ڈاکٹر مجدّدی مصطفی ضیفؔ
شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا شمار بیسویں صد ی کے اُن مفکر شعرا میں ہو تا ہے، جنہوں نے مشرق اورمغرب دونوں کو متاثر کیا، اور اس تاثر کی سب سے بڑ ی وجہ ان کی تخلیقات میں خلق کیا گیا انسانی غم خواری کا شدید جذبہ اور ہر مذہب وملت کے تئیں ان کا غیر معتصبانہ رویہ ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبالؔ سچے اور پکے مسلمان تھے ،اور انہوں نے اپنی تخلیقات میںاسلامی ثقافت اور تہذیب کے بہتر ین واقعے پیش کئے ہیں۔ اقبالؔ اپنے مذہب کے تئیں جتنے پختہ عقا ٰ ئد ر کھتے تھے اتنی ہی پختگی سے دوسرے مذاہب اور ان کے پیروکارو ں اور ان مذاہب سے وا بستہ مذہبی رہنمائو ں کا صدق دلی سے احترام بھی کرتے تھے،درحقیقت اقبال ؔ ہر مذہب و ملت، لسان وبرادری، علاقے اور ملک کا شاعرہے یعنی وہ سب کا شاعر ہے ۔ اور اس کا پیغام سب کے لئے ہے اور ان کے کلام میں مشرق ومغرب، جنوب وشمال،صوفی وبرہمن اور آذری وبراہیمی کا کوئی امتیاز نہیںاور اس کی متعدد مثا لیں کلا م اقبال ؔمیں ــ’’بانگ درا‘‘سے لے کر ’’ارمغان حجاز‘‘ تک دیکھی جا سکتی ہیں۔ان کے اردو کلام کے پہلے مجموعے میں ’’آفتاب‘‘ کے عنوان سے جو نظم درج ہے وہ گایتری یعنی رگ وید کی ایک قدیم دعا کا ترجمہ ہے ۔اسی طرح ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ امریکہ کے مشہور شاعر اور فلسفی آر۔ڈبلیو ایمر سن کے کلام سے اخذ کی گئی ہے۔’’بانگ درا‘‘میں انہوں نے مرزا غالبؔ،حالیؔ،شبلیؔ،عرفیؔ اور انگلستان کے سب سے بڑے ڈ رامہ نگار شیکسپئیر پر بھی نظمیں لکھی ہیں،اسی طرح ’’نیاشوالہ‘‘ ،ـ’’ہندوستانی بچوں کا گیت‘‘ ، ’’ترانہ ہندی‘‘، ’’نا نک‘‘، ’’سوامی رام تیرتھ‘‘ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جو اس بات کی تردید کرتی ہیں کہ اقبال فر قہ پرست تھے یا انہوں نے اپنی تخلیقات میں صرف ملت اسلا میہ سے ہی خطاب کیا ہے حد تو یہ ہے کہ نظم’’رام‘‘ میں انہوں نے رام چندر جی کو نہ صرف ہندوستان کا پیشوا قرا ر دیا ہے ،بلکہ وہ انہیں ہدایت ورہنمائی کاچراغ نہا یت ہی پا کیزہ ہستی اور محب انسان سمجھتے ہیں ۔جس پر ہندوستان کو ناز ہے اسی طرح انہوں نے سکھ دھرم کے بانی گرو’’ بابا نا نک‘‘ کے متعلق نظم’’نا نک‘‘میں انہیں مرد کامل اور توحید کا مبلغ قرار دیا،صرف اتناہی نہیں بلکہ گو تم بدھ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر تے ہوئے گو تم بدھ کو حسنِ خلق فکروعمل،حسنِ خیال اور مساوات کا معلم کہا۔
علامہ اقبالؒ اسلام کے علاوہ دنیا کے تمام مذاہب کا احترام فراخ دلی سے کر تے تھے۔اس معا ملے میں وہ کسی طرح کے حسد یا تعصب سے کام نہیں لیتے تھے ۔اس بات کو عالمی سطح پر بھی ان کے قارئین اور ناقدین نے تسلیم کیا ہے۔میری دانست میں اقبالؔ سچا مسلمان تھا مگر وہ کسی قسم کی مذہبی انتہا پسندی کی روایت کا پر ستار نہ تھا، مذہبی انتہا پسندی کی پرانی یا فر سودہ روایت او ردوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے نفرت کی کسی طرح کی کو ئی بھی مثال ان کے سوانح کوائف یا کلام سے نہیں ملتی۔ علامہ اقبالؒکی اردو شاعری کے دوسرے مجموعے’’ بال جبریل‘‘کی اشا عت’’اسرار خودی‘‘ اور’’رموزبے خودی‘‘جنہیں اقبالؔکے پیغام یا تعلیم میں بنیا دی حیثیت حاصل ہے کے بعد ہوئی ۔ میرے خیال میں یہ کتاب کاروانِ انسا نیت کے نئے آ فتاب کی نمود کا پیغام دیتی ہے،نیز اس میں اقبالؔ کی تعلیم کے سر چشمے زیا د ہ واضع اور روشن نظرآتے ہیں۔اس سب سے میری مراد یہ ہے کہ زندگی اور فکرو فن کا وہ آفاقی زاویہ نگاہ جس میں احترام آدمیت اور وسیع النظری کارفرما ہے اور اِس کا تخلیقی اظہار اس میں بھی بہ درجہ اُتم ملتا ہے،ثبوت میں ’’برتری ہری ‘‘کے ایک شلوک سے یہ شعر پیش کیا جا سکتا ہے جس سے اقبالؔ نے’’ بال جبریل‘‘ کا آغاز کیا ہے ؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ نا داں پہ کلام نرم ونازک بے ا ثر
قدیم سنسکرت شاعر بر تری ہری کے احترام کی حد ان کے یہاں یہ ہے کہ جاوید نامہ کی نظم ــ’’آں سو ئے فلک‘‘میں جوں ہی اقبالؔ اور مولا نا رومی ؒؔکے سا منے بر تری ہری آتے ہیںتو احترا ماََ دونوں کھڑے ہو جا تے ہیں۔بقول اقبالؔ ؎
ما بہ تعظیم ہنر بر خاستم
باز بازے صحبتے اراستم
’’بال جبر یل ‘‘ میں انہوں نے لینن، مسو لینی اور نیپو لین کی صورت میں جو مثا لی شخصیا ت لی ہیں وہ بھی قابل مطالعہ ہیں۔نظم نیپو لین میں فراں سیسی باد شاہ (جو ایک غیر معرو ف اور بے وسیلہ یتیم تھا) اُس کی مخصوص خصوصیت جوش عمل سے متا ثر ہو کر عالم انسا نیت کو عمل کا درس دیا ہے۔اقبالؔ فر ما تے ہیں ؎
جوش کردار سے شمشیر سکندر کا طلوع
کوہ الوند ہوا جس کی حرارت سے گداز
جوش کردار سے تیمور کا سیل ہمہ گیر
سیل کے سا منے کی شے ہے نشیب اور فراز
صف جنگاہ میں مردا ن خدا کی تکبیر
جوش کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز!
اور نظم’’ مسولینی‘‘میں وہ مسولینی کو مثلِ شعاع آفتاب کرار دیتے ہوے کچھ اس طرح کے خیا لات کا اظہار کر تے ہیں:
ندرت فکروعمل کیا شے ہے؟ ذوق انقلاب!
ندرت فکروعمل کیا شے ہے ؟ ملت کا شباب!
ندرت فکرو عمل سے معجزات زندگی
ند رت فکروعمل سے سنگ خارہ لعل و ناب!
فیض یہ کس کی نظر کا ہے ؟کرا مت کس کی ہے؟
وہ کہ ہے جس کی نگہ مثل شعاع آفتاب؟
اس طرح اقبالؔ نے اسلا می مفکر ہونے کے با وجود غیر مسلم فلسفیوں اور دانشوروں کا ذکر اپنے کلام میں کمال احترام سے کیا ہے اور اس ذکر میں انہوں نے خود کو مشرق و مغرب کے امتیا زات سے با لا تر رکھاہے۔در حقیقت کلام اقبالؔ میں یہ معجزاتی کشادہ نظری اور وسیع المشربیقرآن حکیم کے و سیع وعمیق مطا لعہ کی بدو لت پیدا ہو ئی۔کتاب حکمت کے طالعہ کی بدولت اُ نہیں جہاں،جس شخص یا فلسفے میں کوئی بھی خوبی نظر آئی اُسے انہوں نے نسل انسا نی کی مشتر کہ ورا ثت سمجھ کر اپنا لیا۔ان کا مخصوص اندا زِ فکر یہ ہے کہ وہ ایک طرف تمام تر مشرق و مغرب کے فکر وفلسفے سے استفا دہ حا صل کر نے کی کو شش کرتے ہیں اور دو سری طرف قرآنی آیات کی بصیرتوںکی رو شنی میں اس کی تصحیح وتکمیل کر تے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کے مطالعے سے فکر کے نئے نئے راستے کھلتے ہیں،مزید یہ کہ انہوں نے علمائے یونان وروم،عرب وعجم اور یورپ وامریکہ کے قدیم جدید نظریات،انکشا فات اور ایجادات کا احاطہ کر نے کے بعد انہیں قر آن کے اصول ودانش کی کسو ٹی پر پرکھ کر فکر انسا نی کے مسلسل ارتقاء کی دا ستان نہا یت ہی بصیرت افروز انداز میں مرتب کی ہے۔
علامہ اقبالؒ کے خیا لات کی بنیاد تا ریخ وتہذیب کا یہ اسلا می نظریہ بھی ہے کہ ہر نئی تہذیب پرانی تہذیب کی تہوں پر اپنی بنیا دیں استوار کر تی اور عمارت کھڑی کر تی ہے۔اسی واسطے آنحضرت ﷺسے قبل جو انبیاؑء آئے قرآن کریم میں ان کے ذکرکے ساتھ ساتھ ا ن سب کی حقانیت کو ما ننے پر زور دیا گیا ہے۔اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تواقبالؔ کی پیدائش ایک ایسے ملک میں ہوئی تھی جس کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی دا ستان ہزاروں سالوں پر محیط ہے اور ادب چاہے وہ نظم کی صورت میں ہو یا نثر کی ہیت میںا پنی مخصوص تہذیب و ثقافت کی پیدا وار اور اس کا آئینہ دار ہو تاہے،یہی وجہ ہے کہ بحثیت مسلمان اقبال ؔنے نہ صرف آنحضرتؐسے قبل آنے والے انبیاؑء کی حقانیت کو تسلیم کیا بلکہ رام،کشن،نانک اورحضرت عیسیٰ ؑوغیرہ کے تعلق سے ان کی نظمیں اسی اسلامی یا قرآنی نظریے کی دلیل ہیں۔
اقبالؔ ہر اس شخص یا نظریے سے استفادہ کر تے ہیں جس میں انہیں احترام آدمیت یا عظمت آدمیت نظر آتی ہے ۔پھر چاہے وہ برتری ہری ہو یا وشو مترا،قرۃالعین طاہرہ ہو یا گو تم بدھ،جمال الدین ا فغانی ہو یامار کس و لینن،مولانا روم ؒ ہو یا گرو نا نک ، در حقیقت علامہؒ کو ان سب کے کردار وگفتار میں جوش و عمل کی روح نظر آتی ہے ۔ا س سے معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے اور پرائے سب کی تعظیم کے لئے یکساں معیار رکھا ہے،یہی وجہ ہے کہ جعفر صادق کو انہوں نے آگ و خون کے ایک بھیا نک حوض میں تڑپتے دیکھا جب کہ’’ جاوید نامہ‘‘کی نظم’’ سیرافلا ک‘‘ میںجب پیر رومیؒ ان کی ملا قات وشو متر اسے کرا تے ہیں تو اقبالؔ ان کے لئے عارف ہندی اورجہاں دوست کے الفاظ کا استعمال کر تے ہیں۔ اسی طرح علامہ اقبال عالمی فکروفن اور حکمت و ادب کی ترجمانی کر تے ہوئے جہاں معروف فلسفی نطشے جرمن شاعر گوئٹے اور مر زا غالبؔ کاذکر کرتے ہیں وہیں قوت وہمت کو زندگی کا اصل سامان قرار دیتے ہوئے اپنے مجموعہ کلام ’’بال جبریل ‘‘ میںعربی کے مشہور شاعر احمد بن عبداللہ بن سلمان (ابوالعلامعری )جو چھ یا سات سال کی عمر میںچیچک کے سبب بینائی کھو بیٹھا تھا اُن کاذکر بھی کرتے ہیں صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ عالمگیر فکرو دانش کی نمائندگی کرتے ہوے جہاں ’’بانگ درا‘‘ کی نظم ’’ التجائے مسافر‘‘میںحضرت نظام الدین اولیا دہلویؒ کا ذکرکر تے ہوئے فر ماتے ہیںکہ :
فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا
بڑی جناب تری فیض عام ہے تیرا
تیری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی
مسیح ؑ و خضر ؑ سے اونچا مقام ہے تیرا
اسی طرح دین اسلام میں دوسرے ہزارئیے کے مجدّدحضرت شیخ احمد سر ہندیؒ کی اسلامی فکر پر نظم ’’پنجاب کے پیر زادوں سے ‘‘میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوے فر ماتے ہیں : ؎
حاضر ہوا میں شیخ مجدّد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذرّوںسے ہیں شر مندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہاں گیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار
یا ایک دوسری جگہ مجدّد الف ثانی ؒ کے متعلق فر ماتے ہیں : ؎
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے تیرا فیض عام ہو ساقی
( بال جبریل)
اقبال کے کلام کی یہی وہ عظیم خصو صیت ہے جس نے ان کی شا عرا نہ کشش کو عا لم گیر بنا دیا،یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی دانشورا کٹھے ہوں گے خواہ وہ ہندو پاک ہو یا چین،روس،ایران،جرمنی یا براعظم یورپ وامریکہ کے کسی بھی ملک کی کوئی بھی یونی ورسٹی، یہودی ومسیحی طلباء کا اجتماع ہو یا ہندو مسلم طلباء کی انجمن یا بدھ مت اور سکھ مت کے پرستا روں کی محفل ہر جگہ احیائے ملت کے داعی علا مہ اقبالؒ کے کلام،پیغام اور فکر وفلسفے کو غور سے سنا، پڑھا اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جا ئے گامگر تاسف کی بات یہ ہے کہ اقبالؔ کو عہد حاضر کے چند کم فہم اور نا تجربہ کار ناقدین نے د نیا کا سب سے مظلوم شاعر بنا دیا ہے،مظلوم ان معنوں میں کہ اقبالؔ صرف اسلا می شاعرہے اور اس نے اپنی شاعری یا پیغا م کی طرف صرف ملّت اسلا میہ کو ہی مدعو کیا ہے۔میری نظر میں اس طر ح کے بیا نات صر ف ادبی بد دیا نتی ہی نہیں بلکہ کم علمی، کم نظر ی اور تنگ دلی کا کھلا ثبوت بھی ہیں ۔مثلََا والمیکی، تلسی داس،سور داس، رس خان اور میرا بھائی کی شا عری میں رام بھگتی اور کر شن بھگتی کے علاوہ اور کچھ نہیں لیکن برصغیر یا دنیا کے کسی بھی فنکار نے آج تک یہ نہیں کہا کہ یہ محض ہندو شعرا ء ہیں یا ان لوگوں نے اپنے کلام میں صرف اور صرف سنا تن دھرم کے پیرو کاروں سے ہی خطاب کیا ہے ان بیا نات کی روشنی میں ایسا کہنا یا ماننا کہ اقبالؔ صرف مسلما نوں کے شاعرہیں بے معنی ،فضول اور من گھڑت بیان کے سوااور کچھ بھی نہیں ، بلکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کالب ولہجہ آفاقی اوران کا پیغام ہرمذہب و ملّت کے لو گوں کے لئے ہے ۔
یہاں قارئین کا یہ مغالطہ دور کر نا بھی ضروری ہے کہ اقبال نے اپنے کلام میں مشرق و مغرب یا عالمی سطح کے جن مفکر ین کا ذکر کیا ہے۔ وہ ان کے ہر نظرئیے کے معتقد تھے بلکہ جو لوگ ان کے نقطہ نظر کے قریب دکھائی دیتے ہیں انہیں سراہا اور جہاں کہیں ان کا خیال اقبال کی فکر سے ٹکرایا ،انہیں وہاں سخت تنقید کا نشانہ بنایا مثلاً ابن عربی،حافظ شیرازیؒ،مولانا حسین احمد مدنیؒ ، شنکر اچاریہ وغیرہ سے ان کے اختلافات کی وجہ یہی تھی کہ وہ ان کے تصورات کو انسان کے حق میں مہلک سمجھتے تھے جبکہ ہیگل،بر گساں،ٹیبو سلطان،خوشحال خان خٹک وغیرہ کو سرا ہا کیونکہ وہ اقبال کو نہ صرف اپنے ہم خیال نظر آتے ہیں بلکہ ان کا فکر و فلسفہ فکر اقبال کے لئے نقشہ راہ مرتب کر تا ہے۔ در حقیقت عالمی شہرت کے مالک تما م دانشوروں نے اپنے اپنے لوگوں ہی کواپنا حقیقی مخاطب بنایا ہے مگر اس کے باوجود بھی ان کا کلام آفاقی اہمیت کا حامل ہے ٹھیک اسی طرح اقبال بھی کسی خاص بر اعظم ،علاقے لسان یا ملت کا شاعر نہیں اور ان کا پیغام اور لب ولہجہ ہمہ گیر اور آفاقی ہے۔ ( ختم شُد)
سرینگر کشمیر،+919541060802