نچنیا

0
535

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


افسانہ نگار: عقبیٰ حمید

اس نے اپنی ساڑی کئی بار صحیح کیاپر نہ جانے کیوں کھلی جارہی تھی اس بار جیسے تیسے لپیٹ لیا تھا اس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔ ہونٹوں کو چیرتے ہوئے لپیسٹک گالوں تک کھینچ گئی تھی۔ ساڑی کے پلو سے رگڑ رگڑ اس نے اپنے گورے گالوں کو لال کرلیا تھا۔ کاجل نے آنکھوں کو اور بھی بڑا کردیا تھا۔ لال چوڑیاں ہاتھوں میں ٹھوس لی گئی تھی۔ نچنیااوہ نچنیا تیار ہونے میں کتنا وقت لگائے گی ۔ چل برات تیار ہے۔ ہاں بس تیار ہوگئے۔ اس کی لال ساڑی ڈوبتے سورج کے ساتھ کہیں زندہ ہوچلی تھی۔

ناچتے ہوئے اس نے کسی کو نہ دیکھا تھا۔ اس کو دیکھنے پورا گائوں اکٹھا تھا گوری شنکر کی شادی میں نچنیا آئے گی گائوں کا بچہ بچہ جانتا تھا اس کے تھرکتے ہوئے پاؤںکانپ رہے تھے۔ اس کا آنچل بار بار گر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں ڈوبتے ہوئے سورج کی مانند سرخی بٹورے ہوئے تھی۔ ڈوھل سے تیز اس کی دھڑکنیں تھی وہ غش کھاکر گرنے ہی والی تھی کہ بغل میں بجتی ڈھول پر ہاتھ کو روک لیا تھا۔ کچھ سوچ پاتا کہ اس کے قدم اس کوٹھری کی طرف چل پڑے جہاں اس نے نچنیا کا مکھوٹا اوڑھا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

انسانیت

گرتی چوڑیاں فرش پر لوٹنے لگی تھی اس کے ہاتھ اس آئینے کو مار رہے تھے جس میں اس کا چہرہ دھندلا ہورہا تھا۔ نہیں، نہیں مجھے نہیں بننا نچنیا۔ کیا ہوا بیٹا کیوں اتنی رات کو شور مچا رہا ہے ارے تجھے پسینہ آرہا ہے۔ اما، اماتم میرے پاس رہو تیرے ہی تو پاس ہوں آنکھ کھول کردیکھ تو میری چارپائی بالکل تیرے پاس ہی ہے۔ بابوجی کہاں ہیں تیرے سامنے والی چار پائی پر۔ ان کو صبح جلدی اٹھنا ہے اب شور مت کر سوجا اچھا۔ اماں۔

اماں بہت برا خواب تھا مجھے پتہ ہے وہی جو تو ہمیشہ دیکھتا ہے، ہاں اماں، لیکن کیوں، اب یہ اپنے سوال بند کر اور مجھے سونے دے۔ اماں، اب کیا؟ اماں نے بڑے غصے سے کہا، یہ چاند کے پردادا بھی چاند تھے۔ مجھے نہیں پتا۔ اپنے ابا سے پوچھنا۔ اماں نے جلدی سے کروٹ لے لی ۔ لیکن سندر کو ساری رات نیند نہ آئی۔

سندر صبح سے ہی بھانو کے ساتھ کھیلنے نکل گیا تھا۔ روز کی طرح دوپہر میں کھانا کھانے آیا تھا۔ اماں کتنے دن ہوگئے میٹھے چاول نہیں کھائے۔ آج تیرے بابو بڑی اچھی شادی میں گئے ہیں۔ جہاں ان کو سوپا بھر چاول اور گڑ ملیں گے۔ کل میں تیرے لیے میٹھے چاول ضرور بنا دوں گی۔ رہنے دو اماں مجھے ساگ روٹی ہی اچھی لگتی ہے ارے ابھی تو کہہ رہا تھا۔ اب اتنی دھوپ میں کہاں چلا۔ بھانو کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلنے۔

اچھا جلدی آنا۔

بھانو میری باری ہے لے ڈنڈا سندر نے بڑی پھرتی سے گلی ہوا میں اڑا دی۔ بھانو نے اپنی باری پھر کھیلی مگر گلی ہوا میں اڑتی ہی نہ تھی۔ بھولا بھیا دیکھ ہر بار سندر ہی جیت رہا ہے۔میں گلی ہوا میں اڑا ہی نہیں پارہا ہوں۔ کیا سندر بہت چتر بنتے ہو۔ میرے بھانو کو ہرا رہے ہو۔ ہم کو ہرائو تو جانیں۔ اچھا ایسی بات ہے تو آجائو۔ دیکھا گھس گئی نہ ہیکڑی۔ نچنیا کی اولاد سالہ بھانو کو ہرائے گا۔

میرے چھٹکا کو! ایک ٹھاکر کو!

اماں یہ میٹھے چاول میں نہیں کھائوں گا۔ ارے ابھی تو دوپہر میں کہہ رہا تھا۔ مجھے نہیں کھانا ہے۔ میٹھے چاول۔ پلیٹ تیزی سے سامنے کی دوار سے ٹکرا کر گول گول گھومنے لگی۔

چندن نے زور کا تھپڑ اس کے گالوں پر جڑ دیا ۔ رہنے دو جی بچہ ہے۔ اسے کھانا ہے مت کھائے۔ پھینکتا کیوں ہے۔اس روٹی کے لیے چندن کچھ کہتے کہتے رہ گیا۔ ہاتھ جھڑکتے ہوئے چندن کمرے میں چلا گیا۔

سندر باپو سے ناراض ہو بیٹا میرا بچہ کتنا بڑا ہوگیا دیکھو نہ پاروتی۔ اچھا تودُلاراجارہا ہے بیٹے کو، باپو ایک بات بتائو یہ آسمان میں جو چاند ہے اس کے بھی باپ دادا چاند تھے۔ رہے ہوں گے۔ بالکل ہمارے باپ دادا کی طرح بولو نہ باپو۔ہاں رے ہمارے باپ دادا کی طرح۔

دس سال کا سندر چندن کی دوسری اولاد ہے پہلی گجریہ جو سندر سے دو سال بڑی ہے۔ اماں پاس کے گائوں کی ہے۔ چندن پورے گائوں میں شادی پڑجاتی بلائے جاتے اس کے بغیر شادی کی رونق ادھوری رہتی۔

آج مجھے جلدی جانا ہے پاروتی جلدی سے کچھ پکادو ۔

پاروتی نے چولہا جلایا ہانڈی چڑھایا۔ اماں کیا پکارہی ہو۔ ارے سندر اتنی جلدی اٹھ گیا جا ابھی سوجا کوئی بات نہیں پاروتی میں نے ہی اٹھایا ہے۔ اسے بھی تیار کردو۔ آج ٹھاکر صاحب کے یہاں شادی ہے۔، لیکن وہ کچھ سوچ کر پاروتی نے کہا۔ لیکن وہ تو۔ اداس مت ہو پاروتی آخر کب تک ایک دن تو اسے بھی یہ سب کرنا ہے۔ دیکھنے سے تو سیکھے گا۔

آنگن کے بیچو بیچ نچنیا ناچ رہی تھی لوگ پیسے لٹا رہے تھے۔ کیوں رے تو بیچ میں کیوں کھڑا ہے جب نچنیا کو دیکھنا نہیں ہے۔ کسی نے سندر کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی طرف گھسیٹا تھا۔ دیکھو نہ کیسے نچنیا ناچ رہی ہے۔ اس کی کمر تو دیکھو تو پہلی بار آیا ہے کیا میں بھی پہلی بار آیا ہوں بڑا مزہ آرہا ہے اور تجھے بتائو نا؟ ہاں میں بھی پہلی بار آیا ہوں تم کس کے ساتھ آئے ہو۔ سندر کچھ کہتا کہ تم یہاں کیا کررہے ہو۔

میں نے تو تمہیں نچنیا کے پاس چھوڑا تھا۔ کسی نے اس کی طرف لپک کر کہا۔

ناچتے ہوئے نچنیا نے چاروں طرف دیکھا تھ۔ سندر کہیں نظرنہیں آرہا تھا۔ ڈھول کی آواز رکتے ہی وہ نکل پڑی۔ اس کو ڈھونڈھنے۔ سندر نہر کے کنارے بیٹھا پانی میں کنکری ماررہا تھا۔ بغل میں بیٹھ کر چندن نے کہا۔ تمہاری اماں صحیح کہتی ہیں بیٹا ہمارا گائوں میں رہنا بہت مشکل ہونے والا ہے۔ہمارا گھر ہمارانہ رہے گا۔ کہاں جائیں گے۔ بھگوان جانے۔

بھوکے مریں گے کوئی ایک وقت کی روٹی دینے والانہیں رہے گا۔ کیوں باپو؟ تو کچھ کرے گا نہیں۔ میں اکیلا کب تک لڑتا رہوں گا۔ حالات سے، لوگوں سے اور اپنے آپ سے۔ پھوٹ پھوٹ کر چندن رونے لگا۔ سندر اس کے آنسو پوچھتے ہوئے کہتا ہے۔ یہ کاجل بالکل ویسا ہے جیسا آپ کا جیون۔ بالکل کالا، اندھیرا ، نہ باپو چندن جلدی سے اسے چپکا کر چومنے لگتا ہے۔ ہاں رے میرا تیرا اور ہر نچنیا کا جیون۔

آج پاروتی نہا دھو کر صبح ہی تیار ہوگئی تھی۔

پاس کے ویدھ جی سے پاروتی اکثر ملنے جاتی تھی۔ آج پورے پندرہ دن کے بعد پاروتی ویدھ جی سے ملنے گئی تھی۔کچھ دوائیں الماری پر رکھی رہتی تھی۔پاروتی اکثر چورن جیسی دوائوں کو کھایا کرتی تھی۔ایک دن سندر نے ایک پڑیا کھالی تھی تو پاروتی نے اسے بہت مارا تھا۔ پاروتی کو ویدھ جی کے بارے میں ٹھاکر صاحب کی پتنی نے بتایا تھا۔ جب پاروتی پہلی بار ٹھاکر صاحب کی پتنی کے ساتھ گئی تو انہوں نے اپنا نام بتانے سے صاف منع کردیا تھا۔ پاروتی سمجھ گئی تھی کہ ٹھاکر صاحب کی پتنی کیا کہنا چاہتی ہے۔ تب سے پاروتی اکثر ویدھ جی کے پاس جاتی۔ آگئی وید جی کے پاس سے ہاں مگر وید جی کہہ رہے تھے اگلی بار اپنے پتی کو بھی ساتھ لانا پندرہ دن بعد بلائے ہیں۔

اٹھو جی صبح ہوگئی ارے ابھی کچھ دیر اور سونے دو آج میں دیر سے جائوں گا۔ ویسے بھی کتنی ٹھنڈ ہے نومبر کی صبح کویل کا کوکنا اور چڑیوں کا چہکنا جاری تھا۔ جلدی سے پاروتی نے پھر سے چادر کھینچ لی اٹھو جی وید جی کے یہاں نہیں جانا ہے کیا؟ ہاں مجھے تو یاد ہی نہیں تھا۔ دھیرے بولو سندر اٹھ جائے گا۔

تم جائو پاروتی میں سندر سے بات کرلوں گا۔ پاروتی دروازہ بند کرکے باہر نکل گئی۔کچھ دیر بعد چندر باہر آگیا۔ چندر کے ماتھے کا پسینہ چمک رہا تھا۔ پاروتی اور چندر میں کوئی بات نہ ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کے مسکرائے۔ پاروتی کے آنکھوں میں جھلملاتیں آنسو چندر سے چھپ نہ پائے تھے کیوں پریشان ہوتی ہو۔میں ہوں نہ۔ چندر نے ان کے ہاتھ جو برف کی مانند ٹھنڈے تھے لے کر کہا۔

سندر دیکھو دروازے پر کون ہے۔ چاچی میں ہوں۔ گجریہ کی سہیلی۔ چاچی میں گجریا کو لینے آئی ہوں۔میں جائوں اماں۔میں بھی چلوں گا۔ سندر جلدی سے بول پڑا۔ کیوں میں تمہارے ساتھ تو نہیں جاتی۔ اچھا جا پر جلدی آجانا میں چھوڑ دوں گی۔ چاچی پڑوس میں رہنے والی موہنی گجریا کی ہم عمر تھی۔ ایک ہی سہیلی تھی جو گجریا کے گھر آتی جاتی تھی۔ دور کے رشتے میں موہنی اس کی بہن لگتی تھی۔ گجریہ سولہ سال کی ہوگئی تھی۔ گجریا اور موہنی آنگن میں ناچ رہی تھی۔ بوڑھی دادی گاگا کر تھکی جارہی تھی۔ بس کر موہنی میں تھک گئی۔ گلا بھی بیٹھاجارہا پر تھوڑا اور دادی وہ والا تو گایا ہی نہیں ارے اب کون سا بچا ہے۔ سب تو گاچکی ہوں۔ میت نہ ملے گا میری بنو کو، میت نہ ملے گا میری بنو کو۔ اچھا، لو پانی پیو دادی۔ پھر گائو۔ گجریا اور موہنی دونوں اپنے دوپٹے کو نچا نچا کر ناچ رہی تھی۔ یکا یک ان کے قدم رک گئے سامنے سندر تھا۔

اماں گجریا کا بیاہ جلدی کردو۔ ارے تجھے تو بڑی فکر ہوگئی گجریا کہ کچھ دن پہلے تک تو کہتا تھا گجریا چلی جائے گی تو میں کیسے رہوں گا۔ گھر سونا ہوجائے گا۔ مجھ سے کون لڑے گا؟روپیہ بھی ہے بیاہ کردو۔ پاروتی کھانستے ہوئے رسوئی میں چلی گئی۔ گجریا نے ترچھی نظر سے سندر کو گھورا ۔

سنو پاروتی میں کچھ دنوں کے لیے باہر جارہا ہوں۔ وہاں سے آتے وقت ویدھ جی سے ملتا آئوں گا۔ دیکھو ں کیا بتاتے ہیں۔ کچھ سوچ کر چندر بولا۔ جی پتا نہیں کیوں میرا جی گھبراتا ہے۔ چندر کو گئے ابھی کچھ پل ہوئے ہی تھے کہ پاروتی کو سارا گھر گھومتے محسوس ہوا۔ اور وہ غش کھاکر گرپڑی۔

برتن کے گرنے کی آوازسے گجریا اور سندر دوڑ پڑے۔ سندر باہر کی اور دوڑا۔ چندر نے پیچھے پلٹ کر دیکھا سندر ہانپتے ہوئے دوڑا آرہا تھا۔ گجریا اماں کو پکڑ کرروئے جارہی تھی۔ آس پڑوس کی کچھ عورتیں آگئی تھی۔ وہ اس کو چپ کرارہی تھی۔ پاروتی کی آنکھ اوپر چڑھ گئی تھی۔ آواز چیخنے پر بھی نہیں نکل رہی تھی۔ درد سے وہ تڑپ رہی تھی۔ رات آنگن پر چھا چکی تھی ہزاروں، لاکھوں،تاروں کو پاروتی نے اپنی آنکھوں میں چھپالیا تھا۔ سبھی عورتیں جاچکی تھیں موہنی ہاتھ تھامے بیٹھی تھی۔ اور گجریا پانی سے بار بار پاروتی کا چہرہ پوچھ رہی تھی۔

چندر اور سندر گلیارے میں بیٹھے جیسے کسی خبر کا انتظار کررہے ہوں۔ جب بھی موہنی یا گجریا ادھر سے جاتی وہ جلدی سے کھڑے ہوجاتے لیکن کچھ بولنے کی ہمت نہ ہوتی۔ چندر بار بار کمرے میں جاتا اور جلدی سے باہر نکل آتا۔ کمرے کی سبھی چیزیں ادھر ادھر پڑی تھیں پینٹو کی جیبیں باہر کی اور نکلی تھی جو کھونٹی پر ایک کنارے ٹنگی تھی۔

چندر بار بار اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتا اور جھٹ سے نکال لیتا۔ رات نہ جانے کس پہر پاروتی دنیاں کو الوداع کرگئی۔

کئی دن گزر گئے چندر گھر سے باہر نہیں گیا۔ سورج، بھورا، راجو اور نہ جانے کتنے بلانے آئے پر چندر کسی کے ساتھ نہیں گیا۔ گجریا کو سمجھ نہ آتا تھا کہ وہ کیا کرے۔ رسوئی کے سبھی ڈبے خالی ہوچکے تھے۔ جانے کیا ہانڈی میں گجریا پکارہی تھی۔ جس کا دھواں رسوئی کے روشن دان سے باہر بھاگ رہا تھا۔

جلدی سے کھانا دے دو بہت زور کی بھوک لگی ہے۔ سندر ہاتھ منھ دھل کر رسوئی میں بیٹھ گیا۔ گجریا نے پلٹ کر دیکھا۔ اس کے آنسوسب کہہ گئے تھے ۔ سندر اٹھ کر آنگن میں پڑی چارپائی پر لیٹ کر آسمان میں ہزاروں، لاکھوں تاروں میں اپنی بھوک تلاشنے لگا۔سندر پورے پندرہ دن ہوگئے باپو کی ایسی حالت دیکھی نہ جاتی ہے۔ گجریا چارپائی کے پاس بیٹھ گئی۔ پہلے کبھی تو ایسا نہ ہوا۔ آسمان ہی دیکھتے رہوگے کہ کچھ کروگے بھی۔

تو کیا کروں؟

آسمان کے لاکھوں، ہزاروں تاروں میں سندر کچھ تلاشتے ہوئے بولا۔

دن مہینے سال گزرتے گئے پاروتی کو گزرے ۲سال کا عرصہ ہوگیا پر گجریا کو لگتا ابھی کل ہی کی تو بات ہے۔ اماں رسوئی میں بیٹھی چولہے پر ہانڈی چڑھا کر کچھ پکارہی ہے۔ اور جلدی جلدی لکڑیاں چولہے میں ٹھونسے دے رہی ہے۔

نچنیا پھر سے زندہ ہوگئی تھی۔ باپو بگی آگئی ہے۔ میں جلدی آئوں گا۔ سندر آئے تو کہنا رات کہیں نہ جائے۔ ہوں بڑی سنجیدگی سے سرہلاکر گجریا نے کہا۔ نچنیا اپنے آنچل کو سمیٹتے ہوئے جلدی سے بگھی پر سوار ہوگئی۔ وہی پت جھڑ کا موسم نہ جانے کتنے پت جھڑ بیت گئے تھے اور نہ جانے کتنے پت جھڑ باقی ہیں۔ گجریا آنگن میں پڑے سوکھے پتوں کو سمیٹتے ہوئے سوچی۔ آنگن صاف ہوگیا تھا۔ ایک ایک کرکے چارپائی پر بستر لگ گئے تھے۔ صاف آسمان انگنت تاروں کے ساتھ دور تلک پھیلا تھا۔ بیچوں بیچ چاند میں گجریا نے ابھی، ابھی ایک نچنیا دیکھی تھی اچانک درواجہ بھڑبھڑانے کی آواز آئی۔ گجریا چونک کر اٹھی اور بھاگتی ہوئی درواجہ کھولی۔ اس کی سانس گلے میں اٹک گئی تھی اور کچھ نہ کرپارہی تھی۔ بھنوا سالہ مجھے بولے گا اور وہ ٹھاکر، آج (حرامی) کو سبق سکھاکے مانوں گا۔ سندر چیختا ہوا گھر میں گھسا اور جلدی سے ایک ڈنڈا اٹھا کر باہر نکل گیا۔

گجریا مانو برف کی ہوگئی ہو اس کی آنکھ کھلی کی کھلی تھی۔ اور سانس رک سی گئی تھی۔ ویسے ہی نہ جانے کب تک پڑی رہی تھی۔ باپو کی آواز نے اسے ہوش دلایا تھا۔ گجریا لے تھوڑا سا پانی پی کر کروٹ لے کر لیٹ جا۔ باپو سندر مجھے سب پتا ہے تو سوجا سندر بغل کی چارپائی پر لیٹا ہے۔ میرا کیا بگاڑ لیں گے ٹھاکر کی اولاد، ٹھاکر ہوں گے اپنے لیے۔ سندر دھیرے دھیرے بڑبڑاتا رہا۔ رات آنکھ کھلی تو سوتی چادر اپنے اوپر پایا من ہی من وہ مسکرائی اور پھر سوگئی تھی۔ کوئل کی کوک سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ جامن کا درخت جو آدھا آنگن میں تھا۔ ہوا کے جھونکے سے اس کی پتّیاں سرسرا رہی تھی سورج کی پرچھائی سامنے کے دیوارسے نیچے اتر رہی تھی۔ اٹھتے ہی اس نے باپو کی طرف دیکھا ۔ چارپائی خالی تھی۔ سندر چادر منھ پر ڈالے سورہا تھا۔ سندر بابو جی کہاں گئے؟

سونے دو مجھے تم ہی دیکھ لو۔ گجریا نے جلدی جلدی پورا گھر دیکھ ڈالا۔سندرسندرگجریاکی چیخنے کی آواز آئی۔ آنکھیں ملتا سندر دوڑا۔۔

سورج نے اپنی کرنوں کو سمیٹنا شروع کردیا روز کی طرح اس کی کرنیں اپنی لالی لیے ہوئے گنگا میں ڈوب رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کا گورا بدن دھیرے دھیرے ڈوب رہا تھا کمر کو ڈھکتا ہوا پانی ہچکولے لے رہا تھا۔ سورج ندی میں ڈوب جانے کے لیے بیتاب آدھا ہوچلا تھا اوروہ پورا۔

6394215523

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here