Saturday, April 20, 2024
spot_img
HomeArticleاردو صحافت کا عظیم سپاہی : حفیظ نعمانی

اردو صحافت کا عظیم سپاہی : حفیظ نعمانی

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

عطیہ بی

جوش میں سرشار تحریروں کا قلم کار، عظیم صحافی ، معروف ادیب حفیظ نعمانی کا انتقال ایک ایسا سانحہ ہے جس نے لکھنؤ کی ادبی فضا کو سوگوار کردیا۔ آسمان ادب و صحافت ایک درخشندہ ستارہ سے محروم ہوگیا۔ ایک ایسا روشن ستارہ جو اردو صحافت کے میدان میں کلدیپ نیّرکے انتقال کے بعد اپنی چمکدار تحریروں کی وجہ سے سب پر بھاری تھا نیز حق اور صداقت کو لوگوں کے سامنے لانے میں کسی طرح کا عذر نہ کرتھا، ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حفیظ نعمانی کا حادثہ وفات صرف ان کے اہل خانہ کے لیے ہی نہیں بلکہ اردو سے دلچسپی رکھنے والے ہر حساس شخص کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے جس سے باہر آنے میں یقینا وقت لگے گا۔
حفیظ صاحب کی تحریروں کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ صبح اُٹھنے کے بعد جس طرح چائے کی طلب ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح قارئین ان کے کالم کے مطالعے کے لیے اخبار کا انتظار کرتے تھے۔ حفیظ صاحب کی پیدائش سنبھل کے ایک معزززمیندار نیز عملی گھرانے میں ضرور ہوئی مگر ان کا تعلق لکھنؤ سے اتنا گہرا ہوگیا تھا کہ نھیں حفیظ نعمانی لکھنوی ہی کہا جانا چاہیے ۔ از خود انھوں نے بھی لکھنؤ میں اپنی ایسی دنیا بسا لی تھی کہ انکا سنبھل سے تعلق برائے نام ہی رہ گیا تھا۔حفیظ نعمانی کے والد بزگوار مولانا منظور صاحب نعمانی ایک عالم دین تھے۔ انھوں نے اپنے چاروں بیٹوں کو علم دین کی تعلیم حاصل کرائی۔ حفیظ صاحب اپنے بھائیوں میں تنہا تھے جنھوں نے قرآن مجید کا حفظ بھی کیاجو اپنے آپ میں ایک بڑا اعزاز ہے۔حفیظ صاحب نے حصول علم کے بعد اپنے لیے ایک نئی راہ منتخب کی۔ انھوں نے صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔روزنامہ تحریک سے لے کر اودھ نامہ تک حفیظ صاحب نے مختلف اخبارات کے لیے مضامین قلم بند کیے۔
۱۹۵۵ء میں انھوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ’’تحریک ‘‘ اخبار نکالا۔بقول شارب ردولوی ’’ تحریک‘‘ حفیظ کی پہلی تربیت گاہ تھی۔یہ اخبار چند ماہ نکلنے کے بعد بند ہوگیا اس کے بعد انھوں نے بحیثیت پرنٹر بپلشر ندائے ملت نکالا۔۱۹۶۲ سے ۱۹۶۸ تک وہ اس سے جڑے رہے۔۱۹۶۵ میں اخبار کا ایک خاص نمبر نکالنے کے پاداش انھیں زنداں کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ندائے ملت کے بعد حفیظ صاحب ’’عزائم‘‘ کے شعبۂ ادارت میںبھی شامل رہے۔اس کے بعد مستقل دس برس تک ان دنوں کے لئے پابندی سے مضامین قلم بند کیے۔ان دنوں کے بعد جدید عمل سے وابستہ ہوگئے۔ یہ سلسلہ بھی تقریباً ۵ برس تک قائم رہا۔ خواجہ یونس کے اپنا اخبار اور اودھ نامہ کے لئے آخری زمانے تک لکھتے رہے۔اپنی زندگی کے آخری دس برسوں میں وہ اپنی حق گوئی کی وجہ سے ہندوستان کے سیکڑوں اخبارات میں پابندی کے ساتھ چھپے۔یہیں سے ان کا حلقہ احباب بھی بڑھنے لگا۔ بقول اعظم شہاب’’انھیں پڑھنے کے بعد کسی اور کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی‘‘۔
آخری زمانے میں ان کی صحت شاید کافی خراب رہنے لگی تھی لیکن وہ اس سب کے باجود ایک سپاہی کی طرح سرحد پرڈٹے رہے اور بھرپور نگرانی کرتے رہے۔انھوں حقیقی رہنما کا کردار ادا کیا۔وہ اپنی زندگی کے آخری زمانے میں بیماریوں سے لڑتے رہے، لیکن ذرا طبیعت سنبھلتی تو کاغذ اور قلم سے اپنا رشتہ جوڑ لیتے اور ایک نئے جوش اور جذبے کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے۔ ان کا مخصوص لب و لہجہ، بے باکانہ انداز آج کے دور میں کسی اور صحافی کے پاس دیکھنے کو نہیں ملتا ۔وہ سچائی اور حق کے علم بردار تھے۔ سچ کہنے سے کبھی نہیں ڈرے۔
مجھے افسوس ہے کہ میری حفیظ صاحب سے باقاعدہ کوئی ملاقات نہ ہوسکی البتہ میں ان کی تحریروں کے ذریعہ ان سے ملتی رہی۔ میں نے انھیں خوب پڑھا اور ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ بہت کم تقاریب میں جاتے تھے ، لیکن جہاں بھی نظر آتے تو ان کی رعب دار شخصیت کی وجہ سے کبھی ان سے ملاقات کی ہمت ہی نہیں ہوئی البتہ دور سے بیٹھ کر انھیں دیکھتی رہتی اور یہی کیا کم ہے کہ ہم نے حفیظ صاحب کو دیکھا ہے۔
حفیظ صاحب کا قلم حساس بھی تھا اور سچا بھی۔ ان کی تحریروں میں وہ جادو پنہا تھا کہ جو کوئی ان کی تحریرکو پڑھتا اس کا اسیر ہو جاتا۔ انہوں نے کبھی سچ لکھنے سے سمجھوتہ نہیں کیا ۔جو محسوس کیا وہی لکھا۔یہ ان کی ایسی خوبی تھی جو دور دور تک نظر نہیں آتی۔حفیظ صاحب کے جانے سے اردو صحافت کے میدان میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پُر ہونا فی زمانہ ناممکن ہے۔خدا نے ان کو بے شمار خصوصیات سے نوازا تھا ، مجھ جیسی کم علم کے لیے ان کی تحریروں کے تعلق سے کچھ بھی بیان کرپانا نا ممکن ہے ۔یہ چند سطریں حفیظ صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے اپنی بھرپور نااہلی کے ساتھ قلم بند کی ہیں۔ان تاثرات کو لکھنے میں ’’قلم کا سپاہی‘‘ نام کی کتاب سے کافی مدد ملی۔
آج حفیظ صاحب ہمارے درمیان نہیں ہیں ۔ مگر ان کی تحریریںمشعل راہ بن کر ہمارے ساتھ تا عمر رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین٭
(وزیر گنج، لکھنؤ)

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular