آہ۔۔۔ اے فلسطین-Ahh… O Palestine!

0
216

Ahh... O Palestine!

عارفہ مسعود عنبرمرادآباد
گزشتہ کئی روز سے فلسطین اور اسرائیل کے بیچ جنگ جاری ہے ۔جھوٹ فریب اور تشدد سے فلسطین کو اپنے قبضے میں کرنے والے اسرائیل نے ایک بار پھر اپنی اوقات دکھا دی ۔حماس کو ختم کرنے کی آڑ میں اسرائیل فلسطین کے بے گناہ معصوم بچوں مرد و خواتین اور ان کے گھروں پر بمباری کر رہا ہے ۔جس میں 250 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو گئے اور دس ہزار سے زیادہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔انٹرنیشنل میڈیا کی اونچی عمارت ڈھا دی گئ۔ گوگل اور امریکہ نے مل کر گوگل میپ پر فلسطین کی تصویریں دھندلی کر دیں تاکہ حماس کی آڑ میں اسرائیل فلسطین پر تشدد کرتا رہے اور اس کی تصاویر تک باہر نہ آ سکیں ۔نیز اسرائیل کے ظلم و ستم دنیا سے پوشیدہ رہیں ۔اسرائیل 1948 سے لیکر اب تک فلسطینی عوام کے لیے ظلم وبربریت کا پیکر بنا ہوا ہے ،لیکن ہمیں ناز ہے فلسطینی عوام پر جو بیت المقدس کی حفاظت میں اپنی جان کی بازی لگاے ہوئے ہیں۔ وہاں پانچ سال کا بچہ بھی اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوتا ہے ۔فلسطینیوں کے لیے سب سے بڑی کامیابی اپنے وطن سے محبت اور عرض مقدس کے لیے شہید ہو جانا ہے ۔وہاں مائیں اپنی اولادوں کو شہید ہونا سکھاتی ہیں ۔فلسطینی گولے بارود سے ڈرنے کی بجائے شہادت کاجام پینا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔وہ ظلم برداشت کرکے بھی اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں اپنے وطن کے لیے شہید ہونا فلسطینیوں کے لیے فخر کی بات ہے ۔ اور کیوں نہ ہو کہ یہ وہی فلسطین مقدس ہے جسے انبیاء کرام کے مدفن ہونے کا شرف حاصل ہے، جہاں سے پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم روح القدوس کے ہمراہ سفر معراج کے لیے با برکت ہوئے ۔جی ہاںیہ وہی عظیم اور پر شوکت زمین جہاں اسلام کی عظمت قبلہ اول کی صورت میں موجود ہے ۔ اسرائل کی مکاری اور عیاری یہ ہے جس فلسطین نے انہیں پناہ دی احسان فراموش انہیں کے خون کے پیاسے ہو بیٹھے ۔
آج تاریخ چیخ چیخ کر سمجھا رہی ہے کہ ہٹلر نے دھوکے باز یہودیوں کو کیوں قتل کیا تھا ۔اس وقت ہٹلر نے کہا تھا ” آج تاریخ مجھے برا کہے گی ظالم کہے گی کہ میں نے لاکھوں یہودیوں کو مارا لیکن ایک دن ایسا آئے گا جب لوگ میرے فیصلے سے اتفاق کریں گے ۔میں نے 90 فیصد یہودیوں کو ختم کیا اور 10 فیصد کو چھوڑ دیا تاکہ دنیا یہ بات جان لے کہ میں نے انہیں قتل کیوں کیا تھا” آج جس طرح یہودی بے گناہ انسانوں کے قتل عام پر تلے ہیں تو ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ ہٹلر نے ہزاروں جانوں کے قتل کا ذمہ اپنے اور کیوں لیا ۔
سوشل میڈیا پر فلسطین مخالف ٹوئٹ اور نفرت بھرے کمنٹس دیکھ کر ہم حیرت زدہ ہیں کہ کئ جگہ we stand with Israel بھی لکھا تھا ،کہ کچھ بیمار ذہنوں میں نفرت کا کیڑا اس قدر بیٹھ گیا ہے کہ انہیں گنگا میں بہتی لاشوں کے دل دہلا دینے والے مناظر پر آہ بھرنے کی بجائے فلسطینی معصوموں کے خون بہنے کی زیادہ خوشی ہے ۔گنگا میں بہتی لاشوں کو کتوں اور کوں کا نوچنے کا منظر دیکھ کر راقم پر کئ روز سکتہ سا طاری رہا اور رب العزت سے تمام انسانیت پر رحم و کرم کی دعائیں کرتے رہے۔ جو وباء سے مر رہے ہیں وہ بھی انسان ہیں اور تشدد سے جانیں گنوا رہے ہیں وہ بھی انسان ہیں۔ پھر کیوں ان چند بیمار ذہنو ںکو فلسطینی بچے اور خواتین کی آہ و فغاں سنائ نہیں دے رہی۔ نیز وہ فلسطین کی تاریخ سے بھی ناواقف ہیں ۔فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے ۔یہ اس علاقے کا نام ہے جو لبنان اور مصر کے درمیان واقع ہے آج جس بیشتر حصہ پر اسرائیل کا قبضہ ہے، 1948 سے پہلے یہ تمام علاقہ فلسطین کہلاتا تھا ۔جو خلافت عثمانیہ تک قائم رہا مگر بعد میں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اس پر قبضہ کرلیا ۔ 29 نومبر نمبر 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا اور 14 مئ 1948 کو ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیل کے ملک کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اور 15 مئ 1948 کو آزادی کا اعلان کر دیا گیا۔ اسرائیل نے فلسطین پر قابض ہوتے ہی علاقے کی عرب اقلیت پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے جس کی وجہ سے مجبور ہو کر لا کھوں عربوں کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ 29 اکتوبر 1958 کو اسرائیل نے صحرائے سینا پر حملہ کر کے اسے مصر سے چھین لیا ۔ اس حملے میں فرانس اور برطانیہ کی حکومتوں نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ 5جون 1967 کو چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی ۔ اسرائیلیوں نے غزہ پٹی کے علاقوں کے علاوہ مشرقی یروشلم کا علاقہ شام کی گولان کی پہاڑیاں اور عرب اردن کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ 1967 کی جنگ کے دوران غزہ پٹی اور مغربی کنارے سے 30 ہزار فلسطینیوں کو باہر کرکے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت یروشلم سے لاکھوں فلسطینیوں کو باہر کر دیا گیا ۔فلسطینیوں کے جسم اور روح پر ایسے زخم دیے گئے جن سے قطرہ قطرہ لہو مسلسل ٹپک رہا ہے ۔کیوں اس لہو کی لالی ہمیں بے چین نہیں کرتی اور ان کے دل سے نکلنے والی چیخیں ہمیں سنائی نہیں دیتیں۔جس وقت انگریزوں نے فلسطین پر قبضہ کیا تھا اس وقت یہاں کی آبادی میں صرف 11 فیصد یہودی تھے باقی لاکھوں عرب تھے ۔یہودیوں نے لاکھوں فلسطینیوں کو گھر سے بے گھر ہونے پر مجبور کر دیا۔ جولائی 1980 میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم سمیت پورے یروشلیم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے دیا۔16 مئ 1882 کو لیبان کے مسیحی شدت پسندوں نے اسرائیل کی مدد سے دو مہاجر کیمپوں میں گھس کر سیکڑوں فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ۔ آج پھر فلسطینیوں پر ظلم اور تشدد ہورہا ہے معصوم اور بے گناہ بچوں عورتوں کا خون بہایا جا رہا ہے ۔ اے امت مسلمہ سنو! فلسطین کی جنگ ایک ملک سے دوسرے ملک کی جنگ نہیں ہے یہ حق اور باطل کی جنگ ہے ۔جھوٹ اور سچ کی جنگ ہے۔ انسانیت کے پرستاروحق کی دہائی دینے والو سنو ! فلسطین کی عوام پر ظلم ہو رہا ہے جس فلسطین نے ان یہودیوں کو اپنے دامن میں پناہ دی۔ برسوں سے دھوکے باز اسرائیلی اسی دامن کو چاک کر رہے ہیں۔ بس کہنا یہ چاہتی ہوں کہ فلسطین فلسطینی عوام کا ہے بیت المقدس امت مسلمہ کا ہے۔ بیت المقدس کو آزاد کرانے اور فلسطین کو اس کا حق دلانے میں دنیا کی تمام باضمیر حکومتیں کوشش کریں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی ادارے انصاف کے تقاضوں کو سمجھیں اور صاحب قلم فلسطین کے منصفانہ حق کی آواز بلند کریں تاکہ فلسطینیوں کو ان کا حق دلوانے میں کامیابی مل سکے۔اور یہ جنگ جو فی الحال دونوں طرف سے روک دی گئی ہے ۔دوبارہ شروع ہونے کی نوبت نہ آئے۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here