جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس جمعرات کو پستول سے فائرنگ کرنے والے لڑکے کو اپنی اس کرتوت پر کوئی افسوس نہیں ہے ۔ نیوز ایجنسی اے این آئی کے مطابق ملزم نے پولیس کی پوچھ گچھ میں اب تک کسی بھی تنظیم سے وابستہ ہونے کی بات کا اعتراف نہیں کیا ہے ۔
دہلی پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم سوشل میڈیا پر ویڈیو دیکھنے کے بعد شدت پسند بنا ۔ ذرائع کے مطابق لڑکا جنوری 2018 میں اترپردیش کے کاس گنج میں چندن گپتا کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا تھا ۔ یہ بھی جانکاری مل رہی ہے کہ دہلی پولیس کی کرائم بانچ اس لڑکے کو جمعہ کو جسٹس جووینائل بورڈ کے سامنے پیش کرے گی ۔
دہلی پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مجھے اپنے فعل پر کوئی افسوس نہیں ہے ، خواہ میرا انکاونٹر کردو ۔
پولیس ذرائع کے مطابق ملزم نے پوچھ گچھ میں بتایا کہ وہ دہلی تنہا آیا تھا ، جس کے بعد وہ جمعرات کی دوپہر تقریبا 11 بجے جامعہ پہنچا تھا ۔ پولیس ذرائع کے مطابق جامعہ میں فائرنگ کے دوران استعمال کی گئی بندوق کو اس نے بدھ کو ہی اپنے گاوں کے کسی شخص کی مدد سے حاصل کیا تھا ۔
ادھر ذرائع کے مطابق گولی لگنے سے زخمی شاداب نے پولیس کو اپنا بیان دینے سے انکار کردیا ہے ۔ اس نے اپنی طبیعت خراب ہونے کی بات کہتے ہوئے منع کردیا ہے ۔ پولیس کے سامنے ملزم نے یہ بھی اعتراف کیا کہ کشمیری پنڈتوں پر ہوئے ظلم ، کاس گنج تشدد سے وہ غمزدہ تھا ، اس لئے اس کو اپنی اس حرکت پر کوئی افسوس نہیں ہے ۔
قابل ذکر ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ جمعرات کو وہاں سے راج گھاٹ تک مارچ کرنا چاہتے تھے ۔ اسی دوران وہاں طلبہ کی جمع بھیڑ پر ایک لڑکے نے دیسی طمنچہ سے فائرنگ کردی تھی ۔ اس واقعہ میں جامعہ کا ایک طالب علم زخمی ہوگیا ۔
غورطلب بات یہ ہے میڈیا کے کچھ لوگ ملزم کا بچائو نابالغ کہہ کر کرنا چاہتے ہیں، یہ اپنے ملک اپنے پیشے کے خلاف غدداری ہے، کیونکہ اگر فائرنگ کرنا والا شخص مسلم ہوتا تو اس پر نا جانے اب تک کتنے الزامات تھوپے جا چکے ہوتے کیونکہ ہندوتو کا نارا دینے والے اس ملزم کا بچائو کرنا افسوسناک ہے۔
Also read