نندی گرام میں سیاسی جنگ :ممتا بنرجی بمقابلہ شوبھندو ادھیکاری – Political battle in Nandigram: Mamata Banerjee vs. Shubhandu Adhikari

0
77

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں

 


 

Political battle in Nandigram: Mamata Banerjee vs. Shubhandu Adhikari

 

عبدالعزیز
نندی گرام کلکتہ سے تقریباً 132کیلو میٹر دور ضلع مشرقی مدنا پور کے ہلدیہ سب ڈویژن کے ڈیولپمنٹ بلاک میں واقع ہے۔ 2007ء میں نندی گرام میں کسانوں کی زمینیں بچانے کیلئے جو تحریک شروع کی گئی تھی اس کے نتیجے میں پولس فائرنگ سے 14 افراد مارے گئے تھے۔ اس وقت پورے ہندستان میں نندی گرام کسانوں کی تحریک کا مرکز بن گیا تھا۔ سینگور میں بھی اسی قسم کی تحریک جاری تھی۔ ’سینگور اور نندی گرام کی زمین بچاؤ تحریک‘ ممتا بنرجی کو اقتدار تک پہنچانے میں زبردست معاون و مددگار ثابت ہوئی۔
اس وقت 2007ء سے بھی زیادہ نندی گرام کا نام چرچا میں ہے۔ یہاں سے وزیر اعلیٰ مغربی بنگال ممتا بنرجی الیکشن لڑ رہی ہیں۔ ان کے مقابلے میں شوبھندو ادھیکاری بی جے پی کی طرف سے امیدوار ہیں۔ شوبھندو ادھیکاری اور ان کا پورا خاندان پہلے کانگریس میں تھا لیکن جب نندی گرام میں کسانوں کی تحریک شروع ہوئی تو ترنمول کانگریس شامل ہوگیا۔ شوبھندو ادھیکاری نے ممتا بنرجی کا 2007ء میں بہت ساتھ دیا تھا جس کی وجہ سے ممتا بنرجی نے شوبھندو ادھیکاری کو جب اقتدار میں آئیں تو حکومت میں کئی محکموں کا وزیر ہی نہیں بنایا بلکہ ان کی وجہ سے باپ اور بھائی سب کو ترقیاتی کمیٹیوں میں کئی عہدوں پر فائز کیا۔ اسمبلی الیکشن کے اعلان سے ایک ڈیڑھ ماہ پہلے شوبھندو ادھیکاری کے بی جے پی میں شامل ہونے کی خبر گرم ہوئی تو ممتا بنرجی نے از خود اسے روکنے کی کوشش نہیں کی لیکن ترنمول کانگریس کے کئی لیڈروں کو بی جے پی میں جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ شوبھندو ادھیکاری نے کسی کی بات نہیں سنی اور بی جے پی میں شامل ہوگئے۔
یہ ترنمول کانگریس کیلئے بہت بڑا جھٹکا تھا کیونکہ شوبھندو ادھیکاری اور ان کے خاندان کا اثر نہ صرف نندی گرام میں تھا بلکہ آس پاس کی تقریباً 25، 30 سیٹوں پر اثر تھا۔ کئی بار ان کے باپ سیسر ادھیکاری لوک سبھا کے ممبر ر ہے اور ان کا چھوٹا بھائی بھی لوک سبھا کا ممبر ہے۔ پورے خاندان کے زمین بچاؤ تحریک میں شامل ہونے کی وجہ سے کافی علاقوں پر اثر اور رعب و دبدبہ تھا۔ ممتا بنرجی نے اپنی پرانی سیٹ بھوانی پور کو چھوڑ کر نندی گرام اسمبلی حلقہ سے جب الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو اس کا ذکر میڈیا میں بڑے پیمانے پر آنے لگا۔ بھوانی پور سیٹ چھوڑنے کی بہت سی وجہیں بتائی جاتی ہیں اور نندی گرام سے الیکشن لڑنے کی بھی بہت سی مصلحتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک مصلحت تو یہ ہے کہ شوبھندو ادھیکار نے جو غداری اور بغاوت کی اس کو سبق سکھانے کیلئے ممتا بنرجی کے سوا کوئی اور شخصیت مناسب یا موزوں نہیں تھی۔ دوسری بڑی مصلحت یہ تھی کہ مدنا پور اور آس پاس کے دیگر علاقوں میں جو ادھیکاری خاندان کا اثر ہے اسے زائل کرنا تھا۔ یہ دو بڑے مقاصد تھے جن کی وجہ سے ممتا بنرجی نے نندی گرام میں شوبھندو ادھیکاری کے چیلنج کو قبول کیا۔
گزشتہ روز(29مارچ)وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نندی گرام پہنچیں۔ کئی پروگراموں میں حصہ لیا۔ ریا پاڑہ میں وھیل چیئر پر بیٹھ کر 8کیلو میٹر طویل راستے کا روڈ شو کیا اور تین جلسوں سے خطاب کیا۔ وہ اپنے روڈ شو کے دوران بڑے راستوں کو چھوڑ دیہی راستوں کا استعمال کرتے ہوئے راستے کے ہر گاؤں میں پہنچنے کی کوشش کی۔ راستوں کے دونوں طرف مرد، عورت، بچے، بوڑھے ان کو دیکھنے کیلئے امڈ پڑے۔ ممتا بنرجی نے کھودی رام چوک سے روڈ شو کا آغاز کیااور ٹھاکر چوک پر ختم کیا۔ ممتا بنرجی نے عام طور پر اپنی دس سالہ کارکردگی کا ذکر کیا اور ادھیکاری خاندان پر باپ بیٹوں کی بے ایمانی اور دغابازی کا تفصیل سے ذکر کیا۔ انھوں نے بتایا کہ شوبھندو ادھیکاری کو اور ان کے خاندان کو جو کچھ ترنمول کانگریس کی طرف سے یا حکومت مغربی بنگال کی طرف ملا وہ کسی اور کو نہیں ملا۔ عہدوں سے فائدہ اٹھا کر باپ بیٹے دونوں مالا مال ہوگئے۔ اب دولت کے تحفظ اور جیل جانے سے بچنے کیلئے بی جے پی میں باپ بیٹے نے پناہ لی ہے۔ ممتا نے یہ بھی واضح کیا کہ جب زمین بچانے کی تحریک بایاں محاذ حکومت کے خلاف ہورہی تھی تو ہندو، مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ شانہ بشانہ مل جل کر قدم بڑھا رہے تھے۔ ہندو مسلمان کا کوئی تذکرہ نہیں تھا لیکن شوبھندو ادھیکاری الیکشن جیتنے کیلئے بی جے پی کے اشارے پر ہندو اور مسلمان کو ایک دوسرے سے لڑانا اور فسا د برپا کرنا چاہتے ہیں۔ ممتا بنرجی نے کہاکہ بی جے پی کی یہ فرقہ وارانہ پالیسی مغربی بنگال میں یا نندی گرام میں کامیاب ہونے نہیں دیں گی۔ ممتا بنرجی اپنے اعلان کے مطابق پانچ روز تک نندی گرام میں قیام کریں گی اور انتخابی مہم میں حصہ لیں گی۔
ممتا بنرجی کے اس قدم سے شوبھندو ادھیکاری اور بی جے پی میں ہلچل سی مچ گئی ہے۔ شوبھندو ادھیکاری کی اب جو تقریریں ہورہی ہیں اور امیت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ کی طرح ہوگئی ہیں۔ وہ نندی گرام میں پولرائزیشن کرکے ہندو مسلمان کو لڑاکر الیکشن لڑنے کا منصوبہ بناچکے ہیں۔ شروع ہی سے وہ ہندو مسلمان کی سیاست کر رہے ہیں۔ 30 بمقابلہ 70 کا ذکر بار بار کر رہے ہیں۔ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان جو اس علاقے میں 30 فیصد آباد ہیں ان کا مقابلہ 70فیصد ہندوؤں سے ہے۔ اس وقت کچھ زیادہ ہی فرقہ پرستی کی بات کر رہے ہیں۔ ممتا بنرجی کو بیگم ممتا بنرجی کہہ کر پکار رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں اگر بیگم نندی گرام میں جیت گئیں تو اسے منی پاکستان بنا دیں گی۔ اس سے پہلے انھوں نے نندی گرام کے بجائے پورے مغربی بنگال کی بات کہی تھی۔ کہا تھا کہ اگر ترنمول کانگریس کی حکومت ہوگئی تو مغربی بنگال کشمیر بن جائے گا۔
مغربی بنگال کے لوگوں کی آنکھوں میں بی جے پی اور شوبھندو ادھیکاری جیسے لوگ دھول جھونکنا چاہتے ہیں۔ زیادہ دن نہیں ہوئے دو ڈھائی مہینے پہلے وہ ترنمول کانگریس میں تھے۔ ان کا باپ اور بھائی بھی ترنمول کانگریس میں تھا۔ باپ کو بی جے پی میں شامل ہوئے پندرہ بیس روز سے زیادہ نہیں ہوا۔ اس وقت ترنمول کانگریس یا ممتا بنرجی کی حکومت نے مغربی بنگال کو نہ کشمیر بنایا اور نہ ہی نندی گرام کو منی پاکستان۔ سابق وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر عمر عبداللہ نے شوبھندو ادھیکاری کے بیان کی سخت مذمت کی اور کہاکہ ’’مغربی بنگال اگر کشمیر بن جائے تو آخر کیا خرابی ہوگی؟‘‘ غالباً ادھیکاری یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مغربی بنگال میں کشمیر جیسی صورت حال پیدا ہوجائے گی ۔ ان سے یہ پوچھنا چاہئے کہ جب وہ ترنمول کانگریس میں تھے تو مغربی بنگال کی کیا صورت حال تھی۔ اب ان کے جو نئے دوست امیت شاہ اور مودی ہیں ان کی پارٹی کی حکومتیں جہاں جہاں ہیں وہاں کیا حالت ہے۔ وہاں تو نہ عورتیں محفوظ ہیں اور نہ میڈیا کے وہ لوگ محفوظ ہیں جو حق بات بیان کرنا چاہتے ہیں۔ پولس کا ظلم بے تحاشہ ہے۔ بی جے پی کی ریاستوں میں جہاں جہاں حکمرانی ہے وہاں نظم و نسق کی حالت بھی بہت خراب ہے۔ گجرات، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستوں میں انسانی حقوق سلب کئے جارہے ہیں۔ آمرانہ اقتدار کی وجہ سے لوگوں کی پریشانی بڑھ چکی ہے۔ لوگ حکومت سے عاجز آچکے ہیں۔ ملک بھر میں جو کسان پریشان ہیں وہ بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی وجہ سے ہی پریشان ہیں اور ان کے کالے قانون کی وجہ سے ملک بھر میں آندولن چلا رہے ہیں۔ چار مہینے سے زائد ہوگیا ہے اور کسان آندولن پربیٹھے ہوئے ہیں ۔ 300 سے زائد کسان ہلاک ہوچکے ہیں۔ ادھیکاری کو یا ان کے آقاؤں کو یہ حقیقت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ لیکن کیا وہ توقع رکھتے ہیں کہ عوام بھی اسے اَندیکھی کردے گی؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی نے اپنی پوری طاقت مغربی بنگال میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے اور نندی گرام میں ممتا بنرجی کو شکست دینے کیلئے جھونک دی ہے۔ مقابلہ بھی دن بدن سخت سے سخت ہوتا جارہا ہے، لیکن مغربی بنگال میں اب بھی ممتا بنرجی کا پلڑا بھاری ہے اور نندی گرام میں بھی ممتا بنرجی کے جیتنے کا پورا امکان ہے۔ ابھی تک شوبھندو ادھیکاری یا ان کے آقا مل جل کر جو علاقے کو فرقہ پرستانہ رنگ میں رنگ دینے کی کوشش کر رہے تھے اس میں وہ کامیاب نہیں ہیں۔ نندی گرام میں مسلمانوںکی تعداد 30 سے 35 فیصد ہے یہ ایک بڑا فیکٹر ہے۔ اور دوسرا بڑا فیکٹر یہ ہے کہ عورتوں کیلئے ممتا بنرجی نے بہت کام کئے ہیں جس کی وجہ سے عورتوں کا جھکاؤ ممتا بنرجی کی طرف ہے۔ دیہی علاقوں میں بھی ممتا بنرجی کا کام قابل ذکر ہے۔ امید ہے کہ یہ سارے فیکٹرز پہلی اپریل کو ممتا بنرجی کے حق میں کام کریں گے۔
’سَنیُکت مورچہ‘ (بایاں محاذ، کانگریس اور آئی ایس ایف) کا بھی امیدوار نندی گرام میں ممتا بنرجی اور شوبھندو ادھیکاری کے مقابلے میں ہے۔ کامریڈ محمد سلیم اور پیر زادہ عباس صدیقی صاحبان بھی اس علاقے میں اپنے امیدوار کے حق میں پرزور تقریریں کر رہے ہیں۔ بی جے پی اور ترنمول دونوں پر گرج اور برس رہے ہیں، لیکن وہاں مقابلہ سہ طرفی نہیں ہے بلکہ دو طرفہ ہے۔ جس کی وجہ سے مورچہ کے لیڈروں کی تقریروں کا اثر نندی گرام کے ووٹرز شاید ہی قبول کریں۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here