9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ڈاکٹر سلیم خان
ایک زمانے میں بی جے پی والے راہل گاندھی کو پپو کہہ کر تمسخر اڑاتے تھے لیکن اب وقت بدل گیا ہے ۔ وہ مذاق تو اب بھی اڑاتے ہیں لیکن پھر ان کی پیروی بھی کرتے ہیں مثلاً جب راہل نے کہا کہ بیرونی ویکسین کو فوری اجازت دی جائے تو کہا گیا کہ وہ بیرونی ممالک کی اداروں کی دلالی کررہے ہیں لیکن چند دنوں کے بعد حکومت نے وہی فیصلہ کرلیا ۔ ایسا کئی بار ہوچکا ہے مثلاً راہل نے بنگال میں اپنی ریلیاں منسوخ کیں تو وزیر اعظم کو شرم آئی اور انہوں نے ۵۰۰ افراد تک محدود کردیا ۔ اس پر راہل نے ٹویٹ گاندھی جی کا یہ جملی ٹویٹ کیا پہلے تمہیں وہ نظر انداز کریں گے، اس کے بعد ہنسی اڑائیں گے اور پھر لڑیں گے بالآخر تم جیت جاوگے۔ اب راہل گاندھی نے چینی فوجی دراندازی کے سلسلے میں فوجی سطح پر ہونے والی بات چیت کو بے معنی قرار دے کر اسے وقت کا ضیاع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ یہ توجہ طلب اور نہایت سنجیدہ تبصرہ ہے ۔
راہل گاندھی نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ’’گوگرا ۔ہاٹ اسپاٹ اسپرنگ اور ڈیپسانگ پلینس پر چینی فوج کے قبضہ سے ہندوستانی کے اسٹریٹجک مفادات کے ساتھ ساتھ ڈی بی او ہوائی پٹی کو بھی براہ راست خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ حکومت کی بے مقصد بات چیت سے قومی سلامتی کو بڑے پیمانے پر خطرہ ہوا ہے۔ ہم اس سے بہتر کام کرنے کے اہل ہیں‘‘۔ کانگریس نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ سرحد پراس کی حکمت عملی چین کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہےکیونکہ چینی فوج سرحد پر اسٹریٹجک اہمیت کے حامل کئی خطوں سے پیچھے نہیں ہٹ رہی ہے۔ اس سلسلے میں چین کی فوج اور ہندوستانی فوج کے مابین 9 اپریل کو ہونے والی آخر دور کے مذاکرات میں ، چینی فوج نے اسٹریٹجک اہمیت کی حامل کئی چوکیوں سے پیچھے ہٹنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ یعنی اب وہ پی پی ۱۵ اور پی پی ۱۷ سے پیچھے نہیں جائیں گے اور ہندوستان سے کہا گیا پی پی ۱۴ سے پیچھے ہٹنے کو کافی سمجھ کر خاموش ہوجائیں ۔ اس کے علاوہ ماہ فروری میں چین نے سرحد سے قریب دور مار کرنے والے میزائل بھی نصب کردیئے ہیں جو یقیناً ملک کے لیے تشویش کا مقام ہے۔ اس پر وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ہم اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن کیا یہ کافی ہے؟
یہ تبصرہ چونکہ ہندوستان اور چین کے درمیان جاری پچھلے تقریباً دس ماہ کے واقعات پر ہے اس لیے ان پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہندوستان اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تنازعہ کی ابتدا گزشتہ برس مئی میں ہوئی اور جون کے وسط میں وادی گلوان کے اندر دونوں فوجیوں کے درمیان برپا ہونے والے تصادم میں ہندوستان کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ۔اس بابت سب سے اہم بیان وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا ہے جو انہوں نے گیارہ فروری کو ایوانِ پارلیمان میں دیا۔ چین کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی تفصیل بتاتے ہوئے وزیر موصوف نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پختہ ارادوں اور دیرپا مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے مشرقی لداخ میں پینگانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں سے فوجیں پیچھے ہٹانے پر اتفاق کرلیا ہے اور اس پر عمل آوری شروع ہو گئی ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں فریق مرحلہ وار، مربوط اور مستند انداز میں فوج کو پیچھے ہٹائیں گے۔
وزیر دفاع کے مطابق فریقین کی رضامندی صرف پینگانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کنارے تک محدود ہےمگر دیگر متنازعہ علاقوں سے متعلق پیش رفت نہیں ہوئی اس لیے وہاں جوں 1کی توں حالت برقرار رہے گی تاہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری رہےگا۔ اس سے ظاہر ہے کہ ابھی تک چین کے ساتھ یہ سرحدی تنازع پوری طرح ختم نہیں ہوا اور اس سے پہلے امریکی شرارت نے نیا مسئلہ پیدا کردیا۔ راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ پینگانگ جھیل کے، ”مشرق کی سمت شمالی کنارے پر چین اپنی فوج فنگر آٹھ کے پاس ہی رکھے گا جبکہ بھارت اپنی فوجی یونٹ فنگر تین کے پاس مستقل پوسٹ دھن سنگھ تھاپا چوکی کے پاس تعینات کرے گا۔ جھیل کے جنوبی ساحلی خطے میں بھی فریقین کی طرف سے ایسی ہی کارروائیاں کی جائیں گی۔” وزیر دفاع نے یہ دعوی نے تو کردیا کہ ہندوستان نے اپنی ایک انچ بھی زمین کاسمجھوتہ بھی چین سے نہیں کیا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ برس اپریل تک ہندوستانی فوج پینگانگ جھیل کی فنگر آٹھ تک گشت کیا کرتی تھی اور تنازع کے بعد چین نے اسے فنگر چار تک محدود کر دیا تھا جبکہ نئے معاہدے کے تحت یہ فوج فنگر تین کے آگے نہیں جائے گی۔
ہندوستان اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں نو ماہ سے جاری سرحدی تنازع کی وجہ سے دونوں ممالک کا نقصان ہو رہا تھا ۔ ان پر اندرونی دباؤ بھی تھا۔ تاہم مبصرین کے مطابق اس فوجی اور سفارتی مذاکرات کے دوران ہندوستان کا زیادہ نقصان ہوا اور سمجھوتے میں بھی اس کی کمزوری نظر آئی۔ اس لیے حزبِ اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے وزیرِ اعظم نریندر مودی پر ہندوستان کا علاقہ’ فنگر تھری سے فنگر فور تک کی زمین‘ چین کے حوالے کرنے کا الزام لگادیا۔ انہوں اخباری نویسوں سے بات چیت میں کہا کہ نریندر مودی نے چین کے سامنے سر جھکا دیا ہے کیونکہ وہ بزدل ہیں اور انوےں نے فوج کی قربانی سے دھوکہ کیا ہے۔ راہل گاندھی کے مطابق ‘یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بھارتی علاقہ فنگر فور تک ہے’۔ وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کو نشانہ بناتے ہوئے وہ بولے اسٹریٹجک اہمیت والے جن علاقوں پر چین قابض ہے اس کے بارے میں انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ راہل گاندھی نے سوال کیا کہ کیلاش رینج سے فوج کو پیچھے ہٹنے کے لیے کیوں کہا گیا؟
حزب اختلاف کا تو کام ہی حکومت پر تنقید کرنا ہوتا ہے لیکن ماہرین کی رائے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اس مسئلہ پر سابق ایئر چیف مارشل کپل کاک بھی راہل گاندھی کی تائید کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق 16؍ جون کی خونی جھڑپ کے بعد 29؍ اگست کی رات میں ہندوستانی فوج نے اپنے علاقے کی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا تھا ۔ یہ اس لیے اہم تھا کہ وہاں سے پورے علاقے پر نظر رکھی جا سکتی تھی۔ یہاں تک کہ پینگونگ جھیل کے اطراف میں چینی فوج پر نظر رکھنا بھی ان کے لیے ممکن ہوگیا تھا لیکن اب ہندوستانی فوج کو وہاں سے ہٹنا پڑے گا ۔ ایک اور حربی مبصر اجے شکلا بھی کہتے ہیں کہ ہاں ہندوستان کو ہٹنا پڑا ہے جو اس کے مفاد میں نہیں ہے۔ شکلا کے مطابق پینگونگ جھیل کے جنوبی علاقے میں بھارتی فوج نے اچھی پوزیشنوں پر قبضہ کر رکھا تھا جس سے اس کو کافی فائدہ تھا۔
اس طرح گویا شکلا کے بیان سے بھی راہل کی توثیق ہوجاتی ہے۔ ان دونوں ماہرین یعنی کپل کاک اور اجے شکلا کا ا س بات پر اتفاق ہے کہ یوں تو دونوں ملکوں کا نقصان ہوا ہے لیکن ہندوستان کو زیادہ خسارہ اٹھانا پڑا،کیوں کہ اس کی معیشت چین کے مقابلے میں چھوٹی ہے اوراس کے پاس چین جیسے ملک کا مقابلہ کرنے لیے وافر مقدار میں سرمایہ نہیں ہے۔ فی الحال ملک سارا سرمایہ مٹھی بھر سرمایہ داروں کی کی تجوری میں جمع ہوگیاہے۔ عوام کی جیب اور سرکاری خزانہ دونوں خالی ہوگئے ہیں۔ روس اب پہلے کی مانند ہمنوا نہیں رہا اور پاکستان کا دوست بن گیا ہے۔ امریکہ کے ارادے بھی ٹھیک نہیں لگ رہے ہیں ۔ ایسے میں ملک دن بہ دن یکہ اور تنہا ہوتا جارہا ہے۔ یہ صورتحال کسی بھی ملک کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔
تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ نیپال سے لے کر چین تک سارے پڑوسی ممالک ہم سے نالاں ہیں ۔ بنگلا دیش کو ہندوستان کا سب سے بڑا ہمنوا سمجھا جاتا تھا لیکن وزیر داخلہ نے اپنے انتخابی فائدے کے لیے اسے بھی ناراض کردیا ۔ شاہ جی نے ایک معروف بنگالی اخبار کے ساتھ انٹرویو میں شیخی بگھارتے ہوئے کہہ دیا کہ بنگلہ دیش کے غریب لوگ بھارت اس لیے آتے ہیں کیونکہ،’’انہیں اپنے ملک میں اب بھی پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا ہے۔ اگر بی جے پی مغربی بنگال میں اقتدار میں آتی ہے تو بنگلہ دیش سے ہونے والی دراندازی رک جائے گی۔‘‘ اپنے چانکیہ گیری دکھاتے ہوئے وہ یہ بھی بول گئے کہ ،’’جب ترقی پذیر ملک میں ترقیاتی کام ہوتے ہیں تو سب سے پہلے فائدہ امیروں کو ہوتا ہے، غریبوں کو نہیں۔ بنگلہ دیش ابھی اسی دور سے گزر رہا ہے‘‘۔ یہ معاملہ تو فی الحال ہندوستان میں زور شور سے ہورہا ہے کہ ملک کی ساری دولت چند لوگوں کی تجوری میں سمٹتی جا رہی ہے۔
اس احمقانہ بیان کا بنگلا دیش کے وزیر اعلیٰ نے ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ امیت شاہ کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔ پڑوسی ملک کے وزير خارجہ اے کے عبد المومن نے مذکورہ بیان پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین جب اس طرح کے گہرے رشتے ہوں تو ان کا ایسا بیان، ’’ناقابل قبول ہے۔‘‘ نیز بنگلہ دیش سے متعلق امیت شاہ کا علم بہت محدود ہے ۔ ویسے شاہ جی کی مولنمات تو ہندوستان کے بارے میں بھی وسیع نہیں ہے۔ بنگلہ دیشی وزیر خارجہ نے کہا ان کے ملک میں میں بھوک سے کوئی نہیں مرتا ہے۔ یہاں قحط سالی جیسی غربت نہیں ہے۔ انہوں نے شاہ کو زبردست طمانچہ جڑتے ہوئےآئینہ دکھایا کہ گزشتہ برس بھوک سے متعلق 107 ممالک کی ’ہنگر انڈیکس‘ میں بھارت کا مقام 94 ہے، جو پاکستان اور بنگلہ دیش سے بھی نیچے ہے۔ اس فہرست میں بنگلہ دیش کا 75واں مقام ہے۔
امیت شاہ کی در اندازی کے جواب میں عبدالمومن نے تسلیم کیا کہ بنگلہ دیش میں اعلی تعلیم یافتہ افراد کے لیے روزگار کی کمی ہے تاہم متوسط درجے کے تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ ایسا نہیں ہے، اور شاہ جی کے علم میں یہ اضافہ بھی کیا کہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ بھارتی شہری بنگلہ دیش میں کام کرتے ہیں۔ ہمیں بھارت جانے کی کیا ضرورت نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے بنگلہ دیش کا پڑھا لکھا بیروزگار ہندوستان میں آکر در بدر ٹھوکریں کھانے کے بجائے یوروپ ، امریکہ اور خلیج کے ممالک کا رخ کرتا ہے۔ وزیر اعظم کی سوچھّ بھارے مہم کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیر خارجہ نے انکشاف کیا کہ بہت سے سماجی شعبہ جات میں بنگلہ دیش کی حالت ہندوستان سے بہتر ہےمثلاً بنگلہ دیش میں تقریبا نوّے فیصد لوگ اچھی قسم کے بیت الخلاء کا استعمال کرتے ہیں جبکہ ہندوستان کی پچاس فیصد سے زیادہ آبادی آج بھی ٹوائلٹ کی سہولیات سے محروم ہے۔
مغربی بنگال کی سرکردہ رکن پارلیمان مہوا موائترا نے بھی تسلیم کیا کہ ہندوستانی معاشی ترقی کی شرح بنگلہ دیش سے بہتر نہیں ہے۔ وزیر داخلہ کی اس بیان بازی نے وزیر اعظم کے دورے سے پیدا ہونے والی خیر سگالی پر پانی پھیر دیا ہے۔ اس طرح نیپال اور پاکستان کی مانند بنگلہ دیش بھی ہندوستان کا ساتھ چھوڑ کر چین سے قریب ہوجائے گا۔ آج کی دنیا میں سب کو ناراض کرنے کا خطرہ کوئی مول نہیں لیتا اس لیے مودی سرکار کو خود احتسابی کرکے جائزہ لینا چاہیے کہ آخر ہمارے سارے حلیف ہم سے ناراض کیوں ہوگئے؟ اور جنگی سطح پر اصلاح کی تدابیر کرنا چاہیے ورنہ یہ ملک دشمنوں کے درمیان گھر جائے گا اور یہ عوام کے لیے کسی طور مفید نہیں ہوگا ۔