اللہ میاں کا کارخانہ: ایک بڑا ناول

0
944

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


محمد علیم اسماعیل

آج بہت سے ناول لکھے جارہے ہیں۔ ان میں ایک ناول ’اللہ میاں کا کارخانہ‘ بھی ہے جو ان ڈھیر سارے ناولوں میں موتی کی طرح چمک رہا ہے۔ اس ناول کے مصنف محسن خان ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے ایک سے زائد ایڈیشن شائع ہوئے۔ ہندوستان کے ساتھ ساتھ یہ ناول پاکستان سے بھی بڑے اہتمام سے شائع ہوا۔

’اللہ میاں کا کارخانہ‘ بلاشبہ ایک بڑا، کامیاب اور مکمل ناول ہے۔ وہ کون سے اجزاء ہیں جو اس ناول کو بڑا بناتے ہیں۔
جانا پہچانا ماحول
عام فہم زبان
خود کلامی کا انداز
سادہ بیانیہ اسلوب
آپ بیتی کا انداز
حقیقی منظر نگاری
غیر محسوس طریقے سے پیدا ہونے والی ہمدردی

یہ بھی پڑھیں

ڈھائی دن کی حکومت

جب قاری اس ناول کو پڑھ رہا ہوتا ہے تو وہ خود بھی اس کا ایک کردار بن جاتا ہے۔ جبران کے روپ میں اسے اپنا بچپن یاد آنے لگتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ قاری جبران کے جسم میں پرویش کر لیتا ہے۔ جبران کی صورت میں وہ اپنے بچپن کے دنوں میں چلا جاتا ہے اور اپنے بچپن کے واقعات کو ناول کے واقعات سے موازنہ کرتا ہے اور وہ پاتا ہے کہ یہ تو اس کی خود کی کہانی ہے یا اس طرح کی کہانی اس نے ابھی ابھی اپنے آس پاس کہیں دیکھی ہے۔

اس ناول کے کچھ واقعات میں نے اپنے بیٹے حسّان کو سنائے، اور وہی واقعات سنائے جو اس سے کچھ حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔

مثلاً: جبران کا روزانہ مدرسہ جانا۔ سبق یاد کرنا۔ حافی جی کو سبق سنانا۔ سبق یاد نہ ہونے پر جبران کو سزا ملنا۔ مرغی کے بچے پالنا۔ مرغی کے ایک بچے کو بلی کا لے کر چلے جانا۔ بکری پالنا۔ مدرسہ نہ جانے کے لیے بہانے تلاش کرنا۔ روپے اکٹھا کر کے پتنگ اور مانجھا خرید لانا۔ پھر بڑے شوق سے پتنگ اڑانا۔ پتنگ پھٹ جائے یا کٹ جائے تو مایوس ہو جانا۔ بڑے شوق سے تماشہ دیکھنے جانا۔ بیچ کی مانگ نکال کر بال جمانا۔

یہ سب سن کر میرے لڑکے نے کہا:
’’ارے… کس نے لکھی میری کہانی!!!‘‘

یہ ایک جملہ اپنے دس سال کے لڑکے سے سننے کے بعد میں ششدر رہ گیا اور میں سوچنے لگا… کیا یہی ہے کسی ناول کو ناپنے کا پیمانہ؟؟

بچپن کی یادیں انسان کا نہ فراموش کردہ سرمایہ ہوتا ہے اور یہی وہ سرمایہ ہوتا ہے جو انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ میں نے بھی بچپن میں پتنگ اڑائی ہے۔ ہمارے گھر میں بھی مرغی اور اس کے بچے ہوا کرتے تھے۔ جب مرغی کے بچے مر جاتے تو میں بھی جبران کی طرح انھیں زمین میں گاڑ دیتا تھا۔ بڑے شوق سے تماشہ دیکھنے جاتا تھا۔ سبق یاد نہ ہونے پر عربی مدرسے کے استاد سے مار بھی کھاتا تھا۔ ماں چولہے پر روٹیاں پکاتی تھیں۔ ہمارے گھر میں میں بھی ایک پٹری تھی، جسے ہم تختہ کہتے تھے۔ جس پر بیٹھ کر اماں گھر کے کام کرتی تھیں۔ لیکن وہ پٹری سیدھی تھی جبران کی اماں کی پٹری کی طرح ٹیڑھی نہیں تھی۔ اس پر بیٹھ کر مجھے بھی بہت مزہ آتا تھا۔ بچپن میں رمضان کے دن بہت اچھے لگتے تھے۔ گھر کے سبھی افراد کے ساتھ سحری اور افطاری کرنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ ان دنوں مسجد میں، میں بھی چھوٹی موٹی شرارتیں کیا کرتا تھا۔

اور کیا کہیں اس کے متعلق کہ اس ناول نے بچپن کی یاد دلادئی ہے اور بچپن کی سیر کرا دی ہے۔ وہ بچپن جسے ہم زندگی کی بھاگ دوڑ میں کہیں فراموش کر بیٹھے تھے، پھر سے یاد آ گیا ہے۔ اس ناول میں بچپن یاد آتا ہے یہ اچھی بات ہے لیکن جبران کا دکھ اور اس کا درد بھی ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے جو من کو غمگین اور آنکھ کو نم کر دیتا ہے کیونکہ بچپن ہم نے بھی گزارا ہے لیکن جبران کی طرح دکھ بھرا نہیں۔

محسن خان کہانی کہنے کا فن جانتے ہیں۔ یہ کہانی ماضی کی بھی ہے اور حال کی بھی۔ یہ صرف لکھنؤ یا اترپردیش کی کہانی نہیں ہے یہ ایک پورے خطے کی تہذیب کی داستان ہے۔ محسن خان نے ایک معصوم بچے کی سوچ اور نظر سے اس دنیا کو دیکھا اور دکھایا ہے۔ جس میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ نہیں ہے۔ اس ناول کی دنیا حقیقی دنیا ہے بناوٹی دنیا نہیں ہے۔

ناول، شروع ہوتے ہی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ واقعات کا فطری پن کشش کا ایسا سبب بن جاتا ہے کہ کہانی شروع ہوتے ہی قاری اس فکر میں پڑ جاتا ہے کہ دیکھیں آگے چل کر کیا ہوتا ہے۔ جبران اس کی اماں اور بہن نصرت کی مشکلات کم ہوگی یا نہیں اور آنے والی زندگی میں ان کو کیسے کیسے پیچ و خم سے گزرنا پڑے گا۔ اسی ادھیڑ بن میں قاری ناول کو جلد ختم کرنا چاہتا ہے۔

ناول میں بیان کی گئی قطمیر کی وفاداری متاثر کرتی ہے۔ قطمیر جبران کے چچا جان کے کُتّے کا نام ہے۔ چچا جان کے مرنے کے بعد گھر میں کئی دنوں تک سوگ کا ماحول رہتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے ماحول پہلے جیسا ہو جاتا ہے لیکن قطمیر کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔ وہ چچا جان کی لائبریری کے دروازے کے پاس بیٹھا رہتا ہے اور ہر وقت غم میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کی آنکھیں آنسوں سے بھیگی ہوئی ہوتی ہیں۔ اسی غم میں مبتلا ایک دن وہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ یہاں ہم انسان (قریبی رشتے دار، گھر کے افراد) اور ایک جانور کی محبت اور وفاداری کا جب موازنہ کرتے ہیں تو انسان کو بہت پیچھے کھڑا ہوا پاتے ہیں۔

کردار نگاری اچھی ہے۔ جبران کی اماں صبر و شکر کرنے والی عورت ہے۔ جبران کی بہن نصرت سمجھدار اور ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے والی لڑکی ہے۔ جبران کے ابّا گھر کی ذمہ داریوں سے زیادہ دین کی تبلیغ میں مصروف رہتے ہیں۔ گھر پریوار کو اللہ کے بھروسے چھوڑ کر دین کی تبلیغ کے لیے جماعت میں چلے جاتے ہیں۔ حافی جی کا کردار بھی دلچسپ ہے۔ وہ ظاہری طور پر بڑے سخت نظر آتے ہیں لیکن در حقیقت وہ نرم دل کے انسان ہیں۔ ان کی بھی اپنی ایک کہانی ہے۔ دادی جان، چچا جان، چچی جان، چچا کے دونوں بچے اور ان کا کُتّا، کلو چچا، جبران کے دوست اور عربی مدرسے کے دوسرے بچے الغرض ہر کردار اپنی جگہ مناسب اور مکمل ہے کہ کرداروں میں کسی قسم کا غیر فطری پن نظر نہیں آتا۔ ناول کا اسلوب سادہ لیکن پراثر ہے اور یہ اسلوب اسی وقت وجود میں آتا ہے جب ناول نگار اپنے اسلوب کو اپنی فکر اور جذبات کا ایک خاص جز بنا لیتا ہے۔
موبائل:

8275047415

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here