حیرت انگیز کیڑے۔ ’’کیٹرپلر اور موتھ‘‘ سنڈی اور پتنگا

0
280

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں

ایچ۔ایم۔یٰسین

بچو! اس کارخانہ قدرت میں اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کے جاندار، انسان، حیوان، چرند و پرند، کیڑے مکوڑے جنہیں ادبی دنیا میں حشرات الارض(حشرات=کیڑے مکوڑے+الارض=زمین) کہا جاتا ہے۔ مختلف قسم کے پھول، پودے، درخت سب انسانوں کے فائدے کے لیے پیدا کیئے ہیں اور بدلے میں وہ ان سے سوائے اپنی عبادت کے اور کچھ نہیں چاہتا۔ لیکن ہم انسانوں نے اس ایک کے بجائے نہ جانے اپنے کتنے خدا پیدا کر لیے ہیں اور ان سب کی بھی ہم سب کو عبادت کرنے کی فرصت نہیں ملتی۔ ہم بس دنیا میں اپنا وقت سیرو تفریح ۔ تماشہ اور دیگر رنگینیوںمیں ہی گزار دیتے ہیں ، نہ آپس کی ہم دردی کا خیال ہے نہ پاس محبت کا اور نہ اس’’پالنہار‘‘ کی عبادت کا۔ پیدا ہوئے من مانے طور پر اپنا بچپن اور جوانی اور جب بڑھاپے کو پہنچے تو بیماری، آزاری ، کمزوری اور ضعیفی کا بہانہ نے کربستر پکڑ لیا۔ جو کچھ صحت مند رہے بھی تو وہ گھر کا سودا سلف لانے یا ناتی پوتی کو اسکول پہنچانے اور واپس لانے میں مصروف ہو گئے۔
بچو!دھیان رکھو آپ کو ایسا نہیں کرنا ہے آپ کو ابھی سے اپنا وقت صحیح طو ر پر گزارنے کے لیے ایک ٹائم ٹیبل بنا کر، پڑھائی کے وقت پڑھائی اور کھیل کے وقت کھیل آپ کا اصول ہونا چاہئے اور علم صرف اسکول کالج سے نہیں بلکہ جہاں سے بھی ملے اسے لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ علم ہی دنیا میں سب سے بڑی دولت ہے۔ کتابی علم کے علاوہ دیگر علوم یعنی جنرل نالج، کھیل کی دنیا، عجائبات عالم اور دیگر سیاسی ادبی معلومات ان سب کا جتنا زیادہ علم آپ کے پاس ہوگا اصل دنیا (جو جوانی میں ۱۸ سال عمر کے بعد کا روباریا املازمت کے دور کی ہوتی ہے) میں آپ اتنا ہی کامیاب ہوں گے اسی لیے ہم آپ کو آج ایک نئی معلومات سے واقف کراتے ہیں، جو ایک حیرت انگیز کیڑے کے بارے میں ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ کچھ انسانوں کو شکار کا شوق ہوتا ہے۔ وہ چرند و پرند، سمندری حشرات( خاص طور پر مچھلیاں) کا خوب شکار کرتے ہیں۔ اللہ نے چرند و پرند کو بھی اتنی عقل دی ہے کہ ان شکاریوں سے وہ بچ سکیں لیکن کبھی کبھی اپنی غفلت یا دوڑتے دوڑتے تھکنے کی وجہ سے شکار ہونے سے نہیں بچ پاتے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ان میں سے کچھ چھوٹے کیڑے مکوڑے خود کو شکاریوں سے بچانے کے لیے طرح طرح کے روپ دھار لیتے ہیں۔ کبھی ایک سنڈی(کٹیرپلر) خود کو کھینچ کر سانپ کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو کبھی کوئی کیڑا خشک تنکے کی طرح دکھائی دیتا ہے ۔ ایک پتنگا (موتھہ) جس کا نام ’’یوروپیا میٹی کیولوڈینا‘‘(Europea Metti Quolodina) ہے وہ کسی بھی مصیبت کے وقت مردہ بے جان پتے کا روپ اختیار کر لیتا ہے اور دیکھنے والے کی نظر اس کو زندہ پتنگے کے بجائے ’’سوکھا پتہ‘‘ ہی سمجھتی ہے، وہ خطرہ کے وقت دشمن کا نوالہ بننے کے بجائے رُک کر بیٹھ جاتا ہے اور شکاری اسکو محض ایک مردہ بے حس پتہ جان کر آگے بڑھ جاتا ہے۔
’’یوروپیا میٹی کیولوڈینا‘‘دو طرح کے ہوتے ہیں، جو بارانی(بہت زیادہ بارش سے متاثر) جنگلات کی زمین میں عام طور پر پائے جاتے ہیں اور جب وہ پتہ بنتا ہے تو اس خمیدہ (مڑے ہوئے) پتے کو دیکھ کر ہر کوئی حیران رہ جاتا ہے ۔ اس کی ایک قسم اور بھی ہے جس کے ’’پر‘‘ روپ دھارنے سے پہلے ستواں ہوتے ہیں لیکن پتے جیسا بنتے ہی اس کی رنگت بھی بدل جاتی ہے اور اس پر مردہ پتے پر بنیں شکنیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔
شکیل ایک شرارتی بچہ تھا جو دن بھر گھومتا رہتا۔ نہ پڑھنے میں دھیان لگاتا نہ کسی اور کام میں ۔ البتہ اسکول پابندی سے جاتا تھا اور چونکہ ذہین تھا اس لیے صرف اسکول میں پڑھائے ہوئے سبق یاد کر لیتا اور امتحان میں ہر سال پاس ہو جاتا۔ اسکا ایک دوست نہال بھی اسی کی طرح کا ایک لڑکا تھا۔ نہال نے ایک تیر کمان بنائی ہوئی تھی اور شکیل کے گلے میں ایک غلیل فارغ وقت میں لٹکی نظر آتی اس کے علاوہ بھی اس نے ایک بڑی سی ڈنڈی میں آگے کی طرف ایک نوکدار کیل لگائی ہوئی تھی۔ کبھی وہ غلیل سے چڑیوں کو نشانہ بناتا تو کبھی اس نوکدار ڈنڈی سے جانوروں سے چھپا کر چبھاتا اور خوش ہوتا۔ اپنے نشانے کی صحیح پرکھ کے لیے وہ کبھی کبھی چھوٹے کیڑوں، بھنگوں اور کیچوئوں کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کرتا۔ اسکی نظربہت تیز تھی اس لیے اکثر کامیاب ہوجاتا اور بہت خوش ہوتا۔
شکیل ایک دن جنگل میں شکار کی تلاش میں ٹہل رہا تھا۔ غلیل کا نشانہ لگا چکا تھا کہ واپسی کے وقت ایک جگہ اسکو وہ پتنگا (موتھ) جس کا نام’’ یوروپیا میٹھی کیولی ڈنیا ہے‘‘ نظرآیا عجیب صورت کا کیڑا دیکھ کر اسکی بانچھیں کھل گئیں اپنا شکار!!اس نے اسکو اپنا نشانہ بنانے کے لیے نوک دار ڈنڈی کو چھپا کر اسکی جانب چلا، لیکن ’’یوروپیا میٹی کیولوڈینا ‘‘ نے اس خطرہ کو بھانپ لیا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنا حربہ استعمال کر تے ہوئے خود کو مردہ بے جان پتے کی شکل میں تبدیل کر لیا۔ شکیل اس کی جانب دو چار قدم شکار کرنے کے لیے بڑھا۔ اسکا شکار غائب ہو چکا تھا ۔ شکیل کو وہاں سوائے سوکھے پتوں اور کچھ نظر ہی نہ آیا۔ وہ حیران ہوا، اس کی نظر گو بہت تیز تھی لیکن یہاں کام نہ آئی اس نے اس کیڑے کو بہت تلاش کیا ،نظریں دوڑائیں۔ وہاں موجود ایک ایک شے پر غور کیا لیکن اسے اسکا شکار نہ ملنا تھا نہ ملا حالانکہ وہ وہاں اپنی شکل تبدیل کر کے پتہ بن چکا تھا اور وہیں موجود تھا۔ لیکن وہ اب کر کیا سکتا تھا۔ مجبوراً واپس پلٹا۔ راستے میں نہال ملا جو کسی بزرگ نما شخص کے ساتھ تھا۔نہال نے شکیل کو ان سے ملوایا اور کہا جناب ہم دونوں ہی ان جانوروں اور پرندوں اور کیڑوں کا شکار کرتے ہیں۔
بزرگ نے ان دونوں کو نصیحت کی کہ آپ کا یہ عمل گناہ ہے ۔ بے چارے جانوروں پرندوں کو بلا ضرورت تفریح کا سامان بنا کر اذیت دینا اللہ کو قطعی پسند نہیں ،آپ لوگ اس عمل سے توبہ کر یں اور ان ہتھیاروں کو غلیل تیرکمان اوریہ نوکیلی ڈنڈی سب پھینکدیں اور توبہ کریں کہ آئندہ ایسا شکار ہر گز نہیں کریں گے۔
ان دونوں کی سمجھ میں بزرگ کی بات آگئی۔ انہوں نے توبہ کر لی اور آئندہ گناہ کرنے سے بچ گئے۔
اچھے بچوں کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کا کہنا مانتے ہیں۔
سابق رجسٹرار انٹگرل یونیورسیٹی، لکھنؤ
9839569575
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here