میناروں اور کلیسا کے گھنٹوں کی تاریخی ملاقات- A historic meeting of minarets and church hours

0
110

A historic meeting of minarets and church hoursپوپ فرانسس کو اسلام کے ایک بڑے بازو شیعیت کو نزدیک سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملے گا اور یہ وہی نکتہ ہے جسے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بین الادیان مکالمے کی طرف پیشرفت کے طور پر دیکھ رہا ہے

نواب علی اختر
طویل عرصہ تک شورش، جنگ اور قتل وغارتگری کی وجہ سے سرخیوں میں رہنے والا ملک عراق آج ایک بار پھر سرخیوں میں ہے مگر اس بارغیر ملکی دہشت گردی یا خونریزی کی وجہ سے نہیں بلکہ رواداری اور امن عالم کے پیغام کی وجہ سے سرخیوں میں ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ دنیا کے عظیم ترین مذہبی رہنما آیت اللہ سید علی حسینی سیستانی کا عراق دورے پر آئے کیتھولک مسیحیت کے روحانی پیشوا، کیتھولک چرچ اور ویٹیکن سٹی اسٹیٹ کے سربراہ پوپ فرانسس سے اپنے گھر میں ملاقات کرنا ہے۔ آیت اللہ سیستانی عام طور پر کیمروں اور میڈیا کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں لیکن عالمی اور عراقی میڈیا میں پاپائے روم کے اس تاریخی دورے کی زبردست کوریج کی جا رہی ہے۔
اسلام کے انتہائی معتبر اور با اثر مذہبی رہنما آیت اللہ سیستانی نجف اشرف میں امیر المومنین حضرت علیؑ کے روضے سے متصل ایک باریک گلی میں کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں ناقابل بیان حد تک سادہ زندگی گزارتے ہیں اور یہ ملاقات اسی سادگی کے عالم میں اسی چھوٹے سے مکان میں ہوئی ہے۔ پاپائے روم وہاں اپنے بلیٹ پروف سیکورٹی پروٹوکول میں پہنچے تھے۔ آیت اللہ کی سادہ زیستی اور علمی مقام و مرتبے سے اکثریت آگاہ ہے۔ امید ہے ہر دو ادیان کے پیروکاروں نے اس ملاقات کے حقیقی پیغام کو سمجھا اور اسے ادیان عالم کے قرب، مکالمے، مشترک زندگی کے اصول بنانے اور ایک دوسرے کی بہتر بلکہ حقیقی شناخت کے لئے مقدمہ قرار دیا ہوگا۔
پوپ فرانسس کی آیت اللہ سیستانی سے ملاقات اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام ایک پرامن اور تمام انسانوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے والا دین ہے۔ عالمی سیاست میں دو اہم مذہبی شخصیات کی ملاقات کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ امن کے قیام کے لئے اجتماعی کوشش ضروری ہے۔ پوپ کی آیت اللہ سیستانی سے ملاقات آسمانی ادیان کے درمیان قربت ومفاہمت کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اسلام اور مسیحیت دونوں برائیوں کے فروغ، مظلوم انسانیت کے استحصال اور ظلم و استبداد کے شدید مخالف ہیں۔ امید ہے کہ یہ ملاقات عالمی طاقتوں کو کمزوروں پر ظلم سے روکنے کے لئے مفید ثابت ہوگی۔ پوپ کا یہ دورہ مشرق وسطیٰ کے خطے اور بڑی حد تک عالمی سیاسی پس منظر میں بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے ایک بیان میں کہا کہ عراقی باشندے پوپ کے ایک سال پہلے اعلان کیے گئے اس دورے کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ وہ پاپائے روم کی طرف سے ’امن اور رواداری کے پیغام‘ کی علامت سمجھے جانے والے اس دورے سے بہت خوش ہیں۔ عراقی وزیر نے مزید کہا کہ پوپ کا یہ دورہ میناروں اور کلیسا کے گھنٹوں کی ایک تاریخی ملاقات ہے۔ پوپ فرانسس کے اس تین روزہ دورے کا نقطہ عروج ہفتہ کو ان کی عراق اور شیعہ مسلک کے ماننے والوں کے لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل شخصیت اور آیت اللہ سیستانی کے ساتھ نجی ملاقات تھی۔ سیستانی مذہبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کی ایک اہم سیاسی شخصیت کے طور پر بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔
پوپ فرانسس کا یہ دورہ عراق میں کتھولک مسیحی کمیونٹی کے روحانی پیشوا اور عراقی حکومت کی درخواست پر ہو رہا ہے۔ مسیحی رہنماء اور شیعہ مرجع تقلید کے درمیان ملاقات کی وجہ سے یہ دورہ نہایت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ آیت اللہ سیستانی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ خصوصاً داعش کے خلاف جنگ میں ایک تاریخ ساز فتویٰ دیا تھا۔ انہوں نے داعش کے مقابلے میں اہل عراق کی جان، مال اور ناموس کے دفاع کو ہر عراقی پر واجب قرار دیا تھا۔ شیعہ مکتب فکر میں معمولاً جہاد کا فتویٰ بہت ہی شاذ و نادر دیا جاتا ہے اور وہ بھی صرف دفاعی جہاد کا، ابتدائی جہاد کے فتویٰ کے حوالے سے شیعہ مراجع تقلید کا اتفاق ہے کہ یہ امام معصوم کا صوابدیدی اختیار ہے۔ شیعہ فقہاء کی طرف سے ان چند نادر فتاویٰ جہاد میں سے ایک آیت اللہ سیستانی کا داعش کے خلاف فتویٰ جہاد تھا۔
اس فتویٰ کے نتیجے میں عراق میں لوگ جوق در جوق رضاکارانہ طور پر فوج میں شامل ہوئے اور ریاست کی سرپرستی اور دیگر مسلمان ممالک کے تعاون سے ان رضاکاروں نے چند سال کی مسلسل مسلح جدوجہد کے بعد عراق کو داعش سے تقریباً آزاد کروا لیا ہے۔ داعش کے عراق پر حملے کے دوران داعش کی بربریت کے جو چند واقعات ذرائع ابلاغ کے توسط سے دنیا میں بہت عام ہوئے، ان میں سے ایک ایزدی قبیلے سے تعلق رکھنے والی مسیحی برادری کا قتل عام ہے۔ داعش کی بربریت کی وجہ سے عراقی مسیحی برادری کی بڑی تعداد عراق سے ہجرت کرکے دیگر ممالک خصوصاً ہمسایہ خلیجی ممالک میں منتقل ہوچکی ہے۔عراق میں مسیحیت کا وجود خطرے میں ہے، لہذا مسیحیت کے ایک بڑے فرقے کے سربراہ کو عراق آنے کی دعوت دی گئی، تاکہ عراقی مسیحیت کو وقتی طور پر حوصلہ دیا جائے۔
داعش کے خلاف جنگ کے دوران آیت اللہ سیستانی کے دفتر سے جاری ایک ہدایت نامے میں کی گئی تاکید دنیا کے ذرائع ابلاغ میں بہت معروف ہوئی تھی کہ جنگ کے دوران غیر مسلح دشمن کے حق میں زیادتی نہ کریں، دشمن کی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے حق میں زیادتی نہ کریں، حتیٰ مسلح دشمن کے ساتھ بھی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق برتاؤ کریں اور خصوصاً غیر مسلم برادری کی جان مال اور ناموس کو اپنی جان، مال اور ناموس سمجھیں اور اس کی حفاظت کو خود پر واجب جانیں کیونکہ اس ملک میں وہ مسلمانوں کی پناہ میں ہیں۔
پوپ فرانسس کا دورہ شیعہ علمی مرکز اور شخصیات کے لئے شیعیت کے انسان دوستانہ تعارف اور انسان دوستی پر مبنی پیغام کو عالم مسیحیت تک پہنچانے کا بہترین موقع ہے۔ شاید یہی وہ سبب ہے جس کی بدولت آیت اللہ سیستانی جو معمولاً سیاسی شخصیات سے ملاقات نہیں کرتے، پوپ فرانسس سے ملاقات کے لئے آمادہ ہوگئے اور ہفتہ کو نجف اشرف میں مسیحیت کے بڑے فرقے کیتھولک کے سربراہ اور شیعہ مرجعیت کے درخشاں ستارے کے درمیان تاریخی ملاقات انجام پا گئی۔
مسیحی پوپ چونکہ ایک خود مختار ریاست ویٹیکن کے بھی سربراہ ہیں، لہذا ان کے غیر ملکی دورہ جات کو سیاسی اہمیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس وقت مسیحی سربراہ کا دورہ عراق کئی عناوین سے عراقی حکومت اور دیگر دینی و سیاسی اداروں کے لئے ایک اہمیت بھی ہے۔ اس دورے سے عراقی حکومت کے وقار اور اس ساکھ میں بہتری ہوگی کہ وہ دین و مذہب کی قید سے بالاتر تمام ادیان اور مذاہب کے پیروکارں کے حوالے سے سنجیدہ اور بلا تفریق تمام عراقی شہریوں کے جان، مال، ناموس کی حفاظت اور فلاح و بہبود کے لئے کوشاں ہے۔ اس دورے سے خود پوپ فرانسس کو بھی عراقی تہذیب و تمدن کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملے گا، اس سے بڑھ کر عراق چونکہ شیعہ مکتب فکر کا مرکز رہا اور آج کل نجف اشرف اس مکتب فکر کا ایک بڑا مرکز ہے، لہذا پوپ فرانسس کو اسلام کے ایک بڑے بازو شیعیت کو نزدیک سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملے گا اور یہ وہی نکتہ ہے جسے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بین الادیان مکالمے کی طرف پیشرفت کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here