علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور منی ہندوستان

0
188

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


ڈاکٹر سلیم خان
بالی ووڈ نے بڑے بڑے اداکار پیدا کیے لیکن ان میں سے کوئی مشہور زمانہ آسکر ایوارڈ سے نوازہ نہیں گیا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی اگر سیاستداں کے بجائے فلمی دنیا میں آتے تو اس کمی کو پورا کردیتے لیکن افسوس کے وہ سنگھ پریوار کے ہتھے چڑھ گئے ۔ اس کے چکر میں پڑ کر وہ کوئی ایسا کام تو نہیں کرسکے جس سے نیک نامی کماتے مگر بدنامی کا بہت سامان کرلیا مثلاً گجرات کے فرقہ وارانہ فساد، نوٹ بندی کا احمقانہ فرمان اور کسانوں کے خلاف ظالمانہ قوانین۔ اس تحریک کے خلاف نت نئی ڈرامہ بازی میں گردوارہ کے اندر حاضری بھی مودی جی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ مودی جی کے لیے ہر تقریر اور اس کا موقع ایک فلمی سیٹ کی طرح ہوتا ہے۔ ان کی تقاریر لکھنے والا شعبہ ڈائیلاگ لکھتا ہے جسے وہ بڑی مہارت سے ٹیلی ویژن کیمرے کے سامنے ادا کردیتے ہیں ۔ ۲۲ دسمبر کو اگر علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے بجائے وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں واقع بنارس ہندو یونیورسٹی کی کسی تقریب سے خطاب کررہے ہوتے تو ان کا لباس ، چال ڈھال اور میک وغیرہ بالکل مختلف ہوتا ۔ اسی مناسبت سے کہی جانے والی باتیں بھی بدل جاتیں ۔
ایک کامیاب اداکار کی خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بھول جاتا ہے کہ کل کیا کہا تھا اور اسے اس بات کی بھی چنداں فکر نہیں ہوتی کہ کل کیا کہنا ہے؟ اس کی ساری کارکردگی اس دن کےرول پر منحصر ہوتی ہے ۔ کوئی شخص اگر وزیر اعظم کے ماضی سے ناواقف ہو تو اس تقریر کو سننے کے بعد اس کے لیے یقین کرنا مشکل ہوجائے گا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے گجرات کے دل دہلا دینے والے فسادات پر رائیٹر نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوں ۔ کوئی اور گاڑی چلا رہا ہو تب بھی پہیے کے نیچے کتے کا پلاّ آجائے تو دکھ ضرور ہوتا ہے ،میں بھی انسان ہوں ۔ اس جملے کے آخری حصے پر اکثر لوگوں کو حیرت ہوئی تھی اور باقی سب تو توقع کے مطابق تھا۔ مودی جی یہ بھول گئے تھے کہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے گاڑی وہ خود چلا رہے تھے اور ان گاڑی کتے کے پلوں کو نہیں بلکہ بے قصور انسانوں کو روند رہی تھی۔
سر سید احمد خان نے 1875ء میں انجمن ترقی مسلمانان ہند کے زیر اہتمام جدید اور مشرقی علوم کی تدریس کے لیے علی گڑھ میں ایم اے او (محمڈن اینگلواورینٹل) ہائی سکول قائم کیا۔ 1877ء میں اس ا سکول کو کالج کا درجہ دے دیا۔ 17دسمبر 1920ء میں اسے یونیورسٹی کا درجہ ملا اور اسی حوالے سے فی الحال صد سالہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا جس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے مہمان خصوصی کی حیثیت سےآن لائن خطاب کیا۔ وزیر اعظم کو اندازہ تھا کہ یونیورسٹی کیمپس میں ان کا سیاہ جھنڈوں سے استقبال کیا جائے گا ورنہ بہار کی انتخابی مہم میں چار مرتبہ شرکت کرنے والے مودی جی کے لیے یہ قصد مشکل نہیں تھا۔ وہ تو کسانوں کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیےویکسین کی تلاش میں ایک دن کے اندر پونے ، احمد آباد اور حیدرآباد کی سیر کرآتے ہیں ۔ دیوالی منانے جیسلمیر کی جانب اور دیو دیپاولی منانے کی خاطر وارانسی پہنچ جاتے ہیں لیکن دہلی کے قریب علی گڑھ ان سے آیا نہیں جاتا ، یہ ان کی اور پارٹی کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے جو پیروں کی بیڑی بن جاتی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے ا پنے خطاب میں کہا کہ ہمیں مشترک میدان میں کام کرنا ہے تاکہ اس کا فائدہ ۱۳۰ کروڈ ملک کے باشندگانِ وطن کو پہنچے ۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سیاست سماج کابہت اہم حصہ ہے لیکن معاشرے میں اور بھی اہم مسائل ہیں اور سیاست سے اوپر بہت کچھ ہے۔ یہ پروچن تو انہیں اپنی پارٹی کے لوگوں کو دینا چاہیے جو دن رات سیاست کے سوا کچھ اورنہیں کرتے۔ ملک کا وزیر داخلہ ایک شہر کے میونسپل انتخاب میں روڈ شو کرتا پھرتا ہے۔بی جے پی والے ان انتخابی مہمات میں کامیابی کی خاطر سی اے اے اور این آر سی جیسے نت نئے شوشے چھوڑتے ہیں۔ سماج کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے لو جہاد جیسے مصنوعی شگوفہ چھوڑ کر عوام کے دلوں میں نفرت پیدا کی جاتی ہے اور انہیں سیاسی مفاد کی خاطر آپس میں لڑایا جاتاہے۔ ویسے تو یہ کا رِ شر ساری سیاسی جماعتیں کرتی ہیں لیکن بی جے پی اس معاملے اپنے حریفوں سے بہت آگے ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ سیاست اور سماج انتظار کرسکتا ہے مگر ترقی انتظار نہیں کرسکتی لیکن وکاس تو بیچارہ گجرات کے صوبائی انتخاب میں پاگل ہوگیا تھا ۔ اس کے بعد پلوامہ میں اسے بم دھماکے سے اڑا دیا گیا ۔ 2019 کا انتخاب جیتنے کے بعد سب سے پہلے تین طلاق کا قانون ایوان بالہ میں منظور کیا گیا۔ اس کے بعد سی اے اے آیا اور پھر دفع ۳۷۰ کو رد کیا گیا۔ اس سے فارغ ہوئے تو رام مندر کا من مانا فیصلہ کراکر اس کا شیلا نیاس کیا گیا ۔ وہ تو خیر درمیان میں کورونا کی وباء آگئی ورنہ اب تک نہ جانے کیا کچھ ہوجاتا۔ اس وباء کے دوران کبھی تالی اور تھالی بجوائی گئی اور کبھی دیپ جلوائے گئے۔ نوٹ بندی کی طرح اچانک تالہ بندی کردی گئی اور لاکھوں مہاجر مزدوروں کو پیدل اپنے گھر جانے پر مجبور کیا گیا ۔ اس کے بعد وباء کا زور ٹوٹا تو کسانوں کے خلاف قانون سازی کرکے ان کی گردن پر سرمایہ داروں کو مسلط کرنے کی گھناونی سازش کردی گئی ۔ ان تما م حرکتوں کا ترقی سے کیا تعلق ؟ آج لاکھوں نوجوان بیروزگار ہیں اور حکومت ایوان کی تعمیر میں روپیہ پھونک رہی ہے ایسے میں جب وزیر اعظم ترقی کی بات کرتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔
مودی جی نےاپنے دلچسپ خطاب میں کچھ ایسی باتیں کہیں جن کو سن کر ہنسی کے ساتھ رونا بھی آتا ہے مثلاً یہ کہ انہیں غیر ملکی دوروں پر علی گڑھ کے طلباء اپنے مخصوص تشخص کے ساتھ ملک کا نام روشن کرتےہوئے ملتے ہیں وغیرہ ۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں سے ملنے کے لیےمودی جی کو بدیس کیوں جانا پڑتا ہے؟ اس ملک کے اندر موجود لاکھوں علی گڑھ کے طلبا سے ملاقات کا اہتمام کیوں نہیں کیا جاتا؟ بلکہ بھارت میں وہ ان سے امبانی اور اڈانی کے علاوہ ملتا کون ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ لوگ کہتے ہیں اے ایم یو ایک شہر جیسا ہے۔ کئی شعبوں اور لاکھوں طلباکے بیچ ایک منی انڈیا نظر آتا ہے۔ وہاں اردو کے ساتھ ہندی اور انگریزی پڑھائی جاتی ہے ۔ قرآن کے ساتھ گیتا اور دنیا کےدیگر صحیفے موجود ہیں۔ یہ باتیں انہوں نے لوگوں سے سنیں ۔ اپنی پچاس سالہ سیاسی زندگی میں انہیں اس قدیم یونیورسٹی کو جاکر دیکھنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ خیر اگر وہ خوف کے مارے نہیں جاسکے تو کم ازکم ایوان پارلیمان کی لائبریری میں جاکر یا گوگل پر ہی کچھ معلومات حاصل کرلیتے ۔ وزیر اعظم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ سنی سنائی باتیں سنا ئیں ۔
وزیر اعظم نے یہ بھی فرمایا کہ 100سال کی تاریخ میں اے ایم یو نے کئی لوگوں سنوارہ اور نئی سوچ دی ہے۔ یونیورسٹی کی پہچان وہ اقدار ہیں جن پر سر سید احمد خان نے اسے قائم کیا ۔ مودی کے بقول سرسید نے کہا تھا کہ ملک کی فکر کرنے والے کافرض عین بلاتفریق مذہب و ملت لوگوں کے کام آناہے۔ وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ جس طرح انسانی زندگی کے لیے ہر عضو کا صحتمند رہنا ضروری ہے اسی طرح ہر سطح پر سماجی ترقی لازمی ہے۔ ملک اسی راہ پر گامزن ہے۔ یہ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کی روح ہے۔ پورے ملک کو علی گڑھ یونیورسٹی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ایک ایسےنعرے کی یاد تازہ کردی جس کو وزیر اعظم اور ان کی پارٹی نے بھلا دیا تھا۔
وزیر اعظم کا یہ دعویٰ اگر درست ہے تو پھر کا وجہ ہے کہ دناا بھر کے لوگ ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کی خاطر فکر مند ہیں؟ جنوب مشرقی ایشیا کی معروف تنظیم نے اپنی اسٹٹد آف مائنارٹی رپورٹ 2020 مںگ سی اے اے قانون حوالہ دے کر کو ں یہ لکھا ہے کہ ہندوستان مسلمانوں کے لئے ایک بہت ہی’خطرناک اور پر تشدد مقام ‘ بن چکا ہے اور یہ 2014 میں مودی کی حکومت سازی کے بعد ہوا ہے۔بی جےپی میں ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کےمختلف ہوتے ہیں ۔ مودی جی دکھانے دانت ہیں جو دنیا بھر میں سرکار کی گڑویل بنانے کا کام کرتے ہیں ۔ ان کے دکھاوے کی باتوں کے ساتھ کھانے کے دانتوں کابھی ذکر ہونا چاہیے ۔
ابھی ایک سال قبل سی اے اے تحریک کے دوران زمینات اور تعمیر سے متعلق صوبائی کمیٹی کے صدر ٹھاکر رگھو راج سنگھ نےعلی گڑھ میں آکر کہا تھا ملک دشمنوں کو کتوں کی موت مارا جائے گا۔ ان کا اشارہ یونیورسٹی کے طلبہ کی طرف تھا۔ ٹھاکر نے کہا جو ہماری قیادت کو زندہ دفنانے کی بات کرے گا ہم اس کو گھر سمیت زندہ دفنا دیں گے ۔ پولس فورس کو حکم دے دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو فوراً (فرضی) مڈ بھیڑ ماردیا جائے۔ ان لوگوں نے بہت غنڈہ گردی کرلی ۔ وزیر اعظم کو اپنی پارٹی کے ان لوگوں کی اہم سرکاری عہدوں پر فائز کرنے کے بجائے تربیت و اصلاح کرنی چاہیےیا جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دینا چاہیے لیکن اگر ایاک کیا گیا تو ہر روز ایک نہ ایک زعفرانی اندر جائے گا۔
پی ایم مودی نے اپنی تقریر میں کہا کہ خود مختار ہندوستان کی تعمیر میں اے ایم یو سے مشورے ملیں تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہوگی ۔ ویسے کچھ لوگوں نے مشورے دیئے ہیں جن سے یونیورسٹی انتظامیہ نے خوف کے سبب پلہّ جھاڑ لیا ہے۔ وہ بولے ہم کہاں اور کس خاندان میں پیدا ہوئے اور کس مذہب میں پلے اس سے بڑی بات یہ ہے کہ ہماری امیدیں ملک کے ساتھ کیسے جڑیں ۔ نظریاتی اختلاف ہوتے ہیں لیکن جب قومی اہداف کی بات آئے تو انہیں بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن بی جے پی کی تو ساری سیاست ہی ہندو مسلم اختلافات کو اچھال کر ووٹ بٹورنے کی ہے۔ اسی مقصد کے تحت عوام میں اختلاف و انتشار پیدا کیا جاتاہے لیکن مودی جی اسے روکنے کے بجائے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں ۔ یہ دنیا صرف پندو نصیحت سے نہیں چلتی بلکہ حکمراں سے عمل کی توقع کرتی ہے اور اگر وہ ندارد ہوتوساراپروچن بے اثر ہوجاتا ہے ۔ فی الحال مودی جو کچھ کہتے جاتے ہیں پارٹی اس کے الٹ کرتی جاتی ہے۔ یہ ان کی کمزوری ہے یا حکمت عملی ہے ؟ کوئی نہیں جانتا۔
ایک طرف وزیر اعظم کو اختلافات بالائے طاق رکھنے کا مشورہ ہے اور دوسری جانب ٹھاکر رگھورام سنگھ کا علی گڑھ کی سرزمین یہ بیان کہ تم(علی گڑھ کے طلبا) اگر داود ابراہیم سے پیسہ لے کر ہمارے افسران کو گھیروگے تو ہم گھیرنے نہیں دیں گے۔ پٹخ پٹخ کر ماریں گے۔ اس درندے کی دھمکی دیکھیں کہ کہتا ہے ہماری کھاوگے اور ہم پر ہی غرّاوگے۔ زبان نکال لیں گے غراّنے نہیں دیں گے۔ اب کا نگریس کا وقت چلا گیا ہے۔ ہم فورس کو چھوٹ دے رکھی کوئی ایک کو مارے تو جواب میں دس کو مار کے آو۔ کوئی ایک قتل عام کرے بیس قتل عام کرو ۔ یہ مودی یوگی سرکار ہے۔ مودی ہے تو ممکن ہے ۔ رگھورام نے یہ بھی کہا تھا کہ جب چاہیں گے مسلم یونیورسٹی کا نام بدل کر ہندوستان یونیورسٹی رکھ دیں گے۔ مخالفت کروگے تو یہاں نہیں رہ پاوگے ۔ ہم نے گولی کا جواب سے گولے سے دینے کا فیصلہ کررکھا ہے۔
سنگھ پریوار میں اختلافات کو انگیز کرنے کا یہ طریقہ ہے۔ ٹھاکر رگھو راج سنگھ جیسے نہ جانے کتنے بی جے پی رہنما ایسی بکواس دن رات کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی پذیرائی ہی کی جاتی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈاکٹر ذاکر حسین اور خان عبدالغفار خان جیسے دو بھارت رتن ملک کو دیئے ، اس لیے اس کی شان میں ورچول سہی ایک ایسے وزیر اعظم کے مہمان خصوصی بن کر آنے سے جس کی ڈگری مشکوک ہو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سے خود وزیر اعظم کا قد اونچا ہوتا ہے۔ مودی جی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے خطاب میں جو اچھی اچھی باتیں کہیں ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر آر ایس ایس پورے ملک کو ہندو راشٹربنانے کے بجائے اے ایم یو جیسا بھارت بنانے کی کوشش کرے تو وزیر اعظم ہر جگہ اسی طرح کی اچھی باتیں کریں گے اور ہوسکتا ہے اس کے مطابق انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر کچھ اچھے کام بھی کرنے لگیں ۔ وزیر اعظم نے اگر اپنی اس تقریر کو یاد رکھا اور اس کے تقاضوں کو پورا کیا تو عوام الناس کا کچھ نہ کچھ بھلا ضرور ہوگا ۔

 

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here