احمر لکھنوی شخصیت اور شعری محاسن- Ahmar Lucknowi personality and poetic beauties

0
138
 Ahmar Lucknowi personality and poetic beauties
سیدہ جنیفر رضوی

ریسرچ اسکالر وشوبھارتی یونیورسٹی
7872873542
اردو کے شعری منظر نامے اور اس کی تاریخ کے سلسلے میں جہاں مختلف دبستانوں ، تحریکوں ، رویوں اور میلانوں کا کردار شدید اہم نظر آتا ہے ، وہیں اس کو ایسے جید، پختہ، ذہین و فطین اور بلند قامت شعرا بھی نصیب ہوئے ہیں جن کی اہمیت ہر عہد میں یکساں رہی ہے اور مستقبل میں بھی ان کے انفراد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی ۔ قلی قطب شاہ سے لے کر رنگین ، آبرو، مضمون اور مظہر جان جاناں تک اور اس کے بعد والے قافلے میں جو نمائندہ شعرا غزلیہ شاعری کو سنوارنے میں غیر معمولی اہمیت کے حامل نظر آتے ہیں ان میں دبستانِ دلی اور دبستانِ لکھنو سے تعلق رکھنے والے کم و بیش سبھی شاعری شمار ہوتے ہیں ۔ دبستانِ دلی کی اہمیت سے ہر کوئی شناسا ہے۔ اس دبستان کی شاعری کو دلی واردات اور داخلیت پسندی وغیرہ سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ دلی سے دور ایک ایسا شہر پڑتا ہے جس کی تاریخ کو دہرانے سے انسان کے دل میں مسرتوں کی تند و تیز لہریں رچ بس جاتی ہیں ۔ اس شہر کے باشندوں کی شان و شوکت کا عالم شاہانہ رہا ہے۔ ان کے اٹھنے، بیٹھنے، کھانے ،پینے، پہننے ،زبان و بیان اور اندازِ بیان کے علاوہ وہاں کی محفلیں، محفلوں کی رونقیں، تکلف و تصنع، وضع قطع، چال و چلن اور باقی دیگر ایسے سماجی عناصر اس قدر اعلیٰ رہے ہیں کہ جن کو تصور میں لانے کے بعد جو منظر آنکھوں میں سما جاتا ہے وہ ہر صورت میں قابل رشک اورقابل فخر ہے۔ میں جس شہر کی بات کر رہی ہوں وہ شہر لکھنویعنی نوابوں کا شہر ہے۔ اس شہر کو ناسخؔ و آتش نے زبان و بیان کے معاملے میں اس قدر ارفع و اعلیٰ کیا کہ آج بھی دبستانِ لکھنو کی شاعری کا نام آتے ہی سب سے پہلے زبان و بیان کا پہلو ذہن و دل میں سما جاتا ہے ۔ اسی شہر میں ایک ایسے قلندر نے جنم لیا جن کی اہمیت نہ صرف شعری ادب بلکہ دینی لحاظ سے بھی ممتاز ہے ۔ اس شخصیت کو لکھنو والے احمر لکھنوی کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔

احمر لکھنوی کا حقیقی نام انوارالحق تھا اور لکھنو کے شعری حلقوں میں انھیں ہر کوئی احمر لکھنوی کے تخلص سے جانتے ہیں ۔احمر لکھنوی کے خاندان کا تعارف اگر پیش کیا جائے تو اس سلسلے میں جو بات اہمیت کے ساتھ سامنے آتی ہے وہ یہی ہے کہ ان کا خاندان نہایت شریف، دیانت دار اور مذہب پرست رہا ہے اور یہی اوصاف احمر لکھنوی میں منتقل ہوگئے تھے ۔ احمر لکھنوی کے والدماجد کا اسم گرامی اللہ بخش تھا ۔ انھوں نے احمر لکھنوی کو ابتدا ہی سے ایسا ماحول دستیاب رکھا جس میں منفی قسم کے عناصر قطعی داخل نہ تھے ۔ احمر لکھنوی کی ماں بھی اپنے شوہر کی طرح دین کا نہ صرف فہم رکھتی تھیں بلکہ وہ اس کا عملی طور پرثبوت پیش کرتی تھیں۔ احمر لکھنوی کی ولادت ۶ مارچ ۱۹۳۸؁ء کو ناداں محل لکھنو میںہوئی ۔ جوں ہی احمر لکھنوی تین سال کی عمر کو پہنچے تو اللہ انھیں خسرہ کی مہلک بیماری لاحق ہوئی ۔خسرہ بچوں کو لگنے والے ایسی بیماری ہے جس میں جسم پر باریک باریک دانے ابھرنے شروع ہوتے ہیں اور بعد میں اس کی وجہ سے جسم کا کوئی نہ کوئی عضو متاثر ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ احمر لکھنوی کو اس بیماری کی وجہ سے آنکھوں کی بصارت سے محروم ہونا پڑا۔ اس وجہ سے ان کے گھر والوں کو شدید تکلیف پہنچی ۔احمر لکھنوی کی نہایت کم سنی کے عالم میں بینائی چلے جانے سے ان کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کو وہی محسوس کرسکتا ہے جو اس عالم سے گزرا ہو۔ ہمت و حوصلہ کر کے ان کے والدین نے انھیں اپنے ہی علاقے میں ایک مدرسے میں داخل کرایا ، جہاں سے انھوں نے کلام ِ الٰہی کو ازبر یاد کر لیا۔ قرآنِ پاک کو حفظ کر نے کے بعد احمر لکھنوی نے پہلے فرقانیہ چوک اور بعد میں دار المبلغین پاٹا نالہ کا رُخ کیا اور یہاں سے انھوں نے مولویت، قرأتاور عشرہ بہ طریق طیبہ و درہ مکمل نظامیہ حاصل کی۔ احمر لکھنوی کو قرآن کے ساتھ عجیب لگاؤ تھا ۔ انھوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ اس کا پابند کر لیا تھا ۔ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے شریعت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا تھا ۔وہ اگر چہ نا بینا تھے تاہم اس کے باوجود بھی ان کے عظم و حوصلے می کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔
احمر لکھنوی وضع قطع میں بھی انفرادی شان رکھتے تھے ۔یہ شان اس قدر تھی کہ اس مین غرور و تکبر کو قطعی دخل نہ تھا ۔ان کے اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے نیزادبی اور غیر ادبی محفلوں میں آنے جانے میں ایک پر کشش اور پر اثر انداز دیکھنے کو ملتا تھا ۔اگر احمر لکھنوی کی شکل و صورت اور وضع قطع کی بات کی جائے تو اس ضمن میں ان کا قد میانہ اور بدن بھاری بھرکم تھا، سر پر کبھی مخملی ٹوپی تو کبھی مخروطی ٹوپی پہنتے تھے ۔ زیادہ تر سفید لباس کو زیبِ تن کرتے تھے ۔ آنکھوں پر کالے رنگ کا چشمہ لگاتے تھے ۔ انھیں خوشبو کا استعمال کرنا نہایت اچھا لگتا تھا ۔ اسی طرح پان کھانا ان کے پسندیدہ مشاغل میں شامل تھا ۔ جس قدر غصہ اور جذباتی ہوتے تھے اسی قدر ان کے اندر نرمی اور انکساری بھی پائی جاتی تھی ۔ احمر لکھنوی کے چال و چلن سے ہی اس بات کا ادراک ہوتا تھا کہ وہ ایک سلیقہ مند اور تعلیم یافتہ شخصیت ہیں ۔ جب کوئی ان سے کوئی گفتگو کرتا تو اسے ان کے اہلِ زبان ہونے کا اعتراف صاف طور سے ہوتا تھا ۔ احمر لکھنوی نہ صرف دینوی علوم سے مملو تھے بلکہ انھیں دنیاوی علوم پر بھی خاصی دسترس تھی ۔ طبی علم پر کامل نظر تھی ۔ احمرلکھنوی کو قرآن کے ساتھ عجیب لگاؤ تھا ۔ انھوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ اس کا پابند کر لیا تھا ۔ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے شریعت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا تھا ۔وہ اگر چہ نا بینا تھے تاہم اس کے باوجود بھی ان کے عزم و حوصلے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔انھیں طبی علم پر کامل نظر تھی اور اس ضمن میں وہ علاج و معالجہ بھی بہت خوبی سے انجام دیتے تھے ۔ ان کے پاس سیکڑوں مریض علاج کی غرض سے آکر شفایاب ہوتے تھے۔اس کے علاوہ احمر لکھنوی ریڈیو پر طرح طرح کی نشریات سنا کرتے تھے ۔وہ فٹ بال ، کرکٹ ، ہاکی اور باقی دیگر کھیلوں کی جان کاری کافی اچھی رکھتے تھے ۔ اس طرح اگر کہا جائے کہ احمر لکھنوی ایک پہلو دار شخصیت تھے تو بے جا نہ ہوگا ۔
جہاں تک احمر لکھنو کی ازدواجی زندگی کا تعلق ہے اس سلسلے میں وہ کافی قسمت والے رہے ہیں ۔ انھوں نے جس عورت سے نکاح کر لیاتھا وہ کافی دین دار، صابر و شاکر، باحیا اور پاک دامن تھیں ۔انھوں نے ان کی ہر پہلو سے نہایت صدق دلی کے ساتھ خدمت کی ۔ ان کے بطن سے چھے لرکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں ۔وہ تمام پڑھے لکھے اور ذہین ثابت ہوئے اور ان میں کچھ اعلیٰ منصب پر بھی فائز ہوئے ۔ان تمام بھائی بہنوں کا پچپن بالکل اسی طرح گزرا جس طرح ان کے والد صاحب چاہتے تھے۔ قرآن کو درست پڑھنا، نماز کے ساتھ اپنا تعلق جوڑنا، ادب و احترام کے ساتھ دوسروں سے پیش آنا، دنیاوی تعلیم میں دلچسپی کو قائم رکھانا وغیرہ جیسی صفات احمر لکھنوی کے اولاد میں بچپن ہی میں منتقل ہو گئے۔تیسیر محمد ( کنیڈا)، حافظ توقیر (ہانگ کانگ)،زید انوار(ہانگ کانگ)، مفتاح محمد،(لندن)، مصباح محمد (کلکتہ)،تنویر محمد( کلکتہ)احمر لکھنوی کے بیٹوں کے نام ہیں ۔ ۸ دسمبر ۱۹۹۵ء کو احمر لکھنوی اپنے کسی قریبی رشتہ دار کی تعزیت پر گئے تھے کہ وہاں ان کی وفات ہوئی ۔ یہ خبر سن کر ان کے گھر والوں اور ان کے جاننے والوں کو کافی صدمہ پہنچا ۔ اس طرح احمر لکھنوی کی میت کو وہاںسے اپنے گھر لائی گئی جہاں انھیں غسل دیا گیا اور بعد میں قریبی قبرستان عیش باغ میں انھیں سپرد خاک کیا گیا۔
احمر لکھنوی ابھی سولہ سال کی عمر کے تھے جب انھوں نے کلکتہ کا سفر اختیار کیا تھا ۔یہاں وہ کئی مدارس سے منسلک رہے اور ان مدارس میں رہ کر وہ دینی فرائض انجام دیتے رہے ۔ اس وقت ان کا یہی ایک معاش کا ذریعہ تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ساتھ انھوں نے کلکتہ میںطب میں بھی شہرت پائی اور یہاں اس ضمن میں آپ کو جو تجربہ رہا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔کلکتے میں پہلے ان کے رہنے کی جگہ کافی محدودتھی اور بعد میں انھوں نے اس میں کسی حد تک ازالہ بھی کیا۔ احمر لکھنوی چوں کہ ایک کامل سرجے کے عامل انسان تھے ۔ انھیں دین کے ساتھ شدید تعلق تھا اور اس وجہ سے وہ روحانی طور پر بھی باکمال تھے ۔ احمر لکھنوی مسلک کے لحاظ سے اگر چہ دیوبندی تھے تاہم ان میں ایسے خصائل و شمائل پائے جاتے تھے جن کی وجہ سے ان میں دور اندیشی کشادہ دلی در آئی تھی ۔ وہ ہر طبقے کے انسان سے کافی نرمی سے پیش آتے تھے اور ہمیشہ مسکنت اور عاجزی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، احمر لکھنوی کو بزرگانِ دین کے ساتھ والہانہ عقیدت تھی ۔ وہ ان سے نہ صرف متاثر نظر آتے تھے بلکہ ان کی زندگی کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنا رکھا تھا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ ان بذرگانِ دین کا وطن عرب ممالک سے تھا اور ان کی نسبت آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ سے تھی ۔ احمر لکھنوی کے فرزند تیسیر محمد نے یہ انکشاف کیا ہے کہ احمر لکھنوی زیادہ تر حضرت نظام الدین سلطان الاولیا، مولانا جلالالدین رومی ، بابا فرید گنج شکراور قطب الدین بختیار کاکی کو ایصال ثواب پہنچاتے اور دعاؤں میں یاد فرماتے تھے ۔
احمر لکھنوی کی حیات کا ایک اور پہلو شعر و شاعری کا ہے ۔ انھیں شعر و ادب کا ساتھ بچپن ہی سے ایک خاص تعلق تھا ۔ وہ بچپن ہی سے شعر کہتے رہتے تھے، تاہم انھوں نے باضابطہ طور سے اس وقت اس میدان میں قدم جمانے شروع کئے جب وہ کلکتے میں مقیم تھے ۔ انھوں نے اپنی وابستگی یہاں کے کئی بڑے شعرا کے ساتھ قائم کی اور اس طرح ان کے دل میں شعر و سخن نے جگہ پائی ۔ اب انھوں نے اپنے دلی احساسات و جذبات کو شعر کے سانچے میں بیان کرنا شروع کردیا۔ احمر لکھنوی کی شعر گوئی کے سلسلے میں یہ بات اہم ہے کہ انھوں نے باقی شعرا کی طرح اس کا آغاز غزلیہ شاعری سے کیا اور بعد میں وہ نعت بھی لکھنے لگے ۔ لکھنو پہنچنے کے بعد ان کی شاعری میں وہی انداز آگیا جو لکھنو کا خاصا رہا ہے ۔ احمر لکھنو کی شاعری کے ضمن میں ان کے بیٹے تیسیر محمد لکھتے ہیں :
’’ شاعری ابا کے خمیر میں رچی بسی تھی ۔ اس میں سب سے بڑا دخل جائے پیدائش لکھنو کا ہے ۔ ماحول، احباب ، گلی کوچوں کے ادبی گہواروں نے اس شاعرانہ طبیعت کی بنیاد رکھی اور پھر منظم تعلیم نے اس کی آراستگی کی جو زندگی بھر ان کی ذات سے چمٹی رہی۔‘‘۱؎
احمر لکھنوی نے شاعری کے معاملے میں جس صاحب فن سے فیض حاصل کیا ان کا نام جرمؔ محمد آبادی تھا۔ جرمؔ محمد آبادی کا اصلی نام ابوالحسن تھا۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ افسانہ اور ڈراما نگاری کی طرف بھی اپنا قلم پھیرا ہے ۔ ’’ شعلہ رنگیں ، بہارِ عجم، تیرِ نظر اور فردوسِ نظر ‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں ۔ جرمؔ محمد آبادی نے احمر لکھنوی کی طرف خاص دھیان دیا اور انھیں شعر کی باریکیوں اور اس کے باقی دوسرے اوصاف سے واقف کرایا ۔ احمر لکھنوی اپنے آپ کو اس لیے شجری طور پر آرزو لکھنوی اور پرتو لکھنوی سے جوڑتے ہیں کیوں کہ ان دونوں شعرا کی جرمؔ محمد آبادی نے شاگردی اختیار کی تھی ۔ احمر لکھنوی کو دبستانِ جرم کے ساتھ ایک خاص لگاؤ تھا اور وہ اس دبستان کے ساتھ قریباً ۳۵ سال تک منسلک رہے ۔
احمر لکھنوی کی شاعری کے تعلق سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ ان کے کلام کوموضوع اور زبان و بیان کے سلسلے میں دواہم ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ان کی شاعری کا پہلا دور ۱۹۵۴ء سے لے کر ۱۹۶۸ کو محیط ہے ۔ اسی طرح ان کا دوسرا دور ۱۹۸۳ء سے شروع ہو کر ۱۹۹۵ء پر آکر مکمل ہوتا ہے ۔۱۹۸۶ء سے لے کر ۱۹۸۳ء تک احمر لکھنوی سخن گوئی کے معاملے میں اچانک سے خاموش ہوگئے ۔ انھوں نے شعر و شاعری کو کم و بیش سولہ سال تک خیر باد کیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے یہ وقت اپنے بچوں کی بہترین پرورش اور تعلیم و تربیت وغیرہ میں صرف کی ۔ اس کے علاوہ بھی ان کے کئی گھریلوکام تھے جن کو نبھانے کے لیے انھوں نے ایک ایسی قربانی(شعر گوئی) دی جو اسے جان سے بھی عزیزتھی۔ چوں کہ احمر لکھنوی ایک دین دار اور صوفی قسم کے انسان تھے ، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی اولادیں دین سے غافل رہیں ۔ اس لیے انھوں نے اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم میں بھی رہنمائی و رہبری فرمائی ۔ اس بات سے احمر لکھنوی کے نابینا ہونے کے با وجود بھی عزم و حوصلے کا قطعی ثبوت پیش ہوتا ہے۔ وہ بظاہر ناتواں تو نظر آتے ہیں تاہم ان کی ناتوانی ان کے بلند ارادوں کے درمیان حائل ہونے سے کوسوں دور دکھائی دیتی ہے ۔ چونکہ ابھی اس بات کا تذکرہ ہوا کہ احمر لکھنوی کی شاعری کو دو شقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان دو ادوار میں ان کی شاعری کا امتیاز کیا رہا ہے؟ اس کا خلاصہ درجِ ذیل اقتباس میں ملاحظہ فرمائیں۔
یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ جب کوئی شخص شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کے لیے اترتا ہے تو سب سے پہلے اس کا میلان رومان کی طرف زیادہ رہتا ہے ۔ وہ چونکہ فطری طور پر حسن کے قریب ہوتا ہے اور پھر شاعری کے ذریعے اسی جذبے کو پیش کرتا ہے ۔ احمر لکھنوی اگر چہ ایک شریف النفس اور صوم و صلواۃ کے پابند تھے تاہم جوں ہی انھوں نے شعر گوئی کی طرف اپنے ذہن کو پھیرا تو انھوں نے زیادہ تر رومان کو اپنی غزلوں میں جگہ دی۔ احمر لکھنوی کی ابتدائی شاعری اگر چہ روایتی طرز کی تھی تاہم اس کے علاوہ ان کے ہاں مذہبی رنگ کی شاعری بھی دیکھنے کو ملتی ہے ۔احمر لکھنوی کی اس دور کی غزلیہ شاعری زبان و بیان کے لحاظ سے بھی کافی اہمیت رکھتی۔ان کے یہاں الفاظوں کا انتخاب اور ان کا برتاؤ کافی حد تک پر کشش نظر آتا ہے ۔ رومان پر مبنی شاعری کے لیے اتنے خوب صورت الفاظ اور پر کیف خیالات کا اظہار کرتے تھے کہ اس کو پڑھنے کے بعد انسان کے دل میں عجیب کیفیت ٹھاٹھیں مارنے لگتی تھی ۔ کہیں پر ان کی اس دور کی شاعری میںرندی و سرمستی ہے تو کہیں پر ، محبوب کے جلوؤں اور ان کے ناز و ادا کا اظہار ہے ، کہیں پر صوفیانہ اظہار ہے تو کہیں پر دیوانہ پن ہے ۔ اس کے علاوہ احمر کی ابتدائی دور کی شاعری میں محبوب کے سراپا، شراب و مینا، ہجر و وصال ، شب غم ، غم یار، زہد و تقویٰ وغیرہ جیسے موضوعات کا برتاؤ کافی کم نظر نواز ہوتا ہے ۔ان کی شاعری میں رومان اور حسن و عشق کا اظہار ضرور ملتا ہے، پر اس میں شرم و حیا، پاک دامنی، ضبط و استقلال، تڑپ اور پارسائی کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ اس طرح اگر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ احمر لکھنوی نے اپنے ابتدائی کلام میں ان چیزوں کا خاص خیال رکھا جن سے ان کے کلام میں صفائی ،سلاست، ضبط، ندرتِ الفاظ ، تخلیل کی شرینی اور چاشنی وغیرہ صحیح وسالم رہتی ہے ۔
احمر لکھنوی کی دوسرے دور کی شاعری پہلے دور کی شاعری سے قدرے مختلف نظر آتی ہے ۔ اس دور میں وہ مشاعرے پرھنے کے لیے مختلف ادبی محفلوں میں تشریف لے جاتے ۔ان مشاعروں میں ان کے ساتھ ان کے فرزند تیسیر ساتھ ساتھ رہتے تھے اور اس طرح ان کے اندر بھی شعر فہمی کا شعور پیدا ہو گیا۔ احمر لکھنوی چونکہ نابینا تھے لیکن اس کے باوجود بھی ادبی محفلوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے ۔ یہ بات بھی قابلِ تحسین ہے کہ اس دور میں احمر لکھنوی کے گھر پر شعری نشستوں کا اہتمام ہوا کرتا تھا اور اس عمل پر انھیں کافی مسرت اور فخر ہوتا تھا ۔ یہ دور احمر لکھنوی کی شاعری کی پختگی کے سلسلے میں کافی اہم ہے ۔ اس میں ان کے کلام میں ایک واضح تغیر و تبدل دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ان کی اس دور کی شاعری میں ایک عجیب سی ہلچل اور تند و تیزی کے ساتھ ساتھ خیالات میں بلندی دکھائی دیتی ہے ۔ انھوں نے عروض ، تخیل، الفاظ ، صنائع ،بدائع اور اس طرح کی باقی دوسری صلاحیتوں میں دسترس پائی ۔ وہ شعر کی نوک پلک سنوارتے وقت سنجیدگی سے غور و خوص کرتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں آگے چل کر جدت طرازی کا وصف پیدا ہوگیا۔
احمر لکھنوی کے یہاں جدید رنگ و آہنگ نظر آتا ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے یہاں لکھنوکی شعری رویات کا پرتو بھی اچھا خاصا نظر آتا ہے ۔ احمر لکھنوی جدید دور میں رہ کر جدید شاعری تو کرتے رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ روایتی طرز کو ترک کرنے سے گریز بھی کیا ۔ مجموعی طور پر احمر لکھنوی کے دوسرے دور کی شاعری زبان و بیان اور تخیل کے لحاظ سے بے حد موثر نظر آتی ہے ۔ اس دور میں ان کی شاعری جس بلندی کو پہنچی اس سے ان کے قارئین کو بھی صاف صاف اعتراف ہے ۔
احمر لکھنوی کا قیام ایک مدت تک کلکتہ میں رہا اور وہ وہاں تعلیم و تعلم اور دینی کاموں کا فریضہ سر انجام دیا کرتے تھے۔ اس دوران ان کے رہنے کی جگہ اگر چہ کافی محدود تھی تاہم اس کے باوجود بھی انھوں نے مطالعہ کی کتابوں کے لیے کم و بیش جگہ نکال کر اپنے حقیقی منصب کو تواتر کے ساتھ قائم و دائم رکھا ۔ اس کی روداد احمر لکھنوی کے دیوان میں کچھ اس طرح سے ملتی ہے :
ـ’’ کلکتہ میں جگہ کی قلت تھی جس کی بنا پر زندگی کے پہلے دور میں ابا کا دار المطالعہ ایک صندوق تھا، جہاں ابا کی ،جو بعد میں نئے گھر کی وجہ سے ایک خاص حصہ کتابوں کی الماری کے لئے وقف کر دیا گیا ۔‘‘ ۲؎؎
مذکورہ بالااقتباس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ احمر لکھنوی کو مطالعہ بینی کا شوق بھی تھا ۔وہ عربی ، فارسی اور اردو پر خاصی مہارت رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ دینی کتب کا بھی مطالعہ کرتے رہتے تھے اور اس عمل سے انھیں یہ فیض بہم پہنچا کہ ان کو نہ صرف زبان دانی پر دسترس حاصل ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انھیںایسے مختلف تجربات و مشاہدات بھی حاصل ہوئے جن کا اثر ان کی شاعری پر بھی پڑا۔ احمر لکھنوی کے یہ تجربات و مشاہدات ان کی عملی زندگی کے عکاس نظر آتے ہیں ۔
جہاں تک احمر لکھنوی کے دوست و احباب کا تعلق ہے تواس ضمن میں یہ بات اہمیت کی حامل نظر آتی ہے کہ ان کا یہ پہلوکا فی وسیع تھا ۔ ان کے دوست نہ صرف انھیں مسلسل ملنے کے لیے ان کے گھر پر تشریف لے جایا کرتے تھے، بلکہ گا ہے گاہے احمر خود ان کے گھر ان سے ملنے کے واسطے تشریف لے جاتے تھے ۔ رہبر لکھنوی، ریاض غازی پوری ، برکت اللہ چمڑے والے ، نازش سکندر پوری جیسے وہ اہم نام ہیں، جن کی صحبت احمر لکھنوی کو بہت عزیزتھی ۔ رہبرلکھنوی اور ریاض غاضی پوری کے ساتھ احمر لکھنوی مل بیٹھ کر شعر و شاعر شاعری پر گفتگو کرتے رہتے تھے اور تینوں جرم محمد آبادی کی وفات کے بعد ایک دوسرے کی اصلاح لیا کرتے تھے۔احمر لکھنوی نے شعر گوئی کو اس قدر سنجیدہ لیا کہ بعد میں ان کے شاگردوں کا اچھا خاصا حلقہ قائم ہو گیا ۔ حافظ صادق حسن اور عاقل دہلوی احمر لکھنوی کے شاگردانِ خاص میں شمار ہوتے ہیں ۔ ان کے علاوہ بھی ان کے کئی شاگرد رہے ہیں ، جن کی قابلیت اور شعر فہمی کا اعتراف ان کے جاننے والوں کو ہے
احمر لکھنو کے فوت ہونے کے بعد ان کے بیٹے اپنی ذاتی زندگی میں کافی مصروف رہے ۔ وہ اپنے والد کے خواب اور ان کے آرزو کی تکمیل وقت پر نہ کر سکے۔ اس طرح بعد میں عمر غزالی کی پیہم محنتوں اور احمر لکھنوی کے بیٹوں کے ذوق و شوق نے احمر لکھنوی کی ادبی تخلیقات کو منظر عام پر لانے میں کامیاب ہو گئے ۔ یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب احمر لکھنوی کا بیٹا تیسیر محمد عرب سے کینڈا پہنچے تھے اور یہاں انھیں کچھ وقت ہاتھ آیا اور یہ وقت انھوں نے اپنے ابا کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں صرف کیا ۔ انھوں نے اپنے والدکے کلام اور ان کی تحریروں وغیرہ کو سمیٹنا شروع کیا اور اس کام میں عمر غزالی نے ان کا بھر پور ساتھ نبھایا ۔ اس طرح تیسیر محمد کی متواتر کوششوں سے ’’دیوانِ احمر لکھنوی‘‘ منصہ شہود پر آیا ۔ احمر لکھنوی کے دیوان کے پیش لفظ میں تیسیر محمد نے اپنے والد کے تعلق سے نہایت دلچسپ اور معلوماتی باتیں رقم کی ہیں ۔ اسی طرح اس دیوان کے مقدمہ میں عمر غزالی نے بھی اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ وہ دیوان کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’’دیوان احمر لکھنوی‘کی تدوین کا کام کئی برسوں سے جاری تھا ، جو اب پایۂ تکمیل کو پہنچا ہے ۔ اس کام میں سب سے کلیدی رول تیسیر محمد ( کینڈا) نے انجام دیا ہے ۔ یہ ان کا فرض بھی تھا اور میری گزارش بھی کہ وہ اس کتاب کا پیش لفظ تحریر فرمائیں ۔ انہوں نے پیش لفظ میں اپنے والد بزرگوار کے تعلق سے ایسے اسرار سے بھی پردہ اٹھا یا ہے ، جو اب تک نظروں سے اوجھل تھے ۔ ۳؎
مجموعی طور پر احمر لکھنوی کی زندگی کے بارے میں یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ جس قدر دین و دنیا کے معاملے میں حساس اور فکر مند رہتے تھے ، اسی قدر وہ باقی معاملات میں بھی حساس نظر آتے ہیں ۔ ایک نابینا ہونے کے باوجود بھی انھوں نے جس طرح اپنے آپ کو سنبھالا اسے ایک عظیم کارنامہ کہا جا سکتا ہے ۔ انھوں نے نہ صرف اپنے وجود ار اپنے باطن کی آنکھوں کو ابدی بصیرت اور ضیا عطا کی بلکہ اپنے استقلال اور
اپنی ہمت و حوصلہ سے انھوں نے اپنے بچوں کو اس قابل بنایا کہ وہ دنیاوی اعتبار سے بہت دور نکل آئے۔ جب ایک والد اپنے بچوں کی تربیت ہر لحاظ سے بہ حسن و خوبی سے سر انجام دیتا ہے تو یقینا ان کی پود کامیابی کی منزولوں سے ہم کنار ہوتی ہے ۔ اس کی بہترین اور مکمل مثال احمر لکھنوی ہیں ۔ جب تک اردو شاعری کا تناور درخت قائم و دائم ہے تب تک اس تناور درخت کی ٹہنوں پر ایک نام احمر لکھنوی کا بھی رہے گا ۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here