ڈاکٹر سیدمحمدحسان نگرامی
اردو دنیا میں جب بھی مشاعروں کی تاریخ لکھی جائے گی یا نظامت کے حوالہ سے گفتگو ہوگی انور جلال پوری کا نام جلی اور روشن حروف میں لکھنا مورخ کی مجبوری ہوگی، ان کا مخصوص انداز کلام، اکھڑے ہوئے مشاعروں کو خوشگوار ماحول میں واپس لانے کی کوشش، سجے بنے صاف ستھرے الفاظ اور اشعار کا انتخاب، مراتب کا لحاظ رکھتے ہوئے شعراء کا تعارف، برجستہ الفاظ کا استعمال، اردو تاریخ، ادبی محاوروں، استعارات و تشبیہات کی پیش کش، کتنی ہی باتیں ہیں جو نظامت کے حوالہ سے انور صاحب کی انفرادیت، دل فریبی، معلوماتی تجزیے کی یاد دلاتے رہیںگے، افسوس کہ اب انور صاحب کی گھن گرج والی آواز کی جگہ تالیوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دیگی اور مشاعروںکا معیار جو پہلے ہی سے زوال پذیر تھا کہاں جا کے رکے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
نظامت کے حوالے سے ان کے استاد اور نظامت کے شہنشاہ پروفیسر ملک زادہ منظور لکھتے ہیں:
’’انور کی شہرت کا سب سے بڑا حوالہ اور ان کی عالم گیر شناخت مشاعرں کی نظامت ہے۔ اور یہی حوالہ ہمارے عہد کے پس منظر میں ہمارے دانشوروں کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر کسی زبان میں اچھا ادب سو سال تک پیدا نہ ہو تو کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے، پریشانی کی بات یہ ہوتی ہے کہ اچھا ادب تو پیدا ہورہا ہے مگر اس زبان کو پڑھنے والے کم ہورہے ہیں جس نے ادب کو تخلیق کیا ہے۔ آزادی اور تقسیم ملک نے اچھے ادب کی تخلیق کے لئے تو ہزاروں عنوانات دے دئیے ہیں اور ہمارے ادیب اچھا ادب پیدا کررہے ہیں۔ تقسیم ملک کے پہلے انتقال آبادی، ہجرت، فسادات اور اس سے متعلقہ آلام و مصائب کا کوئی بھی عنوان ہمارے قلمکاروں کے لئے موجود نہ تھا مگر تقسیم ملک کی بدولت یہ سارے مسائل ہمارے ادب خصوصیت کے ساتھ ہمارے افسانوں اور ہماری شاعری میں بہت ہی اچھے انداز میں شامل ہوئے اور ہمارا ادب اور ہماری شاعری نئی جہتوں اور نئے امکانات سے آشنا ہوئی اور ادب خوب سے خوب تر کی جانب سفر کرتا رہا۔ مگر ہمارے عہد کا المیہ یہ رہا ہے کہ اردو زبان جس میں یہ ادب تخلیق ہورہا ہے وہ روز بروز ہمارے معاشرے سے بے دخل ہوتی جارہی ہے اور اس کے جاننے والے کم ہورہے ہیں۔ مشاعرہ میں نظامت اور شرکت مشاعرے کی جمہوریت اور اردو زبان کی توسیع و ترقی کا ایک خوشگوار عمل ہے۔ اور مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلف اور تامل نہیں ہے کہ انورؔ جلال پوری نے اپنی نظامت سے مشاعرے کی سرحدوں کو وسیع کیا ہے اور اردو زبان کی چاشنی اور اس کی شاعری سے محبت کرنا ان لوگوں کو بھی سکھلایا جو اردو سے واقف نہیں تھے مشاعروں کا جو حربہ انہوں نے اردو زبان کی جمہوریت کو وسیع کرنے کے لئے اپنایا اس سے وہ عام آدمی بھی متاثر ہوا جو اردو زبان سے ناواقف تھا۔ اور ان کا جادو اس اندھے پر بھی چلا جو بہرا نہ تھا۔‘‘
انور صاحب مشاعروں کو محض ذہنی تفریح اور تفنن طبع کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے ان کے نزدیک مشاعرے قومی یکجہتی کی ضمانت تھے۔
انھیں کے الفاظ میں دیکھئے:
’’مشاعروں کا تعلق اردو زبان سے ہے۔ یہ زبان خود قومی ایکتا کی علامت ہے۔ یہ زبان اور اس کی شاعری ہندوستان کی جنگ آزادی کا سب سے بڑا اسلحہ رہی ہے۔ کروڑوں لوگوں کو نہ سمجھ میں آنے کے باوجود بھی یہ زبان اچھی لگتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی فطرت کے حسن سے اس زبان کا ایک جذباتی رشتہ ہے اور مشاعرے اس زبان کے گلدستے کی خوشبو ہیں۔ اس خوشبو کو حاصل کرنے کے لئے قوم کی رنگارنگیوں کا چہرہ مشاعروں کے ہجوم میں دیکھا جاسکتا ہے۔ شاید اسی لئے یہ کہنا قطعی غیرمناسب نہیں ہے کہ مشاعرے قومی یکجہتی کی ضمانت ہیں۔‘‘
حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے پہلے کل ہند مشاعرہ کی نظامت ۱۹۷۶ میں کی، صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمد اس مشاعرے کے صدر تھے، بس یہی مشاعرہ راتوں رات ان کی شہرت کا سبب بن گیا اور پھر انور بھائی مشاعروں کی ایسی بلندیوں پر پہنچے مجھے نہیں لگتا کہ اب کوئی پہنچے گا۔ اس مایوسی کی وجہ ناظمین مشاعرہ میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے بلکہ جس طرح تالیوں کی گڑگڑاہٹ نے ادبی معیار کو کچل کر رکھ دیا ہے اسے سنبھالنا انور صاحب بہت اچھی طرح جانتے تھے۔
مشہور شاعر راحت اندوری نے درست لکھاہے:
’’اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مشاعرے کی نظامت ایک غیرمعمولی فن ہے جس میں ناظمِ مشاعرہ کو ہر لمحہ چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ ہزارہا سامعین کے مزاج کو پرکھنا اور پیداشدہ حالات اور ماحول پر فوری ردعمل ناظم کی لیاقت اور صلاحیت طے کرتی ہے، میں نے درجنوں مشاعروں میں انور بھائی کی نظامت کا ایسا جادو چلتے دیکھا ہے کہ ان کے ایک ایک جملے نے مشاعرے میں چلنے والی ہوا کا رخ بدل دیا ہے۔ بعض شہر تو ایسے ہیں جہاں انور بھائی کی شرکت ہی مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ ان کے بغیر مشاعرے کی فہرست نامکمل سمجھی جاتی ہے۔ وہ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی نظامت میں مشاعرے کا ادبی وقار اور زبان کا کردارنہ صرف محفوظ رہے بلکہ نمایاں رہے، میں نے ان کی زبان سے دوران مشاعرہ کبھی کوئی رکیک جملہ یا پھوہڑ لطیفہ نہیںسنا۔‘‘
آج کل کے مشاعرے کے خوبصورت اور کامیاب ناظم مشاعرہ واصف فاروقی انورجلالپوری کی نظامت کا تجزیہ اس طرح کرتے ہیں
’’انورؔ بھائی نے ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد کی علمی اور ادبی بصیرت، اور عمر قریشی کے کمال فن کو یکجا کرکے مرکب تیار کیا اور اپنے لئے ایک بالکل نیا راستہ بناکر بھاری بھرکم لفظوں سے گریز، سہل اور عام فہم لفظوں کا بامقصد استعمال، اپنی انتہائی خوبصورت، کھنک دار آواز کی مٹھاس اوراس کی قدرتی نغمگی میں ضم کرکے جب گفتگو شروع کی تو سماعتیں متحیر ہونے کے ساتھ ساتھ کیف و سرور کے احساس سے سرشار ہونے لگیں۔
مشاعرے کے آرگے نائزر، مہمان خصوصی، صدر یا کسی اور صاحب گفتار کے بعد جب ناظم مشاعرہ کی حیثیت سے مائک انور صاحب سنبھالتے ہیں تو لوگ ہمہ تن گوش ہوکر ان کی زبان سے نکلے ہوئے پہلے لفظ سے ہی کانوں میں رس گھلتا ہوا محسوس کرنے لگتے ہیں، ان کی تمہیدی گفتگو مشاعرے کو باوقار، اور کامیاب ہونے کی سند عطا کردیتی ہے۔ سماجی، سیاسی، انسانی، مذہبی، ادبی، ثقافتی، تاریخی یا خانقاہی کسی بھی موضوع پر فی البدیہہ ابتدائی تقریر میں انورؔ بھائی کا کمال فن بولتا نظر آتا ہے۔ نپے تلے الفاظ، غیرضروری اور غیرادبی لطیفوں، رکیک جملوں، سطحی اور غیرمعیاری اشعار سے گریز اور محتاط روی نے انورؔ کو مشاعروں کا ’نور‘ بنا دیا جس کی روشنی میں مشاعرے جگمگانے لگے اور یہ سلسلہ ساڑھے تین دہائیں سے جاری و ساری ہے۔ مسلسل اگر کسی ایک موضوع پر ایک ہی انداز کی گفتگو کرنی ہو تو لفظوں کا فقدان ہوجانا فطری ہے اور سماعتوں کا بوجھل ہوجانا عین ممکن، مگر حیرت انگیز طور پر دیکھا گیا کہ اگر انور صاحب کسی بستی میں ایک سال میں کئی بار مدعو کئے گئے تو ہر بار مشاعرے کے شائقین، سامعین اور ناظرین کو ایک تازگی کا احساس ہی ہوا اور کسی نے بھی ان کے مسلسل انتخاب کی مخالفت نہیں کی۔‘‘
انور صاحب کی نظامت محض لفاظی پر مشتمل نہیں تھی، ان کے یہاں معنویت سے بھرپور اشارے ان کی انفرادیت تھی۔
مشہور شاعرہ ڈاکٹر نسیم نکہت کا تجزیہ مبنی برحقیقت ہے:
’’دراصل صرف بات کرلینا بھی کوئی خوبی نہیںہے بہت سے جاہل لوگ محفلوں میں بیٹھ کر اور تھوڑی سی معلومات کے بل بوتے پر اس طرح بولتے ہیں گویا ان کا مطالعہ وسیع ہے اور بے حد عاقل و قابل ہوں۔ لیکن گفتگو میں معنویت کے پہلو ہونا اشاروں میں بات کرنا برمحل کوئی جملہ کہہ دینا اور ضرورت پڑنے پرکسی بھی موضوع پر تفصیلی گفتگو آسان کام نہیں ہے۔ لیکن انورؔ صاحب میں یہ خوبی ہے وہ بولنے کا فن جانتے ہیں۔ یوں تو ہر انسان میں کچھ کمی ضرور ملتی ہے لیکن اگر انسان صرف انسان ہی رہے تو ایک اچھی علامت ہے۔ فرشتہ ہونا آسان تو نہیں ہے بہرحال انورؔ بھائی اچھے انسان ہیں اس بناوٹ اور تصنّع کے دور میں وہ جیسے ہیں وہی نظر آتے ہیں کہیں دو چہروں والے نہیں لگتے اب کھلی کتاب جو آسانی سے پڑھی جاسکتی ہے وہ کسی ملک یا ماحول میں رہیں اپنی مٹی سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ اپنے انداز و اطوار میں کوئی تبدیلی نہیں کرتے وہ ماحول کو خود پر طاری نہیں کرتے بلکہ اپنے ماحول میں رچے بسے نظر آتے ہیں۔ ان میں نہ تو احساس کمتری ہے اور نہ احساس برتری وہ بس ایک نارمل انسان ہیں، یہی ان کی خوبی ہے میں نے بڑی بڑی شخصیتوں کو دیکھا ہے کہ کسی اجنبی اہم ماحول کو خود پر اس طرح طاری کرلیتے ہیں کہ اچھی خاصی شخصیت کا کباڑٓ کرلیتے ہیں اور خاصے مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیںؓ وہ میرے نزدیک قطعی نارمل نہیں ہوتے۔ انورؔ بھائی صرف اور صرف ایک نارمل انسان نظر آتے ہیں۔ ذہین انسان کی ایک خوبی تو یہ ہونی ہی چاہئے۔ ذہین لوگ سمندر کی طرح دریائوں کو خود میں سمیٹ لیتے ہیں، دریا کی طرح راستے نہیں بدلتے چاند کی طرح بڑھتے گھٹتے نہیں، بلکہ سورج کی طرح قائم و دائم ہوتے ہیں، ہوا کی مانند رخ نہیں بدلتے بلکہ خوشبو کی طرح ہر جگہ مہکتے نظر آتے ہیں۔ انورؔ بھائی سمندر، سورج اور خوشبو کی اہمیت سے واقف ہیں اور انہیں کی طرح عمل پیرا بھی ہیں۔ شاید اسی لئے ان کی شاعری میں قدرتی اور فطری حسن واضح طور پر ملتا ہے۔ وہ گفتگو یہ سوچ کر نہیں کرتے کہ اپنا تاثر قائم کرنا ہے بلکہ اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ بولنا ضروری ہے تو بولتے ہیں شوخ جملے اچھالنا ان کی گفتگو کا حسن ہے۔ ان میں بزلہ سنجی ہے لوگ ان کی گفتگو پسند کرتے ہیں اور جملوں سے محظوظ ہوتے ہیں۔ رک رک کر جملے چبا چبا کر بولنا ان کی عادت ہے۔ گویا کوئی فیصلہ سنا رہے ہوں قاری کا ذہن ہمہ تن گوش ہوجاتا ہے یہ لہجے کا طلسم ہے وہ کسی بھی موضوع پر بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں۔‘‘
جناب میکش اعظمی مشاعروں ملک زادہ منظور اور عمر قریشی کی چمک کے سامنے انور صاحب کو اپنے متعارف کرانے پھر اپنا سکہ منوانے کو اس طرح لکھتے ہیں:
’’جب ملک زادہ منظورؔ احمد ادباء، شعراء، مفکرین اور دانشور طبقے کی پہلی پسند ہوں اور جس کی شہرت آسمان کی بلندی کو چھو رہی ہو، عمرؔ قریشی عوامی مشاعروں کے جادوگر کی حیثیت سے مشہور ہوں، ثقلین حیدر اور بہت سے اردو کے آفتاب و ماہتاب آسمان نظامت پر جگمگا رہے ہوں تو ایسے میں آپ خود یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کسی اور ناظم کے لئے کہاں جگہ بچتی ہے۔ مگر انورؔ جلال پوری نے نظامت کی دنیا میں اپنا مقام ہی نہیں بنایا بلکہ کامیابی اور شہرت کی اس منزل پر آج ہیں جہاں پر ایک کامیاب ترین ناظم مشاعرہ کو ہونا چاہئے وہ بیک وقت عوام و خواص دونوں طرح کے مشاعروں کے ناظم کی حیثیت سے کامیاب اور مشہور و مقبول ہیں۔ ان کی نظامت کی خوبی یہ ہے کہ دوران نظامت عوام الناس سے ان کا رشتہ کبھی منقطع نہیں ہوتا اور علمی و ادبی طبقے کی بھرپور سیرابی بھی ہوتی ہے۔ ان کی نظامت میں منعقد ہونے والے مشاعرے میں آپ کو تشنگی کا احساس بالکل نہیں ہوگا۔ بقول ڈی این آریہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ آج انورؔ جلال پوری کا شمار ملک کے کامیاب ترین ناظم مشاعرہ میں ہوتا ہے یہ عوام میں اتنے مقبول ہیں جتنے خواص میں‘۔‘‘
ایک دوسرے اقتباس میں مشاعروں کی نظامت کی مشکلات اور انور صاحب کی ان پر دسترس کو بڑے اچھے انداز میں بیان کرتے ہیں:
’’مشاعروں کی نظامت نہایت ہی مشکل عمل ہے ہر روز مختلف علاقہ، مختلف قسم کے سامعین، مختلف قسم کے شعراء و شاعرات اور منتظمین کمیٹی سے واسطہ پڑتا ہے ایسے میں تمام آنکھوں کو پڑھنا اور مشاعرے کو کامیابی کی منزل تک لے جانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، آج کل ہمارے مشاعروں کے حالات یہ ہیں کہ عوام کا مزاج کب اکھڑ جائے کچھ پتہ نہیں اور کس وقت کیسے حالات رونما ہوجائیں سامعین کسی تحت اللفظ شاعر کو سننے کے لئے رضامند نہ ہوں اور وہ شاعر عظیم ادبی حیثیت کا حامل ہو ایسے میں ناظم کی ایک اہم ذمہ داری بن جاتی ہے کہ سامعین کو اپنی کوششوں سے شاعر کو سننے کے لئے راضی کرے اور یہ کام وہی انجام دے سکتا ہے جس کو زبان و بیان پر پوری قدرت ہو اور عوام کا مزاج شناس ہو بقول ڈاکٹر راحتؔ اندوری، ’میں نے درجنوں مشاعروں میں انورؔ بھائی کی نظامت کا ایسا جادو چلتے دیکھا ہے کہ ان کے ایک ایک جملے نے مشاعرے میں چلنے والی ہوا کا رخ بدل دیا‘۔
انور جلال پوری ایک شہرۂ آفاق ناظم ہیں انہوں نے دنیا کے متعدد ممالک امریکا، کناڈا، انگلینڈ، پاکستان، دبئی، شارجہ، بحرین، دوحہ اور قطر وغیرہ میں مشاعروں کی نظامت کے فرائض کو بخوبی انجام دیا ہے اور دے رہے ہیں ان کا لہجہ یکتا و منفرد ہے کسی سے تمثیل نہیں دی جاسکتی بلکہ وہ اپنے لہجے کے خود خالق ہیں۔‘‘
انور صاحب ایک بلند پایہ نثرنگار تھے، اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں میں مہارت نے ان کے جملوں میں ایک خوبصورت سنگم کی تخلیق کی ہے۔
دہلی کے جناب سہیل انجم نے انور صاحب کی اس انفرادی خصوصیت کو بڑے نرالے انداز سے پیش کیا ہے:
’’انور جلال پوری کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ بھی جب کسی کا تعارف کراتے ہیں تو پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیتے ہیں۔ کسی کا سراپا بیان کرتے ہیں تو ایسا لگتاہے کہ وہ شخص ہمارے سامنے اپنے دونوں قدموں پر کھڑا ہے اور ہم اسے اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ انور جلال پوری نے اپنے پہلے مضمون میں لکھا ہے کہ ’نثرنگاری بھی ایک طرح کی وکالت ہے۔ اس میں بھی ہر دعویٰ کو دلیل کا لباس پہنانا پڑتا ہے‘۔ لہٰذا میں بھی اپنے دعوے کو دلیل کا لباس پہناتے ہوئے ان کے مضمون سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں اور مجھے امید بلکہ یقین ہے کہ جن لوگوں نے عمر قریشی کو دیکھا ہوگا وہ اس اقتباس کو پڑھ کر پکار اٹھیںگے کہ ہاں ہاں یہی عمر قریشی ہیں۔ انور جلال پوری عمر قریشی کا سراپا یوں بیان کرتے ہیں، ’’سانولا رنگ، بوٹا سا قد، ہندوستانی جمہوریت کی صدارت کی شرطوں کو پوری کرتی ہوئی عمر، آنکھوں میں خوداعتمادی کا نشہ اور پیشانی پر تہذیب و شرافت کی چمک، گفتگو میں شہد کی مٹھاس اور نشست و برخاست میں اردو تہذیب کے ماضی کے نگارخانے کی جھلک‘‘۔ یہ تو ہوا ان کا ظاہری سراپا۔ وہ عمر قریشی کی شخصیت کے دوسرے یعنی باطنی پہلو پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’یہ دوسرا رخ عمر صاحب کی شخصیت کی قدر و قیمت کا تعین کرتا ہے۔ یہ رخ افسانوں کی تہوں میں چھپی ہوئی حقیقت کے چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ رخ عمر صاحب کی چمکدار شخصیت کے سینے میں پرورش پانے والے رنج و الم، دکھ اور کرب، انتشار اور ہیجان کا نمائندہ ہے۔ یہی رخ ان کی شہرت کو استقلال اور ان کی مقبولیت کو استحکام عطا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘
انور صاحب کی نظامت کے چند نمونے لکھ رہا ہوں جو اب سننے کو ملیںگے اور نہ دیکھنے کو ملیںگے۔
ایک مشاعرہ میں حبیب ہاشمی کا اس طرح تعارف کرایا کہ لوگ جھوم اٹھے:
’’ساتھیو! رویندر ناتھ ٹیگور نے تاج محل کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ۔۔۔ تاج محل محبت کی آنکھوں سے ٹپکا ہوا وہ آنسو ہے جو وقت کے رخسار پر جم گیا ہے۔ بھائی حبیب ہاشمی کی شاعری بھی محبت کی آنکھوں سے ٹپکے ہوئے انھیں آنسوئوں کی طرح ہے جو وقت کے رخسار پر جم جایا کرتی ہیں۔۔۔۔۔‘‘
لکھنؤمیں جشن فہمینہ کے ایک مشاعرہ میں جناب معراج فیض آبادی مرحوم کے بارے میں یہ تعارفی جملے نثرنگاری کا ایک خوبصورت نمونہ ہیں:
’’حضرات! سقراط کا زہر ہلاہل ہو یا عیسیٰ مسیح کی صلیب، رام کا بن باس ہو کہ پیغمبر اسلامؐ کی ہجرت۔ غزل کے دامن میں کوئی ایسا واقعہ تاریخ کا نہیں ہے جو محفوظ نہ ہو۔ لیکن ایک ذہن اور باشعور شاعر، تاریخ پر جس کی نظر ہوتی ہے، علم کو جس نے پڑھا اور سمجھا ہے، وہ کوئی نہ کوئی گوشہ اپنی شاعری یا غزل میں نکال لیتا ہے۔ میں اس وقت جس کے تعارف کے لئے کھڑا ہوا ہوں۔ چند شعر میں سنا رہا ہوں اور آپ دیکھئے کہ ہماری شاعری میں اس نے اضافہ کیا ہے یا نہیں ؎
اپنے کعبے کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے
اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا
ایک مشاعرہ میں انور صاحب قومی یکجہتی اور ہندومسلمان اتحاد کے حوالہ سے کہتے ہیں
ہمارے ہندوں ہو یامسلمان ہندوستان ان کا عشق ہے ہندوستان ان کا پیار ہے دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں دو ندیوں کا قدرتی سنگم ہو گویا خدا نے اتحاد کو اس ملک کا مقدر کردیا ہے ۔ملن ہندوستان کا مقدر ہے ۔
نئی ممبئی کے آل انڈیا کے مشاعرہ کی نظامت کا موقع ہے حالات حاضرہ کی طرف انور بھائی خوبصورت اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک انداز فکر یہ ہے
جو ہو رہا ہے اسے دیکھتے رہو چپ چاپ
یہی سکون سے رہنے کی ایک صورت ہے
اس شعر کے بعد انور جلالپوری کہتے ہیں مگر نہیں اگر آپ ایسا کریں گے تو ضمیر آپ کو معاف کرے گا اور نہ سماج آپ کی اس ادا کو پسند کرے گا ،بلکہ آپ کو بولنا ہے ، سمجھ کے بولنا ہے ، اوریہ طے کرنا ہے کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں بولنا ہے
میں اس لیے زندہ ہوں کہ میں بول رہا ہوں
دنیا کسی گونگے کی کہانی نہیں سنتی
البتہ آپ کو یہ سمجھ کے بولنا ہوگا کہ کیا بات کب کیسے اور کہاں کرنی ہے
کون سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
ایک اور مشاعرہ میں انور جلالپوری مشاعروں کو سماج اور انسانیت کے لئے پیغام کا ایک ذریعہ قراردیتے ہوئے کہتے ہیں سچائی ،حسن اور محبت یہ تینوں باتیں اگر تلاش کرنا ہو توآپ کو خوانخاہوں میں جانا ہوگا اس وقت عالمی سطح پر ماحول یہ ہے کہ آپ اس طرح سوچیں جس طرح زمانہ سوچتا ہے ،لیکن آپ کو ایسا کرنا پڑے گا کہ آپ جس طرح سوچتے ہیں اس طرح زمانہ سوچے ۔
مشاعروں کی نظامت کی پیچیدگیوں اور اس کے معیار کے تیزرو زوال کی کسک خود انور صاحب کے قلم سے سنئے:
’’جو نفسیاتی جنگ مجھے لڑنی پڑ رہی ہے وہ جسم نہیں احساس میں تھکن پیدا کرتی ہے۔ چوتھائی صدی سے زیادہ عرصے کی مشاعروں کی زندگی میں خلوص کم اور منافقت زیادہ محسوس ہوئی۔ غیبت کا بول بالا رہا اور صاف گوئی سرجھکائے بیٹھی رہی۔ خودغرضیاں حاوی رہیں اور باہمی تعاون بھی مصلحتوں سے بھرا ہی رہا۔ گانے بجانے والوں کی پذیرائی ہوتی رہی۔ باصلاحیت اور خون دل سے شعر لکھنے والے افراد حاشیے پر نظر آئے۔ متشاعر اور ناشاعر بھی زرق برق لباسوں میں اسٹیج کی زینت بنے رہے۔ اردو سے ناواقف اور صحیح تلفظ سے نابلد مترنم خواتین کو بھی مشہور شاعرہ کہہ کر آواز دینی پڑی۔ ایک مدت سے ضمیر پر ایک ایسا بوجھ ہے جسے کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ متشاعروں اور متاشاعرات کے کلام کے مجموعے بھی چھپتے رہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان پر مستند ادیب اور معتبر نقاد اپنی مثبت رائے بھی لکھتے رہے۔ ان تمام مناظر کے چشم دید گواہ رہنے والے شخص کی زندگی کی جنگ کتنی خطرناک ہوگی آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ شاید انھیں ساری
الجھنوں کے نفسیاتی اثر نے مجھ سے یہ شعر کہلوایا ؎
ہے سر پر کچھ بھی نہیں اور تھک چکا ہے بدن
یہ کیسا بوجھ ہے جس کو اٹھا رہے ہیں ہم‘‘
7071772077