9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
صبوحیؔ تبسم خالدی
موت یوں چھین لے تم کو ہے یہ کب اس کی مجال
بڑھ کے سینے سے لگا لیںگے تمہیں ماضی و حال
تم محبت کی امانت ہو، صداقت کا جمال
تم سے وابستہ ہے اجداد کی عظمت کا سوال
میں نہ مانوںگی کہ تم موت کی آغوش میں ہو
فرقت کاکوروی اردو کے مقبول مزاح نگا ر اور مزاحیہ شاعری کے اہم ستون تھے۔ ان کی پیدائش بتاریخ 18؍جون 1914 کاکوروی ضلع لکھنؤ میں ہوئی۔ انہوں نے تعلیم ایم۔اے (تاریخ)، ایم۔ اے۔ اور پی ایچ ڈی (اُردو) میں حاصل کی۔ اردو کا تقریباً ہررسالہ اور اردو جاننے وا لا ’پروفسرغلام احمد فرقت کاکوروی‘ کے نام سے آشنا ہے۔ ان کے طنزومزاحیہ مضامین برسوں سے رسائل کی زینت بنے رہے۔ لکھنؤ کی ٹکسالی اردو زبان‘ پر ان کو قدرت تھی۔ ان کی تحریروں کو بھی ایک کمال حاصل تھا۔ ان کی قلم برداشتہ لکھی ہوئی عبارتیں نثر کا بہترین نمونہ ہیں۔
اردو زبان کی تعلیم اور ترقی سے ان کو بہت دلچسپی تھی۔ ان کی ترغیب پر بہت سے طلبہ اور طلبات کے علاوہ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے ناخواندہ لوگوں نے جامعہ دہلی اور علیگڑہ میںداخلے لیے۔ اپنے ہم عمر عالموں، شاعروںادیبوںاور صحا فیوں سے ان کے دوستانہ مراسم تھے۔ فرقت صاحب کی صاف گوئی خلوص اور محبت کا اعتراف ان کے سب ممتاز معاصرین نے کیا۔ بزرگوں میں’مولانا عبدالماجد دریابادی، مفتی عتیق الرحمان عثمانی، علی عباس حسینی فرقت صاحب ‘کی ہمت افزائی اور قدرکرتے تھے۔ علی عباس حسینی فرقت صاحب سے اتنے متاثر تھے کے انھوں نے ان کی کتاب کفِ گلفروش پر مقدمہ لکھا۔
قصبہ کاکوری نے میدان ظرافت میں دو ہونہار سپوت دیئے، ان میں سے ایک مفتی سجاد حسین اور دوسرے فرقت کاکوروی۔ اس قصبہ کی خاک سے ایسے لوگ پیدا ہوئے، جنھوں نے اپنی علمی صلاحیتوں سے دنیائے ادب کو منوّر کیا۔’ظفرالملک علوی‘ محسن کاکوروی، امیر احمد علوی اسی خاک سے اٹھے۔ ان میں سے ایک فرقتؔ کاکوروی بھی تھے، جو دنیائے ادب کے آسمان پہ آفتاب اور مہتاب بن کے چمکے۔
فرقت صاحب کو شروع سے ہی لکھنے کا شوق تھا۔ ابتدا میں اپنے ماموں ’جناب انیس احمد عباسی‘ کے اخبار ’حقیقت‘ میں’کفِ گلفروش‘کے عنوان سے مزاحیہ مضامین لکھتے تھے۔ پھر اور رسالوں میں بھی لکھنے لگے۔ ان کی پہلی کتاب ’مداوا ‘ ۱۹۳۷ میں شایع ہوئی۔ جس میں انھوں نے ترقی پسند شاعروں کے کلام کے نمونے دے کر ان کے ہی رنگ میں اپنا کلام پیش کیا اور خوب طنز کیا ـ اس کے بعد ’’ناروا‘‘، ’’ مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں‘‘۔ اردو ادب میں ’طنزومزاح دوجلد‘، ’مزاحیہ شرح دیوان غالب دو جلد‘، ’صید و حدف طنزوظرافت‘اور ’غالبِ خستہ کے بغیر‘ وغیرہ ۔ ان کی آ خری کتاب ’قدمچے‘ تھی، اس کتاب پر ان کو ’۱۹۷۳ کا اردو اکاڈمی ایوارڈ بھی ملاتھا۔ بظاہر غور طلب یہ کہ وہ کتاب جو نام سے ہی غلاظتوں کا مسکن معلوم ہوتی ہے۔ اس کو انعام کے لیے کیوں منتخب کیا۔ لیکن قدمچہ کا تفصیلی جایزہ لینے پر ممبران ’اردو اکاڈمی‘ کی کتب شناسی کا کسی حدتک قائل ہونا پڑا۔ اس کتاب کو فرقت کاکوروی نے ان بچوں سے معنون کیاہے جو قدمچے پر بیٹھ کرخود سے باتیں کرتے ہیں۔ فرقتؔ صاحب نے جدید شاعری کی پیروی کے مجموعے کو ’قدمچے ‘ نام دے کرناصرف اپنی ظرافت کا ثبوت دیا ہے بلکہ اس میں ایک ایسا طنز بھی ہے، جس سے اربابِ ذوق لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
اس شاہ کار کی ایک نظم ملاحظہ ہو عنوان ہے ’تبدیلی‘۔
صدیوں پرانے گمبد اور محراب کے نیچے
آدم کی گدی پہ آدم آبیٹھا تھا
پہلے یہ گھٹنا کڑوا سچ تھی
یا پھر ایک لطیفہ تھی
لیکن آج فقط سچ ہے
ایک ایسا سچ جس کو سن کر
آج نہ کو ئی ہنستا ہے اورنہ روتا ہے
آدم کی گدی پہ بندر آبیٹھا ہے
ابن آدم اس کی پابوسی کرتا ہے
اردو کے مزاحیہ ادب میں پطرس بخاری، کنھیا لال کپور، شوکت تھانوی، رشید احمد صدیقی کے بعد اگر کسی پہ نظر پڑتی ہے تو وہ فرقت ؔ کاکوروی ہیں۔ ان کا شمار ہندوستان کے گنے چنے مزاحیہ ادب نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ صنفِ اول کے مزاحیہ نگار تھے، جن کو نظم او ر نثر پہ بہ یک وقت قدرت حاصل تھی۔ ان کا بے باک قلم سماجی کوتاہیوں اور سوسائٹی کی خرابیوں پر طنزیہ نشترزن تھا۔ ان کی ایک مشہور نظم مندرجہ ذیل ہے۔
– ٹیکس –
عاشق کی آہ وزاری پہ نالوں پہ ٹیکس ہو
سب مہ وشوں پہ ماہ جمالوں پہ ٹیکس ہو
گر زلف تا کمر ہو تو بالوں پہ ٹیکس ہو
ہو اگر سرخ سرخ گال تو گالوں پہ ٹیکس ہو
ہو قاتلانہ چال تو پیسے ادا کرو
ورنہ جہاں پڑے ہو وہیں پر پڑے رہو
اپنوں پہ اور پرایوں پے آئے گئے پہ ٹیکس
ہر ذائقے پہ ٹیکس ہے ہرہر مزے پہ ٹیکس
پوری کباب قور مے اور کوفتے پہ ٹیکس
جیتے جیے پہ ٹیکس ہے مرتے مرے پہ ٹیکس
کانٹوںپہ جب قبائیے چمن ٹانگنے لگے
اہل چمن خزاں کی دعا مانگنے لگے
غمزوں کی دل فریبی پہ اور دل لگی پہ ٹیکس
بیمائیگی پہ ٹیکس ہے او ر مفلسی پہ ٹیکس
بے چارگی پہ ٹیکس ہے اور بے بسی پہ ٹیکس
ان ٹیکسوں پہ جو ہنسے اس کی ہنسی پہ ٹیکس
دلہاـدلہن کے پاس جو جائے تو دے رقم
کتنے حسین ٹیکس ہیں اﷲ کی قسم
عاشق کا اس زمانے میں وہ پتلا حال ہے
اب مفلسی میں عشق بھی کرنا محال ہے
کوچے میں اس کے ٹیکس کا ٹیڑھا سوال ہے
مرنا بغیر ٹیکس کس کی مجال ہے
مردہ پڑا رہے گا نہ دفنایا جائے گا
پروانہ لکھ کے ٹیکس کا جب تک نہ آئےگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی چند کتابوں کے ’ہندی ترجمے‘ بھی چھپ چکے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف مزاحیہ شاعری بلکہ ’سنجیدہ شاعری‘ بھی کی ہے۔ کچھ اشعار پیش ہیں۔
ہچکیاں آئیں تو حکم ہے یہ ہمیں کہ فریاد نہ کر
خو د تو وہ یاد کریں ،ہم سے کہیں یا د نہ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں کو بانٹ کے خوشیاں میرے مقدر کی
میرے لئے ستم روز گار رہنے دو
فرقت صاحب اپنی پر مذاق طبیعت سے ہر محفل کوگل و گلزار کر دیتے۔ سنجیدہ گفتگو میں بھی دلچسپی پیدا کردیتے، کسی وقت بھی ان کی کوئی بات ہنسی سے خالی نہیں جاتی۔ جب کسی کو تھکایا پریشان دیکھتے تو اس کے ساتھ ہمدردی کے علاوہ اس کے ذہنی بوجھ کو اپنی پر مذاق باتوں سے ہلکا کردیتے تھے۔ ان کے احباب میں جب بھی کوئی بغیر بالوں میں کنگھی کئے یا شیروانی کے کھلے بٹنوں کے ساتھ ان کے سامنے آتا تو وہ بے اختیار کہہ دیتے ’’آپ کی شکل تو بالکل یتیم خانے کا سائین بورڈ معلوم ہو رہی ہے پہلی جنگ عظیم کے قیدی تو بہت پہلے چھوڑ دیے گیے تھے، کیا تم ابھی چھوڑے گئے ہو؟‘‘، یا تمہاری شیروانی تو نوازو خاں شہنائی نواز سے ملتی جلتی ہے۔ اگر کسی کو صاف ستھرے کپڑے پہنے دیکھے تو کہتے کہ ، ’’تم کفنائے دفنائے کہاں جارہے ہو؟ خدا کی قسم اگر حوریں تم کو اس طرح دیکھ لیں تو ایک جان چھوڑ ہزار جان سے فدا ہوجائینگی ‘‘۔ ان کی اس طرح کی باتیں لوگ روز سنتے اورمحظوظ ہوتے، لیکن مثاعرہ گاہ میں طنزو مزاح کے پھول بکھیرنے والے اکیلے فرقت صاحب ہوتے اور بٹورنے والے ہزاروں۔
ایک مشاعرہ میں کچھ لوگ ایک شاعر کو بہت داد دے رہے تھے۔ اس غریب کو ناقابل برداشت حد تک پڑھنا پڑ رہا تھا۔ فرقت صاحب سے خاموش نہیں رہا جارہا تھا، اپنی باری آنے پہ انھوں نے برجستہ یہ شعر پڑھا۔
یہ بار بار جو پڑھا رہے ہو شاعر کو
سخنوروں پہ بار اس سے بڑا کیا ہوگا
اگر مرگئے یہ سب پڑھتے پڑھتے اپنی غزل
تو صدر بزم کا انجام سوچو کیا ہوگا
فرقت صاحب ایک باغ وبہار شخصیت کے آدمی تھے، غالب کی طرح حسن بیاں، حاضر جوابی اور بات سے بات پیدا کرنا ان کے مزاج کا خاصہ تھا ، لوگ ان کی باتیں سننے کے لئے ہمیشہ مشتاق رہتے۔ دو مزاجوں کی ہم آہنگی او ر چراغ سے چراغ نہ جلے یہ ناممکن تھا چنا نچہ فرقت صاحب نے اپنی مزاح نگاری کے لیے جہاں اور بہت سے موضوعات چنے وہی غالب کی اتنی مزاحیہ تصویریں بنائیں کہ شاید ہی کسی اور نے بنائی ہوںگی۔ فرقت صاحب کی غالب شناسی کا ثبوت ہمیں ان کی تصانیف اردو ادب میں ’ طنز و مزاح ، شرح’’ د یوان غالب ‘‘ اور ’’غالب خستہ کے بغیر ‘‘ میں سب سے زیادہ ملتا ہے۔
فرقت مرحوم کی علمی و ادبی خدمات کا جب بھی جائیزہ لیا جائےگا تو اس وقت اندازہ ہوگا کہ انھوں نے کس طرح ارد و ادب میں اضافہ کیے، افسوس صد افسوس افق کا یہ چمکتا ستارہ ۱۲ ؍ جنوری ۹۷۳ ۱ کو ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔
۳۱ ؍جنوری کو بھارت کے صوبہ بہار سے ایک مشاعرہ میں شرکت کرکے لکھنؤ واپس آرہے تھے کہ دورانِ سفر ٹرین میں ہی کسی وقت روح قفس پرواز کرگئی۔ بنارس میں مسلمانوں نے ان کی جسدِخاکی اتاری اور وہیں تجہیزوتکفین کردی۔ ان کی یاد میں تمام ادبی پرچوں نے سوگ منایا او ر خصوصی نمبر نکالے۔ دہلی کے تعلیمی ادارے بند رہے اور’ آل انڈیا ریڈیو‘ سے ان کی یاد میں مشاعرہ کیا گیا۔ جن میں تمام بلند پا شاعروں نے انہیں خراج تحسین پیش کیا یہ رنگین کہانی اپنی تمام رعنائیوں اور رنگ بکھراکر ختم ہوئی۔
– نمونہ کلام –
میں داماں حوارث یہ مچل جائوں تو کیا ہوگا
غم ہستی سے بھی آگے نکل جائوں تو کیا ہوگا
وہ ذرّے جن کو تیرے آستان کا فخر حاصل ہے
ان ہی ذرّوں میں ذرّہ بن کے مل جائوں تو کیا ہوگا
جنوں انگیزیاں جب درپے صحرا نوردی ہو
سنبھلنے کو جو کہتے ہیں سنبھل جائوں تو کیا ہوگا
وہ نغمے جن کو تم کچھ مسکراکر گنگناتے ہو
میں ان پُر کیف نغموں میں بدل جائوں تو کیا ہوگا
دے رہا ہوں حیات کو آواز
زندگی ہے کہ سوئی جاتی ہے
کامل سکون اب ملا ا ے اختتام عمر
اُف آج دور ختم ہوا انتظار کا
دعائیں ختم، دوا ختم، چارہ گر مایوس
تیرا کرم میرے پرور دگار باقی ہے
کہاں کی پھٹ پڑی ویرانیاں گو رِ غریباں پر
کہ لاکھ آباد ہونے پر بھی ویرانی نہیں جاتی
مٹ مٹ کے صبح شام کئے جا رہا ہوں میں
ہر غم کا احترام کئے جا رہا ہوں میں۔
(صاحبزادیـ غلام احمدفرقتؔ کاکوروی)
موت یوں چھین لے تم کو ہے یہ کب اس کی مجال
بڑھ کے سینے سے لگا لیںگے تمہیں ماضی و حال
تم محبت کی امانت ہو، صداقت کا جمال
تم سے وابستہ ہے اجداد کی عظمت کا سوال
میں نہ مانوںگی کہ تم موت کی آغوش میں ہو
فرقت کاکوروی اردو کے مقبول مزاح نگا ر اور مزاحیہ شاعری کے اہم ستون تھے۔ ان کی پیدائش بتاریخ 18؍جون 1914 کاکوروی ضلع لکھنؤ میں ہوئی۔ انہوں نے تعلیم ایم۔اے (تاریخ)، ایم۔ اے۔ اور پی ایچ ڈی (اُردو) میں حاصل کی۔ اردو کا تقریباً ہررسالہ اور اردو جاننے وا لا ’پروفسرغلام احمد فرقت کاکوروی‘ کے نام سے آشنا ہے۔ ان کے طنزومزاحیہ مضامین برسوں سے رسائل کی زینت بنے رہے۔ لکھنؤ کی ٹکسالی اردو زبان‘ پر ان کو قدرت تھی۔ ان کی تحریروں کو بھی ایک کمال حاصل تھا۔ ان کی قلم برداشتہ لکھی ہوئی عبارتیں نثر کا بہترین نمونہ ہیں۔
اردو زبان کی تعلیم اور ترقی سے ان کو بہت دلچسپی تھی۔ ان کی ترغیب پر بہت سے طلبہ اور طلبات کے علاوہ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے ناخواندہ لوگوں نے جامعہ دہلی اور علیگڑہ میںداخلے لیے۔ اپنے ہم عمر عالموں، شاعروںادیبوںاور صحا فیوں سے ان کے دوستانہ مراسم تھے۔ فرقت صاحب کی صاف گوئی خلوص اور محبت کا اعتراف ان کے سب ممتاز معاصرین نے کیا۔ بزرگوں میں’مولانا عبدالماجد دریابادی، مفتی عتیق الرحمان عثمانی، علی عباس حسینی فرقت صاحب ‘کی ہمت افزائی اور قدرکرتے تھے۔ علی عباس حسینی فرقت صاحب سے اتنے متاثر تھے کے انھوں نے ان کی کتاب کفِ گلفروش پر مقدمہ لکھا۔
قصبہ کاکوری نے میدان ظرافت میں دو ہونہار سپوت دیئے، ان میں سے ایک مفتی سجاد حسین اور دوسرے فرقت کاکوروی۔ اس قصبہ کی خاک سے ایسے لوگ پیدا ہوئے، جنھوں نے اپنی علمی صلاحیتوں سے دنیائے ادب کو منوّر کیا۔’ظفرالملک علوی‘ محسن کاکوروی، امیر احمد علوی اسی خاک سے اٹھے۔ ان میں سے ایک فرقتؔ کاکوروی بھی تھے، جو دنیائے ادب کے آسمان پہ آفتاب اور مہتاب بن کے چمکے۔
فرقت صاحب کو شروع سے ہی لکھنے کا شوق تھا۔ ابتدا میں اپنے ماموں ’جناب انیس احمد عباسی‘ کے اخبار ’حقیقت‘ میں’کفِ گلفروش‘کے عنوان سے مزاحیہ مضامین لکھتے تھے۔ پھر اور رسالوں میں بھی لکھنے لگے۔ ان کی پہلی کتاب ’مداوا ‘ ۱۹۳۷ میں شایع ہوئی۔ جس میں انھوں نے ترقی پسند شاعروں کے کلام کے نمونے دے کر ان کے ہی رنگ میں اپنا کلام پیش کیا اور خوب طنز کیا ـ اس کے بعد ’’ناروا‘‘، ’’ مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں‘‘۔ اردو ادب میں ’طنزومزاح دوجلد‘، ’مزاحیہ شرح دیوان غالب دو جلد‘، ’صید و حدف طنزوظرافت‘اور ’غالبِ خستہ کے بغیر‘ وغیرہ ۔ ان کی آ خری کتاب ’قدمچے‘ تھی، اس کتاب پر ان کو ’۱۹۷۳ کا اردو اکاڈمی ایوارڈ بھی ملاتھا۔ بظاہر غور طلب یہ کہ وہ کتاب جو نام سے ہی غلاظتوں کا مسکن معلوم ہوتی ہے۔ اس کو انعام کے لیے کیوں منتخب کیا۔ لیکن قدمچہ کا تفصیلی جایزہ لینے پر ممبران ’اردو اکاڈمی‘ کی کتب شناسی کا کسی حدتک قائل ہونا پڑا۔ اس کتاب کو فرقت کاکوروی نے ان بچوں سے معنون کیاہے جو قدمچے پر بیٹھ کرخود سے باتیں کرتے ہیں۔ فرقتؔ صاحب نے جدید شاعری کی پیروی کے مجموعے کو ’قدمچے ‘ نام دے کرناصرف اپنی ظرافت کا ثبوت دیا ہے بلکہ اس میں ایک ایسا طنز بھی ہے، جس سے اربابِ ذوق لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
اس شاہ کار کی ایک نظم ملاحظہ ہو عنوان ہے ’تبدیلی‘۔
صدیوں پرانے گمبد اور محراب کے نیچے
آدم کی گدی پہ آدم آبیٹھا تھا
پہلے یہ گھٹنا کڑوا سچ تھی
یا پھر ایک لطیفہ تھی
لیکن آج فقط سچ ہے
ایک ایسا سچ جس کو سن کر
آج نہ کو ئی ہنستا ہے اورنہ روتا ہے
آدم کی گدی پہ بندر آبیٹھا ہے
ابن آدم اس کی پابوسی کرتا ہے
اردو کے مزاحیہ ادب میں پطرس بخاری، کنھیا لال کپور، شوکت تھانوی، رشید احمد صدیقی کے بعد اگر کسی پہ نظر پڑتی ہے تو وہ فرقت ؔ کاکوروی ہیں۔ ان کا شمار ہندوستان کے گنے چنے مزاحیہ ادب نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ صنفِ اول کے مزاحیہ نگار تھے، جن کو نظم او ر نثر پہ بہ یک وقت قدرت حاصل تھی۔ ان کا بے باک قلم سماجی کوتاہیوں اور سوسائٹی کی خرابیوں پر طنزیہ نشترزن تھا۔ ان کی ایک مشہور نظم مندرجہ ذیل ہے۔
– ٹیکس –
عاشق کی آہ وزاری پہ نالوں پہ ٹیکس ہو
سب مہ وشوں پہ ماہ جمالوں پہ ٹیکس ہو
گر زلف تا کمر ہو تو بالوں پہ ٹیکس ہو
ہو اگر سرخ سرخ گال تو گالوں پہ ٹیکس ہو
ہو قاتلانہ چال تو پیسے ادا کرو
ورنہ جہاں پڑے ہو وہیں پر پڑے رہو
اپنوں پہ اور پرایوں پے آئے گئے پہ ٹیکس
ہر ذائقے پہ ٹیکس ہے ہرہر مزے پہ ٹیکس
پوری کباب قور مے اور کوفتے پہ ٹیکس
جیتے جیے پہ ٹیکس ہے مرتے مرے پہ ٹیکس
کانٹوںپہ جب قبائیے چمن ٹانگنے لگے
اہل چمن خزاں کی دعا مانگنے لگے
غمزوں کی دل فریبی پہ اور دل لگی پہ ٹیکس
بیمائیگی پہ ٹیکس ہے او ر مفلسی پہ ٹیکس
بے چارگی پہ ٹیکس ہے اور بے بسی پہ ٹیکس
ان ٹیکسوں پہ جو ہنسے اس کی ہنسی پہ ٹیکس
دلہاـدلہن کے پاس جو جائے تو دے رقم
کتنے حسین ٹیکس ہیں اﷲ کی قسم
عاشق کا اس زمانے میں وہ پتلا حال ہے
اب مفلسی میں عشق بھی کرنا محال ہے
کوچے میں اس کے ٹیکس کا ٹیڑھا سوال ہے
مرنا بغیر ٹیکس کس کی مجال ہے
مردہ پڑا رہے گا نہ دفنایا جائے گا
پروانہ لکھ کے ٹیکس کا جب تک نہ آئےگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی چند کتابوں کے ’ہندی ترجمے‘ بھی چھپ چکے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف مزاحیہ شاعری بلکہ ’سنجیدہ شاعری‘ بھی کی ہے۔ کچھ اشعار پیش ہیں۔
ہچکیاں آئیں تو حکم ہے یہ ہمیں کہ فریاد نہ کر
خو د تو وہ یاد کریں ،ہم سے کہیں یا د نہ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں کو بانٹ کے خوشیاں میرے مقدر کی
میرے لئے ستم روز گار رہنے دو
فرقت صاحب اپنی پر مذاق طبیعت سے ہر محفل کوگل و گلزار کر دیتے۔ سنجیدہ گفتگو میں بھی دلچسپی پیدا کردیتے، کسی وقت بھی ان کی کوئی بات ہنسی سے خالی نہیں جاتی۔ جب کسی کو تھکایا پریشان دیکھتے تو اس کے ساتھ ہمدردی کے علاوہ اس کے ذہنی بوجھ کو اپنی پر مذاق باتوں سے ہلکا کردیتے تھے۔ ان کے احباب میں جب بھی کوئی بغیر بالوں میں کنگھی کئے یا شیروانی کے کھلے بٹنوں کے ساتھ ان کے سامنے آتا تو وہ بے اختیار کہہ دیتے ’’آپ کی شکل تو بالکل یتیم خانے کا سائین بورڈ معلوم ہو رہی ہے پہلی جنگ عظیم کے قیدی تو بہت پہلے چھوڑ دیے گیے تھے، کیا تم ابھی چھوڑے گئے ہو؟‘‘، یا تمہاری شیروانی تو نوازو خاں شہنائی نواز سے ملتی جلتی ہے۔ اگر کسی کو صاف ستھرے کپڑے پہنے دیکھے تو کہتے کہ ، ’’تم کفنائے دفنائے کہاں جارہے ہو؟ خدا کی قسم اگر حوریں تم کو اس طرح دیکھ لیں تو ایک جان چھوڑ ہزار جان سے فدا ہوجائینگی ‘‘۔ ان کی اس طرح کی باتیں لوگ روز سنتے اورمحظوظ ہوتے، لیکن مثاعرہ گاہ میں طنزو مزاح کے پھول بکھیرنے والے اکیلے فرقت صاحب ہوتے اور بٹورنے والے ہزاروں۔
ایک مشاعرہ میں کچھ لوگ ایک شاعر کو بہت داد دے رہے تھے۔ اس غریب کو ناقابل برداشت حد تک پڑھنا پڑ رہا تھا۔ فرقت صاحب سے خاموش نہیں رہا جارہا تھا، اپنی باری آنے پہ انھوں نے برجستہ یہ شعر پڑھا۔
یہ بار بار جو پڑھا رہے ہو شاعر کو
سخنوروں پہ بار اس سے بڑا کیا ہوگا
اگر مرگئے یہ سب پڑھتے پڑھتے اپنی غزل
تو صدر بزم کا انجام سوچو کیا ہوگا
فرقت صاحب ایک باغ وبہار شخصیت کے آدمی تھے، غالب کی طرح حسن بیاں، حاضر جوابی اور بات سے بات پیدا کرنا ان کے مزاج کا خاصہ تھا ، لوگ ان کی باتیں سننے کے لئے ہمیشہ مشتاق رہتے۔ دو مزاجوں کی ہم آہنگی او ر چراغ سے چراغ نہ جلے یہ ناممکن تھا چنا نچہ فرقت صاحب نے اپنی مزاح نگاری کے لیے جہاں اور بہت سے موضوعات چنے وہی غالب کی اتنی مزاحیہ تصویریں بنائیں کہ شاید ہی کسی اور نے بنائی ہوںگی۔ فرقت صاحب کی غالب شناسی کا ثبوت ہمیں ان کی تصانیف اردو ادب میں ’ طنز و مزاح ، شرح’’ د یوان غالب ‘‘ اور ’’غالب خستہ کے بغیر ‘‘ میں سب سے زیادہ ملتا ہے۔
فرقت مرحوم کی علمی و ادبی خدمات کا جب بھی جائیزہ لیا جائےگا تو اس وقت اندازہ ہوگا کہ انھوں نے کس طرح ارد و ادب میں اضافہ کیے، افسوس صد افسوس افق کا یہ چمکتا ستارہ ۱۲ ؍ جنوری ۹۷۳ ۱ کو ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔
۳۱ ؍جنوری کو بھارت کے صوبہ بہار سے ایک مشاعرہ میں شرکت کرکے لکھنؤ واپس آرہے تھے کہ دورانِ سفر ٹرین میں ہی کسی وقت روح قفس پرواز کرگئی۔ بنارس میں مسلمانوں نے ان کی جسدِخاکی اتاری اور وہیں تجہیزوتکفین کردی۔ ان کی یاد میں تمام ادبی پرچوں نے سوگ منایا او ر خصوصی نمبر نکالے۔ دہلی کے تعلیمی ادارے بند رہے اور’ آل انڈیا ریڈیو‘ سے ان کی یاد میں مشاعرہ کیا گیا۔ جن میں تمام بلند پا شاعروں نے انہیں خراج تحسین پیش کیا یہ رنگین کہانی اپنی تمام رعنائیوں اور رنگ بکھراکر ختم ہوئی۔
– نمونہ کلام –
میں داماں حوارث یہ مچل جائوں تو کیا ہوگا
غم ہستی سے بھی آگے نکل جائوں تو کیا ہوگا
وہ ذرّے جن کو تیرے آستان کا فخر حاصل ہے
ان ہی ذرّوں میں ذرّہ بن کے مل جائوں تو کیا ہوگا
جنوں انگیزیاں جب درپے صحرا نوردی ہو
سنبھلنے کو جو کہتے ہیں سنبھل جائوں تو کیا ہوگا
وہ نغمے جن کو تم کچھ مسکراکر گنگناتے ہو
میں ان پُر کیف نغموں میں بدل جائوں تو کیا ہوگا
دے رہا ہوں حیات کو آواز
زندگی ہے کہ سوئی جاتی ہے
کامل سکون اب ملا ا ے اختتام عمر
اُف آج دور ختم ہوا انتظار کا
دعائیں ختم، دوا ختم، چارہ گر مایوس
تیرا کرم میرے پرور دگار باقی ہے
کہاں کی پھٹ پڑی ویرانیاں گو رِ غریباں پر
کہ لاکھ آباد ہونے پر بھی ویرانی نہیں جاتی
مٹ مٹ کے صبح شام کئے جا رہا ہوں میں
ہر غم کا احترام کئے جا رہا ہوں میں۔
(صاحبزادیـ غلام احمدفرقتؔ کاکوروی)
Also read