ایرانی جنرل کی ہلاکت پر امریکا میں بھی ملک گیر احتجاج

0
188
People hold signs outside the Texas state capitol in Austin, Texas on Saturday, Jan. 4, 2020 to protest the possibility of a new war in the Middle East. Hundreds came to protest after a U.S. airstrike in Iraq killed Iranian Gen. Qassem Soleimani on Jan. 3, 2020, causing more tension among the United States and Iran. (Ana Ramirez/Austin American-Statesman via AP)

ٹرمپ انتظامیہ کے مشرق وسطیٰ میں ہزاروں افواج کے بھیجنے سمیت ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کے اقدام کے خلاف امریکا بھر میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے جنگ مخالف تنظیم ‘کوڈ پنک’ اور ‘ایکٹ ناؤ ٹو اسٹاپ وار’ اور ‘اینڈ ریسزم’ سمیت دیگر گروہوں نے مل کر 70 سے زائد احتجاج منعقد کیے۔

ٹامپا سے فلاڈلفیا اور سان فرانسسکو سے نیو یارک تک پلے کارڈز اٹھائے مظاہرین نے جنگ مخالف نعرے بازی کی۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل بغداد کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے نزدیک فضائی حملے کی اجازت دی تھی جس میں ایران کے ایلیٹ قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے۔

ایران نے جوابی کارروائی کی امریکا کو دھمکی دی ہے جس کی وجہ سے جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ ایران کا رد عمل کب اور کیسے سامنے آئے گا۔

مظاہروں کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتطامیہ نے قاسم سلیمانی کا قتل کرکے جنگ کا آغاز کردیا ہے۔

میامی میں 50 سے زائد مظاہرین اکٹھا ہوئے اور ‘نو مور ڈرون مرڈرز’ (ڈرون سے قتل مزید نہیں)، ‘وی وانٹ پیس ناؤ (ہمیں فوری امن چاہیے)، ‘واٹ ڈو وی وانٹ؟ پیس ان ایران’ (ہم کیا چاہتے؟ ایران میں امن) کے نعرے لگائے۔

نیو یارک کے ٹائمز اسکوائر پر بھی کئی مظاہرین جمع ہوئے اور ‘نو جسٹس، نو پیس، یو ایس آؤٹ آف دی مڈل ایسٹ!’ (نہ انصاف، نہ امن، امریکا مشرق وسطیٰ سے باہر نکلو) کے نعرے لگائے۔

مظاہرے میں شامل 72 سالہ رسل برانکا کا کہنا تھا کہ ‘امریکا عراق کو پروکسی جنگ کے لیے استعمال کر رہا ہے، اگر امریکا اور ایران جنگ کرنے لگے ہیں تو یہ امریکا میں یا ایران میں نہیں بلکہ دیگر مقامات پر ہوگی اور یہ پاگل پن ہے کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے’۔

ایک اور 47 سالہ شخص آبے کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں عراق سے باہر آنا چاہیے نہ کہ وہاں مزید ہزاروں فوج بھیجیں، ہمیں ایران کے ساتھ مسئلے کو حل کرنا چاہیے نہ کہ اس پر مزید تیل ڈالنا چاہیے’۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here