قرآن کی پہلی آیت تعلیم کے تعلق سے نازل ہوئی تھی۔لیکن بعد کے لوگوں نے اس “اقرا” کو دو حصون میں منقسم کر دیا اور ایک حصہ کا نام دینی تعلیم اور دوسرے کا نام دنیوی تعلیم رکھ دیا ۔اس تقسیم کا نقصان اور خمیازہ بھی اب پوری طرح سامنے آ چکا ہے لیکن ہوش کے ناخن نہیں لئے گئےاور یہ بھرم اتنا پھیلایا گیاکہ اب اس بات کو لگ بھگ تسلیم کر لیا گیا کہ تعلیم دو طرح کی ہوتی ہے۔اور اس طرح دی نی اور دنیوی تعلیم کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوتی چلی گئی جس کا پر ہونا فی زمانہ ناممکن نظر آنے لگا۔لیکن جمعیۃ علمائے ہند نے دینی و عصری تعلیم کے درمیان خلیج کو پرکرنےکی پہل کرتے ہوئے اکابر علمائے دین اور مدارس کے ذمہ داروں کی ہم آہنگی سے ’جمعیۃ اوپن اسکول‘ قائم کیا ہے جواین آئی او ایس کے تحت طلبہ کو دسویں کی تعلیم اور امتحان دلائے گا۔ اس کے تحت آئندہ پانچ برسوں میں پچاس ہزار طلبہ کو دسویں پاس کرنے کا پروجیکٹ ہے۔
اس تحریک کے روح رواں وڈائریکٹر مولانا محمود مدنی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ ہمارے اکابر نے سرکاری مدرسہ بورڈ کی مخالفت کی تھی، وقت نے یہ ثابت کردیا کہ انھوں نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا، وہ حرف بحرف ثابت درست ہو رہے ہیں۔مولانا مدنی نے اس سلسلے میں آسام سرکار کے حالیہ رویہ کو بطور مثال پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں دینی مدارس میں سرکاری مداخلت منظور نہیں ہے، ہم نے آج عصری تعلیم کے لیے اپنی را ہ منتخب کی ہے،اس سے ہماری ضرورت بھی پوری ہورہی ہے اور مدار س کے معمولات میں ذرہ بھی مداخلت نہیں ہے۔مولانا مدنی نے کہاکہ آج کے بدلتے حالات میں ہمیں معلم کے ساتھ ایک اچھے مبلغ کی ضرورت ہے، ہرسال ہزاروں مسلم نوجوان مختلف اسلامی مراکزعلم سے فارغ ہو تے ہیں جہاں وہ روایتی اسلامی علوم میں گہرا شعور بھی حاصل کرتے ہیں تاہم وہ عصر حاضر کی سیکولر تعلیم سے نابلدی یا مرکزی دھارے میں شامل علوم سے ناواقفیت کی وجہ سے اپنے سماج میں کلیدی کردار ادا کرنے سے قاصر ہو تے ہیں۔ اس لیے یہ ہمارا ہدف ہے کہ جمعیۃ اوپن اسکول کے ذریعہ معیاری تعلیم فراہم کی جائے تاکہ طلبہ عصری علوم کے میدان میں بھی ترقی کرسکیں۔مولانا مدنی نے مدارس کے ذمہ داروں کو متوجہ کیا کہ آپ لوگوں نے اسے کرنے کو ٹھانا ہے تو امید ہے کہ اس کا رزلٹ بھی اچھا ہو گا، انھوں نے کہا مدارس میں کافی زمانے سے عصری تعلیم چل رہی ہے، بہت سارے مدارس میں پرائمری اسکول کا نظام ہے، جمعیۃ علماء ہند نے اس سلسلے میں ستر کی دہائی میں ایک تجویز منظور کی تھی کہ مدارس کے ساتھ عصری تعلیم کا ادارہ بھی چلایا جائے، اس پر عمل بھی ہوا اور کئی مدارس میں یہ نظام بخوبی چلایا جارہا ہے۔
این آئی او ایس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شعیب رضا خاں نے جمعیۃ علماء ہند اور ارباب مدارس کے اس مشترکہ اقدام کو پاتھ بریکنگ قرار دیا اور کہا کہ این آئی اوایس اس تحریک میں ہر طرح کے تعاون دینے کو تیار ہے۔ان کے علاوہ مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر پروفیسر اخترالواسع، کمال فاروقی (یہ دونوں حضرات جمعیۃ اوپن اسکول کے مرکزی تعلیمی کونسل کے رکن بھی ہیں) اکرام رضوی، جناب ایم اے خاں، جناب مجتبی فاروق، ایڈوکیٹ ایم آرشمشادنے خصوصی خطاب کیا۔جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری اور اس تحریک کی مرکزی شخصیت مولانا نیاز احمد فاروقی نے استقبال کرتے ہوئے کہا کہ اب تک ایک سو مدارس کو منتخب کیا ہے، جس میں دو ہزار طلبہ عصری تعلیم سے ا ستفادہ کریں گے۔ اسی کے تحت کل سے پونہ کے اعظم کیمپس میں ان مدارس کے کو آرڈینیٹر س اور مدرسہ ٹیچروں کے لیے 20 روزہ تربیتی کیمپ شروع ہونے جارہا ہے۔
جمعیۃ کی پیش قدمی یقینا لائق مبارکباد او قابل ستائش ہے۔اگر ملت کے سر کردہ افراد نے اس تحریک کا ساتھ دیا تو یقینا ملت میں ایسے تعلیم یافتہ افراد تیزی سے پیدا ہوں گے شریعت اسلامیہ جن کی متقاضی ہے اور جن سے ہنددوستانی معاشرے بالخصوص مسلم معاشرے مین ایک مثبت تبدیلی آئے گی۔
ضضضض
Also read