تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
تبصرہ نگار: ڈاکٹر احسان عالم
محمد امام الہدیٰ انور اپنے قلمی نام انور آفاقی سے جانے جاتے ہیں۔ موصو ف کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ وہ کتابیں ”لمسوں کی خوشبو“(شعری مجموعہ) ، ”دیرینہ خواب کی تعبیر“ (سفر نامہ کشمیر) ، ”پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سے گفتگو“ (انٹرویو)، ”نئی راہ نئی روشنی“( افسانوی مجموعہ) ، ”دوبدو“ (ادبی مکالمہ)، ”میزان فکر و فن“ (مضامین) ہیں۔ ساری کتابوں نے قارئین سے اچھی خاصی پذیرائی حاصل کی ہیں۔ انور آفاقی کی شخصیت میں جتنی دلپذیری ہے اتنی ہی ان کی تخلیق میں سائستگی اور شگفتگی ہے۔ موصوف کی اخلاق مندی ، دل میں جگہ بنا لینے والی مسکراہٹ اور عمدہ تخلیق کی وجہ سے بہت سے ناقدین ادب نے ان کی مختلف تخلیقات پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ ”انور آفاقی :آئینہ در آئینہ“ انہیں تاثرات اور مضامین کا مجموعہ ہے۔
زیر مطالعہ کتاب ”انور آفاقی :آئینہ در آئینہ“کو ان کی بیٹی ڈاکٹر عفاف امام نوری نے ترتیب دیا ہے۔ کتاب دربھنگہ ٹائمز پبلکیشنز سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب کی طباعت ، بائنڈنگ اور اس میں شامل تصاویر بہت دیدہ زیب ہے۔ کتاب کی مرتبہ ڈاکٹر عفاف امام نوری نے اپنے عرض مرتب کے طور پر تفصیل بیان کی ہے جس سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
” ابو ایک دن کسی ادبی کام میں مشغول تھے ۔ میں نے مشغولیت کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے ، ایک آنے والی کتاب کی تیاری کرنی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا میں کچھ مد د کر سکتی ہوں۔ تو انہوں نے مجھے غور سے دیکھا ۔ کچھ سوچنے لگے اور کہا کہ میری آنے والی کتاب کو کوئی اور نہیں اب تم ہی ترتیب دوگی۔ اور اس کی ذمہ داری میں تم کو آج ہی سونپتا ہوں۔ اس کی تیاری میں جو بھی مدد کی ضرورت محسوس کرو مجھ سے لے سکتی ہو۔ اس دن سے میں ان کی مطبوعہ کتابوں پر لکھے گئے مضامین کو پڑھنے لگی اور کتاب کی تیاری میں لگ گئی۔ اس کتاب ”انور آفاقی: آئینہ در آئینہ“ میں ان کے انٹرویو کے ساتھ خاندانی شجرہ بھی شامل ہے۔ امید ہے قارئین ادب پسند فرمائیں گے۔“
”انور آفاقی :آئینہ در آئینہ“میں انور آفاقی کا خاندانی شجرہ ہے جو چھ صفحات پر محیط ہے۔ اس کے بعد کتاب کی مرتبہ ڈاکٹر عفاف امام نوری نے اپنے والد محترم سے ان کی شخصیت ، ملازمت، ادبی کارنامے، خاندانی احوال اور تخلیقات سے متعلق انٹرویو لیا ہے جو 23صفحات پر مشتمل ہے۔ اس انٹرویو میںانور آفاقی کی زندگی کے مختلف گوشے نمایاں ہوجاتے ہیں۔
مرتبہ نے انور آفاقی کی مختلف تخلیقات کی بنیاد پر ناقدین ادب کی آراءکو سجانے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے انور آفاقی کے شعری مجموعہ ”لمسوں کی خوشبو“کے حوالے سے تحریر کئے گئے تاثرات ہیں۔ اس ضمن میں پہلا مضمون جاوید انور (وارانسی) کا ہے۔ موصوف انور آفاقی کی شعری جہات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
”انور آفاقی کے شعری تخیلات کا رشتہ زمین سے بہت استوار ہے۔ انہیں بخوبی احساس ہے کہ اپنی زمینی مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے محض تاثراتی اور تخیل کے پردے میں تعقلاتی اور مابعد الطبیعیات کی دنیا کو پیش نظر رکھ کر فن کا مکمل اظہار ممکن نہیں۔ فن کی پرورش دراصل ان تمام نظریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے زمینی رشتوں کے آئینے میں ہی ممکن ہے۔ زمین سے رشتہ ٹوٹ جائے تو کوئی ادب زندہ نہیں رہ سکتا۔ یا اگر اظہار کی قوت کو بہت مستحکم بنایا جائے تو پھر بھی یہ محض فنٹاسی (Fantasy)کی اعلیٰ ترین مثال کے ہی مشابہ ہوگا۔“(ص:45)
ڈاکٹر سلیم خاں ”انور آفاقی کی شاعری کا لمس“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ حسن اور سادگی کی یکجائی پر جو لوگ یقین نہیں کرتے ان کو چاہئے کہ وہ انور آفاقی کو سنیں، پڑھیں اور محسوس کریں اس لئے کہ یہ احساس کی شاعری ہے ۔ شایدیہی وجہ ہے کہ اپنے مجموعہ کلام کا نام ”لمسوں کی خوشبو“ رکھا ہے۔ خوشبو ایک غیر طبعی احساس ہے جسے نہ دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ناپا تولا جاسکتا ہے۔ خوشبو کا تعلق سونگھنے والے کی قوت شامہ سے ہے اس لحاظ سے احساس کی کمیت اور کیفیت ہر فرد کے لئے مختلف ہوتی ہے۔ انور آفاقی کی شاعری کا بھی یہی معاملہ ہے۔
ڈاکٹر مجیر احمد آزادایک معروف افسانہ نگار ہیں۔ اس کے علاوہ وہ تنقیدی و تحقیقی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ ان کے پانچ افسانوی مجموعے شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہےں۔ اپنے آس پاس اور اپنے ماحول پر ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔ وہ سماج کو اچھی حالت مےں دےکھنا چاہتے ہےں۔ غلط رسم و رواج، اندھی عقےدت، فضول خرچی جےسی باتوں پر وہ زےادہ توجہ دےتے ہےں۔ اونچ نےچ اور ذات پات کے بھےد بھاؤ کو وہ اپنے افسانوں کے ذرےعہ دور کرنا چاہتے ہےں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی ےہ ہے کہ وہ دےہی زندگی کی بالکل سچی عکاسی اپنے افسانوں مےں کرتے ہےں۔انہوں نے ”لمسوں کی خوشبو “ کے حوالے سے ایک منفرد عنوان ”کئی سورج مری آنکھوں میں جلے ہیں بابا“کے تحت لکھتے ہیں:
”محبت اور یادیں ان کے شعری اظہار کا ایک خاص وصف ہے ۔اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں تو یادوں کا ایک سلسلہ نکل پڑتا ہے ۔ان کے جذبہ¿ عشق میں پاکیزگی ہے ،ایک قسم کی معصومیت ہے اس لئے ہر سامع اور قاری خود کو اس سے وابستہ پاتا ہے۔ان کے یہاں ذات کا درد وسیع تناظر میں احوال کائنات کاقصہ بن جاتا ہے ۔ ”اپنے شہر میں“ ان کی مشہور نظم ہے۔اس کی رومان پرور فضابندی ،حسن خیال اور حسین الفاظ کی پرو کاری سے عبارت ہے۔اس نظم کو شاعر نے’ اپنی شریک حیات کی نذر ‘کیا ہے یہ بھی ان کی انفرادیت ہی کہی جائے گی کہ ان کا محبوب ان کی شریک حیات ہے ۔ یہ صالح فکر و نظر کی وہ نمائندگی ہے جس کی مثالیں کمیاب ہیں ۔“(ص:61)
خلیق الزماں نصرت انور آفاقی کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انور کے شعروں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ تو نووارد ہیں اور نہ ان کی شاعری ایسی ہے جس کے لئے حالی نے پرچم اجتہاد بلند کیا یا کلیم الدین احمد نے اسے نیم وحشی کہہ کر اس کی گردن مار دینے پر زور دیا ۔ ان کی شاعری عام فہم ہے جو بے لفظی اور معنوی الجھاؤ سے دور ہے۔
اسلم چشتی (پونے) انور آفاقی کی شاعری سے کافی متاثر نظر آتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ انور آفاقی کی غزلیہ شاعری کلاسیکل شاعری کی اعلیٰ روایتوں کا پاس رکھتی نظر آتی ہے ساتھ میں نئی لفظیات اور تراکیب کو جذب کرتے ہوئے قاری کے ذوق سخن کو محظوظ بھی کرتی ہے اور مطمئن بھی ۔ اس منزل تک پہنچنے میں شاعر انور آفاقی کی جو محبت لگی ہوگی اس کا اندازہ خلوص سے شعر کہنے والا کوئی شاعر ہی لگاسکتا ہے۔
راقم الحروف نے بھی انور آفاقی کے شعری مجموعہ ”لمسوں کی خوشبو“ پر خامہ فرسائی کی ہے۔ صحافی ، ادیب و شاعر ڈاکٹر منصور خوشتر انور آفاقی کی شاعری کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ انور آفاقی نے اپنی شاعری میں ( لمسوں کی خوشبو ) کے توسط سے جو اخلاقی اور معاشرتی سچائیاں بیان کی ہیں وہ فکر و خیال کے مختلف زاویوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان کے شعری منصب کو بھی احاطہءواقفیت میں لاتی ہیں۔انہوں نے اپنے بیشتر اشعار میں سچائی اور حقیقت بیانی کو ترجیح دی ہے جو ان کی فکر و نظر کے پاکیزہ اور صالح عناصر کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں زمانے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا خیال کرتے ہوئے اس کی فکری اصالت اور معنوی طہارت کو اردو تہذیب کا ایک ناگزیر حصہ قرار دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
کتاب ”انور آفاقی: آئینہ در آئینہ“ کے دوسرے باب ”دیرینہ خواب کی تعبیر“ کے حوالے سے کئی مشاہیر ادب نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ اس تعلق سے شمیم قاسمی (عظیم آباد) لکھتے ہیں کہ وادی¿ کشمیر کے لیے دربھنگہ سے اچانک انور آفاقی کے رخت سفر باندھنے کی مبارک ساعت کچھ یوں بھی آئی کہ ۳۲ نومبر ۷۱۰۲ءکو منصور خوشتر کی مرتب کردہ کتاب ”اردو ناول کی پیش رفت“ کے رسم اجرا کے لیے جدید افسانوی دنیا کے ممتاز فکشن نگار، اردو پرست اور نگینہ انٹرنیشنل کے مدیر اعلیٰ وحشی سعید (ساحل) کی جانب سے ایک دعوت نامہ ملا تھا۔ رونمائی میں بیک وقت ڈاکٹر انتخاب ہاشمی، انور آفاقی اور منصور خوشتر کی شمولیت سے نہ صرف دربھنگہ شہر بلکہ یوں دبستان عظیم آباد کی بھی نمائندگی ہو گئی۔
”انور آفاقی: کچھ یادیں، کچھ کتابیں“کے عنوان سے معروف ادیب و شاعر نذیر فتح پوری (پونے) نے انور آفاقی کے تعلق سے کئی یادوں کو اپنے مضمون میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”کتاب ”دیرینہ خواب کی تعبیر‘ ‘ کے عنوان سے ۸۱۰۲ءمیں شائع ہوئی تھی۔ یہ کشمیر کے سفر کی روداد ہے جو شخص فطرت پسند ہوتا ہے ، قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کی خواہش رکھتا ہے ۔ اس کی پہلی پسند یقینا کشمیر جنت نشان ہی ہوگی۔ انور آفاقی جب کشمیر کی سیر کو گئے تو ڈاکٹر منصور خوشتر اور ڈاکٹر انتخاب ہاشمی ان کے ہم سفر و ہم رکاب تھے۔ وادیوں ، جھیلوں ، جھرنوں ، پہاڑوں، برف زاروں اور آبشاروں کا سفر اگر کوئی تنہا کرتا ہے تو اسے وہ لطف نہیں ملتا جو ہم سفر اور ہم جولیوں کے ساتھ ملتا ہے۔“(ص:138)
انور آفاقی کے افسانوی مجموعہ ”نئی راہ نئی روشنی“کے حوالے سے بھی کئی مشاہیر ادب نے اپنے مضامین تخلیق کئے ہیں۔ کامران غنی صبا ایک نوجوان شاعر، ناقد اور محقق ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ انور آفاقی کی تخلیقات کا مطالعہ ہمیں ایک حساس اور پراسرار تخلیق کار سے متعارف کرواتا ہے۔ اِس وقت میرے پیش نظر ان کا افسانوی مجموعہ ”نئی راہ نئی روشنی ہے“۔ اس مجموعہ میں کل 13 افسانے شامل ہیں۔ان میں زیادہ تر افسانے المیاتی ہیں۔ان کے افسانوں میں شکستِ محبت کا غم محسوس کیا جا سکتا ہے۔سماجی بندشوں کے خلاف احتجاج کی دھیمی دھیمی لے انور آفاقی کے افسانوں میں نظر آتی ہے۔
سلیم انصاری جبل پور ”انور آفاقی کے افسانے : عصر حاضر کے تناظر میں“کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ مجھے انور آفاقی کے بارے میں یہ جان کے خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ اولاً افسانہ نگار ہیں اور انہوں نے پہلا افسانہ ۱۷۹۱ میں تخلیق کیا ، بعد میں وہ شاعری کی طرف راغب ہوئے۔ورنہ عام طور پر لوگ شاعری سے نثر کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ان کی زیرِ نظر کتاب میں ڈاکٹر احسان عالم کا ایک تفصیلی مضمون بھی شامل ہے جس میں انہوں نے انور آفاقی کے تمام افسانوں کا تجزیہ پیش کیا ہے جو اہم اور قابلِ مطالعہ ہے ۔
”پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سے گفتگو“ ایک ایسی کتاب ہے جس میں انور آفاقی نے مناظر عاشق ہرگانوی سے مختلف سوالات پر مبنی انٹرویو پیش کیا ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے معروف شاعر، ناقد ، محقق ، کالج اور یونیورسٹی کے بہترین منتظم کار پروفیسر مشتاق احمد نے ایک مضمون تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:©
”انور آفاقی کے انٹروےو سے اےک طرف ان کی شخصےت کے ظاہری پہلو سے واقفےت ہوتی ہے تو دوسری طرف ان کے ذہنی روش سے بھی آشنائی ہوتی ہے ۔ انور آفاقی کا ےہ ادبی کارنامہ قابلِ تحسےن ہے کہ انہو ںنے پروفےسر ہرگانوی جےسی بحرِ ذخّار شخصےت کو انٹروےو کی صورت ےعنی کوزے مےں درےا کو سمونے کا کارنامہ انجام دےاہے۔ ظاہر ہے کہ انٹروےو انسان کے ظاہر وباطن کا آئےنہ ہوتا ہے اور اس انٹروےو مےں فنِ انٹروےو کے اس تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔“(ص:161)
ڈاکٹر امام اعظم دو درجن کتابوں سے زیادہ کے مصنف ہیں۔ کولکاتا ریجنل سنٹر میں ریجنل ڈائرکٹر کے عہدہ پر فائز ہیں ۔ انہوں نے ”مناظر عاشق ہرگانوی سے انور آفاقی کا مصا حبہ : میری نظر میں“ کے عنوان سے ایک جامع مضمون قلمبند کیا ہے ۔ موصوف اس انٹرویو کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سے انور آفاقی کا یہ مصاحبہ تخلیقی ، تنقیدی ، صحافتی اور تدریسی مقامیت کے گہرے نقوش چھوڑتا ہے، جس میں ہمہ رنگی کی صفت ہے۔ علاوہ ازیں اس مصاحبے میں انور آفاقی نے ایک تخلیق کار اور باخبر قاری کی حیثیت سے پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کو اس طرح کریدا ہے کہ ان کی ذات، ماضی، حال اور مستقبل کے تناظر میں، ان کے خیالات ، احساسات اور تجربات ادب و فن کی سمت و رفتار کے بارے میں اور اردو زبان کی بقا و ارتقا پر اکیسویں صدی کے تناظر میں اہم نظریہ سامنے آتا ہے ، جو فکرکو مہمیز کرتا ہے اور ہماری آنکھیں کھولتا ہے۔“(ص:166)
انوارالحسن وسطوی (حاجی پور) ایک معروف ادیب ہیں۔ ان کی کئی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں ۔ موصوف انور آفاقی کی کتاب ”دوبدو“ کے حوالے سے ایک طویل مضمون میں بڑی پُرمغز باتیں اس طرح لکھتے ہیں:
””دوبدو“ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مصنف نے ہر انٹرویو کے قبل انٹرویو دہندہ کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ہے جسے پڑھ کر صاحب انٹرویو کے تعلق سے فوری طور پر ایک مثبت رائے قائم ہوتی ہے اور ذہن انٹرویو پڑھنے کے لیے پوری طرح آمادہ ہوجاتا ہے۔“(ص:168)
مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی(نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ)انور آفاقی کے انٹرویو کے مجموعہ ”دوبدو “ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انور آفاقی نے اس کتاب میں شامل نورتنوں کا ہر انٹرویو سے قبل مختصر تعارف پیش کرکے ان کی ذات و صفات اور خدمات کو سمجھنے کی راہ ہموار کردی ہے۔ جس کے پاس وقت ہو وہ پورا انٹرویو پڑھ لے۔ معلومات میں اچھا خاصا اضافہ ہوگا۔ جس کے پاس وقت کم ہو وہ مختصر تعارف پڑھ کر بھی انٹرویو دینے والوں کے درو بست کو سمجھ سکتا ہے، اس لیے میری نظر میں کتاب وقیع اور اس لائق ہے کہ ادب سے تعلق رہنے والوں کے گھروں میںمحفوظ رہے تاکہ آئندہ نسلیں بھی اس کا مطالعہ کرکے ادب کی راہ پر گامزن ہوسکیں، حقیقی ادب میں ا ن میں آئے فنی ادب تک بھی ان کی رسائی ہوسکے گی۔
سیفی سرونجی (مدیر سہ ماہی ”انتساب “ عالمی)انور آفاقی کی کتاب ”دوبدو“کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انور آفاقی محقق اور نقاد کی حیثیت سے اپنا ایک الگ منفرد مقام رکھتے ہیں۔ یوں تو ان کی بہت سی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ یعنی ”دو بدو“ ایک الگ نوعیت کی کتاب ہے ۔ حالانکہ انٹرویو پر مشتمل کتابیںمنظر عام پر آچکی ہے۔ حال ہی میں غلام نبی کمار کی کتاب مشاہر ادب سے مکالمہ شائع ہوئی ہے جو کافی پسند کی جارہی ہے۔ انٹرویو سے متعلق جب بھی کتابیں آتی ہیں ان سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ایسے نئے پہلو سامنے آتے ہیں جن سے ہم واقف نہیں ہوتے۔ انور آفاقی کی یہ کتاب صرف نو ادبی شخصیات پر مشتمل ہے ۔
انور آفاقی کی عمدہ کتاب ”میزان فکر و فن“ہے ۔ اس کتاب پر کئی ناقدین ادب نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ اس کتاب پر اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر شہنواز عالم (اسسٹنٹ پروفیسر ، ملت کالج) لکھتے ہیں کہ ”میزان فکر وفن“ میں باریک بینی سے ممتاز شاعروں، افسانہ نگاروں ، ناقدوں اور صحافیوں کی خدمات پر ایک تحقیقی رویے کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے وہ بے مثال ہے۔ میں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بہار بالخصوص متھلانچل کی ادبی سرگرمیوں نیز شعرا اور ادبا کی ادبی خدمات کی تاریخ مرتب کی جائے گی تو ا س وقت میزان فکر وفن ایک قابل اعتماد مشعل راہ ثابت ہوگی ۔ کیونکہ اس کتاب میں جو مضامین ہیں اور تبصرے شامل ہیں وہ تحقیق و شواہد کی میزان پر پرکھے گئے ہیں۔
سید محمود احمد کریمی ایک معروف مترجم اور ادیب ہیں۔ تقریباً نوّے سال کی عمر کے باوجود وہ ادبی کاموںمیں منہمک ہیں۔ انور آفاقی کی کتاب ”میزان فکر و فن“ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ان کی کتاب ”میزان فکر و فن“ ایک ادبی تحفہ ہے جو انہوں نے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں چیدہ چیدہ ادیبوں ، افسانہ نگاروں اور شاعر ان عالی مقام کے فکر و فن کا بہتر عنوان سے جائزہ لیا گیا ہے اور محققانہ انداز سے احاطہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش ، ان کی مجموعی شخصیت اور ان کے کارناموں پر جو تبصرہ تحقیقی مضمون انور آفاقی نے رقم کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ مقامی شعراء، ادیبوں اور افسانہ نگاروں میں انور آفاقی نے پروفیسر طرزی، ڈاکٹر احسان عالم، ڈاکٹر منصور خوشتر، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد ، اظہر نیر اور قیام نیر صاحبان کے فکر وفن پر بہتر عنوان سے روشنی ڈالی ہے۔ “(ص:227)
کتاب کے آخری حصے میں چند شاعر کے منظوم تاثرات شامل ہیں۔ منظوم تاثرات کے باب میں عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی انور آفاقی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
متاعِ علم و دانش، آگہی، ہیں انور آفاقی
بہارِ باغِ اُردو شاعری ہیں انور آفاقی
جو بلیا تا بہ دربھنگہ وہاں سے تا ابوظہبی
سراپا فن کا حسنِ معنوی ہیں انور آفاقی
دکھاتے ہیں تماشا فکر و فن کا آپ کچھ ایسا
غزل کو بخش دے جو مہ وَشی ہیں انور آفاقی
نذیر فتح پوری اپنے منظوم پیرائے میں کہتے ہیں:
آفاقیت ہے آپ کے فنی شعور میں
لفظ و بیاں پہ آپ کو حاصل ہے دسترس
مغرور واہ واہی پہ ہوتے نہیں کبھی
تعبیر ڈھونڈتے ہیں یہ دیرینہ خواب کی
رفیق انجم (مرحوم) لکھتے ہیں:
بزم میں تشریف فرما انور آفاقی بھی ہیں
شہر دربھنگہ کے جو اک در لاثانی بھی ہیں
چومتی ہے اب قدم ان کے دبئی کی سرزمیں
شاعر رنگیں نوا ہیں فخر دانائی بھی ہیں
المختصر یہ کہ ڈاکٹر عفاف امام نوری کی مرتب کردہ کتاب ”انور آفاقی:آئینہ در آئینہ“ انور آفاقی کی شخصیت اور ان کی تخلیقات سے قارئین اور ناقدین ادب کو روبرو کراتی ہے۔ کتاب کی اشاعت کے لئے مرتبہ عفاف امام نوری اور انور آفاقی کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اپنے تین اشعار کے ساتھ اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں:
اُن کے فن کو خوشبونے لمسوں کی بخشا ہے کمال
اس لئے تو اہلِ فن کرتے ہیں ان کا احترام
اطلسی و ریشمی جیسے ردا محبوب کی
ہر غزل رنگیں قبائے یار جیسی لاکلام
پاس ہے اُن کو روایت کا سخن میں کچھ اگر
تو وہیں فن میں ہے عصری حسّیت کا التزام
(احسان عالم)