أؤ چھولیں چاند ستارے

0
422

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مبصرہ۔ نکہت انجم ناظم الدین

نام کتاب۔أؤچھولیں چاند ستارے
شاعر۔شجاع الدین شاہد
ضخامت۔۱۰۴صفحات
قیمت۔۱۰۰روپے
موضوع۔ ادب اطفال
سن اشاعت۔۲۰۲۲
رابطہ۔9969039485

پال ہارڈز کہتے ہیں کہ
وہی کتاب اچھی ہے جو فن کا حق ادا کرتی ہے جو بچے میں اپچ پیدا کرتی ہے اور علم کا راستہ بتاتی ہے جو پہلی ہی نظر میں خوبصورت معلوم ہو۔کتاب جو ان کی روح میں وہ تحریک پیدا کردے جو أئندہ زندگی میں ہمیشہ کام أسکے۔اچھی کتاب وہ ہے جو بچے کے دل میں عالمی زندگی کی لئے عزت کا جذبہ ابھاردے،جو کھیل کی شجاعت اور نمایاں وقار کی عزت کرسکے، جو بچے کے دل میں یہ احساس پیدا کرسکے کہ ذہن اور سوجھ بوجھ کی تربیت، اس کی زندگی کا مقصد ہےمعلومات کی وہ کتابیں اہم ہیں جس میں دنیا کے سب سے مشکل اور اہم چیز کے متعلق معلومات ہو”۔

کہا جاتا ہے کہ بچوں کا ادب تحریر کرنا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔بچوں کے ادب کو تحریر کرتے وقت بچوں کی ذہنی استعداد، ان کی دلچسپی،ان کے رجحان کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔أج ان حالات میں جب ہم سائنس اور ٹکنالوجی کی منازل کی کئی سیڑھیاں طے کرچکے ہیں تو ادب سے بچوں کا تعلق جوڑے رکھنا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔زیرنظرکتاب ‘أؤ چھولیں چاندستارے،بچوں کی نظموں کا مجموعہ ہے۔جس کے شاعر شجاع الدین شاہد ہیں۔جن کا تعلق ریاست مہاراشٹر کےضلع امراوتی کے قصبہ بیودہ سے ہے۔شاعر کا تعلق محکمہ ڈاک سےرہا ہے اور فی الحال اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔شجاع الدین شاہد کی لکھی کہانی ‘’درختوں کی لڑائی ‘کو مہاراشٹر اسثیٹ بورڈ آف سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری ایجوکیشن پونے کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔شجاع الدین شاہد کی ادب اطفال پر مبنی پہلی کتاب ‘گلشن گلشن پھول کھلے، پر انہیں لال بہادر شاستری اعزاز سے نوازا گیا۔مغربی بنگال،بہار، مہاراشٹر اور اتر پردیش ساہتیہ اردو اکادمیوں نے بھی اعزازات سے نواز کر ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

مفتی رضا انصاری فرنگی محلی

أؤ چھولیں چاند ستارے کے علاوہ شجاع الدین شاہد مندرجہ ذیل تصانیف منظر عام پر آ چکی ہیں۔

۱۔گلشن گلشن پھول کھلے(ادب اطفال)۲۰۰۴
۲۔آنچ مہکتے لفظوں کی(غزلیات)۲۰۱۵
۳۔سوغات محبت کی (غزلیات دیوناگری)۲۰۱۹

أؤ چھولیں چاند ستارےمجموعہ میں ۶۲ نظمیں شامل کی گئی ہیں۔محمد سراج عظیم نے شجاع الدین شاہد کی شاعری کو ان لفظوں میں بیان کیا ہے۔”شجاع الدین شاہد کی شعری کائنات ان کے اندرون میں نمو پانے والے احساسات و جذبات کا اظہار ہے”۔

چپ نہ رہئےکوئی شور مچاتے رہئے
ہم ہیں زندہ یہی احساس دلاتے رہئے

شاعر نے اپنی نظموں کا انتساب اس طرح سے دیا ہے۔

اردو کی اس نئی نسل کے نام جو ہماری زبان و تہذیب کی علمبردار ہے۔بچوں کے ادیب شجاع الدین شاہد کے حوالے سے رؤف صادق نے مختصرالکھتے ہیں کہ

شجاع الدین شاہد کا نام ادب اطفال میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔وہ ادبی دنیا غزل گو کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔زرخیز ذہن کے مالک ہیں۔ادب اطفال میں بھی اپنے تخلیقی جوہر سے ہر عمر کے بچوں کے ذہنوں کو متاثر کرتے آرہے ہیں”۔
وہیں شجاع الدین شاہد”اپنی بات”میں کہتے ہیں۔
جواہر لال نہرو نے کہا تھا

آج کل کے بچے ہی کل کے بھارت کی تشکیل کریں گے۔جس طرح ہم ان کو سامنے لائیں گے وہ اسی طرح ملک کے مستقبل کا تعین کریں گے”۔ اسی میں اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے شاعر نےدور جدید میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔بچوں میں جدت اورنئی سوچ کی حمایت کی ہے۔انھوں نےجہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ضروری اور مثبت استعمال کی حمایت کی ہے وہیں اس کے منفی استعمالات سے بچوں کو روکا بھی ہے۔أخر میں تمام معاونین و مددگار دوست و احباب کا شکریہ ادا کیا ہے۔بعد کے صفحہ پر شاعر کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔کتاب میں پیش کی گئی نظموں کی شروعات”ایک ننھی سی دعا”سے کی گئی ہے۔نئی نسل کے لیے دعا کرتے ہوئےشاعر کہتے ہیں

کونپلیں ہیں تو انھیں دے دے نمو
بخش دے ان گلوں کو رنگ وبو

أؤ چھولیں چاند ستارے اس مجموعہ میں سائنس اور ٹیکنالوجی اور بچوں کے تخیل کو جدت عطا کرنے والی نظموں کو شامل کرنا کتاب کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ان نئے موضوعات پر قابل ذکر نظمیں اس طرح سے ہیں۔سورج کا خاندان،ننھے میاں اور موبائل، راکٹ،لوکل ٹرین،طیارہ نام میرا،میں چندریان ۲،مجھ کو کہتے ہیں کمپیوٹروغیرہ۔آج کہیں نہ کہیں بچوں کے رجحان میں پرانے وقتوں کے مقابلے میں بہت سی تبدیلیاں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔پریوں کے قصے کہانیوں سے زیادہ بچے أج نئی چیزوں کے بارے میں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔بچوں کی قوت متخیلہ بہت تیز ہوتی ہے اور وہ انھی مشمولات کو پڑھنا بھی پسند کرتے ہیں جو ان کے تصورات میں موجود ہوں۔ بچوں کے ادیب کے لیے ضروری ہے کہ اسے بچوں کی نفسیات کی خاطر خواہ جانکاری ہو اور وہ ان کے تخیل کی نشونما کرنے والی چیزوں کو تحریری شکل دے۔ان کی ترجیحات پر گہری نظر رکھے۔بچوں کے تجسس کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ان میں کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی،کچھ کر دکھانے کی صلاحیت ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔اپنے ارد گرد موجود ماحول سے وہ بہت کچھ سیکھتے ہیں۔بچوں کو پڑھنے کے لئے ابتداء سے ہی ان کے ذوق کی تسکین کرنے والی کتابیں دی جائیں تو کتابیں پڑھنے میں ان کی دلچسپی ہمیشہ برقرار رہ سکتی ہے۔زیر نظر کتاب میں یہ تمام خصوصیات موجود ہیں۔شاعر نے بچوں کے ذوق وجستجو،ان کی عادات و اطوار،علم اور تخیل کی پرواز کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام ہی موضوعات کا احاطہ اپنی نظموں میں کیا ہے۔جانوروں اور پرندوں میں،ان کی حرکات و سکنات میں بھی بچوں کی بہت دلچسپی ہوتی ہے۔بھالوکھیل دکھائے کیوں،کوئل کہاں ہے،چوکیدار بن اجرت کا،ہمارا بکرو،کھیل کھلونے،مرغا بولے کُکڑوں کوں اور بھالو وغیرہ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔پھول،پھل،موسم اوراخلاقی تربیت پر مبنی نظمیں بھی کتاب میں شامل ہیں۔والٹرذیلامیر کہتے ہیں:

بہترین چیزوں میں سے بہت کم یاب چیزیں بچوں کو پسند آتی ہیں۔میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہی چیزیں آئندہ زندگی کو بھی لطف اندوز کرتی ہیں۔خوشی جس کا اظہار الفاظ میں نہ کیا جا سکے،خوف،غم اور درد کے بچپن کے نہ بھولنے والے احساسات ان سب چیزوں کی ایک جھلک نظر آجاتی ہے۔ایک گھوڑا،ایک پیڑ،ایک پھول ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے بچپن میں کبھی دیکھا تھا وہی جذبات اور احساسات گویا کوئی الہام ہو”۔

بالکل سچ ہے بچپن میں پڑھی جانے والی تحریریں ہمارے ذہن پر دیرپا اثر رکھتی ہیں۔أؤ چھولیں چاند ستارے کی نظموں کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں

نظم۔علم ہی اونچائی پر لے جائے گا
تعلیم پردھیان اپنا رکھو اے بچو
موبائل سے تم دور رہو اے بچو
موبائل کسی کام نہیں آئے گا
بس علم ہی اونچائی پر لے جائے گا
نظم۔قلم تھام لو
وہ جس سے سدا خوف کھاتی ہے دنیا
قلم نام اس کا، قلم نام اس کا
قلم سے ملی میر و غالب کو شہرت
اسی سے ملی رومی،سعدی کو عزت
قلم نے ہی اقبال کو دی سربلندی
اسی نے ادیبوں کو دی سرفرازی
نظم۔میں ہوں وقت
میں ہوں وقت چلتا ہوں رکتا نہیں
کسی کے بھی قدموں میں جھکتا نہیں
جو گزری ہے گزرینگی صدیاں کئی
کبھی موت مجھ کو تو آتی نہیں
چلو جب بھی انگلی میری تھام لو
ترقی کا تم یوں ہی انعام لو

غرض بچوں کو درس دیتی ہوئی تمام نظمیں بہت عمدہ ہیں۔میں گزارش کرتی ہوں تمام اساتذہ سے کہ وہ اپنے طلبہ اور اپنے اسکول کے کتب خانوں کو یہ قیمتی تحفہ ضرور دیں۔ والدین اور سرپرست حضرات اپنے بچوں کو یہ نظمیں ضرور پڑھائیں۔ آخر میں میں ادب اطفال میں اس گراں قدر اضافہ کے لئے شجاع الدین شاہد کو مبارکباد پیش کرتی ہوں اور اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ أپ کا قلم یونہی رواں دواں رہے،اس کی زرخیزی برقرار رہے اور آپ کی تصانیف ادب اطفال میں یونہی اضافہ کرتی رہیں۔آمین
٭٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here