بیڑ شہر کی سڑکوں پر کہیں سفید ’’پلے جر‘‘ اسکوٹرپر اگر اوسط قد کے مہندی کے چٹخ رنگوں میں خوبصورتی سے جمے بالوں والا شخص نظر آجائے تو ممکنہ طورپر وہ ارشد صدیقی ہی ہونگے۔ارشد صدیقی اپنی اس سفید ’’پلے جر‘‘ اسکوٹر پر دنیا کو خوشیاں بانٹنے کے کام میں مصروف انسان کا نام ہے۔کھلی رنگت، ہلکے رنگ کے شرٹ میں عمر کی تیسری منزل پر قدم رکھنے والے ارشد صدیقی یوں تو تدریسی خدمات سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔لیکن ’’زندگی کاحسین سبق‘‘ سیکھتے سکھاتے رہنے کامشغلہ اب بھی جاری ہے۔اُن سے ملنے کے بعد جینے کا حوصلہ بلند ہوجاتا ہے۔کئی مایوس دلوں کی ایک جاگتی امید ہیں ارشد صدیقی۔اپنے اسکوٹر سے شہر میں بسے چند لوگ جو ارشد صدیقی کا سرمایہ ہیں جنہیں ارشد صدیقی نے اپنے دل کے گوشۂ محبت میں جگہ عنایت کی ہے اُن تک خود ہی پہنچ جاتے ہیں۔سفید کاغذ ،قلم ،کتابیں ،رسائل جرائد ، اخبارات کے تراشے اور چند ایماندار دوست ارشد کی دولت ہیں۔ وہ سب سے چاہت رکھتے ہیںاور سب اُن کی چاہت اپنے دل میں سجوکررکھتے ہیں۔پتہ نہیںپہلے ارشدصدیقی کیسے ہونگے؟ لیکن اتنا یقین ہے اب سے پہلے بھی کچھ زیادہ ہی سرگرم ہونگے۔یہ انسان کے سینے میں جذبات و احساس سے لبریز دل ہے۔سینہ گویا بھٹی ہے ،جس میں ہزاروں راز دفن ہیں۔چہرہ کشادہ کتاب، جس پر سورج کی سی دمک اور چمک ہے۔بالوں کی خوش سلیقگی، اس انسان کے ڈسپلین کے پابند ہونے کی علامت ہیں۔سنا ہے پہلے آپ دُبلے پتلے تھے اوراُنکی کچھ تصویریں بھی دیکھیں۔لیکن اب تھوڑے بھرے بھرے سے ہیںاور میانہ جسامت پاچکے ہیں۔لیکن بار بار اُن کے پیٹ کی طرف دیکھ کر جب اپنے پیٹ کا موازنہ کرتا ہوں تو اُن پر رشک ہوتا ہے۔ابھی تک اُن کی توند نے باہرنکلنے کی گستاخی نہیں کی ہے۔ویسے وہ اپنے خاص دوستوں قاضی مجیب الرحمن اور ضمیر سر کے ہمراہی میں ’’واکنگ ‘‘ کا شوق بھی رکھتے ہیں۔اور بیڑ شہر کی گہماگہمی سے کچھ دور کبھی بارشی ناکہ ،کبھی تیل گائوں ناکہ اور کبھی شاہو نگر میں واکنگ کے لئے جاتے رہتے ہیں۔
دورِ رواں میںبہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ’’صدیقی نسب‘‘ کی شرافت کیسی ہوتی ہے۔ارشد صدیقی اُس شرافت کاجیتاجاگتا ثبوت ہیں۔اُن کا دل اور وہ خود خلوص ومحبت کا پیکر ہیں۔سخاوت اُن کی فطرت کا جزوثانی ہے۔حساس دل جب بے چین ہوجاتا ہے تو اُن کے روبرو رکھے سفید قرطاس پر غزل، افسانچہ ،آزاد نظم نقش میں ڈھلنے لگتے ہیں۔گویا زندگی کے کینواس پر احساسات اور جذبات رقص کرنے لگ جاتے ہیں۔اُن کے اسکوٹر کی ’’ڈِکی‘‘ میں ادب پارے ہچکولے کھاتے ہیں۔کہیں سے کوئی کتاب موصول ہوئی تو اُن کا دل اور روح خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔اخبار بینی میں اُنہیں وہ مزہ آتا ہے کہ کسی رِند کو مئے کا پیالہ مل جائے تو وہ مسرت نہ ہوگی جو ارشد صدیقی کو اخبار یا ادبی پارہ پڑھ کر ہوتی ہے۔خود نمائی سے کوسوں دور اپنے آس پاس سے پوری طرح آگاہ رہنا ارشد صدیقی کا وصف خاص ہے۔اُن کے مزاج میں لفاظی نہیں لفظ کی قدر دانی ہے۔ابھی حال ہی میں میرے کان میں ایک نئے ماڈرن گانے کے الفاظ پڑے تھے ’’ مجھے میٹھا بہت پسند ہے کدے کیک لے آیا کر‘‘میرے چہرے پر مسکان بکھر گئی کہ کہیں یہ ارشد صاحب کے لئے تو نہیں لکھاہے کہ انہیں میٹھا بہت پسند ہے۔ہوٹل میں چلے جائیں تو سب سے پہلے پوچھیں گے ’’جامن ہیں؟‘‘جامن نہ ہونے پر پریشان ہوجائیں گے اور دوسرا کوئی میٹھا طلب کریںگے۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ روایت کے مطابق میٹھا کھانے کے بعد چائے نہیں پی جاتی۔لیکن ارشد صاحب کے ساتھ آپ کسی چیز کا انکار نہیں کرسکتے۔آپ نے انکار کیا اور وہاں ارشد صاحب کی زبان سے نکلا’’ رِکامے باتاں‘‘(فضول بات)!!
پریشان مت ہوئیے’’رِکامے باتاں‘‘ ارشد صدیقی کا تکیہ کلام ہے۔صرف اُس وقت جب اُن کے کسی آفر کو آپ نے ٹھکرادیا ہو۔یعنی وہ کہہ رہے ہوں’’ چلئے چائے لینگے‘‘ اور آپ کہہ دیں ’’نہیں صاحب!‘‘ بس پھر کیا آپ سے ارشد کہہ دینگے’’ رِکامے باتاں! ایسے کیسے نہیں لیتے چائے…‘‘آپ اس محبت پر نثار نہ ہوجائیں تو کہنا…
پھر اُس پر یہ ساری محبت ایک مہم بنتے دیر نہیںلگتی۔ارشد صاحب کے ساتھ آپ ہوں اور چائے کا بِل ،میٹھے کا بِل، بھجئے کا بِل ،سموسے کا بِل آپ ہرگز نہیں دے سکتے۔چاہے آپ وقت کے ’’اربوں پتی‘‘ ہوں ’’لکھ پتی‘‘ یا ’’کسی خاتون کے پتی ہوں‘‘کیونکہ آپ یہ گستاخی نہیں کرسکتے۔ہرگزہرگز ارشد صدیقی بِل کسی کوبھی نہیں دینے دینگے۔
پتہ نہیں ارشد صدیقی چچا نے یہ سادگی کس بازار سے خریدی ہے یا کس کالج میں پڑھی ہے کیونکہ آج کے زمانے میں ادیب ،شاعر او ر اہلِ سخن تو ایسے کم کم ہی ہیں جیسے ارشد صدیقی ہیں۔ہم نے سُنا تھا کہ علم میں کِبر تھوڑا شامل ہوجاتا ہے اور تکبر علم کا وصف ہے لیکن ارشد صدیقی خودکوہمیشہ طالب علم کی طرح دست بستہ رکھتے ہیں کبھی بے ادب نہیں ہوتے۔ہمیشہ مد مقابل کے روبرو ’’سرینڈر‘‘ ہوجاتے ہیں۔اُس کو بھرپور موقعہ دیتے ہیں کہ جتنا بولنا ہے بول لیجئے۔سادگی ایسی کہ آپ کی خدمت کرتے کرتے کبھی بیزار نہ ہونگے اور آپ ان کی ضیافت لیتے لیتے بیزار ہوجائیں گے۔
آپ اُن کے گھر جائیے۔ وہ بھول جائیں گے کہ وہ بڑے ہیں اور ہم چھوٹے۔خدمت ہم نے اُن کی کرنا چاہئے انہوں نے ہماری نہیں۔پہلے آئے گاپانی…پھر چوڑا…پھر سیب…پھر موز(بیڑمیں کیلوں کو موز کہتے ہیں)…پھر پپڑی…پھر سنترہ…پھر جانے کیا کیا…اور مٹھائی تو لازماً ساتھ ہوگی ہی۔ کیونکہ آپ کاواسطہ’’ مٹھائی کے عاشق‘‘ سے پڑا ہے۔اور مجال آپ کی جو آپ کسی بھی چیز کے لینے سے انکار کردیں۔کیونکہ پھر آپ کو سننے ملے گا’’رِکامے باتاں…اجی کھائو…شرماتے نکو جائو…‘‘ اگر آپ عذر پیش کریں کہ’’ اجی چاچا!اتنا کھائیں گے تو ہم مرجائیں گے…!‘‘ تب وہ کہیں گے ’’رِکامے باتاں‘‘ لوگ کیا کیا کھارے گٹکھا کھارے…پڑیا کھارے…شراب پی رے…زہر کھارے …تب بھی نہیں مررہے…کھانا کھانے سے کیسے مرتے…کچھ نہیں ہوتا کھائو جی!‘‘ اتنی محبت پاکر سچ میں کہیں آپ مر نہ جائیں …اس لئے اپنی حفاظت کا سامان ساتھ لے جائیں اور ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن کے جائیں کیونکہ ارشد صاحب کے گھر میں آپ کے پیٹ اور کمر کا سائیز کم از کم ۵؍انچ تو بڑھ ہی جائے گا۔کچھ دیر کے لئے آپ کومحسوس ہوگا کہ آپ کہیں شہزادے تو نہیںہیں جس کی اتنی خاطر تواضع کی جارہی ہے ۔یقینا یہ ارشد صدیقی ہی Feel کراسکتے ہیں۔آپ ارشد صدیقی کی مہمان نوازی کوعمر بھر بھول نہیں سکتے۔مجھے اُن کی مہمان نوازی دیکھ کرمیرے والد مرحوم کی یاد آجاتی ہے۔اس سے ارشد صدیقی کی سادہ لوحی کااندازہ کیا جاسکتاہے۔
اوراخیر میں چائے پیناضروری ہے تب ہی رخصتی ملے گی…ارشد صاحب چائے کے بے حد شوقین ہیں۔چائے تو بیڑکی سرزمین کا نشہ ہے۔چائے ہی مان پان ہے اور چائے پی کر ہی انسان کے مزاج کا پتا لگایا جاتا ہے کہ فلاں کی چائے کیسی تھی…چائے اچھی تو انسان اچھا …اب چائے کی اچھی یا بری ہونے کا پیمانہ الگ الگ ہوسکتا ہے۔جیسے چائے ’’پیور‘‘ دودھ کی ہو تو انسان ملاوٹی جذبات سے پاک ہے۔چائے میٹھی ہو تو انسان میں خلوص کی کوئی کمی نہیں …چائے پھیکی ہو تو ’’کنجوس‘‘یا چائے میں پانی ہو یا چائے بد مزہ ہو تو ’’اس انسان کا کچھ بھی کھرا نہیں رہتا‘‘ …لیکن یہ کوئی حتمی فتویٰ نہیں کہ چائے پر انسان کی شخصیت کا اندازہ چائے کے ذائقے سے لگایاجائے۔چائے تو بہر حال چائے ہوتی ہے۔ویسے ارشد صاحب اور ہم دونوں کاایمان ہے کہ چائے میٹھی ہو تو چائے چائے ہوتی ہے ورنہ وائے ہوتی ہے۔
ارشد سر کی ہمیشہ دوستوں سے اچھی چھنتی ہے۔اسکول کے دوست قاضی مجیب الرحمن ،مجتبیٰ احمد خان، ضمیر سر، ندیم سر، رئیس سر، رضی سر، رحیم سر ، بچپن کے دوست ماجد صدیقی، عبدالرزاق بھائی اور ادبی دوست ظفرخان ناز ،سلطان اختر، نذیر فتح پوری اور غلام ثاقب۔ارشد سر نے اپنے بالوں کی طرح یہ رشتے بھی بڑے سلیقے سے جما رکھے ہیں۔اپنے بھائی بہنوں اور ان کے بچوں سے ہمدردی کرنا وہ اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔
دونوں بچیاں تو گویا اُن کا تاج محل اور لال قلعہ ہیں۔افشاں فاطمہ، رخشاں مہ رخ دونوں میں اُن کی جان سمائی رہتی ہے۔خود کو بڑا خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ د و دو بیٹیوں کے باپ جوہیں۔بیٹیاں بھی بڑی قابل ایک بی ایس سی بی ایڈ اور دوسری ڈاکٹر (زیر تربیت) ۔کیا کہنے ارشد صدیقی صاحب! آپ تو واقعتا قسمت کے دھنی ہیں۔ہمیشہ ہر محفل میں اپنے والد غازی الدین صدیقی بڑے بھائیوں اور اہل خانہ کاذکر لازماً کرتے ہیں۔یہ وصف انہیں فرشتہ صفت بناتا ہے۔شاید آج کے دور کے فرشتے بھی ارشدصدیقی کو دیکھ کر رشک کرتے ہونگے کہ اس دور میں یہ انسان ہمارا پرچار کیسے کر لیتا ہے؟ بیگم جمیلہ آنٹی سے ’’لائف پارٹنر شپ‘‘اور ’’ہم سفری‘‘ کا ذکر خوشگوار انداز میںکرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ اُن کے بغیر یہ سفرِ زندگی اتنا خوشگوار نہ ہوتا جتنا خوبصورت یہ ہوگیا ہے۔
آج کے زمانے میں لوگ اپنوں سے ’’پردہ‘‘ اور غیروں سے’’ ڈبل پردہ‘‘ کرتے ہیں۔اس کے باوجود کبھی شاید ہی ایسا ہوا ہو کہ ارشد نے کسی کو پہچاننے سے انکار کیا ہو یا کسی کی مدد سے ہاتھ چھُڑایا ہو۔سخاوت میں ایسے بے مثال ہیں کہ چھپے ہاتھوں سے جانے کتنوں کی مدد کرتے ہیں۔کسی پریشان حال دوست، یا بھائی بھتیجے کی ضرورت ہو ۔کسی بیوہ یتیم کی کفالت ہو۔کسی غریب بچی کی شادی ہو۔ارشد سر کے یہاں سے ’’پھول کی پنکھڑی‘‘ ضرور مل جائے گی۔اُردو کے نام پر تو وہ جانے کتنی دولت لُٹاچکے ہیں اور اُردو والوں کے لئے کیا کچھ نہیں کیا،یہ سوچنے اور لکھنے بیٹھیں تو ایک ’بیاض دیگر ‘تیا رکرنی پڑے گی۔ہر کسی کا تعاون کرنا ارشد صدیقی کا نصب العین رہاہے۔لیکن وظیفہ یاب ہوجانے کے بعد اب حالات اجازت نہیں دیتے۔پھر بھی حتی المقدور وہ سعیٔ جمیل ضرور فرماتے ہیں۔
ارشد صدیقی بیڑ کے کئی آندولنوں کا حصہ رہے ہیں۔اُن کی مالی امداد کی ہے۔ظلم و زیادتی کے خلاف بولنا ارشد کے قلم کی فطرت ہے۔اُن کی زبان بھی ہر اُس شخص کی مددگاراور حمایتی بن جاتی ہے جو مجبورہو اور اس کا استحصال کیا جارہا ہو۔وہ غریب کی مدد کے لئے ضرور بات کریں گے۔کسی کو حق دلانے کی بات ہو تو ضرور اس کی بات رکھیں گے۔یہ نہیں سوچیں گے کہ اُن کے مراسم اس سے بگڑ سکتے ہیں۔منافقت کا شائبہ بھی اُن میں نظر نہیں آئے گا۔غیرت ایمانی سے اُن کی پیشانی چمکتی ہے اور اُن کا دل حمیتِ ایمان سے گرم رہتا ہے۔اس کی جھلک آپ نے ا ُن کے افسانچوںمیں ضرور دیکھی ہوگی۔وہ بیباک اور صاف گو ہیں۔اس کا خمیازہ بھی کئی بار بھگت چکے ہیں۔سچ کہنے کی جسارت کرتے کرتے اُن کے بالوں کی سیاہی بے وفائی کر گئی۔کم عمری میں ہی بال سفید کرلئے۔جیسے بالوں کی رنگت نے بھی اُن سے احتجاج کیا ہو کہ اب تو سچ بولنا چھوڑ دیجئے۔لیکن ارشد صدیقی تو شاعر ہیں۔تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔سچ کو سچ نہیں بولینگے تو دم گھٹ جائے گا۔اس لئے وہ بولینگے تو سچ بولینگے اور نڈر و بے خوف ہوکر بولینگے ورنہ کچھ نہیں بولینگے۔ایمان کی اس کیفیت میں حبِ رسول اور زیارت مدینہ کا خواب چار چاند لگا دیتے ہیں۔امید ہے کہ جلد ہی وہ مشرف بہ زیارتِ حرمین شریفین ہونگے۔دراصل وہ پہلے بچیوں کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں۔
ارشد صدیقی ایک سچے’ محب اُردو‘ ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں۔وہ اُردو پڑھتے ہیں،اُردو لکھتے ہیں اور اُرد و کے فروغ کے لئے جانی مالی تعاون پیش کرتے رہتے ہیں۔اور ساری زندگی یہی کام کیا۔اُردو پڑھائی اور اُردو کی خدمت کی۔مشاعرے کروائے، اُردو زبان و ادب میں بچوں کے مقابلے منعقد کروائے، انہیںانعامات اور اردو اساتذہ کو ایوارڈاور اعزازات پیش کئے،شامِ غزل منعقد کی اورجانے کتنوں کی کتابیں چھپوائیں ۔نئے نئے ادیبوں اور شاعروں کی حوصلہ افزائی کی۔اُن کے فن کو گلوں سے معطر کیا اُن کے احساسات کو پامال نہیں ہونے دیا اور حوصلوں کو پست نہیں ہونے دیا۔تسلی کے الفاظ سے زخمی دلوں کا درماں کیا۔کیا یہ اُردو پر جانثاری نہیں…؟ بے شک ہے …اُردو والے اُنہیں یاد رکھیں نہ رکھیں وہ اُردو کو ہر پل یاد رکھتے ہیں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بیڑ میں کوئی مشاعرہ ہو یا ادبی محفل…یا کوئی مہمان شاعر یا ادیب تشریف لاتے ہیں ۔ارشد صاحب اُنہیں ’’الماس ہوٹل‘‘یا ’’گنیش ہوٹل‘‘ میں ضرور ضیافت پر لے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی بیڑ کے خاص دوستوں کو بھی اس ضیافت میں شریک کرتے ہیں۔اُن مہمانان کو مٹھائی کا ڈبہ ضرور دینگے گلپوشی کریں گے اور اُن کے دل میں اپنی ایک دو یادوں کی شمع روشن کرکے چھوڑینگے۔
ارشد صدیقی کا خط بڑا خوبصورت ہے۔سفید کاغذ اور اُن کے ’’بال پین ‘‘سے رقم ہونے والے خوبصورت الفاظ دل میں نقش ہوجاتے ہیں۔چند منٹوں میں اہم مضامین رقم کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔لفظیات کے دھنی ہیں۔ادب کے بڑے بڑے دھنیوں سے رشتے ہموار رکھتے ہیں۔ان کی تحریریں اور تخلیقات درجنوں رسائل و کتب کی زینتیں بن چکی ہیں۔یہ شوق دورانِ طالب علمی سے ہی پال رکھا ہے۔جیسے کوئی گھر میں پرندہ پالتا ہے ارشد اپنے نفیس شوق کو پالتے ہیں۔ویسے نہ گٹکھا نہ بیڑی نہ پان اُن کے شوق میں شامل ہیں۔ نہ ہی کسی واہیات سے قربت رکھتے ہیں۔نفاست اور تہذیب کا پاس ہمیشہ ہی رکھتے ہیں۔عزم و ارادے کے پکے ہیں۔ایک بارعزم کرلیا تو متوکل علی اللہ ہوجاتے ہیں۔اور بے جھجھک خدا پر بھروسہ کرکے قدم اٹھالیتے ہیں۔
ارشد صدیقی فطرتاً خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند بھی کرتے ہیں۔شاعر کو حسن پرست ہونا ہی چاہئے۔کیونکہ اس کے بغیر اس کی زندگی کی چائے میں مٹھاس نہیں آئے گی۔یہ ارشد صدیقی کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے۔لیکن اُن کی حسن پرستی پابند شریعت ہے وہ تخیلات کے سمندر کے غواص ہیں اُتاولے پن یا بے لگام محبت یا حسن پرستی کے قائل نہیں۔ادھوری تمنائوں اور اَن کہی داستانوں سے اُن کی کہانیاں لبریز ہیں۔وہ احساسات کو زبان دینے کے قائل ہیں۔وہ جذبات کو ماردینے کے قائل نہیں۔وہ کہیں بھی کسی بھی حال میں فطری جذبات یا فطرت کے قتل کا مرتکب نہیں بننا چاہتے۔اُن کی دلیلیں لمبی چوڑی نہیں ہوتیں بلکہ چھوٹی چھوٹی سطروں میں بڑی بڑی دلیلیں دے جاتے ہیں۔اور اپنی بات ثابت کرکے سامنے والے کا چہرہ متحیر چھوڑ جاتے ہیں۔ارشد صدیقی کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ خود کے قدر دان ہیں۔وہ خود کی قدر جانتے ہیں۔اور جو خود کا قدر شناس ہوتا ہے زندگی بھی اس کی قدرشناس ہوتی ہے۔
ارشد صدیقی کا فن اُن کے احساسات کا آئینہ اور سماجی اُتھل پتھل کی ترجمانی ہے ۔اُن کی غزلیں چائے کی مزے دار چسکیوں کی طرح میٹھی اور اُن کے افسانچے مراٹھواڑے کے سماجی پس منظر میں کسی چلچلاتی دھوپ میںپرچھائی کی پناہ تلاشتے مسافر کی داستان ہیں۔میں ارشد صدیقی کے بارے میں اتناضرور کہنا چاہوں گا کہ ارشد صدیقی اخلاق و ادب کے خوبصورت پیکر ہیں احساسات و کردار کامرقع آئینہ بن کر جیتے ہیں اور ان کی صحبتوں میں رہ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی افسانے یا مثنوی کے جیتے جاگتے خوبصورت کردار کی طرح ہیں جو اپنا فرض نبھانے پر یقین رکھتا ہے اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ کون اُس کا ساتھ دیتا ہے اور کو ن مخالفت کرتا ہے۔ارشد نے اپنے فن اور کردار کے ذریعے ایک عہد کو جینے میں کامیابی حاصل کی ہے اور ایک سادہ لوح انسان کے لئے یہ کوئی معمولی بات نہیں۔
ارشد صدیقی کتابوں کے سمندر میں غوطہ زن رہنے والے انسان ہیں۔اُن کی فطرت میں مطالعہ ہے۔دین سے بے پناہ محبت ہے۔میانہ روی کے وہ قائل ہیں۔کمزوروں کی حوصلہ افزائی کرنے والے ارشد صدیقی اپنے کمزور کندھوں پر بڑی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا چکے ہیں اور آج بھی اَن سُلجھے سوالات کے جوابات تلاشنے میں مصروف ہیں۔وہ آج بھی ایسی ایسی ذمہ داریا ں نبھارہے ہیں جن کابیان احاطۂ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔صدیقی خاندان کا یہ شریف النفس ادیب اپنی سعیٔ جمیلہ کی کشتی کو منجھداروں سے بچالایا ہے اور ممکن ہے یہ کشتی منزل بہ منزل اپنا خوشگوار سفر طئے کرتی رہے گی۔