر نکل کر تازہ فضا میں سانس لینا تھا۔ان کے خیال میں ادب صرف برائے ادب نہیں تھا بلکہ ادب برائے زندگی تھا۔ان کا ماننا تھا کہ ادب کا کوئی مقصدہونا چاہئے اور اس کی ایک افادیت ظاہر ہونی چاہئے ۔اس میں زمانے کا ہر رنج و غم ہونا چاہئے جو کسی خاص فرد یا طبقے تک محدود نہ ہو بلکہ اس میں عوام کی بات ہو عوام کے مسائل ہوں اور وہ اشتراکیت کا پرچم بلند کرے۔یہی وجہ تھی کہ اس تحریک سے وابستہ لوگوں نے صنف نظم کو فروغ دیا اور غزل کی جانب اپنا رجحان کم کیا کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ عوام کی بات اشارے اور کنایوں میں کہنا اور سمجھانا آسان نہیں۔ اس کے لیے عام فہم الفاظ اور زبان کے ساتھ ایسا اسلوب ہونا چاہئے جس میں ایک انقلابی کیفیت نمودار ہو ،جس کے ذریعے سے عوام جاگیں اور سوچیں کہ سماج اور معاشرے میں جو اخلاقی برائیاں اور حق تلفیوں نے سر اٹھا رکھا ہے اسے کیسے دور کیا جاسکتا ہے۔زندگی میں آسودگی اور ضرورت کی اشیاء پر ہر طبقے کا حق ہے غربت انسانیت سے دور ہونی چاہئے ساتھ ہی ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے تو آزادی اس کا بنیادی حق ہے۔لہٰذا اس تحریک نے 1936ء سے لے کر ہندوستان کی آزادی تک اہم کردار ادا کیا۔
اس تحریک سے وابستہ شعراء مثلاً ساحرؔ لدھیانوی،علی سردار جعفری،مجروحؔ سلطانپوری،کیفیؔ اعظمی،فیض احمد فیضؔ،اسرا رالحق مجازؔ وغیرہ نے اپنی شاعری کو نعرہ اور انقلاب کے رنگ میں ڈھال دیا لیکن اس تحریک سے وابستہ ایک شخصیت یعنی جاں نثار اختر ؔایک ایسے شاعر تھے جو ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعراء میں منفرد نظر آتے ہیں۔ان کی شاعری کا خمیر رومانیت اور انقلاب کا سنگم نظر آتا ہے۔ان کی نظمیں ہوں یا غزلیں رومانیت اور انقلابی فکر کے ساتھ ساتھ چلتی نظر آتی ہیںاور وہ کبھی اپنی روش سے پیچھے نہیں ہٹتے۔
ہمیں یہ دیکھنا ہے بلکہ ذہن میں سوال اُبھرتا ہے کہ آج کے اس مابعد جدیدیت کے دور میں ہم جاں نثار اختر ؔکو کیوں پڑھیں یا باالفاظ دیگر آج کے دور میں ان کی شاعری کی کیا معنویت اور افادیت ہے۔اس سوال کے جواب میں ہمیں باقاعدہ جاں نثار اخترؔکی شاعری کا مطالعہ کرنا ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہم شاعری کیوں پسند کرتے ہیں؟ اس میں دلچسپی کیوں لیتے ہیں؟ کوئی شاعر ہمیں ادبی اور غیر ادبی کیوں لگتا ہے؟ تو ہمیں معلوم ہوگا کہ شاعری انسان کے جذبات کی عکاس ہوتی ہے اور جس شاعری میںخوبصورتی کے ساتھ جس قدر جذبات کو بر انگیختہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ اس قدر ہی دل میں اترتی ہے۔
کسی بھی دور کے ادب کو اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہر دور کے ادب میں جذبۂ عشق غالب رہا ہے۔بقول ڈاکٹر علامہ اقبال
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

یہ بھی پڑھیں

الیاس اعظمی:کچھ یادیں، کچھ باتیں

اس کے علاوہ انسان اپنی زندگی میں بہت سی خواہشات رکھتا ہے۔ وہ زندگی پر امن طریقے سے گزارنا چاہتا ہے اور اگر اس کے مقاصدکی راہ میں دشواریاں آتی ہیں تو وہ اس کے خلاف آواز احتجاج بلند کرتا ہے یہ ہردور میں رہا ہے اور رہے گا یعنی حسن و عشق کے مسائل اور انقلابی کیفیتوں سے ہم آہنگی ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔آج کے مابعد جدیدیت کے دور میں چاہے ترقی پسند تحریک کے رجحانات نہ ہوں یا کم سے کم ہوگئے ہوں پھر بھی حسن و عشق کی داستانوں اور انقلابی فکر کو موت نہیں آسکتی یہی وجہ ہے کہ جاں نثار اخترؔ کی آج بھی عظمت برقرار ہے۔آیئے اجمالی طور پر ان کی غزلوں سے چند اشعار منتخب کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ ان کی شاعری آج کے دور میں کیا اہمیت رکھتی ہے۔پہلے ہم ان کے عشقیہ اور رومانی فکر کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کے یہ خیالات آج کے دور میں کتنے صادق نظر آتے ہیں۔
معاملاتِ حسن و عشق میں سب سے پہلا مرحلہ نگاہوں کے تصادم کا ہوتا ہے اور ایک حسن پرست انسان یعنی عاشق اس کیفیت میں ایک عجیب سی لذت محسوس کرتا ہے۔بقول جاں نثار اخترؔ:
اس سے تھوڑی آنکھ لڑا کر سوچا تھا بچ نکلیں گے
اس کی ترچھی نظروں نے تو سیدھا دل پر وار کیا
یعنی ایک حسن پرست انسان جب کسی خوبصورت کیفیت سے منسلک ہوتا ہے تو وہ تا دیر اپنے دل میں اضطراب محسوس کرتا ہے اور اسے اس کیفیت میں چاروں طرف لطافت محسوس ہوتی ہے۔شعر ہے:
ہر سمت لطافت ہی لطافت سی لگے ہے
تو ہے تو یہ دنیا مجھے جنت سی لگے ہے
پھر ایک ایسا دور آتا ہے کہ عشق کے تجربات عاشق کوجہاں دیدہ بنا دیتے ہیں:شعر ہے:
اب تو ہر جنبشِ مژگاں کو سمجھ لیتے ہیں
پہلے واقف تھے کہاں رمز و کنایات سے ہم

جاں نثار اخترؔ کے یہاں حسن و عشق کے بیان میں محبوب کے بدن اور اس کی زلف و لب ورخسار کا خوبصورت بیان نظر آتا ہے جو کسی بھی عاشق کے دل کی کیفیت اور اس کے جذبے کو ابھارنے میں معاون ہوسکتا ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے:

زلف سے چھنتی ہوئی اس کی بدن کی تابشیں
ہنس دیا کرتے تھے اکثر چاندنی راتوں پہ ہم

مانا کہ رنگ رنگ ترا پیرہن بھی ہے
پر اس میں کچھ کرشمہ عکس بدن بھی ہے

رخوں کے چاند،لبوں کے گلاب مانگے ہے
بدن کی پیاس،بدن کی شراب مانگے ہے

زلفیں سینہ ناف کمر
ایک ندی میں کتنے بھنور

ان اشعار سے ظاہر کہ جاں نثار اخترؔ کا حسن کے متعلق کیا نظریہ تھا وہ محبوب کے حسن و جمال میں کس قدر ڈوبے رہتے ہیں اور اس کے قرب کے کس قدر خواہاں رہتے ہیں۔لیکن وہ حسن کے لئے حیا کو بھی لازمی سمجھتے ہیں اور بغیر شرم و حیا کے حسن کی اہمیت نہیں سمجھتے۔شعر ہے:

ادائے نازسے اس درجہ انحراف بھی کیا
ترا نظر نہ چرانا مجھے خراب لگے

یعنی وہ کسی طور بے حیائی کو پسند نہیں کرتے۔آج کے دور میں بھی دیکھا جائے جو حسن کی حقیقت سمجھتے ہیں وہ حیا کو مقدم جانتے ہیں اور بے پردگی و بے حیائی کو معیوب سمجھتے ہوئے نگاہ کی پاکیزگی اور عظمت کا خیال رکھتے ہیں۔
جاں نثار اخترؔ کا کمال یہ ہے کہ ان کی شاعری میں ان کی محبوب کوئی غیر عورت نہیں بلکہ ان کی زوجہ ہی بیشتر مقامات پر ان کی محبوبہ کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔مثال کے لئے ایک شعر دیکھیں:

آج بھی جیسے شانے پر تم ہاتھ مرے رکھ دیتی ہو
چلتے چلتے رک جاتا ہوں ساڑھی کی دوکانوں پر

ظاہر ہے کہ شعر میں فراق کی کیفیت کے ساتھ ساتھ ماضی کی یاد بھی گردش کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔یعنی ساڑھی کی دوکان کو دیکھ کر کسی غیرخاتون کی یاد نہیں آسکتی بلکہ یہ کوئی ایسی عورت ہی ہوسکتی ہے جس سے انتہائی قربت ہواور وہ قدم قدم پر اپنے عاشق سے اظہارِ محبت کے ساتھ ساتھ اظہارِ ہمدردی بھی کرتی ہو۔
لیکن انسان کی فطرت میں حسن پرستی ہے وہ کسی ایک مقام پر ٹھہر نہیں سکتا اسی طرح معاملاتِ حسن و عشق میںبھی حدیں توڑ دی جاتی ہیں۔شعر ہے:

یہ ہم سے نہ ہوگا کہ کسی ایک کو چاہیں
اے عشق!ہماری نہ ترے ساتھ بنے گی

اور عاشق ہر نئے حسن پیکر کو دیکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کئے بغیر نہیں رہتا۔شعر ہے:

سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی

جاں نثار اخترؔ کی غزلوں سے متعدد ایسے اشعار رقم کئے جا سکتے ہیں کہ جن میں رومانی کییفیتوں اور جذبۂ عشق کے دریا رواں ہیں۔مگر ان سب معاملات کے ساتھ انسان جس دنیا میں جی رہا ہے اس کے سیکڑوں مسائل ہیں جن سے ابھرنا یا جن کی نشاندہی ہر صاحبِ شعور پر لازم ہے یہی وجہ ہے کہ ادب بھی اس سے خالی نہیں اور خاص طور سے ترقی پسند ادبی تحریک تو شدت کے ساتھ انسان کی زندگی کے مسائل بیان کرنے میں پیش پیش رہی۔مثلاً آج کی زندگی میں بعض وجوہات کی بنا پر انسان سے انسان کی دوری بڑھتی جارہی ہے اس کی وجہ دھوکہ اور فریب ہیں۔شعر دیکھیں:

عمر بھر قتل ہوا ہوں میں تمہاری خاطر
آخری وقت تو صولی نہ چڑھائو یارو

یعنی انسان کی وفادار وی کا صلہ جب دھوکے سے ملتا ہے تو انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس کی قربانی اور وفاداری کس کام کی رہی۔لیکن جاں نثار اخترؔ حوصلہ نہیں ہارتے اور نہ ہارنے دیتے ہیں کہتے ہیں:

ہر چند اعتبار میں دھوکے بھی ہیں مگر
یہ تو نہیں کسی پہ بھروسہ کیا نہ جائے

آج کے دور میں غربت بھی زندگی کا ایک اہم مسئلہ ہے یہ ہر دور میں رہی ہے ترقی پسند شعراء نے اس سلسلے سے ہمیشہ احتجاج کی آواز اٹھائی ہے۔جاں نثار اخترؔ کہتے ہیں:

اور تو مجھ کو ملا کیا مری محنت کا صلہ
چند سکے ہیں مرے ہاتھ میں چھالوں کی طرح

کھو گیا آج کہاں رزق کا دینے والا
کوئی روٹی جو کھڑا مانگ رہا ہے مجھ سے

ظار ہے ہر دور میں محنت کا صلہ خاطر خواہ نہیں ملا اور ناانصافی ہر دور میں رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کے لئے مجبور ہے۔
آج کے دور میں سیاسی رہنما بھی قوم و ملت کے لئے جو کردار نبھاتے ہیں ان سے عوام مطمئن نظر نہیں آتے۔جاں نثار اخترؔ اس سلسلے سے بھی خوبصورت اور انقلابی اشعار رقم کرتے ہیں۔جن میں ایک طنز کی لہر نظر آتی ہے۔مثلاً:

جائیے بیٹھئے حکمرانوں کے بیچ
آپ کیوں آگئے ہم دوانوں کے بیچ

اور کیا ہے سیاست کے بازار میں
کچھ کھلونے سجے ہیں دکانوں کے بیچ

جتنے وعدے کل تھے اتنے آج بھی موجود ہیں
ان کے وعدوں میں ہوئی ہے کچھ کمی یہ مت کہو

چپ ہے ہر زخمِ گلو،چپ ہے شہیدوں کا لہو
دستِ قاتل ہے جو محنت کا صلہ مانگے ہے

فرق کچھ بھی نظر آتا نہیں زندانوں میں
صرف اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے

ان اشعار کی معنویت اور افادیت سے آج کے دور میں کون انکار کرسکتاہے۔اسی طرح دنیا بھر میں قدم قدم پر ہونے والے فسادات بھی انانیت کو خون کے آنسو رلارہے ہیں اور ایک حساس شاعر کو کہنے پرمجبور کر رہے ہیں:

جلنے والوں کی آنکھیں کہاں جل سکیں
اک دھواں ہے ابھی تک مکانوں کے بیچ

جانتے ہوں یا نہ ہوں پہچاننا مشکل نہیں
ملتی جلتی ہے ہر اک قاتل کی صورت اس قدر

ہر کسی فٹ پاتھ پر چپ چاپ مرسکتے ہیں ہم
کم سے کم حاصل تو ہے ہم کو اجازت اس قدر

ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے
یہ زندگی تو کوئی بد دعا لگے ہے مجھے

کوئی اتنا نہ ہوگا لاش بھی لے جاکے دفنا دے
انہی سڑکوں پہ مر جائے گا انساں ہم نہ کہتے تھے

اب اس صورت میں ایک انقلابی اور اشتراکی رجحان کی جو اہمیت ہے اس کا کوئی منکر نہیں ہوسکتا کیوں کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ دنیا میں انقلاب آئے اور دنیا امن و امان کا مرکز بن جائے۔جاں نثار اخترؔ کہتے ہیں:

زمانہ آج نہیں ڈگمگا کے چلنے کا
سنبھل بھی جا کہ ابھی وقت ہے سنبھلے کا

ان اندھیروں سے نکلنے کی کوئی راہ کرو
خونِ دل سے کوئی مشعل ہی جلائو یارو

ایک بھی خواب نہ ہو جن میں وہ آنکھیں کیا ہیں
اک نہ اک خواب تو آنکھوں میں بسائو یارو

اگر سکوت ہے لازم زباں سے کچھ نہ کہو
مگر نظر سے دلوںکو جھنجھوڑتے جائو

لہو کی بوند بھی کانٹوں پہ کم نہیں ہوتی
کوئی چراغ تو صحرا میں چھوڑتے جائو

کسی کا درد ہو اپنا ہی درد ہے یارو
جہاں جہاں بھی ملے غم بٹورتے جائو

یہ زندگی مجھے کھلتی ہوئی کتاب لگے
ورق ورق کوئی تاریخِ انقلاب لگے

طوفانِ حوادث سے ڈراتا ہے ہمیں کیا
ہم لوگ تو اکثر تہِ گرداب رہے ہیں

یعنی جاں نثار اخترؔ کسی حال میں نا انصافی اور انسانیت کے زوال کو برداشت نہیں کرسکتے۔وہ چاہتے ہیںکہ دنیا میں ہر طبقہ ہر قوم کامیاب و کامران رہے اور میں سمجھتا ہوں کہ کون ایسا شخص ہوگا جو انسانیت کے پیغام سے گریز کرے گا یا انسانیت نواز نہ ہوگا۔اس لئے آج بھی پورے وثوق کے ساتھ کہا سکتا ہے کہ جاں نثار اخترؔ کسی مخصوص تحریک سے وابستہ ہوکر بھی محدود راہوں کے مسافرنہیںہیں۔ ان کی رومانی فکر اور انقلابی رجحانات اور سماج کو ایک نظر سے دیکھنے کی فکر انھیں ہمیشہ ہر دور میں زندہ رکھے گی اور ادب کے باذوق افراد ان کو پڑھتے رہیں گے۔

MOB:9219782014

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here