حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی حیات کا مختصر جائزہ- A Brief Review of the Life of Imam Musa Kazim (as)

0
381

A Brief Review of the Life of Imam Musa Kazim (as)

سید بشیر حسین رضوی
جب سے شیطان نے جناب آدم کو جنت سے نکلوایا اور اس کے بعد زمین پر قابیل نے ہابیل کو قتل کیا ہے تب سے لیکر آج تک رذائل و فضائل اور باطل و حق کے درمیان مستقل جنگ چلی آرہی ہے۔ ظلم و عدل، طغیان و مظلومیت، فساد و اصلاح، شر و خیر، گمراہی و ہدایت۔ ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے ہیں۔ یا ایک جملے میں کہا جا سکتا ہے کہ جاہلیت ہمیشہ اسلام کے مقابلے میں صف آرا رہی ہے۔ جب کبھی باطل نے ظلم کی تلوار اٹھائی ہے حق کے نمائندوں نے اپنے سینوں کو سپر بناکر خون کے آخری قطرے تک حق و حقانیت کا دفاع کیا ہے۔ کلمۂ باطل پر فتح و کامرانی حاصل ہوئی ہے۔ کیونکہ حق بلندی کی اور باطل پستی کی علامت ہے۔
’’بنی عباس‘‘ نے ’’بنی امیہ‘‘سے فسق و فجور کی وراثت پائی تھی نتیجے میں آل محمد پر ’’بنی امیہ‘‘ کے ظلم و جور کو بنی عباس نے بھی جاری رکھا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ شہداء کا خون ہمیشہ ظلم کی تلوار پر غالب رہا اور اس نے اسلام و مسلمین کی عزت و شوکت کی پاسبانی کی۔خاندان نبوت کے ساتویں چشم و چراغ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ظلم و تشدد کی آستینوں میں پوشیدہ تمام بستوں کو اپنے جد امجد علی مرتضیٰ علیہ السلام کی طرح نکال کر زمانے کے سامنے چکنا چور کردیا تھا اور دنیا کو ان نام و نہاد مسلمانوں کے حقیقی چہروں سے آشنا کرادیا تھا۔اموی حکومت اپنی عمر کے آخری لمحات گزار رہی تھی اور اس کی سانسیں گنی جا رہی تھیں کہ بُرج امامت کے ساتویں درخشاں ستارے اور عصمت و طہارت کے نویں درّے بے بہا نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے خانوادۂ امامت میں آنکھیں کھولیں، آپ کی ولادت نے دنیائے علم و معرفت کو ایک تازہ خوشخبری عطا کی اور دلوں میں امید و سعادت کا نور روشن کیا۔وہ مقام جہاں اس نو مولود نے عرصۂ حیات میں قدم رکھا وہ پیغمبر اسلامؐ کی مادر گرامی قدر جناب آمنہ کی آرام گاہ ہے جو ’’ابواء ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے سفر حج سے واپس آتے ہوئے اس مقام پر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔
آپ کی والدہ گرامی ’’جناب حمیدہ‘‘ اندلسی ہیں جو فضیلت و تقویٰ و شائستگی و لیاقت میں بے نظیر تھیں، اس نومولود مسعود کے لئے جو نام منتخب ہوا وہ ’’موسیٰ‘‘ تھا۔ کہ اس وقت تک خاندان رسالت میں اس نام سے کوئی شخص موسوم نہیں تھا۔ البتہ تاریخ انبیاء سابقین کی طویل فہرست میں یہ نام موجود ہے یہ نام حضرت موسیٰ ابن عمران کے مجاہدات، جد و جہد اور بت شکنی کی یاد دلانے والا بلکہ اس کی تجدید کرنے والا تھا۔ امام کی ولادت با سعادت اکثر مورخین کی متفقہ رائے کے مطابق ۷؍صفر ۱۲۸ھ؁ ہے۔ آپ قرآن مجید کی تلاوت ایسے حزیں ترنم و خوش الحانی کے ساتھ اور ایسی دل آویز و دل نشیں آواز میں فرماتے تھے۔ جو دنیا کے اہل نظر افراد کے لئے لطف آفریں و صفائی قلب کا باعث ہوئی تھی۔ اور جو لذت بخش بھی ہوتی تھی اور انسان ساز بھی ۔
آپ ہمیشہ اپنے اوپری لباس کے نیچے موٹے اون کا کھردرا لباس زیب تن فرماتے تھے۔ لیکن آپ کا لباس اوپری عمدہ اور قیمتی ہوتا تھا اور اپنے فرزندوں کو وصیت فرمایا کرتے تھے کہ وہ سب سے عمدہ، صاف اور قیمتی لباس پہنا کریں۔ اور فرماتے تھے کہ میرے جد بزرگوار حضرت علی ؑبن الحسینؑ ہمیشہ عمدہ و گراں قیمت لباس زیب تن فرماتے تھے۔ جس کی قیمت کبھی کبھی اس زمانے کے لحاظ سے پانچ سو درہم سے زیادہ ہوتی تھی اور گرانبہا عبا زینت دوش فرماتے تھے۔ جو معمولاً پانچ سو دینار میں خریدی جاتی تھی اس کے بعد حضرت اس آیۂ مبارکہ کی تلاوت فرماتے تھے۔
آیۂ مبارکہ کا اردو ترجمہ: کہدو اے رسولؐ! کہ کس شخص اور کس دستور نے خوشنما لباس اور لذیذ غذاؤں کو لوگوں پر حرام کیا ہے۔(راہ اسلام)
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام مصمم عزم و ارادہ کے کوہ گراں
امام کا دور حیات حوادث و مصائب کے مقابلے میں ارادۂ محکم و عزم مصمم، شجاعت و پامردی، استقامت و پائیداری اور ایثار و قربانی سے معمور تھا۔آپ کی پائیدار و مستقیم روش بغیر کسی انحراف و کجی کے خطِ مستقیم اسلام کی عکاسی کرتی تھی اور نا مساعد و آزمائش خیز حالات میں تمیز حق و باطل کی نشاندہی کرتی تھی۔ ان حوادث اور زندگی کی مشکلات و مصائب کے مقابلہ میںجو کہ خلفاء جور و ستمگر حکام کی طرف سے آپ کو پیش آتے تھے، قائم رہنا اور بربادی اختیار کئے رہنا بغیر اس کے کہ اس سے آپ کے مضبوط ارادہ و عزم مصمم میں ذرا سا بھی خلل واقع یا لبہائے مبارک شکایت سے آشنا ہوں یا اپنی جوانمردی امامت و پیشوائی کے خلاف اپنے آپ کو ذلت و رسوائی کے حوالے کریں۔ زندگی کے شرف کا بلند ترین نمونہ اور پیش بہا تمغہ ہے جو کسی بہادر و دلیر کے سینہ پر آویزاں ہوکر چمک سکتا ہے اور دنیا میں راہ حقیقت و عدالت کے رہرووں کے لئے فخر و مباہات کا سرمایہ بن سکتا ہے۔
طاعت و عبادت:مختلف قید خانوں میں آپ کی عبادت، تضرع و زاری اور آپ کے طولانی سجدوں نے دشمنوں کو حیرت و استعجاب میں ڈال دیا اور حکومت کے قسی القلب و سنگدل ملازمین و مامورین کو آپ کی روحانی عظمت کا اقرار و اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا یہاں تک کہ خود ہارون رشید طاغوت و ستمگار وقت نے تملق و چاپلوسی کی زبان کھولی اور آ پ کی مدح و ثنا کرنے لگا اور اظہار کیا آپ بنی ہاشم کے زاہد و عابد ہیں۔
امامؑ کے زہد و تقویٰ روحانی اقدار نے سندی بن شاہک کی بیوی کو اس امر پر مجبور کر دیا کہ وہ مکتب تشیع کو قبول کرے اور امامت و ولایت کے اقرار کا بیج اپنے خاندان میں بطور تحفہ لے جائے اور دلوں کی زمین میں اس کی تخم ریزی کرے۔ یہاں تک کہ اس کا نواسہ اپنے زمانے میں نہضت تشیع کے پرچم کا علمدار قرار پائے۔معصوم امام کی سیرت اور ان کا کردار زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے متصل ظلم و فساد و جہالت کے خلاف ناقابل خستگی جہاد و مبارزہ رہا ہے ۔
امام علیہ السلام اور آپکی علمی درسگاہ :۔عربی عبارت کا اردو ترجمہ :۔ آپ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عبادت گذار، پڑھے لکھے اور فقیہ تھے)۔آپ کے والد امام جعفر صادقؑ نے شہر مدینہ میں اپنی نوعیت کی پہلی جعفر یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جس میں بارہ ہزار سے زیادہ طالب علم مختلف دینی علوم و معارف کا درس حاصل کیا کر تے تھے۔ امام موسیٰ کاظمؑ اپنے زمانے میں خاندان نبوت کے چشم و چراغ اور علوم اہل بیتؑ کے وارث تھے۔ آپ اپنے والد ماجد حضرت امام جعفر صادقؑ کے شاگرد تھے جو کہ معلم شریعت اور امام العلماء تھے۔ جنکے سلسلے میں مالکی مسلک کے امام مالک بن انس نے کہا تھا، آج تک نہ تو کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ تو کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ (حضرت) جعفر صادقؑ سے فضیلت علم و عبادت اور تقویٰ میں کوئی افضل ہے۔ امام موسیٰ کاظم ؑ کو امام جعفر صادقؑ کی شہادت کے بعد امامت حاصل ہو ئی تھی ۔ آپکے والد ماجد نے اپنے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ میرا بیٹا جسے تم دیکھ رہے ہو اگر تم مصحف کے اندر کی کوئی بات پوچھو گے تو تمہیں اسکا صحیح جواب دیگا۔ امام موسیٰ کاظمؑ کی امامت کی گواہی اس عظیم شخص نے دی ہے۔ جو مسلمانوں کا امام اور علماء متکلمین کاا ستاد تھا۔ پدر بزرگوار کے بعد امامؑ نے اس عظیم علمی امانت کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا۔ اور’’ عباء امامت کو زیب تن ‘‘کر تے ہوئے شریعت کی حفاظت فرمائی۔ اس الٰہی امانت کوپوری کائنات میں نشر کیااور بزرگ علماء و راویان و محدثین کی تربیت و پرورش کی جب کہ اس عظیم ذمہ داری کو فقط ۳۵ سال میں آپ نے پایۂ تکمیل تک پہونچایا۔
آپکا زمانہ فلسفہ ،عقائد، فقہی اجتہاد اور تفسیر و روایات وغیرہ کی کجرویوں کا زمانہ تھا یہ دو ر مسلمانوں کے لیے خطرناک ترین زمانہ تھا۔ اس میں کفر و نفاق و غلو جیسے گمراہ کن نظریات کابول بالاتھا۔ اس کے ساتھ ساتھ شرعی احکامات کو سمجھنے کے لئے مختلف علوم سے استفادہ کیا جانے لگا تھا۔ جس میں سے منطق، فلسفہ، علم کلام، علم لغت وغیرہ سر فہرست ہیں۔
اسطرح سے قیاس، استحسان اور ذاتی رائے جیسے غلط رو شیں اسلام میں داخل ہو نے لگی تھیں حکام کی جانب سے معین فقہا ء و قاضی اپنے نظریات و افکار سے فیصلے دینے لگے تھے۔ جھوٹی روایات اور اخبار کا بول بالا تھا۔ اس اعتبار سے عقائد اور شریعت کی دنیا میں یہ سب سے خطرناک زمانہ تھا سیاسی اعتبار سے زمانہ کا نامساعد ہونا اور ظالم حکمرانوں کی جانب سے دیئے جانے والے شکنجے امام موسیٰ کاظمؑ کی علمی فعالیت کے راستے میں حائل نہ ہو سکے۔ آپ ہر زمانہ میں معاشرہ کی اصلاح میں مشغول رہے۔ آپ اپنے شاگردوں کے ہمراہ رہے پدر بزرگوار کی طرح کفر و نفاق کا ثبات قدم کے ساتھ مقابلہ کر تے رہے۔ جس کے باعث توحید و عقائد اسلامی کی جڑ یں مضبوط ہو تی گئیں اور اسلام لوگوں کے دلوں میں رسوخ کر تا چلا گیا یہی نہیں بلکہ فقہ اسلامی’’ حدیث و روایات اور تفسیر کے میدان میں دوسرے مکاتب کے خود ساختہ طریقوں سے بے نیاز ہو گئی۔
رجال کی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ (۳۰۰) تین سو سے زائد راویان نے امام موسیٰ کاظمؑ سے روایت نقل کی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ امامؑ کے شاگردوں میں ایسے علماء تھے جو علمی میدان میں ’’ نیّر تاباں‘‘ کی حیثیت رکھتے تھے ایسے بزرگ تھے جنہوں نے علمی ورثہ کے طور پر متعدد کتابیں اس کائنات کو عطا کی ہیں۔’’شیخ طوسی ؒ رقم طراز ہیں:۔ ’’ہمارے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام موسیٰ کاظمؑ ، اور امام رضاؑ کے چھ معتبر فقہاء گزرے ہیں، یونس بن عبدالرحمان، صفوان بن یحیٰی ،یباغ السابدی، محمد بن ابی، عبداللہ بن مغیرہ، حسن بن محمود، احمد بن محمد بن ابو نصر۔ آپکے مجاہد شاگردوں میں علم کلام و توحید کے بے مثال علماء، جو کہ متعدد کتابوں کے مؤلف ہیں۔ ہشام بن حکم، علی بن سوید، محمد بن سنان وغیرہ ہیں۔ امامؑ کے شاگردوں کے تبحر علمی کا کسی حد تک اندازہ ہو سکتا ہے۔
شاگرد:۔ (۱)علی بن سوید السوبئی:۔ امام موسیٰ کاظمؑ اور امام رضاؑ سے روایات نقل کی ہیں امام موسیٰ کاظمؑ کے زندان میں قید ہو نے کے باوجود آپنے آنحضرت سے خطوط کے ذریعہ رابطہ قائم رکھا تھا اور امامؑ کے خطوط کا جواب دینا آپ نے رتبے کی بلندی اور نفس کی بالیدگی کی دلیل ہے۔
(۲) محمد بن سنان:۔ آپ حسن کے بیٹے اور سنان کے پوتے تھے (المختصر)
(۳) محمد بن ابو عمر ازدی:۔ آپکے والد کا نام عمیر بن عیسیٰ ہے آپ عامہ وخاصہ دونوں کے نزدیک موثق و معتبر شخصیت کے حامل تھے۔ اور سب سے زیادہ عبادت گذار، باتقویٰ اور روزہ رکھنے والے تھے۔ وہ اپنے زمانے میں اوّلین درجہ رکھتے تھے۔ ’’جاحظ‘‘ نے یہ بھی کہا وہ شیعوں کی نمایاں شخصیت میں سے ایک تھے (ہارون رشید کے زمانے میں آپکو قید کیا گیا تا کہ آپ پر مقدمہ چلایا جائے۔) شیخ مفید ؒ نے اپنی کتاب ’’الاختصاص‘‘ میں نقل کیا ہے کہ آپکو۱۷ سال زندان کی سختیوں میں زندگی گزارنا پڑی۔ آپکی قید کی زندگی میں آپ کی بہن نے آپکی کتابوں کو زمین میں دفن کر دیا جو کہ چار سال تک زمین میں دبی رہیں۔ جس سے تمام کتابیں خراب ہو گئیں۔ آپکا انتقال ۲۱۷ھ؁ میں ہوا۔ (المختصر)
(۴) ہشام بن حکم:۔ ابو الحکم ہشام بن حکم بغدادی کندی بنی شیعان کے سردار تھے ٓاپ نے متعدد دفعہ اصول دین میں مخالفین سے مناظرے کئے ۔آپ نے تین اماموں۔ امام جعفر صادقؑ ، امام موسیٰ کاظمؑ اور امام علی رضاؑکی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ہے آپکا انتقال ۱۷۹ھ؁ میں کوفہ میں ہوا۔ (مضمون میں مختصر تحریر کیا گیا)
دور ابتلا ء:آپکی پوری زندگی کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصّہ امامت سے قبل کی زندگی پر مشتمل ہے۔ اور زندگی کے دوسرے حصہ میں وہ ۳۵ برس شامل ہیں جس میں آپنے امامت کے فرائض انجام دیئے دور امامت کے آغاز میں انہیں کوئی پریشانی نہ تھی لہٰذا وہ شاگردوں کی تعلیم و تربیت عبادت الٰہی اور تصنیفی کاموں میں لگے رہے اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک عظیم علمی میراث جمع کر دی لیکن بعد کے دور میں آپکو گونگوں مصائب میں مبتلا کر دیا گیا۔ قیدو بند، ناجائز دبائو اور جلا وطنی کا لامتناہی دور شروع ہو گیا۔ عباسی خلیفہ ہارون رشید انہیں ایک قید خانہ سے دوسرے قید خانہ میں منتقل کرتا رہا۔ تا کہ لوگوں کو یہ نہ معلوم ہو سکے کہ آپ کس قید خانہ میں مقید ہیں۔ وہ امام کے غیر معمولی مقبولیت سے بہت ہراساں تھا لہٰذا آخر میں اس نے امام کو زہر دے کر شہید کر دینے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن چارسال تک وہ یہ کام نہ کر سکا اس کی وجہ یہ تھی کہ امام نے اپنے اخلاق کریمہ سے قیدخانہ کے تمام ملازمین اور افسران کو بے پناہ متاثر کر رکھا تھا۔ بالآخر ہارون رشیدنے ’’سندی بن شاہک کے ذریعہ امام کو ۲۵ رجب کو زہر دیکر شہید کر وا ڈالا۔
کوڑ ھا سادات (ردولی )مقیم لکھنؤ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here