اپریل فول- April fool

0
125

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


April fool
محمد شبلی آزاد

سورج کی کرنیں کھڑکی کی جالیوں سے چھن کر مہیش کے جسم پر پڑیں، وہ ہڑبڑا کر اٹھا سامنے دیوار پر لگی ہوئی گھڑی میں آٹھ بج چکے تھے۔ اسے نو بجے آفس پہنچنا تھا، آفس اس کے گھر سے آدھے گھنٹے کی دوری پر رہا ہوگا۔ وہ جلدی سے بستر سے اٹھا اورتولیہ ڈھونڈنے لگا۔تولیہ نہ ملنے پر اس نے اپنی بیوی چندا کو آواز دی جو کچن میں برتن مانجھ رہی تھی۔ مہیش کی آواز پر وہ کمرے میں آئی اورتو لیا دے کر بڑبڑاتی ہوئی واپس کچن میں چلی گئی۔ مہیش جب واش روم فارغ ہوکر نکلا تو 8:20منٹ ہو چکے تھے۔ چندا چائے لے کر کمرے میں آئی ،وہ دونوں بستر پر بیٹھ گئے ۔مہیش نے تولہ لپیٹے ہوئے چائے کی چسکی لینی شروع کی، ابھی وہ چائے پی ہی رہا تھا کہ اس کے موبائل پر رنگ بج اٹھی۔ اس کی چھوٹی بہن سونی کی کال تھی ۔مہیش نے فون اٹھایا سونی کی آواز سنتے ہی وہ پریشان ہوگیا کیوں کہ وہ رو رہی تھی۔ مہیش نے حیرت سے پوچھا کیا ہوا کیوں رو رہی ہو،سب کشل منگل ہے نا ؟لیکن سونی نے کچھ جواب نہ دیا مہیش کے بار بار پوچھنے پر اس نے روتے ہوئے کہا بھیا !رمیش کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اس کی حالت بہت خراب ہے، آپ فوراًگھر آجائیے ۔رمیش مہیش کا چھوٹا اور اکلوتا بھائی تھا۔ سونی کی زبان سے اکسیڈنٹ کی خبر سن کر اس کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی اس نے فون رکھتے ہوئے چندا سے کپڑے مانگے ۔چندا نے وجہ پوچھی تو مہیش نے مختصراََ حال بتایا اور آناً فاً کپڑے پہن کر باہر نکل گیا۔ چندا نے بھی ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی لیکن مہیش نے منع کردیا۔
مہیش اپنی بیوی کے ساتھ شہر میں کرائے کے ایک مکان میں رہتا تھاجبکہ اس کا پورا پریوار شہر سے دو گھنٹے کی دوری پر ایک گائوں میں تھا اور وہی اس کا آبائی وطن تھا ۔مہیش نے بائیک اسٹارٹ کی اور گاؤں کی طرف چل پڑا۔وہ بائیک چلا رہا تھا لیکن اس کا دھیان راستے پر نہ ہو کر اپنے گاؤں کی طرف لگا ہوا تھا۔ سونی کی بات اس کے دماغ میں گھوم رہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس کے بھائی کی حالت نہ جانے کیسی ہوگی ،ماں اور بابو جی کا تو رو رو کر برا حال ہوگیا ہوگا۔ وہ ان خیالات میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ کئی بار تو وہ گاڑیوں سے ٹکراتے ٹکراتے بچا لیکن قسمت بھی کب تک ساتھ دیتی وہ ابھی گاؤں سے تقریباً پانچ یاچھہ کلومیٹر کی دوری پر ہی رہا ہوگا کہ اچانک ایک ٹرک سے ٹکرایا اور خون میں لت پت ہوکر زمین پر گرپڑا۔ تھوڑی ہی دیر میں لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہوگیا ۔اس کا خون آلودہ جسم زمین پر تڑپ رہا تھا اور لوگ تماشائی بنے اسے تڑپتا دیکھ رہے تھے ۔کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اسے گاڑی میں لٹا کر اسپتال لے جائے۔ ہاں کچھ خیر خواہوںنے اتنی خیر خواہی ضرور کی کہ ایمبولینس کو فون کر دیا۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے یہی پوچھ رہا تھا کہ یہ آخر کون ہے اور کہاں کا رہنے والا ہے لیکن کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہ تھا۔ مہیش کے گاؤں کا ایک شخص جو کہ اسی راستے سے گزر رہا تھااس نے مہیش کو پہچان لیا اور اس کے گھر پر خبر پہنچا دی تھوڑی ہی دیر میں ایمبولینس بھی آگئی ۔مہیش کواسٹریچر پر لٹا کر ایمبولینس میں ڈالا گیااور ایمبولینس چل پڑی۔ را ستے میں مہیش کا تڑپنا اچانک بند ہوگیا،ایسا لگا جیسے کسی انتہائی محنت کرنے والے مزدور کودن بھر مزدوری کرنے کے بعد گہری اور پرسکون نیندآگئی ہو۔ تھوڑی دیر میں ایمبولینس ہاسپٹل پہنچ گئی ،مہیش کو ایمبولینس سے اتارا گیا ۔ڈاکٹر نے اسے دیکھتے ہی مردہ قرار دے دیا۔ اس کا پورا جسم ٹھنڈا پڑ چکا تھااور اس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں ۔ڈاکٹر نے اس کی آنکھیں بند کی اوراسے سفید چادرسے ڈھانک دیا۔
کچھ ہی دیر میں مہیش کے والد اور اسکے بھائی رمیش بھی وہاں پہنچ گئے۔ مہیش کو سفید چادر میں لپٹا دیکھ کر ان کا کلیجا منہ کو آگیا۔ وہ دونوں چیخ چیخ کر رونے لگے، پورا اسپتال انکی چیخوں سے گونج رہا تھا۔ کچھ دیر میں ان کے گاؤں کے چند افراد بھی وہاں آپہنچے انہوں نے بہت سمجھایا ،خوب تسلی دی آخرکار وہ دونوں خاموش ہوئے ۔وہ بھی آخر کب تک روتے ، پولیس آگئی تھی اور اس نے لاش اپنے قبضے میںلے لی تھی۔ابتدائی قانونی کارروائی کے بعد چندکاغذات پر مہیش کے والد کے دست خط لے کر پولیس نے مہیش کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے بھیج دیا۔
جب مہیش کی موت کی خبر گاؤں پہنچی تو پوراگاؤںدکھ میںڈوب گیا۔سبھی رو رہے تھے،کیااپنااور کیا پرایا،مہیش اپنے اچھے مزاج اور سادہ فطرت کے سبب سبھی گائوںوالوںمیںبے حد مقبول تھا۔مہیش کے گھر میںتو ماتم برپا تھا۔اس کی ماںتو اپنے ہوش ہی کھو بیٹھی تھی،جب وہ چھاتی پیٹ پیٹ کر روتی تولوگوں کا دل کانپ اٹھتا۔وہ روتے روتے اس قدر بے حال ہو چکی تھی کہ اس کا جسم جیسے جم گیا ہو وہ اس قدر چیخ کر رونا چاہتی تھی کہ پوری دنیااس کے غم میںشامل ہوجائے۔
گھر کاہرفردرورہاتھا لیکن سونی ساکت و جامد ایک جگہ خاموش بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھیں خشک تھیںاور چہرہ ہر قسم کے جذبہ واحساس سے عاری تھا۔ روتی ہوئی عورتوں کی توجہ اس کی طرف گئی اور ایک نے دوسرے سے کہا ،بیچاری کو شدت غم سے سکتہ ہوگیا ہے کہیں یہ دکھ اس کی جان ہی نہ لے لے ۔اسے رولاؤ بہن یہ اگر رولے گی تو دل ہلکا ہو جائے گا۔ دو عورتیں اس کی طرف بڑھیں لیکن وہ وہاں سے چپ چاپ اٹھ کر چلی گئی۔ عورتوں نے بھی فی الحال یہی مناسب سمجھا کہ اسے کچھ دیر اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ گاؤں کی عورتیں اکھٹی ہوکر مہیش کی ماں و دیگر اہل خانہ کو تسلی دے رہی تھیں۔ اس ہنگامے میں کسی کو یہ خیال بھی نہیں آیا کہ چندا کو خبر کردے۔جب پڑوس کے یادوجی نے چنداکو فون کیا تو اس نے فون اٹھاتے ہی رمیش کی خیریت دریافت کی ۔چاچا جی رمیش کیسا ہے اس کا ایکسیڈنٹ کہاں ہوا تھا۔ یادو جی نے تعجب سے پوچھا رمیش کا ایکسیڈنٹ؟چندا نے کہا جی رمیش کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے نا یادوجی کچھ سمجھے اور کچھ نہیں سمجھے، انہوں نے چندا سے بس اتنا کہا تم فورا گاؤں آجاؤ ۔یہ سنتے ہی چندا کو بجلی کا جھٹکا سا لگا اس نے فورا فون رکھا اورجس حالت میں تھی اسی حالت میں گھر سے نکل گئی۔ قریب تین گھنٹے بعد جب وہ گھر پہنچی تو لاش پوسٹ مارٹم سے واپس گھر آچکی تھی۔ پورے گھر میں ماتم ہو رہا تھا۔ چندا کو دیکھ کر عورتیں اور زیادہ زور سے رونے لگیں ۔ایک مرتبہ پھر سے چیخوں کی آوازیں تیز ہوگئیں۔ہر کوئی چندا کے چہرے کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ چندا یہ سب دیکھ کر کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی وہ چاہتی تھی کہ پاس کھڑے لوگوں کے گریبان پکڑ کر ان سے پوچھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیوں لوگ مجھے رحم کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ؟ہر کوئی مجھے کچھ بتانا چاہتا ہے لیکن ان کی زبان گنگ ہیں ،کیوں؟ آخر کیوں؟
چندا نے ابھی چند قدم ہی بڑھائے تھے کہ وہ ٹھٹھک گئی اس کی نظریں دور بچھی ایک ٹاٹ پر پڑیں جس پر کسی کو سفید چادر میں لپیٹ کر لٹایا گیاتھااورگھر کی عورتیں اس کے اردگرد بیٹھی رو رہی تھیں۔رمیش بھی وہاں کھڑا آنسو بہا رہا تھا۔ چندا آگے بڑھی کہ یہ آخر کون ہے جسے عورتیں گھیرے ہوئی ہیں۔ جیسے ہی اس کی نظر مہیش کے چہرے پر پڑی وہ غش کھاکر زمین پر گر پڑی ۔لوگ اس کی طرف دوڑے ،کافی دیر تک اس کے چہرے پر پانی چھڑکنے کے بعد جب اسے ہوش آیا تو وہ چیخیں مار کر رونے لگی۔ اس کی چیخوں میں بھیانک درد تھا جو کسی کے بھی دل کو لرزا سکتا تھا ۔اسکی چیخ و پکار سن کر ہر کسی کی آنکھیں بھر آئیں۔ گاؤں کی سبھی عورتیں اسے تسلی دینے کے لیے اکھٹاتھیں۔ آخر کچھ گھنٹوں کے بعد وہ وقت بھی آگیا جب مہیش کی لاش کو پرواہ کے لیے چار کندھوں کے سہارے کی ضرورت پڑی۔ ایک بار پھرگریہ وزاری کاشور بلند ہوا ۔لوگ مہیش کو لے کرجانے لگے ۔
سب رو رہے تھے ،لیکن سونی کی آنکھیں تو ابھی بھی ویسی ہی خشک تھیںجیسے اس میں کبھی پانی رہا ہی نہ ہو۔ اور وہ اس طرح ساکت تھی جیسے اس کے جسم نے کبھی حرکت ہی نہ کی ہو۔ جب کچھ عورتوں سے رہا نہ گیا تووہ سونی کے پاس پہنچیںاور اسے جھنجھوڑناشروع کیا۔ لیکن وہ پتھر کی کسی مورت کی طرح ویسی ہی ساکت وجامد بیٹھی رہی۔جب ایک بار پھراسے رولا نے کی تمام کوششیںبیکار ہوگئیںتواسے تنہاچھوڑکر باقی ماندہ سبھی لوگ ارتھی کے پیچھے پیچھے گھر کے باہر نکل آئے۔وہ چپ چاپ اٹھی اور اپنے کمرے میںآگئی ۔کمرے میںسناٹا تھا ،بس دیوار پرٹنگا ہوا کیلنڈرہوا کے زور سے پھڑپھڑا رہا تھا۔ اس کی نگاہیںکیلنڈر پر جم گئیں۔پہلی اپریل ۔۔۔۔مہیش کی خون آلودہ لاش اس کی آنکھوںکے سامنے آگئی۔اس کا مہیش کوصرف ایک فون اور پھر مہیش کی لاش ،خون آلودہ لاش۔اس نے اپنے بال دونوں مٹھیوں میںجکڑلیے اور زمین پر گرپڑی۔
ریسرچ اسکالر حیدر آباد سنٹر یونیورسٹی

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here