مسیحا

0
415

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


شبیر علوی

شگفتہ کچھ دیر خود کو آئینے میں دیکھتی رہی چند ساعتوں میں اس نے آئینے پہ لکھی کتنی ہی کہانیاں پڑھ لی تھیں؛
دل ابھی بھی بوجھل تھا۔ اس نے سر پر آنچل جمایا اور آئینے کے سامنے سے اٹھ کر کمرے کی جالی لگی کھڑکی کے پاس آکھڑی ہوئی ۔۔دور کہیں ماضی کے میناروں سے نقاروں کی آواز گونج رہی تھی ۔
اب آپ ہی میرا آسرا ہیں بھائی جی! میں کسی قیمت پر دوسری شادی نہیں کرنا چاہتی میرے لئے میرا بیٹا سہیل ہی سب کچھ ہے آپ چاہئیں جوتے میں دال کھلائیں کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لاؤں گی ۔
یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو شگفتہ! والدین کے بعد یہ تو بڑے بھائی ہونے کے ناتے میرا فرض بنتا ہے کہ میں بیوہ بہن کا سہارا بنوں اور اس مشکل وقت میں یتیم بھانجے کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھوں احمد نے پیار سے کہا ۔
لیکن میں خود غرض نہیں ہوں۔ شگفتہ تم اچھی طرح سوچ لو رشتہ اچھا اور معقول ہے تم پر کوئی زبردستی نہیں؛ بیوہ کو دوسری شادی کی اجازت مذہب بھی دیتا ہے اور قانون بھی ۔
احمد کی باتیں سن کر شگفتہ کا دل اور بھر آیا ۔
بھائی جی میں ۔۔۔۔خالد سے بہت محبت کرتی تھی اور کرتی رہوں گی ۔
گو کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے لیکن , میں دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ مجھے معاف کر دیں میں اس بارے میں اب کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتی بہتر ہوگا آپ سب کو منع کر دیں میری زندگی میرے بیٹے سہیل کے لئے وقف ہو چکی ہے ۔
شگفتہ نے نظریں جھکا کر اپنا آخری فیصلہ سنا دیا۔
احمد جان گیا تھا راکھ کو کریدنے سے محض ہاتھ ہی کالے ہونگے اب سب جل کر خاکستر ہو چکا ہے کوئی چنگاری دبی ہوئی نہیں ہے وہ مطمئن ہو کر واپس پلٹ گئے ۔
وقت بھی کب کسی کے لئے رکا ہے جہاں والدین نہ رہے اکلوتے بھائی کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا لیکن قدرت برداشت سے زیادہ کسی پر بوجھ نہیں ڈالتی سہیل کی صورت بیٹے کے مضبوط کندھوں نے شگفتہ کو سنبھال لیا ۔چوبیس سال کے گھبرو جوان کے لئے شگفتہ نے زور و شور سے لڑکی ڈھونڈنا شروع کی اور جلد ہی ایک چاند کا ٹکڑا بیاہ لائی شگفتہ ،سہیل اور اس کی بیوی نازیہ پر صدقے واری جاتی تھی ۔ سہیل بھی ماں اور بیوی کے حقوق پورے کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا ۔
آج بھی حسب معمول شگفتہ نے کھانا بنا کر دونوں کو آواز دی۔ اس کی ہمیشہ کی عادت تھی کہ وہ رسوئی میں گرم گرم روٹی ڈالتی جاتی اور بچے کھاتے جاتے ساتھ ساتھ باتیں کرتے وقت کا پتا نہیں چلتا لیکن آج صرف سہیل کمرے سے برآمد ہوا ۔
اماں ابھی بھوک نہیں آپ بنا کر رکھ دیں میں بعد میں کھا لوں گا ۔
سہیل کی بات سن کر شگفتہ کو کچھ حیرت ہوئی۔
کیوں کیا ہوا ؟ آج سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رکھا ہوا کھاؤ !!
وہ اماں ۔۔۔ نازیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے سر درد ہے اور کچھ متلی سی ہے؛ اسے شاید ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑے !!
کیا ہوا میں دیکھوں !!
شگفتہ گیلے ہاتھ پونچھ کر کھڑی ہو گئی ۔
نہیں اماں ابھی رہنے دیں بہت مشکل سے سوئی ہے ؛اٹھ جائے گی ۔
آپ پریشان نہ ہوں !! میں دیکھ لوں گا اسے ۔
سہیل واپس کمرے میں گھس گیا ۔
شگفتہ متذبب کھڑی رہ گئی ۔
ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد خوش خبری کی آمد کی اطلاع دی ۔
سہیل کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہ رہا اور وہ دن رات نازیہ کی ناز برداریوں میں مصروف ہوگیا ۔
شگفتہ کے شب و روز ایک ہو گئے وہ سہیل سے بات کرنے تک کو ترس جاتی۔ رفتہ رفتہ نہ چاہتے ہوئے بھی نازیہ کی ہر بات اسے کھلنے لگی ۔
شگفتہ کو لگنے لگا نازیہ ہی سہیل اور اس کے درمیان دوری کا سبب بن گئی ہے۔
بیٹے کی شادی اس لئے تو نہیں کی تھی کہ بڑھاپے کا واحد سہارا ہی کھو دوں !۔
شگفتہ نے اپنی پڑوسن نیلو سے ذکر کیا
ہاں یہ بہوویں ہوتی ہی ایسی مکار ہیں بس شوہروں کو قابو کر لیتی ہیں۔ نجانے کیا جادو ٹونے کر دیتی ہیں ہمارے معصوم بیٹوں پر کہ ان کو بیویوں کے بنا چین ہی نہیں آتا ۔
جادو ٹونا ۔۔۔۔پڑوسن کے یہ الفاظ شگفتہ کے دماغ سے چپک گئے؛ سارا دن ان کی گردان سنائی دیتی رہی ۔
آج بھی جب سہیل کھانا لے کر کمرے میں جانے لگا تو شگفتہ کی آواز نے اس کے قدم روک لئے ۔
کیا تمہیں اس لئے جنم دیا تھا کہ بیوی تمہارا قبلہ و کعبہ ہو جائے !!۔
کیا مطلب اماں میں سمجھا نہیں!! سہیل کا سارے دن کا تھکا ہوا دماغ شگفتہ کے طنز کے نشتر سے مزید گھائل ہوگیا تھا ۔
میں صرف یہ کہہ رہی ہوں آخر کون سے الو کی کڑاہی کھلائی ہے بیوی نے جو جنت ماں کے قدموں سے سرک کر بیوی کے پیروں تلے چلی گئی ہے!! ۔
ایسا تو کچھ بھی نہیں ہے ۔۔۔!!
سہیل ہونقوں کی طرح شگفتہ کو دیکھ رہا تھا ۔
ایسا ہی ہے جب ہی تو ماں کے ساتھ کھانا تک کھانا چھوڑ دیا ہے ؛دن رات اس کی خدمتیں ہوتی ہیں ،فرمائشیں پوری ہوتی ہیں کبھی ماں سے بھی پوچھا ہے اسے کیا چاہیے !!
اماں ۔۔۔مگر میں تو ۔۔۔ہر ممکن کوشش کرتا ہوں ۔۔۔۔میں نے آپ کو کب شکایت کا موقع دیا ہے!! نازیہ کو آپ جانتی ہیں وہ بھی ایسی نہیں ہے ۔
خبردار ! شگفتہ چلائی ۔
جو میرے سامنے اپنی بیوی کے گن گائے تم نے؛ جورو کا غلام !! چلے جاؤ اس ہی کے پاس مجھے نہیں کھانا اب کچھ بھی !!
اماں ! آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں سہیل نے گھبرا کر کھانا وہیں چارپائی پر رکھ دیا اور شگفتہ کو اس کے قدموں میں بیٹھ کر مناتا رہا۔
اب یہ معمول ہو گیا تھا کہ سہیل نازیہ کے بنا صرف اماں کے ساتھ کھانا کھاتا تھا ۔نازیہ اس بات پر صبر کرتی تھی کیونکہ شگفتہ اب اس کی شکل سے بھی نفرت کرنے لگی تھی سہیل کے لئے یہ ساری صورت حال نہایت تکلیف دہ تھی وہ اس پریشانی کا حل چاہتا تھا ۔
گھر کا ٹی وی کچھ دن سے خراب تھا شگفتہ کے اصرار پر سہیل اسے ٹھیک کروانے لے گیا کاریگر نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔سہیل کھلے ہوئے ٹیلی ویژن میں امربیل کی مانند الجھی ہوئی تاروں کو آگےپیچھے کرتے کاریگر کو دیکھ رہاتھا اسے خیال آیا کہ جیسے ٹیلی ویژن کا کاریگر خرابی کاسبب ڈھونڈ کر ٹی وی ٹھیک کرسکتاہے اس ہی طرح پیچیدہ انسانی نفسیات کا بھی کوئی حل ہوگا ۔
اس نے شگفتہ کی ذہنی الجھن کو حل کرنے کےلیے مختلف معالجوں سے رابطہ کیا لیکن کسی بھی جگہ سے اسے اپنے مسئلے کادرست حل نہ ملا ۔ معالجوں سے اکتا کر اسے فطری علاج کا خیال آیا اور فطری معالج ہونے کے دعویداروں سے بحث و مباحثوں کے بعد بھی اسے کوئی حل نہ ملا ۔مذہبی علاج تعویذ ،دھاگے، دم، پھونک سے بھی گھریلو حالات میں کچھ آفاقہ نہ ہوا ۔ تلخیاں اور دوریاں بڑھتی ہی گئیں۔ مختلف درگاہوں، آستانوں سے بھی اکتا ہٹ کے سوا کچھ نہ ملا
عجیب الجھن تھی کہ انسان بنانے والے نے گر انسان بنایا ہے تو اس میں خرابی کا سبب اور حل بھی تو کہیں بتایا ہوگا وہی فطری علاج ہوسکتاہے ۔
سہیل شدید ذہنی تناؤ کا شکار اپنی ہی سوچوں میں گم تھا ۔
جب ساتھ بیٹھی نازیہ کی آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا
دیکھیے یہ پھول کتنے خوبصورت ہیں , پرندوں کی چہچہاٹ سماعتوں کو کتنی بھلی لگ رہی ہے ۔ ٹھنڈی تازہ ہوا میں شامل پھولوں کی مہک روح کو معطر کر رہی ہے ۔
نازیہ کی بات سن کر سہیل نے غور کیا کہ کیا یہ پرندے واقعی چہچہا رہے ہیں یا رو رہے ہیں کہ انسان کی سرکشی نے ہمارا سکھ چین بھی تباہ کردیا ہے ۔ فاختہ انسانی نفرت میں خود کے جھلسنے کا بین کر رہی ہے ،کوئل شکایت کررہی ہے کہ انسان کےشور و غل میں ہماری گویائی دب گئی ہے ، کبوتروں کی غٹرغوں دراصل انکی سسکیاں ہیں کہ رواجوں سے پھیلی ہرطرف ظلمت کےسبب ان کی بینائی چھن گئی اور سب پرندے کہہ رہے ہوں کہ اپنے شہروں میں آگ لگا کر اب ہمیں ستانے تم جنگل میں بھی آگئے ہو، کھلتے پھول شکوہ کناں ہوں کہ قبروں اور مزاروں پر ہمیں روند کر بھی تمہارا دل نہیں بھرا اےانسان کہ اب اپنے مفاد کےلیے ہماری خشک میتوں سے عرق تک نکال لیتے ہو ۔
سہیل،سہیل دیکھیں نا کتنا خوبصورت منظر ہے !!کن سوچوں میں گم ہیں مابدولت ؟
نازیہ کے دوسری بار بلانے پر سہیل نے ہونٹوں پر بھلی سی مسکان سجاکر اس کا ہاتھ تھامتے ہوئےکہا ۔
میں سوچ رہاہوں کہ پھول تمہارے رخساروں سے زیادہ خوبصورت نہیں ہیں یہ خوبصورتی و دلکشی تمہارے ساتھ سے ہے ۔
سہیل کی ان باتوں سے نازیہ کے لبوں پر پھیلا تبسم چہرے کے حسن کو دوبالا کرگیا ۔وہ بالکل نہیں چاہتاتھا کہ جس کرب سے وہ خود گزر رہا ہے اس کی بھنک بھی نازیہ کو پڑے ۔سہیل کی گتھی سلجھ چکی تھی؛ وہ راز فطرت جان گیا تھا ۔جہاں ہر بےزبان اور کمزور پر ظلم ہوا تھا ان میں اس کی کم عمر میں بیوہ ہوجانے والی ماں بھی شامل تھی جس نے اپنی تمام تر خواہشوں کا گلا سہیل کی صورت میں گھونٹ دیا تھا اور ایک فطری عمل کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔زندگی کی خوشیوں، ارمانوں اور قہقہوں پر شگفتہ کا بھی اتنا ہی حق تھا جتنا اس وقت نازیہ کا ہے ۔
اس نے نازیہ کے گالوں پہ جھومتی بالوں کی لٹ کانوں کے پیچھے کی اور اس کا چہرہ اپنی جانب اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا وہاں سہیل کی محبت کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا تھا ۔
نازیہ ۔۔۔۔تم مجھ سے کتنا پیار کرتی ہو ؟
اس اچانک سوال پر وہ چونک گئی ۔
یہ کیسا سوال ہے کتنا !! میں تو سارا پیار ہی آپ سے کرتی ہوں ۔نازیہ نے معصومانہ جواب دیا ۔
اچھا اگر ہماری اولاد کے بعد ۔۔۔۔میں زندہ نہیں رہتا اور تم محض اکیس سال کی عمر میں بیوہ ہو جاتی ہو تو کیا کرو گی ؟
اف ! سہیل اللّہ نہ کرے !! توبہ توبہ!! کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ !! میں تو جیتے جی مر جاؤں گی ، میری تو دنیا ہی ختم ہو جائے گی ،میرے سارے رنگ، خواہشیں ،امنگیں سب ختم ہو جائیں گی، میری تو زندگی میں کچھ بچے گا ہی نہیں !!
نازیہ کی آنکھیں بھر آئیں ۔
نازیہ ۔۔۔۔کیا تم ۔۔۔۔دوسری شادی نہیں کرو گی ؟
سہیل کے سوال پر نازیہ دل تھام کے رہ گئی ۔
ہرگز نہیں!! کبھی نہیں !!مجھے آپ کافی ہیں میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی!! میں ساری عمر آپ کی نشانی کے ساتھ گزار دوں گی میرا بچہ ہی میرا کل سرمایہ ہوگا ۔
نازیہ اب باقاعدہ رونے لگی۔
اب اپنی جگہ اماں کو رکھ کر دیکھو ۔۔۔اور سمجھو انہوں نے میرے لئے کتنی بڑی قربانی دی ہے ۔۔۔۔اب اس قربانی کے صلے کا وقت ہے ۔
کیا مطلب؟
نازیہ سہیل کو حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔
میں اماں کی شادی کرواؤں گا !!
کیا ؟
نازیہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
یہ ۔۔۔یہ نہ ممکن ہے اماں کبھی نہیں مانیں گی اور ۔۔۔۔اس عمر میں شادی !! لوگ کیا کہیں گے برادری کا کیا ہوگا !! کون قبول کرے گا !!
ہاں اس عمر میں جب وہ پیتالیس سال کی ہیں میں لوگوں اور برادری کے ڈر سے جنہوں نے اپنے ہی گھٹن زدہ قانون بنا رکھے ہیں جن کی وجہ سے ایک عورت معاشرہ میں کھل کر سانس لیتے ہوئے گھبراتی ہے قانون فطرت کے خلاف نہیں جا سکتا میں ہر قیمت پر اپنی ماں کی زندگی میں کھوئی ہوئی خوشیاں واپس لے کر آوں گا ؛میں انھیں قہقہے لگاتے، محبت کو پھر سے جیتے، زندگی کو گھسیٹتے ہوئے نہیں بھرپور طریقے سے گزارتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں ان سے خود غرض بن کر ماں ہونے کا خراج نہیں لینا چاہتا ۔
سہیل کی بات سن کر نازیہ فخر سے مسکرا دی ۔
میں آپ کے ساتھ ہوں آپ نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے ۔
کچھ ہی دنوں میں سہیل اور نازیہ نے مل کر نہ صرف شگفتہ کو کسی نہ کسی طرح راضی کر لیا بلکہ شگفتہ کی شادی کے خلاف کھلنے والی ہر زبان پر اپنی ٹھوس دلیلوں سے وہ کاری ضرب لگائی کہ ہر گھٹے ہوئے تنگ دماغ نے قانون فطرت کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔
ماضی کی سیر کرتی شگفتہ کے لئے آج کھڑکی سے باہر کا منظر بالکل نیا تھا ۔وہ خود حیران تھی کہ آخر یہ تبدیلی کیسی ۔۔۔۔!! شاید اب وہ سہیل کی صورت اپنی ذمہ داری سے آزاد ہو گئی تھی اس لئے شادی کا فیصلہ قبول کیا ۔۔۔۔!! اب اس کے کندھوں پر معاشرتی رویوں کا بوجھ نہیں تھا ۔
اماں برات آگئی ہے !!
سہیل کی آواز پر شگفتہ نے مڑ کر اسے دیکھا تو سہیل کے ہونٹوں پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی ۔
ظفر صاحب نہایت سلجھے ہوئے انسان تھے اور اپنی دونوں بیٹیوں کے فرض سے تن تنہا سبکدوش ہو چکے تھے۔اب انکی بیٹیوں کو شگفتہ کی صورت میں ماں مل گئی تھی اور ظفر صاحب کو سہیل جیسا فرمابردار بیٹا !! محبت کی کمی ظفر صاحب نے شگفتہ سے شادی کر کے پوری کر دی تھی ۔آج عجیب دن تھا ایک بیٹا اپنی ماں کو وداع کر رہا تھا ۔
شگفتہ کی آنکھوں میں اپنے مسیحا کے لئے تشکر کے آنسو تھے ۔
*******

فیصل آباد ‘پنجاب پاکستان

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here