Thursday, April 25, 2024
spot_img
HomeArticle’’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘‘ ناول : جائزہ

’’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘‘ ناول : جائزہ

[email protected] 

9807694588 موسی رضا۔  

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


عبدالسمیع

اسسٹنٹ پروفیسر،بنارس ہندو یونیورسٹی، وارانسی

ناول پڑھتے ہوئے پہلے پہل مجھے اس کی Readabilityنے چونکایا۔ بہت دنوں بعد ایک ایسا ناول ہاتھ لگا تھا جس نے شروع سے آخر تک باندھے رکھا۔ پڑھتے ہوئے لطف بھی آیا اور طبیعت کہیں بھی مکدر نہیں ہوئی۔ کہانی پیش کرنے کا انداز، منظر کشی، جزئیات نگاری، منطقی ربط، موزوں اور مناسب مکالمے،کرداروں کی نفسیاتی پیچیدگیاں اور ان کی گرہ کشائی، ابتدا، وسط اور انجام، غرض پورے ناول میں ایک نوع کی تازگی کا احساس باقی رہا۔ زبان پر بھی بہت حد تک گرفت نظر آئی۔ کہیں کہیں صنّاعی ضرور ہے لیکن اتنے ضخیم ناول میں اتنی سی خامی تو ہونی ہی چاہیے۔ تو زبان ، بیان، پیش کش، اور تکنیک کے لحاظ سے ’کہانی کوئی سنائو متاشا‘ کو عمدہ ناول کہنا بے جا نہ ہوگا۔ یہاں عمدہ کا مطلب اچھا نہیں بلکہ بہتر ہے۔ ناول کا کوئی بھی حصہ مجھے یہ باور نہیں کرا سکا کہ یہ ناول جدیدتانیثی افکار پر مبنی ہے۔
اردو میں گزشتہ دو تین دہائیوں سے تانیثیت پر بحث ہورہی ہے۔اس درمیان عورتوںپر جیسی باتیں ہوتی رہی ہیں انھیں بہت حوصلہ افزا تو نہیں کہا جاسکتا۔نظریاتی طور پر تانیثیت کے حق میں جس قسم کے دلائل پیش کیے جاتے ہیں ان کا اطلاق سماج اور ادب میں اس طرح سے ہوتا نظر نہیں آتا۔مغرب میں تانیثیت کی جو لہر اٹھی تھی اس کے اسباب مختلف تھے۔ معاشرہ الگ تھا۔ استحصالی قوت مختلف تھی اور اس کے خلاف آواز بلند کرنے والے ادیب و دانشور بھی ہمارے جیسے نہ تھے۔ یہاںمغرب کی تقلید میں تانیثیت کی جو صورت سامنے آئی ہے ، اسے سنجیدہ ادبی رویہ کہنا ابھی مشکل ہے۔اس میں شک نہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں اس موضوع پر جتنی گفتگو ہوئی ہے اس سے پہلے نہیں ہوئی۔ اس سلسلے میں کچھ کتابیں بھی منظر عام پر آئیں لیکن ان میں سے بیشتر لکھنے والوں نے تانیثیت کی اساس کو سمجھے بغیر ہی اس سے متعلق سنے سنائے اصولوں کا اطلاق اپنے ادبی فن پاروں پر کرنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے یہ معمہ حل ہونے کے بجائے خواب پریشاں ہو گیا۔ پچھلی ایک دہائی کے اردو رسائل اٹھا کر دیکھ لیجیے تانیثیت، تانیثی قرأت، نسائی فکر، نسائی رویہ اور تانیثی تنقید جیسے عنوانات کی تعداد خاصی مل جائے گی، لیکن کیا وجہ ہے کہ ابھی تک تانیثیت تنقیدی یا ادبی رجحان کی شکل اختیار کرنے میں ناکام ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہمارا معاشرہ پدرانہ نظام کی جکڑبندیوں سے آزاد ہونے میں ناکام رہا ہے۔ عورتوں کو ان کے واجبی حقوق تک نہیں ملتے۔وہ آج بھی کسی شہر، گلی یہاں تک کہ اپنے گھر میں خود کو غیرمحفوط تصور کرتی ہیں۔ ایسے حالات میں تانیثیت جیسی خوبصورت اور بھاری بھرکم اصطلاحوں کی حقیقت سنہرے خواب سے زیادہ نہیں ۔خود وہ لوگ جو اس موضوع پر لکھتے پڑھتے ہیں،ابھی تک اس کے کسی ایک پہلو پر متفق نہیں ہوسکے ہیں کہ تانیثیت کیا ہے اور اس کے تحت کس قسم کے ادب پارے جگہ پانے کے مستحق ہیں۔ عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر، شفیق فاطمہ شعریٰ یا ذکیہ مشہدی وغیرہ کو تانیثی فکر کا کہنا مناسب ہے یا نہیں۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں میں اس لیے کر رہا ہوں کہ نام نہاد خودساختہ نقادوں نے کئی فن پاروں کو تانیثی قرار دے کر ان کی اہمیت کم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بحث ضمنی طور پر توکی جا سکتی ہے کہ ادب پارہ موضوع کے اعتبار سے کس فکری میلان سے قربت رکھتا ہے لیکن صرف یہ کہہ دینا کہ کوئی فن پارہ اس لیے اہم ہے کہ اس میں کوئی نظریاتی نکتہ یا کسی مکتبۂ فکر کی موافقت یا مخالفت میں لکھنے کی کوشش کی گئی ہے ،اس ادب پارے کے ساتھ ناانصافی ہے۔ یہ زیادتی صادقہ نواب سحر کے ناول ’’کہانی کوئی سنائو متاشا‘‘ کے ساتھ بھی ہوئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس ناول میں مرکزی کردار کے طور پر عورت کو پیش کیا گیا ہے، لیکن کیا یہ اس عورت کی کہانی ہے جسے تانیثیت مرکزیت عطا کرنے میں مصروف ہے؟
میں نے جب اس ناول کو پڑھنا شروع کیا تو میرے سامنے اس پر لکھی جانے والی ہلکی پھلکی تحریریں بھی تھیں اور کچھ احباب کے زبانی تبصرے بھی۔ ناول کا کوئی بھی حصہ مجھے یہ باور نہیں کرا سکا کہ یہ ناول جدیدتانیثی افکار پر مبنی ہے۔ قرأت کے دوران اور قرأت کے بعد بھی مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک عام سی عورت کی کہانی ہے، جسے ہم روز اپنے گھروںاور اپنے پڑوس میں دیکھتے ہیں لیکن اس کی زندگی پر غورکرنے کی زحمت نہیں کرتے ۔ادب پارے کی ایک خوبی یہ بھی کہی جاتی ہے کہ اس میں معلوم حقائق کو اس طرح پیش کیاجاتا کہ پڑھنے والے کو نیا معلوم ہوتا ہے۔ ادب کے اسی عمل کو شرح صدر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ناول پڑھتے ہوئے پہلے پہل مجھے اس کی Readabilityنے چونکایا۔ بہت دنوں بعد ایک ایسا ناول ہاتھ لگا تھا جس نے شروع سے آخر تک باندھے رکھا۔ پڑھتے ہوئے لطف بھی آیا اور طبیعت کہیں بھی مکدر نہیں ہوئی۔ کہانی پیش کرنے کا انداز، منظر کشی، جزئیات نگاری، منطقی ربط، موزوں اور مناسب مکالمے،کرداروں کی نفسیاتی پیچیدگیاں اور ان کی گرہ کشائی، ابتدا، وسط اور انجام، غرض پورے ناول میں ایک نوع کی تازگی کا احساس باقی رہا۔ زبان پر بھی بہت حد تک گرفت نظر آئی۔ کہیں کہیں صنّاعی ضرور ہے لیکن اتنے ضخیم ناول میں اتنی سی خامی تو ہونی ہی چاہیے۔ تو زبان ، بیان، پیش کش، اور تکنیک کے لحاظ سے ’کہانی کوئی سنائو متاشا‘ کو عمدہ ناول کہنا بے جا نہ ہوگا۔ یہاں عمدہ کا مطلب اچھا نہیں بلکہ بہتر ہے۔
اب ’کہانی کوئی سنائو متاشا‘کے موضوع اور کہانی کی طرف آتے ہیں۔ ادب میں اگرچہ موضوع کی اہمیت ثانوی سمجھی جاتی رہی ہے لیکن اس کی لازمیت سے بھی کوئی انکار کی جرأت نہیںکرسکا۔ جیسا کہ پہلے کہاجاچکا ہے کہ ’کہانی کوئی سنائو متاشا‘عورت کی کہانی ہے۔ عورت یا کسی بھی شخص کی زندگی کی کہانی اس کے وجود میں آنے کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ متاشا نے بھی اپنی داستان حیات کا آغاز (خاندانی پس منظر کے ساتھ) دنیائے فانی میں قدم رکھنے سے کیا ہے۔ بچپن میں لڑکی ہونے کی وجہ سے کتنی مصیبتیں اور پابندیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں ، انھیں ابتدائی صفحات میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماں بھی اس ننھی سی جان کے حق میں ظالم ہی ہوا کرتی ہے۔ ماں کے ساتھ ’ظالم‘ کی صفت کچھ اچھی نہیں معلوم ہوتی، اور مائیں ظالم ہوتی بھی نہیں ہیں۔ اصل میں ماں کے سر پر پورے خاندان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسے اپنا غصہ یا Frustration نکالنے کا موقع نہیں ملتا۔ بیٹے کو ڈانت سکتی ہے لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ شوہر، ساس،نند اور دوسرے سسرالی رشتہ داروں کے درمیاں باہر سے آنے والی بہو کے شب وروز جس طرح سے گزرتے ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایک عمر کی تھکادینے والی مصروفیات کی وجہ سے اکتاہٹ اور جھنجھلاہٹ کا پیداہوجانا فطری ہے، جس کا اظہار کبھی غصہ اور کبھی سردمہری سے ہوتا ہے۔ عموماًسردمہری کا جذبہ شوہر کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے، جبکہ غصہ بیٹیوں کو مار پیٹ کر نکالا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہرمائیں کبھی کبھی ظالم نظر آ تی ہیں، لیکن اصل میں یہ ’ظالمانہ رویے‘ہمدردی کے محتاج ہوتے ہیں۔ متاشا کی ماں بھی ہمدردی کی محتاج ہے، متاشا کو اس کا ادراک قدرے دیر سے ہوتا ہے۔ ماں کے کردار سے کسی طرح کی جدت یا ’تانیثی فکر‘کا پتا نہیں چلتاہے۔ بچوں کے لیے شوہر سے الگ ہوجانا انقلابی قدم تو کہا جاسکتا ہے لیکن اس میں بھی ایک طرح کاروایتی جبر شامل ہے۔
متاشا کا کردار متاثر کرتا ہے۔ وہ نئے زمانے کی عورت ضرور ہے لیکن اسے بھی روایتی کہنا زیادہ مناسب ہے۔روایتی ہونا ایسا برا بھی نہیں کہ یہ لفظ سنتے ہی پیشانی پر بل پڑجائے۔ بچپن میں مار کھاکر آنسو بہا لینا، نوخیزی میں باپ کی عمر کے مرد سے عصمٹ لٹ جانے کا صدمہ سینے میں دبائے رکھنا، پاپا کے غیرمانوس بلکہ پراسرار رویے کو معاف کردینا، گھر اور خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی زندگی دائو پر لگا دینا، مشرقی خواتین کا وطیرہ رہا ہے۔ اس لیے اردو معاشرے کے قاری کے لیے متاشا کوئی انوکھی یا غیرمانوس کردار نہیں ہے۔ گوکہ صادقہ نواب سحر اس بات کا بار بار اعادہ کرتی ہیں اور اس کے لیے الگ سے عنوان بھی قائم کیا ہے کہ متاشا کو مردذات سے نفرت تھی یا پہلی مرتبہ عصمت لٹنے کے بعد اسے مردوں سے نفرت ہونے لگی تھی، لیکن ناول پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ متاشا میں نفرت کا اتنا ہی جذبہ تھا جتنا عام عورتوں میں ہوتا ہے یا ہونا چاہیے۔ عزت لوٹنے والے شخص سے کوئی محبت کیسے کرسکتا ہے، اور جب تک وہ زخم ہرا رہے گا ،یا اس قسم کا خوف دل میں بیٹھا رہے گا کوئی بھی محبت نہیں کرسکتا۔ اگر واقعی متاشا مردذات سے نفرت کرتی تو پھر وہ یکے بعد دیگرے تین تین مردوں(پربھاکر، سمیر اور گوتم)سے محبت کیسے کرسکتی تھی؟ چلیے یہ مان لیا کہ گوتم سے محبت نہیں مفاہمت تھی لیکن پربھاکر اور سمیر کا کیا؟ پھر رونق بھی تو تھا۔ اس لیے یہ کہنا کہ متاشا مردوں سے نفرت کرتی تھی ، درست نہیں۔ نفرت کا جذبہ دائمی صورت اختیار کر لے تو انسان ہلاکت کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ یہ عیب عورتوں سے زیادہ مردوں میں پایا جاتا ہے۔ عورت نفرت تو کرتی ہے مگر یہ جذبہ ان میں دائمی صورت اختیار کرنے کے بجائے فوری اور لمحاتی طور پر ہی رہ پاتا ہے۔ زخم بھرنے اور وقت گزرنے کے ساتھ نفرت کم اور پھرختم ہوجاتی ہے۔
متاشا عورت ہے؛ مکمل عورت، جس کے اندر صرف محبت اور مفاہمت ہوتی ہے۔ صبر اور عزم ہوتا ہے۔ وہ بگڑے ہوئے باپ کی نظر میں بدچلن یا بدچلنی پہ آمادہ بیٹی ہے۔ اردگرد کے لڑکوں کی نگاہ میں حاصل کرنے کی شے ہے۔ ٹیچر کے خیال میں ایک ایسی طالبہ ہے جس کی گھریلو تربیت ناپختہ ہے۔ جب وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو باپ اس کی شادی ایسی جگہ کرنا چاہتا ہے جہاں سے اسے کچھ ملنے کی امید ہے۔ چچا کی نظر میں وہ ہوس اور شہوت کی آگ سرد کرنے کی چیز ہے۔ پربھاکر اور سمیرکے لیے محبت کیے جانے کے قابل ہے۔ان رویّوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ متاشا کوئی شئے ہے ، جس کی قدر قیمت کا تعین اس کی حیثیت یا وجود سے طے نہیں ہوتی ہے بلکہ دیکھنے والوں کازاویۂ نگاہ یہ طے کرتاہے کہ وہ کس کے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہے۔ کوئی اس کی ضرورت و اہمیت کو اس کے زاویۂ نظر سے محسوس نہیں کرتا۔ ایسا نہیں ہے کہ متاشا ان سب باتوں سے انجان ہے۔ اسے اپنی اہمیت اور قدر ومنزلت کا احساس ہے ۔ وہ سب کچھ سمجھتی ہے لیکن بیان کرنے سے معذور ہے۔ وہ جس محبت یا توجہ کی طلب گار تھی وہ اسے کسی حد تک گوتم سے ملی۔ گوتم اور متاشا کا کوئی میل نہیں لیکن دونوں کی رضامندی کہیے یا حالات کا جبر جس نے ان دونوں کو ایک ساتھ باندھے رکھا۔ گوتم کو اپنی اور اپنے بچوں کی فکر تھی تو متاشا بھی کسی ایسے سہارے کی تلاش میں تھی جو اس کی اور اس سے وابستہ افراد کی زندگی میں بہتری لاسکے،اس لیے ان دونوں نے ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا فیصلہ لیا۔ شادی کا بندھن کسی بھی فرد خاص طور پرلڑکی کی زندگی کا سب سے اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ جب وہ خود کو کسی اجنبی یا شناسا کے سامنے سپردکرتی ہے۔
شادی کے ساتھ ہی لڑکی جو ابھی تک صرف بیٹی یا بہن تھی، اچانک کئی طرح کے رشتوں میں بندھ جاتی ہے۔ متاشابھی شادی کے ساتھ مختلف قسم کے سماجی رشتوں کی پابند ہوجاتی ہے۔عام عورتوں کی طرح ازدواجی زندگی میں قدم رکھتے ہی متاشا کی حیثیت بھی بدل جاتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ گوتم کی دوسری بیوی اور اس کے بچوں کی سوتیلی ماںبھی ہے۔ گوتم کے کاروبار میں شریک کارہے، اپنے بھائیوں کی بہن ہے، بھابھیوں کی نندہے،ماں کی بیٹی ہے، گوتم کی بہنوں کی بھابھی ہے،بے بی کی سوتن ہے اور اپنے اکلوتے بیٹے کی ماں ہے۔ یعنی ایک ہی وقت میںوہ عورت کے تمام روپ میں سامنے آتی ہے۔ یہاں یہ باتیں لکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ متاشا کی ایک جان پر اتنی ساری ذمہ داریاں عائد ہیں اور وہ ان سب کو خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہے۔ اس کے اس عزم اور حوصلہ کو دیکھ کر سلام کرنے کو جی چاہتا ہے ، لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ ہمارے گھروں میں جو ماں ،بیوی ،بہو، بھابھی، چاچی وغیرہ ہوتی ہیں ،ان پر کتنی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ کیا وہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوتی ہیں، اس لیے سماج کی وہ تمام عورتیں قابل احترام اور قابل داد ہیں جو سماجی بندشوں کے درمیان احسان مندی کا احساس دلائے بغیر خاندانی رشتوں کی حرمت بحال رکھنے میں سرگرمِ عمل ہیں۔
ناول کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے سارے مردکردار مطلبی، موقع پرست،بزدل اور کسی حد تک ظالم ہیں۔ پاپا، کاکا، یوراج، بھرت،سوریہ کاکا، وکیل صاحب، انکت، متاشا کے بھائی وغیرہ۔ ان میں سے زیادہ تر موقع پرست ہیں، کچھ مطلبی ہیں، کچھ بزدل ہیں اور کچھ میں یہ تمام صفات بشمول ظلم یکجا ہوگئی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے مذکورہ خصوصیات صرف مذکرکرداروں سے ہی مخصوص نہیں ہیں بلکہ خواتین میں متاشا کی سوتیلی بیٹیوں، بھابھیوں، نندوں اور بے بی (سوکن)کو اس فہرست میں شامل سمجھنا چاہیے۔
’کہانی کوئی سنائومتاشا‘ کو صرف ’’تانیثیت‘‘ یعنی عورت کے احتجاج، مرد سے نفرت، اس کے جذبۂ خودی، انانیت اور مرداساس سماج کے جبر و استحصال کے سیاق میں پڑھنا ناول کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔اس کی قرأت کا تقاضہ یہ ہے کہ عورت کو اس کی کلّیت میں دیکھا جائے۔ہمارے معاشرے کی کسی بھی عورت کے سیاق میں یہ باتیں کہی جاسکتی ہیں۔اسی لیے ابتدا میں کہا گیا تھا کہ ادب میں موضوع کی اہمیت ثانوی ہوتی ہے ، اصل اس کی پیش کش ہے جو ایک مقامی واقعے کوآفاقی بنادیتی ہے۔
’کہانی کوئی سنائومتاشا‘ عورت کی زندگی ، اس کے سماجی رویے، اس کی نفسیاتی الجھن اوررشتوں کے تقدس کے احترام سے عبارت ہے۔ یہ عورت کی پیدائش سے لے کر اس کے سن رسیدہ ہونے تک کی کہانی ہے۔ ناول جہاں ختم ہوتا ہے وہاں متاشا خود کو ایک نئے اوتار کے لیے تیار کرنے میں مصروف ہے۔اس لیے یہ کہنا کچھ بے جا نہ ہوگا کہ ’متاشا‘ ہر دور، ہر سماج کی عورت ہے جو اپنے وجود، احساس، انا اور خودی کو کچل کرنظام ِحیات کو متوازن رکھنے میں معاون رہی ہے۔
٭٭٭

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular